معاشی ترقی اور بینکاری کی اہمیت…
پاکستان کی معاشی ترقی میں بینک اور مالی ادارے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں بینک اور مالی ادارے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کی صنعتی اور زرعی ترقی میں بینکوں کا کردار قابل تعریف ہے۔ تجارت کے فروغ کے لیے بھی بینکوں نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
جب پاکستان وجود میں آیا اس وقت یہاں پر صرف زرعی خام مال پیدا ہوتا تھا جوکہ برآمد کردیا جاتا تھا۔ یہاں پر صنعتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت پورے ہندوستان میں صنعتی اداروں کی تعداد 921 تھی جن میں سے پاکستان کے حصے صرف 34 آئے۔ جو جی ڈی پی کا صرف 7 فیصد تھا۔ یہ صنعتی ادارے پاکستان میں صرف 26,000 افراد کو ملازمتیں فراہم کرتے تھے۔
تجارتی بینکوں کی حالت قدرے بہتر تھی۔ پاکستان والے علاقوں میں تجارتی بینکوں اور ان کی برانچوں کی تعداد 487 تھی جو پاکستان بنتے ہی گھٹ کر صرف 195 رہ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوؤں نے اپنے بینکوں کے ہیڈکوارٹر ہندوستان منتقل کردیے یہ ہندوؤں اور انگریزوں کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تاکہ پاکستان پیدا ہوتے ہی معاشی طور پر اپنی موت خود ہی مرجائے۔ لیکن وہ اس سلسلے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اور لوگوں کی مسلسل انتھک محنت کے نتیجے میں آج ملک میں چھوٹی اور بڑی صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اس وقت تجارتی بینکوں اور ان کی برانچوں کی تعداد آٹھ ہزار سے اوپر ہے۔ بہت سے بیرونی ممالک میں بھی پاکستانی تجارتی بینکوں کی شاخیں قائم کی گئی ہیں۔پاکستان کی معاشی ترقی میں بینکوں کا کردارحسب ذیل ہے۔
تجارتی بینک سرمایہ کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ بینک لوگوں سے مختلف کھاتوں یعنی نفع اور نقصان شراکت کے کھاتوں جاریہ کھاتوں اور معینہ مدتی کھاتوں میں رقوم وصول کرتے ہیں جب ان کے پاس ایک بہت بڑی رقم ہوجاتی ہے یعنی سرمایے کی تخلیق ہوجاتی ہے تو بینک یہ رقم مختلف منافع بخش کاموں میں لگا دیتے ہیں۔ اس سے ملکی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ بینکوں کو مدتی منافع بھی ملتا رہتا ہے۔ جس میں سے کھاتے داروں کو ان کے حصے کی رقم ادا کردی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح سے بینک ملکی معاشی ترقی میں اپنا کردار انجام دیتے ہیں۔
تجارتی بینک باکفایت ذریعہ مبادلہ بھی ہیں۔ کرنسی نوٹ تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان جاری کرتا ہے۔ جب کہ چیک، ڈرافٹ، بل آف ایکسچینج اور دوسرے دستاویزات تجارتی بینک جاری کرتے ہیں۔ ان دستاویزات کے ذریعے لاکھوں،کروڑوں اور اربوں مالیات کی کاروباری معاملتیں طے پاتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ تجارتی بینک باکفایت ذریعہ مبادلہ ہیں۔ کاروباری معاملات میں تیزی آنے کے ساتھ سات پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ملک معاشی ترقی کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔
بینکوں کا تیسرا اہم کردار پاکستان کی معاشی ترقی میں یہ ہے کہ یہ صنعت کے فروغ کے لیے مالیات مہیا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں صنعتی ترقیاتی بینک آف پاکستان کا کردار نمایاں ہے۔ یہ بینک صنعت کاروں کو طویل مدتی، درمیانہ مدتی اور قلیل مدتی قرضہ جات فراہم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ روزمرہ کی ضروریات کے لیے ورکنگ کے لیے ورکنگ کیپٹل بھی مہا کرتا ہے اور نئی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتا ہے تاکہ پیداوار میں تیزی اور آسانی سے اضافہ ہوسکے۔
صنعتی ترقیاتی بینک آف پاکستان صنعت کاروں کو نئی مشنری، فیکٹری، بلڈنگ خریدنے اور مشنری نصب کرنے کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے قرضہ جات فراہم کرتا ہے۔ ان سب کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان صنعتی ترقی کرسکے۔
پاکستان کی زرعی ترقی کے لیے زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کی خدمات نمایاں ہیں۔ یہ بینک کاشتکاروں کو طویل مدتی اور قلیل مدتی قرضہ جات فراہم کرتا ہے۔ جس کا مقصد جدید قسم کی مشنری حاصل کرنا ہے۔ جن میں ٹریکٹرز اور کرشنگ مشین وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عمدہ قسم کے بیج، کھاد اورکیڑے مار ادویات بھی فراہم کرنا ہے۔ ان سب کا بڑا مقصد زرعی پیداوار میں ترقی اور اضافہ ہے۔ شروع سے لے کر مارچ 2010 تک یہ بینک کاشتکاروں کو 648.313 ارب روپے کے قرضے فراہم کرچکا ہے۔
