تجاوزات کے خلاف آپریشن بیشتر پنکچر والوں نے کام کو خیرباد کہہ دیا
کنڈے کی بجلی نہ ملنے اورتجاوزات کے خلاف آپریشن سے فٹ پاتھوں پرپنکچرلگانے والوںکی تعدادکم ہوگئی
کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن اورکنڈے والی بجلی کے حصول میں دشواری کے سبب بیشتر پنکچروالوں نے اپنے کام کوخیرآباد کہہ دیا ہے اورٹرانسپورٹ اور گاڑیوںکی مرمت کے شعبے سے منسلک ہو گئے ہیں۔
رات کے اوقات میں بے رونق عوامی مقامات پر پنکچر والے اپنے کاروبار کو جلدبندکرکے گھروں کی طرف لوٹ جاتے ہیں جس کے سبب رات کے اوقات میں کئی علاقوں میں جن افراد کی گاڑیوں کے ٹائر کسی وجہ سے پنکچر ہو جاتے ہیں ، ان افراد کو گاڑیوں کے پنکچر لگوانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پنکچر لگانے کے کام سے وابستہ کاریگر محمد عمران نے بتایا کہ کراچی میں شاہراہوں کی صورت حال خراب ہے اور کئی شاہراہیں اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اس لیے شہر میں روزانہ لاتعداد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ٹائر پنکچر ہو جاتے ہیں۔
اس صورت حال میں شہریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی گاڑیوں کے ٹائر کا پنکچر لگائیں محمدعمران نے بتایا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی اورکنڈے کی بجلی نہ ملنے کے سبب اب فٹ پاتھوں پر پنکچر لگانے والوں کی تعداد میں کمی ہو گئی ہے، زیادہ تر پنکچر لگانے والے پٹرول پمپس ، سی این جی اسٹیشنز کے ساتھ منسلک ہیں، بیشتر پنکچر والوں نے اپنی دکانیںکھول لی ہیںجبکہ فٹ پاتھوں پر جہاں بجلی کا حصول ممکن ہو وہاں چھوٹے کیبن نما پنکچر کی دکانیں قائم ہیں۔
کورونا کی وباکے سبب پنکچر والوں کا کام شدید متاثر ہوا تھا اور بیشتر پنکچر والوں نے یہ کام چھوڑ کر دیگرپیشوں سے وابستہ ہو گئے، کراچی میں اب پنکچر لگانے کا کام مقامی لوگ زیادہ کر رہے ہیں اور بیشتر پنکچر لگانے کے کاریگر ملک کے دیگر شہروں سے آئے تھے جو اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے گئے ہیں اور وہ وہیں یہ کام اپنے مقامی علاقوں میں کر رہے ہیں،زیادہ تر پنکچر لگانے والے کاریگر یہ پیشہ چھوڑ کر رکشہ چلانے یا گاڑیوں کی مرمت کا کام کر رہے ہیں۔
پنکچرلگانے کاکام لاکھ روپے سے شروع کیاجاسکتا ہے
پنکچر لگانے کے کام سے وابستہ کاریگر محمد عمران نے بتایا کہ پنکچر لگانے کا کامایک لاکھ روپے سے شروع کیا جا سکتا ہے،ٹائروں کے پنکچر لگانے کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور موٹر سائیکل سمیت ہر گاڑی کے ٹائر میں پنکچر لگانے کا طریقہ کار بھی الگ ہوتا ہے ، شہر میں زیادہ تر ٹائر پنکچر کی دکانوں پر پرانے طریقہ کار کے مطابق پنکچر لگائے جاتے ہیں کیل ، پتھر ،کانچ ، یا کوئی بھی نوکیلی چیز پنکچر ہونے کی وجہ سے بنتا ہے ، سردیوں کی نسبت گرمیوں میں ٹائر پنکچرہونے میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
گرمیوں میں سڑکوں پر گرمائش کے باعث ٹائر زیادہ رگڑ کھاتے ہیں ، اس کی وجہ سے ان میں موجود ٹیوب پھول جاتی ہیں جو پنکچر ہونے کی وجہ بھی بنتی ہیں،شہریوں کو چاہیے کہ وہ گرمی کے موسم میں اپنی گاڑیوں کے ٹائروں میں نئی ٹیوب ڈلوائیں یا ٹائروں کو گرمیوں کے موسم میں تبدیل کریں ۔
موٹرسائیکل سوار ایمرجنسی ٹیوب لازمی ساتھ رکھیں،کاریگرظفر
کاریگر محمد ظفر نے بتایا کہ پنکچر لگانے کے نرخ مختلف علاقوںمیں الگ الگ ہیں ، موٹر سائیکل کا ایک پنکچر کم از کم 60 سے 70روپے ، بڑی گاڑی کا پنکچر100 سے 150روپے اور ہیوی گاڑیوں کا پنکچر کم از کم 150 سے 200 روپے میں لگایا جاتا ہے ، موٹر سائیکل سوار افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی گاڑی میں ایمرجنسی ٹیوب ساتھ رکھیں جبکہ بڑی گاڑیوں والے جیک ، اوزار اور چھوٹے ویکیوم پمپ بھی ساتھ رکھیں تاکہ ہنگامی صورت میں یہ اشیاکام آسکیں ۔
