زرعی معیشت اور کسانوں کی حالت زار
عوام آج سوال کرتے ہیں کہ کیا ملکی جمہوریت عوامی احساسات اور جذبات سے لاتعلق ہوگئی ہے۔
ملک میں جمہوریت کے نام پر جو سیاسی خلفشار ہے، اس پر ہر شخص دل گرفتہ ہے، عوام کے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ بڑی الم ناک صورتحال ہے۔
اگلے روز وزیر اعظم عمران خان نے جمہوری صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں بولیاں لگی ہوئی ہیں، کیا یہ جمہوریت ہے؟ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سوال کے اثرات و مضمرات بھڑکے ہوئے شرر کی طرح ملکی منظرنامہ کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں، کوئی ووٹ کی پرچی کی بے حرمتی پر نالاں ہے، تو کسی کو کورونا کے مسائل نے الجھا کے رکھ دیا ہے، ویکسین آگئی ہے لیکن عوام میں طمانیت عنقا ہے۔
سب منتظر ہیں کہ پہلے کس کو ویکسین لگائی جاتی ہے، بیروزگاری، مہنگائی نے عوام میں تحمل اور برداشت کے محاسن ختم کر دیے ہیں، جمہوریت بے عیب نہیں، داغ ندامت لیے زندہ ہے، انسانی فکر اور تخلیقی سوچ میں سنجیدگی کا عنصر کم ہوگیا ہے، سیاست انحطاط پذیر ہے، پڑھے لکھے لوگ ٹی وی چینلز پر سیاسی گفتگو میں بلوغت، تفکر اور تدبر پر مبنی انداز بیاں کو ترستے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اچھی حکمرانی کے فقدان کے ساتھ ساتھ عوام اچھی گفتگو سے بھی محروم ہو رہے ہیں، سیاسی مکالمہ دم توڑ رہا ہے، کس کس کی شکایت کی جائے، وقت آگیا ہے کہ ارباب حکومت اس بحران اور اقدار کی شکست وریخت کے عمل کو روکیں، عوام میں جذباتی ابھار بہت فروغ پا گیا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ سماجی مسائل اور معاشی پالیسیوں کے بہتر نتائج سے مایوسی غریبوں میں فرسٹریشن کو بڑھاوا دیتی ہے، دال روٹی نہ ہو تو اخلاقیات کے سارے سنہرے اور دلنشیں لیکچر زہر لگتے ہیں، یہ بات حکمرانوں کے سوچنے کی ہے، غربت اور بیروزگاری مہنگائی سے مل کر سہ آتشہ بن جاتی ہے، پھر آدمی کسی بھی سماجی بدنظمی کا حصہ بن سکتا ہے۔
عوام آج سوال کرتے ہیں کہ کیا ملکی جمہوریت عوامی احساسات اور جذبات سے لاتعلق ہوگئی ہے، اس کی رگوں میں عوام دوستی کی رمق باقی نہیں رہی، اور خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس کی ذمے دار ارباب سیاست اور اشرافیہ ہے جنھیں عزت و دولت تو اس ملک نے دی مگر ان کی یہ دولت عوام کی خوشحالی اور آسودگی کے کام نہیں آ رہی۔ ایمرسن کا قول ہے کہ عوام کی نادانی ہمیشہ طاقت کو بے باکی کی ترغیب دلاتی ہے، چنانچہ جمہوری نظام کی یہ حالت زار جس پر قوم ملول، دل شکستہ و دل گرفتہ نظر آتی ہے کیوں اور کب سے ہے؟
کیا ملک کو جب پہلی بار جمہوریت نصیب ہوئی توکیا اس میں مضمر خرابی کے ادراک میں حکومتوں نے کوئی دانستہ دیر کر دی، یا یہ وجوہ سسٹم کی ساخت اور جاری و ساری مس مینجمنٹ کی ہیں جس میں عوام سے کمٹمنٹ کا کوئی دریچہ نہیں کھل سکا، عوام افتادگان خاک تھے اور ویسے ہی رہے، دوسری وجہ سویلین اداروں کے عدم استحکام نے مضبوط جمہوری اداروں کی کونپلوں کو برگد، پیپل اور صنوبر جیسی بلندی عطا کرنے میں کوئی مدد نہیں دی، یہی تضاد عہد حاضر میں بھی موجود ہے۔