تجارتی بینک کاروباری اداروں کو بھی مالی سہولیات مہیا کرتے ہیں تاکہ اندرونی اور بیرونی تجارت فروغ پاسکے اس سے کاروباری معاملات میں تیزی آتی ہے۔ لوگوں کو ملازمتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے اور ملک میں معاشی ترقی ہوتی ہے۔
تجارتی بینک پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں بھی اپنی برانچیں کھولتے ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کو مالی سہولتیں حاصل ہوسکیں اور یہ علاقے بھی صنعت، زراعت اور تجارت کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے دوسرے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر آسکیں۔ تجارتی بینک ملک کے ترقی یافتہ علاقوں سے غیر ترقی یافتہ علاقوں کو رقومات منتقل کرنے میں بھی اپنا کردار انجام دیتے ہیں تاکہ فنڈز کی کمی کو پورا کیا جاسکے اور کاروبار ترقی کرسکے۔ اس میں خاص مقصد یہی ہے کہ معاشی ناہمواری کو ختم کیا جاسکے۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں اسلامی بینکاری کے نظام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ پاکستان کے لوگ مسلمان ہیں اس لیے وہ سود کو حرام سمجھتے ہیں۔ سود سے بچنے کے لیے وہ اپنی جمع شدہ رقومات نفع اور نقصان شراکت کے کھاتوں میں لگانا چاہتے ہیں۔ ان کھاتوں میں جب اچھی خاصی رقومات جمع ہوجاتی ہیں تو اسلامی بینک ان کی سرمایہ کاری منافع بخش کاموں میں کرتے ہیں۔ اس طرح سے خود بھی منافع کماتے ہیں اور کھاتے داروں کو بھی ان کے حصے کا منافع مدتی بنیاد پر ادا کرتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے مال اور خدمات کی طلب بڑھتی ہے، پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لوگوں کو ملازمتیں ملتی ہیں۔ ان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے اور پاکستان معاشی ترقی کرتا ہے۔
جہاں تک ملک میں مہنگائی، بجلی اور چینی کے بحران کا تعلق ہے۔ یہ ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی غلط اور خود غرض پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ورنہ بینکوں نے تو ان حالات میں بھی پاکستان کی معاشی ترقی میں اپنا کردار کامیابی سے انجام دیا ہے۔
جب پاکستان وجود میں آیا اس وقت یہاں پر صرف زرعی خام مال پیدا ہوتا تھا جوکہ برآمد کردیا جاتا تھا۔ یہاں پر صنعتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت پورے ہندوستان میں صنعتی اداروں کی تعداد 921 تھی جن میں سے پاکستان کے حصے صرف 34 آئے۔ جو جی ڈی پی کا صرف 7 فیصد تھا۔ یہ صنعتی ادارے پاکستان میں صرف 26,000 افراد کو ملازمتیں فراہم کرتے تھے۔
تجارتی بینکوں کی حالت قدرے بہتر تھی۔ پاکستان والے علاقوں میں تجارتی بینکوں اور ان کی برانچوں کی تعداد 487 تھی جو پاکستان بنتے ہی گھٹ کر صرف 195 رہ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوؤں نے اپنے بینکوں کے ہیڈکوارٹر ہندوستان منتقل کردیے یہ ہندوؤں اور انگریزوں کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تاکہ پاکستان پیدا ہوتے ہی معاشی طور پر اپنی موت خود ہی مرجائے۔ لیکن وہ اس سلسلے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اور لوگوں کی مسلسل انتھک محنت کے نتیجے میں آج ملک میں چھوٹی اور بڑی صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اس وقت تجارتی بینکوں اور ان کی برانچوں کی تعداد آٹھ ہزار سے اوپر ہے۔ بہت سے بیرونی ممالک میں بھی پاکستانی تجارتی بینکوں کی شاخیں قائم کی گئی ہیں۔پاکستان کی معاشی ترقی میں بینکوں کا کردارحسب ذیل ہے۔
تجارتی بینک سرمایہ کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ بینک لوگوں سے مختلف کھاتوں یعنی نفع اور نقصان شراکت کے کھاتوں جاریہ کھاتوں اور معینہ مدتی کھاتوں میں رقوم وصول کرتے ہیں جب ان کے پاس ایک بہت بڑی رقم ہوجاتی ہے یعنی سرمایے کی تخلیق ہوجاتی ہے تو بینک یہ رقم مختلف منافع بخش کاموں میں لگا دیتے ہیں۔ اس سے ملکی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ بینکوں کو مدتی منافع بھی ملتا رہتا ہے۔ جس میں سے کھاتے داروں کو ان کے حصے کی رقم ادا کردی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح سے بینک ملکی معاشی ترقی میں اپنا کردار انجام دیتے ہیں۔
