ایوانِ بالا انتخابات اور پاکستان
تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ہر تین سال بعد سجنے والی منڈی میں بولی لگا کر اپنا امیدوار جتوا دیا جائے
بنیادی طور پر سینیٹ کی کسی بھی تعریف کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، چاہے وہ جدید ڈکشنری کے تحت ہو یا پھر کسی قدیم طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے، مطلب یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا اداراہ، ایوان، ہاؤس آج تک کی معلوم تاریخ میں شمار کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی شمار کیا جارہا ہے، جس میں دانا لوگ شامل ہوں۔ ایسے دانا و عقل مند لوگ جو لوئر ہاؤس، ایوان زیریں، اور پاکستان کے حوالے سے کہیں تو قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قانون سازی کو پاس کرنے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کریں کہ ایوان زیریں میں جو کارروائی ہوئی وہ ملک، قوم، عوام کےلیے کتنی بہتر ہے اور کتنی نہیں۔
ہمیں اکثر تاریخ میں Council of Elders جیسے الفاظ لکھے نظر آتے ہیں اور ہالی وڈ کی قدیم تاریخ پر بنائی گئی فلموں میں بھی سننے کو ملتے ہیں۔ گھر میں کسی بڑے کی مثال کو سامنے رکھیے۔ کوئی مباحثہ ہو یا فیصلہ کرنا ہو، بزرگ یا بڑے کی عقل و دانش سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے کہ ہر ایک کو توقع ہوتی ہے وہ اپنی عقل و دانش کے تحت نا صرف بہتر فیصلہ کریں گے بلکہ وہ فلاح کا عنصر بھی زائل نہیں ہونے دیں گے۔ اور ان بڑوں پر سب کو اعتماد بھی ہوتا ہے۔
قدیم روم میں سینیٹ کے وجود و نشانات ایسے ہیں جو آج تک کے جدید دور میں قائم ہیں۔ سینیٹ، ہاؤس آف لارڈر، کونسل آف ایلڈرز، اپر ہاؤس، ایوان بالا یا کوئی بھی نام پکار لیجیے، ذہن میں آتے ہیں ایک ہی مطلب سامنے آتا ہے اور جو مطلب ہمارے دل و دماغ میں آتا ہے وہی مطلب قدیم روم میں بھی تھا۔ جدید دور میں اگر ہم جائزہ لیں تو امریکا میں سینیٹ انتہائی مظبوط ہے۔ روس میں چیئرپرسن فیڈریشن کونسل کا عہدہ صدر و وزیراعظم کے بعد تیسرا مضبوط ترین عہدہ ہے۔ اسی طرح برطانوی ہاؤس آف لارڈز کا کردار بہت مضبوط ہے۔ موجودہ معلوم تاریخ میں اگر ہم بطور طالبعلم مشاہدہ کریں تو قدیم روم کے بعد اس وقت امریکی سینیٹ کو ہم مضبوط ترین شمار کر سکتے ہیں جہاں سینیٹ اراکین ایک مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ اور امریکی سینیٹ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اعلیٰ عہدیداروں کی اکثریت سینیٹ کو جوابدہ ہے۔
پاکستان میں حالات ہمیں مختلف نظر آتے ہیں۔ یہاں ہم اکثر دیکھتے، سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ آئینی طور پر تو سینیٹ کے پاس اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ لیکن عملاً صورتحال نمائشی سے بڑھ کر ثابت نہیں ہورہی۔ ہمیں سینیٹ میں حرکت صرف سینیٹ کے انتخابات کے دوران ہی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر سینیٹ ایوان زیریں کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو دیکھ اور پرکھ سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں حقیقی معنوں میں کیا ایسا ہورہا ہے؟ جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا دل خود اس سوال پر جواب نفی میں دے رہا ہوگا۔
پاکستان میں سینیٹ کا سوائے اس کے کہ متناسب نمائندگی تمام صوبوں کو میسر ہوئی، کوئی فائدہ بظاہر نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جان بوجھ کر سینیٹ کی اصل افادیت اجاگر نہ کی گئی، نہ ہونے دی گئی ہو۔ آئینی طور پر صدرِ پاکستان کی ملک میں عدم موجودگی یا کسی بھی حوالے سے عہدہ خالی ہونے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
