خیرات اور حق تلفی

زکوٰۃ اور خیرات اگر صحیح ہاتھوں میں جارہی ہے، تو روز فاقوں سے اَن گنت لوگ کیوں مرجاتے ہیں؟

مخیر حضرات کی خیرات حقداروں تک نہیں پہنچ پاتی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

MUMBAI:
مشہور شاعر اور ادیب ابن انشا نے ایک مرتبہ یہ کہا کہ سنا ہے ایک مولانا منبر پر کھڑے خیرات کے فضائل پر بحث کررہے تھے کہ پچھلی صف میں ایک سیٹھ اتنا متاثر ہوا کہ مارے رقت کے زار و قطار رونے لگا۔ مولانا نے اس سے پوچھا ''اے نیک مرد وہ کیا بات تھی جو تیرے جی کو لگی؟''

وہ سیٹھ آنسو پونچھ کر بولا ''مجھے آج تک معلوم نہ تھا کہ خیرات اتنی اچھی چیز ہے۔ اب میں کل سے خود خیرات لینا شروع کردوں گا۔''

یعنی بات یہ ہے کہ ہر کوئی محنت مزدوری سے جان چھڑانا اور سہل پسندی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو۔ اگرچہ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ یہ سب ایسی معاشی سہولیات ہیں اور ان کے حق دار ایسے مستحقین ہیں، جن میں بیوہ خواتین، مساکین، فقرا، بزرگ اور بیمار محتاج افراد سب شامل ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ بہت سے مخیر حضرات خیرات تو کرتے ہیں لیکن خیرات کی تقسیم کے ادارے ان رقوم کو حق داروں تک نہیں پہنچاتے۔

ہمیں سڑکوں، فٹ پاتھوں، بازاروں، ہوٹلوں، غرض ہر جگہ پر فقیر ہی فقیر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پیشہ ور فقیر کبھی نہیں مانتے کہ وہ روپے پیسے، آٹا روٹی اور دیگر اشیا سے محروم نہیں۔ بلکہ روز ایک نئے انداز میں ہم سب کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں اور روز ہی ان کے پاس ایک نئی کہانی ہوتی ہے۔

پاکستان میں ہر سال ملک کی 98 فیصد آبادی صدقات، خیرات، زکوٰۃ اور عطیات کی صورت میں 240 ارب روپے سے زیادہ کی رقم دیتی ہے۔ ملک میں 1998 سے لے کر 2014 تک سالانہ خیرات کی جانے والی رقوم میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

سوال صرف اتنا ہے کہ اگر زکوٰۃ اور خیرات صحیح ہاتھوں میں جارہی ہے، تو کتنے ہی لوگ اب تک روز فاقوں سے کیوں مرتے ہیں؟ کیوں ان کے گھر میں راشن نہیں ہوتا؟ کیوں ان کا کوئی علاج نہیں کیا جاتا؟ جبکہ مذہب اسلام میں یہ بات صاف طور پر بیان کی گئی ہے کہ صحیح اور ضرورت مند افراد کو تلاش کیا جائے۔ ایسے غیرت مند افراد جو کبھی کسی سے کچھ تقاضا نہیں کرتے، بلکہ ان کی غیرت ہی گوارا نہیں کرتی کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔

ہمارے فلاحی ادارے جن میں بیت المال بھی شامل ہے، اپنے تئیں غربا کی مدد کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہاں میرا مقصد اس ادارے کی خدمات پر روشنی ڈالنا نہیں بلکہ یہ بتانا ضروری ہے کہ یہاں پر بھی فراڈ ہوتے ہیں اور عوام کے پیسے کو بے دریغ خرچ کیا جاتا ہے۔


میں نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو بھی دیکھا کہ ایک ہی بیوہ خاتون کےلیے مختلف نامہ نگاروں نے جاکر امداد لی اور اسی بیوہ کےلیے کسی کو 12 ہزار ملے، کسی کو 8 ہزار، کسی کو 20 ہزار۔ کیا یہ کسی اور ضرورت مند کے ساتھ ناانصافی نہیں اور بیت المال جیسے ادارے نے اس بات کی تحقیقات کیوں نہیں کیں؟

جہاں تک بات رہی زکوٰۃ کٹوتی کی، تو زکوٰۃ فرض ضرور ہے لیکن جبری زکوٰۃ کا کوئی تصور نہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو لوگ یکم رمضان سے پہلے اپنے بینک اکاؤنٹ کیوں خالی کردیتے ہیں یا پھر فقہ جعفریہ سے منسلک ہونے کا بیان حلفی کیوں جمع کروایا جاتا ہے، حالانکہ وہ اکاؤنٹ ہولڈرز فقہ حنفی یا دیگر عقائد کے ماننے والے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ فقہ جعفریہ میں جبری زکوٰۃ کا کوئی تصور نہیں اور زکوٰۃ سب سے پہلے اپنے قریبی اعزا و اقارب میں ہی تقسیم کی جاتی ہے۔

دوسری طرف صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ سے تجارت کی ایک صورت ہے اور اللہ تعالیٰ کسی پر بھی اپنا احسان نہیں رہنے دیتا۔ بلکہ قرآن پاک میں بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ ہے؟ اور یہ کہ امیروں کے مال میں غریبوں کےلیے بھلائی کا سامان رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سے متعدد آیات و احادیث میں بھی ہے کہ صدقہ ستر بلاؤں کو ٹال دیتا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہ رہی ہے۔ فلاحی ادارے سارے کا سارا مال اپنے ہی رشتے داروں میں بانٹ رہے ہیں۔ امیر میں زیادہ سے زیادہ کی ہوس بڑھ رہی ہے اور غربا کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امیر کے پاس اتنا روپیہ ہے کہ اسے معلوم نہیں کہ وہ یہ کہاں خرچ کرے اور غریب کے پاس پیسہ ہی نہیں، جس سے وہ یہ سوچ بھی سکے کہ وہ کہاں سے روٹی کا انتظام کرے گا؟

اسی طرح مزاروں کی تعمیر ومرمت کےلیے اوقاف کو دیا جانے والا پیسہ کہاں لگتا ہے، یہ سبھی جانتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے وہاں بزرگان دین کی خدمت نہیں کرنی، وہاں لنگر پانی کا اہتمام نہیں کرنا، ہاں البتہ بھنگی، چرسی، اور زنا کار عناصر کی ضرور حوصلہ افزائی کرنی ہے۔

المختصر زکوٰۃ اور خیرات کے نظام کو بہتر بنانے کےلیے ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے اور اداروں کی مضبوطی افراد کے دم سے ہے۔ ایسے افراد کی تقرری جو خوف خدا رکھتے ہوں اور جنہیں ضرورت مند افراد کے بارے میں چھان بین کرنے کا کام بہتر انداز سے سرانجام دینا آتا ہو۔ ان افراد کے پاس باقاعدہ ایسی اتھارٹی ہو جس کے ذریعے وہ مستحقین تک امدادی رقوم پہنچا سکیں۔ ملک میں صرف ایک فرد اور ایک ادارہ ہی درست ہوجائے تو پورا نظام آہستہ آہستہ بہتری کی جانب گامزن ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story