حکومت کی توجہ شجر کاری پر ہے لیکن جس ملک کی80 فیصد معیشت زراعت پر منحصر ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ زرعی پالیسی نہیں، زرعی اصلاحات غائب، جس کی وجہ سے وقت حادثات و واقعات کی پرورش کرتا رہا، '' اور ڈان بہتا رہا،'' جمہوریت و آمریت کے دورانئے قوم کے سر سے گزرتے رہے، طرز حکمرانی کے استحکام، ارتقا اور عوام کی خدمت و آسودگی کے لیے جو نظام تشکیل پایا وہ بھی ''کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے'' سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق اسمبلیاں بنتی ٹوٹتی رہیں، چہرے بدلتے رہے، نظام نہیں بدلا، عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، پہلے بائیس خاندانوں کا ذکر اخبارات کی زینت بنتا تھا آج سینیٹرز منتخب ہونے کے لیے تھیلوں میں نوٹ بھر کر لانے کی خبریں ہیں، افسوس ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔ اصلاح کی فکر کون کرتا، سسٹم، حکمران، سب الجھن کا شکار، ارباب اختیار محو حیرت ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
لیکن جمہوریت کسی جامد سیاسی نظام کا نام نہیں عوام کی عددی طاقت جمہوریت کی اصل طاقت ہے، اسے گڈ گورننس سے قابل رشک بنایا جا سکتا ہے، تاہم اس کے لیے ضرورت ایک بڑے ''شیک اپ'' کی ہے، اس بڑی تبدیلی کی جو ملکی معیشت کے بنیادی تضادات کے خاتمہ سے شروع ہو سکتی ہے یا اس کا آغاز زرعی شعبے میں طبل جنگ بجانے سے ہوگا، حکمرانوں کو زرعی شعبے پر نظر مرکوز رکھنا ہوگی، ملک کے کسانوں، مزارعین اور ہاریوں کی زندگی میں تبدیلی نعروں سے نہیں ٹھوس عملی پروگراموں پر عملدرآمد سے لانا ہوگی۔
یہ المیہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے انحطاط اور عوام کو جمہوری ثمرات سے محرومی کے غم وآلام نے نیم جاں کر دیا ہے جب کہ سرحد کے اس پار بھارتی کسانوں کی تحریک نے مودی سرکار کی نیندیں اڑا دی ہیں، اس تحریک نے ایک تسلسل اور عہد و عزم کے ساتھ اپنے مسائل بھارتی حکومت کے سامنے رکھے ہیں، اپنی پر جوش احتجاجی تحریک اور ریلیوں سے بھارتی سرکار سخت دباؤ میں ہے، لیکن اس تحریک کا زمینی اور تاریخی و فکری پہلو قابل غور ہے۔
بھارتی اپوزیشن نے اس تحریک کو مسترد اور مطعون نہیں کیا، کسانوں کی قیادت سے بھارتی اپوزیشن قیادت نے رابطے استوار کیے، ان کے مابین بات چیت ہوئی، کئی مسائل پر اپوزیشن نے مودی حکومت کو شدید تنقید اور کسان دشمنی کا ذمے دار قرار دیا۔ بھارتی حکومت کو آئینہ دکھایا کہ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی جمہوریت اور سیکولرزم کی رسوائیوں کا سبب بن رہے ہیں تو دوسری طرف وہ کسان قیادت کی جدوجہد کو سبوتاژ کرتے ہوئے انڈیا کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں۔
کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں کسانوں کے مطالبات کی حمایت کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت سکھوں اور کسانوں کو بھارتی جمہوریت سے کھرچ کر دور پھینکنا چاہتی ہے، مودی بحران پیدا کر رہے ہیں، یہ رویہ غیر جمہوری، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کسانوں کی استقامت اور ان کے جائز حقوق کو تسلیم کرنے میں دیر نہ لگائے، واضح رہے کسانوں کی تحریک دوسرے مرحلہ میں داخلی ہوگئی ہے، کسان قیادت نے بی جے پی رہنماؤں کا سماجی مقاطعہ شروع کر دیا ہے، شادی بیاہ میں انھیں نہیں بلایا جائے گا، انھوں نے مودی کو ٹریکٹر بنگال تک لے جانے کا انتباہ بھی دیا۔
مبصرین اور غیرجانبدار ماہرین کے مطابق بھارتی کسان اپنی دھرتی سے کمٹڈ ہیں، وہ اقتصادی طاقت کے حصول و تحفظ کی یقین دہانی، کموڈٹیز اور فارم سروسز ایکٹ دو ہزار بیس و بائیس کی منظوری کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، ان کی تحریک پر امن ہے مگر بھارتی حکومت اسے سختی اور بے رحمی سے کچلنے کا ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں کسانوں کی حالیہ تحریک اس اعتبار سے ہمارے انٹیلیجنشیا کے لیے چشم کشائی کا فکری سامان رکھتی ہے، حیرت ہے ملک کی کسان قیادتوں کا صائب رد عمل لینے کی کوئی حکومتی کوشش نہیں ہوئی ہے، شاید اس خیال سے بھی ارباب اقتدار محتاط ہیں کہ معاملہ دراصل بھارت کا ہے لیکن معاملہ بھارت کا نہیں، کسان، مزارعین اور ہاری غذائی معیشت کی نگہبانی کا ہے جب کہ غذائی سیکیورٹی، قومی سالمیت اور معاشی بقا میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے سیاست دان، اور حکمراں تحفظات کے باوجود اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے، بھارتی کسانوں کی تحریک کے اثرات، اس کی انسانی اپیل ہمارے سیاسی رویے اور کسانوں کے مسائل کا تقابلی جائزہ ہماری سیاسی روش کا تعین کریگی، اس کا پیغام ہمسائیگی کے عالمی اصولوں کے ساتھ مشروط ہے، آج کسان تحریک پر ہمارا سیاسی رد عمل عالمی انسانی اصولوں کی غمازی کرے گا، ہم دنیا بھر میں عوامی سیاسی اور دیگر اجتماعات کی اصولی حمایت کے حق کا استعمال بدستور جاری رکھ سکیں گے۔
ہمارے کسان، ہاری اور مزارعے کب سے لب بستہ ہیں، ان کی کون سی حکومت نے فریاد سنی ہے، سندھ اور پنجاب کے کسان اور ہاری ہوں یا خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں، لسبیلہ، وندر، اتھل اور کراچی سے ملحقہ حب کے زرعی علاقے ہوں حکومت کو تمام زراعت پیشہ افراد کو جملہ سہولتیں بہم پہنچانی چاہئیں، گلوبلائزیشن کا دور ہے، بھارت میں کسان تحریک نے ایک فکری لکیر قائم کر دی ہے، انسانی بنیاد پر اصولی یکجہتی رد نہیں ہوسکتی۔
ہمارے کسان، ہاری اور مزارعین کے سیاسی عزائم نہیں لیکن وہ اپنی زندگی کی تبدیلی اور مقامی تقدیر کے فیصلے تو کرسکتے ہیں، کل بھی کسان بھوک اور بیماریوں سے نڈھال تھا، وہ گنے کی کاشت سے لے کر، جائز قیمت کے لیے مڈل مینوں اور ملز انتظامیہ کی چوکھٹ پر منت سماجت کرتا ہے، اس کے ارد گر لہلہاتے، سر سبز کھیت کھلیان ہیں مگر وہ خود اور اس کے بیوی بچے قرون وسطیٰ کے دور میں رہتے ہیں، یہ حقیقت تو سب دیکھ ہی رہے ہیں۔