ہمیں موجودہ سینیٹ انتخابات میں بھی یہ خبریں آئے روز سننے کو ملتی ہیں کہ سینیٹ میں کرپشن کی منڈی لگی ہے۔ ایک ویڈیو اس حوالے سے سامنے آئی کہ صوبائی اسمبلی کے پی کے، کے ممبران دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہیں۔ لیکن اس پورے معاملے کو ایک الگ جہت کے ساتھ دیکھیں تو ہماری سیاسی پارٹیاں سینیٹ کے ساتھ کتنی سنجیدہ ہیں؟ یہ پارٹی ٹکٹس تقسیم کرنے کے مرحلے سے ہی واضح ہوچکا ہے۔
حکمران جماعت نے فیصل واوڈا صاحب کو ٹکٹ سے نوازا، جب کہ ان پر پہلے ہی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اور دوسرا وہ کس شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دے چکے ہیں کہ ایوانِ بالا میں ان کی عقل و دانش سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ قریبی دوست یعنی دوست محمد حکومتی غیرسنجیدگی کی ایک اور مثال ہیں۔ سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ ملنے کی وجوہات میڈیا میں زیر بحث لائی جاچکی ہیں۔ مولانا صاحب کے حوالے سے خبریں زیر گردش ہیں کہ پارٹی ٹکٹس بھی فیملی میں ہی گردش کررہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی وزیراعظم کو نااہلی سے نہ بچا سکی لیکن اسے سینیٹر بناکر ایوان میں بہرحال واپسی کا سوچ رہی ہے۔ حکومت وقت پر جتنی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، اس سے زیادہ غیر ذمے داری سینیٹ میں ٹکٹس کی تقسیم کے حوالے سے بھی نظر آرہی ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی کا فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینا کارکنان کے حوصلے پست کررہا ہے تو کچھ دوستوں کو نوازنا بھی نظریاتی کارکنوں کو پسند نہیں آیا۔ بلوچستان میں ٹکٹس کی تقسیم میں غیر سنجیدگی ویسے ہی موضوع بحث ہے۔ اسلام آباد سے حکومتی جماعت کا ٹکٹ کارکن کا نصیب ہونے کے بجائے ایک ایسی شخصیت کے نصیب میں آیا جس کے تعلقات آمریت ہو یا جمہوریت، ہر حکومت سے بہترین رہتے ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے غرض نہیں کہ اس ایوان کا کردار مضبوط کیا جائے اور حقیقی معنوں میں اس کی افادیت ثابت کی جائے۔ بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ ہر تین سال بعد سجنے والی منڈی میں مرضی کی بولی لگا کر مرضی کا امیدوار جتوا دیا جائے اور پھر تمام مدت کےلیے اس کو ربڑ اسٹمپ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اور بس۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہمیں اکثر تاریخ میں Council of Elders جیسے الفاظ لکھے نظر آتے ہیں اور ہالی وڈ کی قدیم تاریخ پر بنائی گئی فلموں میں بھی سننے کو ملتے ہیں۔ گھر میں کسی بڑے کی مثال کو سامنے رکھیے۔ کوئی مباحثہ ہو یا فیصلہ کرنا ہو، بزرگ یا بڑے کی عقل و دانش سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے کہ ہر ایک کو توقع ہوتی ہے وہ اپنی عقل و دانش کے تحت نا صرف بہتر فیصلہ کریں گے بلکہ وہ فلاح کا عنصر بھی زائل نہیں ہونے دیں گے۔ اور ان بڑوں پر سب کو اعتماد بھی ہوتا ہے۔
قدیم روم میں سینیٹ کے وجود و نشانات ایسے ہیں جو آج تک کے جدید دور میں قائم ہیں۔ سینیٹ، ہاؤس آف لارڈر، کونسل آف ایلڈرز، اپر ہاؤس، ایوان بالا یا کوئی بھی نام پکار لیجیے، ذہن میں آتے ہیں ایک ہی مطلب سامنے آتا ہے اور جو مطلب ہمارے دل و دماغ میں آتا ہے وہی مطلب قدیم روم میں بھی تھا۔ جدید دور میں اگر ہم جائزہ لیں تو امریکا میں سینیٹ انتہائی مظبوط ہے۔ روس میں چیئرپرسن فیڈریشن کونسل کا عہدہ صدر و وزیراعظم کے بعد تیسرا مضبوط ترین عہدہ ہے۔ اسی طرح برطانوی ہاؤس آف لارڈز کا کردار بہت مضبوط ہے۔ موجودہ معلوم تاریخ میں اگر ہم بطور طالبعلم مشاہدہ کریں تو قدیم روم کے بعد اس وقت امریکی سینیٹ کو ہم مضبوط ترین شمار کر سکتے ہیں جہاں سینیٹ اراکین ایک مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ اور امریکی سینیٹ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اعلیٰ عہدیداروں کی اکثریت سینیٹ کو جوابدہ ہے۔
