بہار کی آمد اور خزاں میں ٹوٹے پتوں کا دکھ

کورونا کے قہر نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا، لیکن ہمیں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہوگا

وقت کی رفتار روکنے کی ہم میں سے کسی میں قدرت نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI:

پروین شاکر نے کہا تھا


نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں


کورونا کا زور تو شاید نہیں ٹوٹا لیکن ڈر بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔ دنیا آہستہ آہستہ اس کو قبول کرکے زندگی اور معمولاتِ زندگی کی طرف واپس آنے لگی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کورونا کے قہر نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا۔ بہار کی آمد آمد ہے، میری سالگرہ کا مہینہ بھی ہے اور میں پاکستان میں بھی ہوں، لیکن اس بار دل بہت اداس اداس سا ہے۔

میرا خیال تھا کہ زندگی سے گلہ تو شاید صرف ہم پردیس والوں کو ہے، لیکن اس بار دیکھا کہ یہاں کے حالات تو زیادہ ستم گر نکلے۔ ترقی یافتہ ممالک میں قدرتی آفات یا سانحات کے دوران وہاں کے عوام کیا، حکمران کیا، کنزیومر کیا، منیوفیکچرر کیا، سب ایک دوسرے کےلیے آسانیاں پیدا کرنے کےلیے جو ان سے بن پڑتا ہے، کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں نظام الٹا ہے۔ یہاں کورونا کو بھی خوب کیش کروایا گیا۔ گزشتہ روز ہمسائے کی آنٹی گھر آئیں، انہوں نے بتایا کہ سارے بچے اسکول جاتے ہیں۔ اسکول میں کلاسیں تو کورونا کے نام پر آدھی ہورہی ہیں لیکن فیسیں ہم پوری بھرنے پر مجبور ہیں۔

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بی ایڈ ایم ایڈ نوجوان لڑکی جو حالات سے مجبور والدین کے جانے کے بعد خود اپنے گزر اوقات کےلیے ایک پرائیویٹ اسکول میں نوکری کررہی تھی، اس سے تنخواہ پوچھی تو بولی چار ہزار۔

میں نے حیرت سے پوچھا ''چار ہزار روپے؟'' تو وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی کورونا کے دن ہیں شکر کرو اسکول کھل گئے اور یہی مل رہی ہے، ورنہ اسکول بند تھے تو کئی بار نوبت فاقوں تک آگئی۔ میں نے اپنے دیس اور دیس واسیوں کے حالات سنے تو اپنے دکھ بھول گئی۔


عمر کی پختگی ہے یا کیا کہ اس بار طبیعت میں ایک گہری سنجیدگی ہے۔ میں پاکستان میں ہوں، ابھی کل کی بات لگتی ہے جب پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران لاہور کی کم و بیش ہر تعلیمی اور ادبی سرگرمی میں شرکت فرض اولین سمجھی جاتی تھی۔ پردیس نے بہت حد تک دل و دماغ کو خشک سا کر ڈالا۔ لیکن بہت سے شناسا چہرے اس بار نظر نہیں آئیں گے۔ نعیم الحق کے بعد ایک اور قد آور سیاست دان مشاہد اللہ خان بھی نہیں رہے۔ ہمارے پروفیسر احسن اختر ناز بھی لاہور کی محفلوں میں نہیں ہوں گے۔ ڈاکٹر بلال صوفی، منا لاہوری عرف زکوٹا جن اور ایک نجی چینل کے روحِ رواں میرے عملی صحافت میں استاد وحید اقبال بھی منوں مٹی تلے جا سوئے۔ وہ بھی نہیں ہوں گے۔

کورونا سے ڈری ڈری، سہمی سہمی ادبی محفلیں بھی کیا محفلیں ہوں گی؟ ہنستے مسکراتے متحرک چہروں کے چھوڑ جانے کا دکھ، بے روزگاری اور مہنگائی کی گھٹن میں دبے دبے مصنوعی قہقہے بھی کیا قہقہے ہوں گے؟ سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کےلیے دو دو تین تین پارٹ ٹائم نوکریاں کرکے بھی مہینے کے آخر میں بِلوں کی ادائیگی اور کبھی آٹے دال کےلیے فکرمند ہوکر انگلیاں مروڑنے والے چاہے جتنے مرضی عمدہ ذوق کے مالک ہوں وہ ادبی محفلوں سے کیا لطف اندوز ہوں گے؟

لیکن یہی جینا ہے۔ یہی نظامِ قدرت ہے۔ ہمیں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہوتا ہے۔ رخصت ہونے والوں کو ان کی اگلی منزل کے حوالے کرکے ہمیں گھر واپس آنا ہوتا ہے۔ بچپن بہت پیارا ہوتا ہے لیکن ایک دن ہمیں اس کو بھی خیر باد کہنا پڑتا ہے۔ اسکول، کالج، یونیورسٹی کی بے فکری کی زندگی بہت عزیز ہوتی ہے لیکن ایک دن وہ بھی یاد بن کر رہ جاتی ہے۔ چوڑیوں کی کھنک، رنگ برنگے دوپٹوں کی مہک اور لا ابالی پن کی اٹکھیلیاں سب کے سب ہمارے تکیے کے نیچے پڑے رہ جاتے ہیں اور ہم سنہرے مستقبل کی تلاش میں خوابوں کا بستہ اٹھائے ان سب سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔

وقت کی رفتار روکنے کی ہم میں سے کسی میں قدرت نہیں۔ لیکن جب ہم تقدیر پر دسترس نہیں رکھتے اور وقت کی رفتار روکنے کی قدرت نہیں رکھتے تو پھر کیوں نہ ہر گزرتے لمحے کو ایسے گزاریں کہ جس میں کوئی کسک نہ ہو، کوئی خلش نہ ہو، کوئی پچھتاوا یا احساسِ زیاں نہ ہو۔ دکھ سکھ، خوشیاں غم، کامیابیاں ناکامیاں، دنیا میں کچھ بھی نیا نہیں اور نہ ہی ہم مافوق الفطرت ہیں کہ ہم ان سب سے دامن بچا کے نکل جائیں گے۔ چھوٹا بڑا ہر انسان کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جنگ سے نبردآزما ہے۔ اس کا ادراک کیجیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے ایک ایک لمحے کو، اپنے دوستوں، اپنے پیاروں کے درمیاں پروقار اور خوشگوار انداز میں گزارنے کی کوشش کیجیے۔ اچھے مستقبل کی جدوجہد ضرور جاری رکھیں لیکن اپنے موجودہ وسائل ہی سے حال کو بھی اس بہترین انداز میں گزاریں کہ آپ کا ہر قدم یادگار ہو۔

زندگی ایک کانٹے کے طرح مت گزاریے کہ زخم بھر بھی جائے تو اس کی چبھن یاد رہے، بلکہ ایک پھول کی طرح گزاریے کہ جسے آپ مسل بھی دیں تو وہ اپنی خوشبو مسلنے والے کے ہاتھوں میں ضرور چھوڑ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story