رات کے اوقات میں بے رونق عوامی مقامات پر پنکچر والے اپنے کاروبار کو جلدبندکرکے گھروں کی طرف لوٹ جاتے ہیں جس کے سبب رات کے اوقات میں کئی علاقوں میں جن افراد کی گاڑیوں کے ٹائر کسی وجہ سے پنکچر ہو جاتے ہیں ، ان افراد کو گاڑیوں کے پنکچر لگوانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پنکچر لگانے کے کام سے وابستہ کاریگر محمد عمران نے بتایا کہ کراچی میں شاہراہوں کی صورت حال خراب ہے اور کئی شاہراہیں اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اس لیے شہر میں روزانہ لاتعداد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ٹائر پنکچر ہو جاتے ہیں۔
اس صورت حال میں شہریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی گاڑیوں کے ٹائر کا پنکچر لگائیں محمدعمران نے بتایا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی اورکنڈے کی بجلی نہ ملنے کے سبب اب فٹ پاتھوں پر پنکچر لگانے والوں کی تعداد میں کمی ہو گئی ہے، زیادہ تر پنکچر لگانے والے پٹرول پمپس ، سی این جی اسٹیشنز کے ساتھ منسلک ہیں، بیشتر پنکچر والوں نے اپنی دکانیںکھول لی ہیںجبکہ فٹ پاتھوں پر جہاں بجلی کا حصول ممکن ہو وہاں چھوٹے کیبن نما پنکچر کی دکانیں قائم ہیں۔
کورونا کی وباکے سبب پنکچر والوں کا کام شدید متاثر ہوا تھا اور بیشتر پنکچر والوں نے یہ کام چھوڑ کر دیگرپیشوں سے وابستہ ہو گئے، کراچی میں اب پنکچر لگانے کا کام مقامی لوگ زیادہ کر رہے ہیں اور بیشتر پنکچر لگانے کے کاریگر ملک کے دیگر شہروں سے آئے تھے جو اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے گئے ہیں اور وہ وہیں یہ کام اپنے مقامی علاقوں میں کر رہے ہیں،زیادہ تر پنکچر لگانے والے کاریگر یہ پیشہ چھوڑ کر رکشہ چلانے یا گاڑیوں کی مرمت کا کام کر رہے ہیں۔
پنکچرلگانے کاکام لاکھ روپے سے شروع کیاجاسکتا ہے
پنکچر لگانے کے کام سے وابستہ کاریگر محمد عمران نے بتایا کہ پنکچر لگانے کا کامایک لاکھ روپے سے شروع کیا جا سکتا ہے،ٹائروں کے پنکچر لگانے کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور موٹر سائیکل سمیت ہر گاڑی کے ٹائر میں پنکچر لگانے کا طریقہ کار بھی الگ ہوتا ہے ، شہر میں زیادہ تر ٹائر پنکچر کی دکانوں پر پرانے طریقہ کار کے مطابق پنکچر لگائے جاتے ہیں کیل ، پتھر ،کانچ ، یا کوئی بھی نوکیلی چیز پنکچر ہونے کی وجہ سے بنتا ہے ، سردیوں کی نسبت گرمیوں میں ٹائر پنکچرہونے میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
گرمیوں میں سڑکوں پر گرمائش کے باعث ٹائر زیادہ رگڑ کھاتے ہیں ، اس کی وجہ سے ان میں موجود ٹیوب پھول جاتی ہیں جو پنکچر ہونے کی وجہ بھی بنتی ہیں،شہریوں کو چاہیے کہ وہ گرمی کے موسم میں اپنی گاڑیوں کے ٹائروں میں نئی ٹیوب ڈلوائیں یا ٹائروں کو گرمیوں کے موسم میں تبدیل کریں ۔
موٹرسائیکل سوار ایمرجنسی ٹیوب لازمی ساتھ رکھیں،کاریگرظفر
کاریگر محمد ظفر نے بتایا کہ پنکچر لگانے کے نرخ مختلف علاقوںمیں الگ الگ ہیں ، موٹر سائیکل کا ایک پنکچر کم از کم 60 سے 70روپے ، بڑی گاڑی کا پنکچر100 سے 150روپے اور ہیوی گاڑیوں کا پنکچر کم از کم 150 سے 200 روپے میں لگایا جاتا ہے ، موٹر سائیکل سوار افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی گاڑی میں ایمرجنسی ٹیوب ساتھ رکھیں جبکہ بڑی گاڑیوں والے جیک ، اوزار اور چھوٹے ویکیوم پمپ بھی ساتھ رکھیں تاکہ ہنگامی صورت میں یہ اشیاکام آسکیں ۔