اکیسویں صدی میں زرعی شعبہ سے وابستہ افراد کو زراعت بیسڈ معیشت کے ثمرات سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے، وہ لب بستہ نہیں رہ سکتے، ان کی آواز ارباب اختیار کو سننی چاہیے۔
اگلے روز وزیر اعظم عمران خان نے جمہوری صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں بولیاں لگی ہوئی ہیں، کیا یہ جمہوریت ہے؟ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سوال کے اثرات و مضمرات بھڑکے ہوئے شرر کی طرح ملکی منظرنامہ کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں، کوئی ووٹ کی پرچی کی بے حرمتی پر نالاں ہے، تو کسی کو کورونا کے مسائل نے الجھا کے رکھ دیا ہے، ویکسین آگئی ہے لیکن عوام میں طمانیت عنقا ہے۔
سب منتظر ہیں کہ پہلے کس کو ویکسین لگائی جاتی ہے، بیروزگاری، مہنگائی نے عوام میں تحمل اور برداشت کے محاسن ختم کر دیے ہیں، جمہوریت بے عیب نہیں، داغ ندامت لیے زندہ ہے، انسانی فکر اور تخلیقی سوچ میں سنجیدگی کا عنصر کم ہوگیا ہے، سیاست انحطاط پذیر ہے، پڑھے لکھے لوگ ٹی وی چینلز پر سیاسی گفتگو میں بلوغت، تفکر اور تدبر پر مبنی انداز بیاں کو ترستے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اچھی حکمرانی کے فقدان کے ساتھ ساتھ عوام اچھی گفتگو سے بھی محروم ہو رہے ہیں، سیاسی مکالمہ دم توڑ رہا ہے، کس کس کی شکایت کی جائے، وقت آگیا ہے کہ ارباب حکومت اس بحران اور اقدار کی شکست وریخت کے عمل کو روکیں، عوام میں جذباتی ابھار بہت فروغ پا گیا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ سماجی مسائل اور معاشی پالیسیوں کے بہتر نتائج سے مایوسی غریبوں میں فرسٹریشن کو بڑھاوا دیتی ہے، دال روٹی نہ ہو تو اخلاقیات کے سارے سنہرے اور دلنشیں لیکچر زہر لگتے ہیں، یہ بات حکمرانوں کے سوچنے کی ہے، غربت اور بیروزگاری مہنگائی سے مل کر سہ آتشہ بن جاتی ہے، پھر آدمی کسی بھی سماجی بدنظمی کا حصہ بن سکتا ہے۔
عوام آج سوال کرتے ہیں کہ کیا ملکی جمہوریت عوامی احساسات اور جذبات سے لاتعلق ہوگئی ہے، اس کی رگوں میں عوام دوستی کی رمق باقی نہیں رہی، اور خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس کی ذمے دار ارباب سیاست اور اشرافیہ ہے جنھیں عزت و دولت تو اس ملک نے دی مگر ان کی یہ دولت عوام کی خوشحالی اور آسودگی کے کام نہیں آ رہی۔ ایمرسن کا قول ہے کہ عوام کی نادانی ہمیشہ طاقت کو بے باکی کی ترغیب دلاتی ہے، چنانچہ جمہوری نظام کی یہ حالت زار جس پر قوم ملول، دل شکستہ و دل گرفتہ نظر آتی ہے کیوں اور کب سے ہے؟
کیا ملک کو جب پہلی بار جمہوریت نصیب ہوئی توکیا اس میں مضمر خرابی کے ادراک میں حکومتوں نے کوئی دانستہ دیر کر دی، یا یہ وجوہ سسٹم کی ساخت اور جاری و ساری مس مینجمنٹ کی ہیں جس میں عوام سے کمٹمنٹ کا کوئی دریچہ نہیں کھل سکا، عوام افتادگان خاک تھے اور ویسے ہی رہے، دوسری وجہ سویلین اداروں کے عدم استحکام نے مضبوط جمہوری اداروں کی کونپلوں کو برگد، پیپل اور صنوبر جیسی بلندی عطا کرنے میں کوئی مدد نہیں دی، یہی تضاد عہد حاضر میں بھی موجود ہے۔