پاکستان میں حالات ہمیں مختلف نظر آتے ہیں۔ یہاں ہم اکثر دیکھتے، سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ آئینی طور پر تو سینیٹ کے پاس اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ لیکن عملاً صورتحال نمائشی سے بڑھ کر ثابت نہیں ہورہی۔ ہمیں سینیٹ میں حرکت صرف سینیٹ کے انتخابات کے دوران ہی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر سینیٹ ایوان زیریں کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو دیکھ اور پرکھ سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں حقیقی معنوں میں کیا ایسا ہورہا ہے؟ جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا دل خود اس سوال پر جواب نفی میں دے رہا ہوگا۔
پاکستان میں سینیٹ کا سوائے اس کے کہ متناسب نمائندگی تمام صوبوں کو میسر ہوئی، کوئی فائدہ بظاہر نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جان بوجھ کر سینیٹ کی اصل افادیت اجاگر نہ کی گئی، نہ ہونے دی گئی ہو۔ آئینی طور پر صدرِ پاکستان کی ملک میں عدم موجودگی یا کسی بھی حوالے سے عہدہ خالی ہونے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
ہمیں موجودہ سینیٹ انتخابات میں بھی یہ خبریں آئے روز سننے کو ملتی ہیں کہ سینیٹ میں کرپشن کی منڈی لگی ہے۔ ایک ویڈیو اس حوالے سے سامنے آئی کہ صوبائی اسمبلی کے پی کے، کے ممبران دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہیں۔ لیکن اس پورے معاملے کو ایک الگ جہت کے ساتھ دیکھیں تو ہماری سیاسی پارٹیاں سینیٹ کے ساتھ کتنی سنجیدہ ہیں؟ یہ پارٹی ٹکٹس تقسیم کرنے کے مرحلے سے ہی واضح ہوچکا ہے۔
حکمران جماعت نے فیصل واوڈا صاحب کو ٹکٹ سے نوازا، جب کہ ان پر پہلے ہی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اور دوسرا وہ کس شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دے چکے ہیں کہ ایوانِ بالا میں ان کی عقل و دانش سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ قریبی دوست یعنی دوست محمد حکومتی غیرسنجیدگی کی ایک اور مثال ہیں۔ سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ ملنے کی وجوہات میڈیا میں زیر بحث لائی جاچکی ہیں۔ مولانا صاحب کے حوالے سے خبریں زیر گردش ہیں کہ پارٹی ٹکٹس بھی فیملی میں ہی گردش کررہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی وزیراعظم کو نااہلی سے نہ بچا سکی لیکن اسے سینیٹر بناکر ایوان میں بہرحال واپسی کا سوچ رہی ہے۔ حکومت وقت پر جتنی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، اس سے زیادہ غیر ذمے داری سینیٹ میں ٹکٹس کی تقسیم کے حوالے سے بھی نظر آرہی ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی کا فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینا کارکنان کے حوصلے پست کررہا ہے تو کچھ دوستوں کو نوازنا بھی نظریاتی کارکنوں کو پسند نہیں آیا۔ بلوچستان میں ٹکٹس کی تقسیم میں غیر سنجیدگی ویسے ہی موضوع بحث ہے۔ اسلام آباد سے حکومتی جماعت کا ٹکٹ کارکن کا نصیب ہونے کے بجائے ایک ایسی شخصیت کے نصیب میں آیا جس کے تعلقات آمریت ہو یا جمہوریت، ہر حکومت سے بہترین رہتے ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے غرض نہیں کہ اس ایوان کا کردار مضبوط کیا جائے اور حقیقی معنوں میں اس کی افادیت ثابت کی جائے۔ بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ ہر تین سال بعد سجنے والی منڈی میں مرضی کی بولی لگا کر مرضی کا امیدوار جتوا دیا جائے اور پھر تمام مدت کےلیے اس کو ربڑ اسٹمپ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اور بس۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