تجارتی بینک باکفایت ذریعہ مبادلہ بھی ہیں۔ کرنسی نوٹ تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان جاری کرتا ہے۔ جب کہ چیک، ڈرافٹ، بل آف ایکسچینج اور دوسرے دستاویزات تجارتی بینک جاری کرتے ہیں۔ ان دستاویزات کے ذریعے لاکھوں،کروڑوں اور اربوں مالیات کی کاروباری معاملتیں طے پاتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ تجارتی بینک باکفایت ذریعہ مبادلہ ہیں۔ کاروباری معاملات میں تیزی آنے کے ساتھ سات پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ملک معاشی ترقی کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔
بینکوں کا تیسرا اہم کردار پاکستان کی معاشی ترقی میں یہ ہے کہ یہ صنعت کے فروغ کے لیے مالیات مہیا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں صنعتی ترقیاتی بینک آف پاکستان کا کردار نمایاں ہے۔ یہ بینک صنعت کاروں کو طویل مدتی، درمیانہ مدتی اور قلیل مدتی قرضہ جات فراہم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ روزمرہ کی ضروریات کے لیے ورکنگ کے لیے ورکنگ کیپٹل بھی مہا کرتا ہے اور نئی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتا ہے تاکہ پیداوار میں تیزی اور آسانی سے اضافہ ہوسکے۔
صنعتی ترقیاتی بینک آف پاکستان صنعت کاروں کو نئی مشنری، فیکٹری، بلڈنگ خریدنے اور مشنری نصب کرنے کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے قرضہ جات فراہم کرتا ہے۔ ان سب کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان صنعتی ترقی کرسکے۔
پاکستان کی زرعی ترقی کے لیے زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کی خدمات نمایاں ہیں۔ یہ بینک کاشتکاروں کو طویل مدتی اور قلیل مدتی قرضہ جات فراہم کرتا ہے۔ جس کا مقصد جدید قسم کی مشنری حاصل کرنا ہے۔ جن میں ٹریکٹرز اور کرشنگ مشین وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عمدہ قسم کے بیج، کھاد اورکیڑے مار ادویات بھی فراہم کرنا ہے۔ ان سب کا بڑا مقصد زرعی پیداوار میں ترقی اور اضافہ ہے۔ شروع سے لے کر مارچ 2010 تک یہ بینک کاشتکاروں کو 648.313 ارب روپے کے قرضے فراہم کرچکا ہے۔
تجارتی بینک کاروباری اداروں کو بھی مالی سہولیات مہیا کرتے ہیں تاکہ اندرونی اور بیرونی تجارت فروغ پاسکے اس سے کاروباری معاملات میں تیزی آتی ہے۔ لوگوں کو ملازمتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے اور ملک میں معاشی ترقی ہوتی ہے۔
تجارتی بینک پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں بھی اپنی برانچیں کھولتے ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کو مالی سہولتیں حاصل ہوسکیں اور یہ علاقے بھی صنعت، زراعت اور تجارت کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے دوسرے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر آسکیں۔ تجارتی بینک ملک کے ترقی یافتہ علاقوں سے غیر ترقی یافتہ علاقوں کو رقومات منتقل کرنے میں بھی اپنا کردار انجام دیتے ہیں تاکہ فنڈز کی کمی کو پورا کیا جاسکے اور کاروبار ترقی کرسکے۔ اس میں خاص مقصد یہی ہے کہ معاشی ناہمواری کو ختم کیا جاسکے۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں اسلامی بینکاری کے نظام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ پاکستان کے لوگ مسلمان ہیں اس لیے وہ سود کو حرام سمجھتے ہیں۔ سود سے بچنے کے لیے وہ اپنی جمع شدہ رقومات نفع اور نقصان شراکت کے کھاتوں میں لگانا چاہتے ہیں۔ ان کھاتوں میں جب اچھی خاصی رقومات جمع ہوجاتی ہیں تو اسلامی بینک ان کی سرمایہ کاری منافع بخش کاموں میں کرتے ہیں۔ اس طرح سے خود بھی منافع کماتے ہیں اور کھاتے داروں کو بھی ان کے حصے کا منافع مدتی بنیاد پر ادا کرتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے مال اور خدمات کی طلب بڑھتی ہے، پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لوگوں کو ملازمتیں ملتی ہیں۔ ان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے اور پاکستان معاشی ترقی کرتا ہے۔
جہاں تک ملک میں مہنگائی، بجلی اور چینی کے بحران کا تعلق ہے۔ یہ ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی غلط اور خود غرض پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ورنہ بینکوں نے تو ان حالات میں بھی پاکستان کی معاشی ترقی میں اپنا کردار کامیابی سے انجام دیا ہے۔