حکومت کی توجہ شجر کاری پر ہے لیکن جس ملک کی80 فیصد معیشت زراعت پر منحصر ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ زرعی پالیسی نہیں، زرعی اصلاحات غائب، جس کی وجہ سے وقت حادثات و واقعات کی پرورش کرتا رہا، '' اور ڈان بہتا رہا،'' جمہوریت و آمریت کے دورانئے قوم کے سر سے گزرتے رہے، طرز حکمرانی کے استحکام، ارتقا اور عوام کی خدمت و آسودگی کے لیے جو نظام تشکیل پایا وہ بھی ''کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے'' سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق اسمبلیاں بنتی ٹوٹتی رہیں، چہرے بدلتے رہے، نظام نہیں بدلا، عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، پہلے بائیس خاندانوں کا ذکر اخبارات کی زینت بنتا تھا آج سینیٹرز منتخب ہونے کے لیے تھیلوں میں نوٹ بھر کر لانے کی خبریں ہیں، افسوس ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔ اصلاح کی فکر کون کرتا، سسٹم، حکمران، سب الجھن کا شکار، ارباب اختیار محو حیرت ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
لیکن جمہوریت کسی جامد سیاسی نظام کا نام نہیں عوام کی عددی طاقت جمہوریت کی اصل طاقت ہے، اسے گڈ گورننس سے قابل رشک بنایا جا سکتا ہے، تاہم اس کے لیے ضرورت ایک بڑے ''شیک اپ'' کی ہے، اس بڑی تبدیلی کی جو ملکی معیشت کے بنیادی تضادات کے خاتمہ سے شروع ہو سکتی ہے یا اس کا آغاز زرعی شعبے میں طبل جنگ بجانے سے ہوگا، حکمرانوں کو زرعی شعبے پر نظر مرکوز رکھنا ہوگی، ملک کے کسانوں، مزارعین اور ہاریوں کی زندگی میں تبدیلی نعروں سے نہیں ٹھوس عملی پروگراموں پر عملدرآمد سے لانا ہوگی۔
یہ المیہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے انحطاط اور عوام کو جمہوری ثمرات سے محرومی کے غم وآلام نے نیم جاں کر دیا ہے جب کہ سرحد کے اس پار بھارتی کسانوں کی تحریک نے مودی سرکار کی نیندیں اڑا دی ہیں، اس تحریک نے ایک تسلسل اور عہد و عزم کے ساتھ اپنے مسائل بھارتی حکومت کے سامنے رکھے ہیں، اپنی پر جوش احتجاجی تحریک اور ریلیوں سے بھارتی سرکار سخت دباؤ میں ہے، لیکن اس تحریک کا زمینی اور تاریخی و فکری پہلو قابل غور ہے۔
بھارتی اپوزیشن نے اس تحریک کو مسترد اور مطعون نہیں کیا، کسانوں کی قیادت سے بھارتی اپوزیشن قیادت نے رابطے استوار کیے، ان کے مابین بات چیت ہوئی، کئی مسائل پر اپوزیشن نے مودی حکومت کو شدید تنقید اور کسان دشمنی کا ذمے دار قرار دیا۔ بھارتی حکومت کو آئینہ دکھایا کہ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی جمہوریت اور سیکولرزم کی رسوائیوں کا سبب بن رہے ہیں تو دوسری طرف وہ کسان قیادت کی جدوجہد کو سبوتاژ کرتے ہوئے انڈیا کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں۔
کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں کسانوں کے مطالبات کی حمایت کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت سکھوں اور کسانوں کو بھارتی جمہوریت سے کھرچ کر دور پھینکنا چاہتی ہے، مودی بحران پیدا کر رہے ہیں، یہ رویہ غیر جمہوری، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کسانوں کی استقامت اور ان کے جائز حقوق کو تسلیم کرنے میں دیر نہ لگائے، واضح رہے کسانوں کی تحریک دوسرے مرحلہ میں داخلی ہوگئی ہے، کسان قیادت نے بی جے پی رہنماؤں کا سماجی مقاطعہ شروع کر دیا ہے، شادی بیاہ میں انھیں نہیں بلایا جائے گا، انھوں نے مودی کو ٹریکٹر بنگال تک لے جانے کا انتباہ بھی دیا۔
مبصرین اور غیرجانبدار ماہرین کے مطابق بھارتی کسان اپنی دھرتی سے کمٹڈ ہیں، وہ اقتصادی طاقت کے حصول و تحفظ کی یقین دہانی، کموڈٹیز اور فارم سروسز ایکٹ دو ہزار بیس و بائیس کی منظوری کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، ان کی تحریک پر امن ہے مگر بھارتی حکومت اسے سختی اور بے رحمی سے کچلنے کا ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں کسانوں کی حالیہ تحریک اس اعتبار سے ہمارے انٹیلیجنشیا کے لیے چشم کشائی کا فکری سامان رکھتی ہے، حیرت ہے ملک کی کسان قیادتوں کا صائب رد عمل لینے کی کوئی حکومتی کوشش نہیں ہوئی ہے، شاید اس خیال سے بھی ارباب اقتدار محتاط ہیں کہ معاملہ دراصل بھارت کا ہے لیکن معاملہ بھارت کا نہیں، کسان، مزارعین اور ہاری غذائی معیشت کی نگہبانی کا ہے جب کہ غذائی سیکیورٹی، قومی سالمیت اور معاشی بقا میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے سیاست دان، اور حکمراں تحفظات کے باوجود اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے، بھارتی کسانوں کی تحریک کے اثرات، اس کی انسانی اپیل ہمارے سیاسی رویے اور کسانوں کے مسائل کا تقابلی جائزہ ہماری سیاسی روش کا تعین کریگی، اس کا پیغام ہمسائیگی کے عالمی اصولوں کے ساتھ مشروط ہے، آج کسان تحریک پر ہمارا سیاسی رد عمل عالمی انسانی اصولوں کی غمازی کرے گا، ہم دنیا بھر میں عوامی سیاسی اور دیگر اجتماعات کی اصولی حمایت کے حق کا استعمال بدستور جاری رکھ سکیں گے۔
ہمارے کسان، ہاری اور مزارعے کب سے لب بستہ ہیں، ان کی کون سی حکومت نے فریاد سنی ہے، سندھ اور پنجاب کے کسان اور ہاری ہوں یا خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں، لسبیلہ، وندر، اتھل اور کراچی سے ملحقہ حب کے زرعی علاقے ہوں حکومت کو تمام زراعت پیشہ افراد کو جملہ سہولتیں بہم پہنچانی چاہئیں، گلوبلائزیشن کا دور ہے، بھارت میں کسان تحریک نے ایک فکری لکیر قائم کر دی ہے، انسانی بنیاد پر اصولی یکجہتی رد نہیں ہوسکتی۔
ہمارے کسان، ہاری اور مزارعین کے سیاسی عزائم نہیں لیکن وہ اپنی زندگی کی تبدیلی اور مقامی تقدیر کے فیصلے تو کرسکتے ہیں، کل بھی کسان بھوک اور بیماریوں سے نڈھال تھا، وہ گنے کی کاشت سے لے کر، جائز قیمت کے لیے مڈل مینوں اور ملز انتظامیہ کی چوکھٹ پر منت سماجت کرتا ہے، اس کے ارد گر لہلہاتے، سر سبز کھیت کھلیان ہیں مگر وہ خود اور اس کے بیوی بچے قرون وسطیٰ کے دور میں رہتے ہیں، یہ حقیقت تو سب دیکھ ہی رہے ہیں۔
اکیسویں صدی میں زرعی شعبہ سے وابستہ افراد کو زراعت بیسڈ معیشت کے ثمرات سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے، وہ لب بستہ نہیں رہ سکتے، ان کی آواز ارباب اختیار کو سننی چاہیے۔