وزیر اعظم کا جرات مندانہ اقدام
جبری گمشدگیوں کے سلسلہ میں قانون سازی کا عمل تیزکریں۔
جبری گمشدگیوں کے سلسلہ میں قانون سازی کا عمل تیزکریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اگلے بدھ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، یہ ہدایات کیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات میں کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارے دور میں کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوئی۔ شیخ رشید نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تمام ادارے عملی اقدامات کررہے ہیں اور حکومتی کوششوں سے بہت سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اسلام آباد میں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے کیمپ کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ اگلے ہفتہ وزیر اعظم عمران خان گمشدہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کریں گے، یوں لواحقین نے ایک ہفتہ سے زائد عرصہ سے جاری اپنا احتجاجی کیمپ ختم کر دیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پہلی دفعہ اس معاملہ پر توجہ دی تھی۔ ان کے فیصلوں کے نتیجے میں کچھ افراد بازیاب ہوئے،کچھ کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ وہ دیگر ممالک میں روپوش ہیں اورکچھ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ جیلوں میں بند ہیں جب کہ کچھ ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔
معزز چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں کمیشن قائم کیا تھا۔ سندھ کے سابق جج جسٹس غوث محمد (مرحوم) اور سابقہ صوبہ سرحد کے سابقہ آئی جی اس کمیشن کے رکن بنے۔ جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں کمیشن نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کچھ اقدامات کیے۔ جب 2008میں پیپلز پاٹی کی حکومت قائم ہوئی تو بلوچستان میں چند لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے مگر پھر امن و امان کی صورتحال بگڑنے کے بعد پیپلز پارٹی کی وفاق اور بلوچستان اور سندھ میں قائم حکومتوںنے نا معلوم وجوہات کی بناء پر اس انسانی مسئلہ کے حل پر توجہ دینا چھوڑ دی۔
برسر اقتدار حکومتوں نے بین الاقوامی اداروں میں اس مسئلے کے بارے میں پاکستانی مؤقف کو اجاگر کرنے کے لیے درست حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کونسل کا ایک وفد فیکٹ فائنڈنگ کے لیے پاکستان آیا مگر کسی اعلیٰ عہدیداروں نے اس کمیشن کے اراکین کو ملاقات کا موقع نہیں دیا۔ یوں یہ ایک منفی تاثر کے ساتھ ملک سے گئے۔
اس صورتحال میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں یہ مسئلہ شامل ہوا۔ اگر اس وقت کی حکومت معاملات کو سنبھالیتی تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی ۔ یورپی یونین کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹوں کے بارے میں بھارت نواز تنظیموں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ یورپی یونین پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو مایوس کن قرار دے۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس اہم معاملہ کو غیر حقیقی طور پر نظر انداز کیا ۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے گمشدہ افراد کی بازیابی کے کمیشن کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اب کمیشن کے ایک رکن کے انتقال کے بعد اس کی تنظیمِ نو ضروری ہے۔
تحریک انصاف کے اکابرین نے سب سے پہلے اس معاملے کی گہرائی کو محسوس کیا اور تحریک انصاف کی رہنما اور موجودہ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے خاص طور پر اس معاملہ پرتوجہ دی اور قانون سازی پر زور دیا۔ پاکستان نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں نے بھی اپنے اپنے منشور میں اس ایشو کو شامل کیا مگر اب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے قانون سازی کرنے کے اعلان سے ایک طرف لاپتہ افراد کے لواحقین کو تسلی ہوگی تو دوسری طرف ان شرپسند قوتوں کے عزائم کو ٹھیس پہنچے گی جو جبری گمشدگی کے مسئلہ کی آڑ میں ملک کے امیج کو نقصان پہنچانے کی سازش کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ اعلان جلد ہی عملی شکل اختیار کرے گا اور یہ بات حقیقت کا روپ دھارے گی کہ اس ملک پر آئین کی حکمرانی ہے۔ 1973 کے آئین کے انسانی حقوق کے باب میں ہر فرد کو تحفظ اور ہر فرد کی زندگی کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس اعلان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب پاکستان دنیا کے ان مہذب ممالک میں شامل ہوجائے گا جہاں شہریوں کے انسانی حقوق سب سے زیادہ مقدم ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارے دور میں کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوئی۔ شیخ رشید نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تمام ادارے عملی اقدامات کررہے ہیں اور حکومتی کوششوں سے بہت سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اسلام آباد میں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے کیمپ کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ اگلے ہفتہ وزیر اعظم عمران خان گمشدہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کریں گے، یوں لواحقین نے ایک ہفتہ سے زائد عرصہ سے جاری اپنا احتجاجی کیمپ ختم کر دیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پہلی دفعہ اس معاملہ پر توجہ دی تھی۔ ان کے فیصلوں کے نتیجے میں کچھ افراد بازیاب ہوئے،کچھ کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ وہ دیگر ممالک میں روپوش ہیں اورکچھ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ جیلوں میں بند ہیں جب کہ کچھ ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔
معزز چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں کمیشن قائم کیا تھا۔ سندھ کے سابق جج جسٹس غوث محمد (مرحوم) اور سابقہ صوبہ سرحد کے سابقہ آئی جی اس کمیشن کے رکن بنے۔ جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں کمیشن نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کچھ اقدامات کیے۔ جب 2008میں پیپلز پاٹی کی حکومت قائم ہوئی تو بلوچستان میں چند لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے مگر پھر امن و امان کی صورتحال بگڑنے کے بعد پیپلز پارٹی کی وفاق اور بلوچستان اور سندھ میں قائم حکومتوںنے نا معلوم وجوہات کی بناء پر اس انسانی مسئلہ کے حل پر توجہ دینا چھوڑ دی۔
برسر اقتدار حکومتوں نے بین الاقوامی اداروں میں اس مسئلے کے بارے میں پاکستانی مؤقف کو اجاگر کرنے کے لیے درست حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کونسل کا ایک وفد فیکٹ فائنڈنگ کے لیے پاکستان آیا مگر کسی اعلیٰ عہدیداروں نے اس کمیشن کے اراکین کو ملاقات کا موقع نہیں دیا۔ یوں یہ ایک منفی تاثر کے ساتھ ملک سے گئے۔
اس صورتحال میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں یہ مسئلہ شامل ہوا۔ اگر اس وقت کی حکومت معاملات کو سنبھالیتی تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی ۔ یورپی یونین کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹوں کے بارے میں بھارت نواز تنظیموں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ یورپی یونین پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو مایوس کن قرار دے۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس اہم معاملہ کو غیر حقیقی طور پر نظر انداز کیا ۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے گمشدہ افراد کی بازیابی کے کمیشن کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اب کمیشن کے ایک رکن کے انتقال کے بعد اس کی تنظیمِ نو ضروری ہے۔
تحریک انصاف کے اکابرین نے سب سے پہلے اس معاملے کی گہرائی کو محسوس کیا اور تحریک انصاف کی رہنما اور موجودہ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے خاص طور پر اس معاملہ پرتوجہ دی اور قانون سازی پر زور دیا۔ پاکستان نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں نے بھی اپنے اپنے منشور میں اس ایشو کو شامل کیا مگر اب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے قانون سازی کرنے کے اعلان سے ایک طرف لاپتہ افراد کے لواحقین کو تسلی ہوگی تو دوسری طرف ان شرپسند قوتوں کے عزائم کو ٹھیس پہنچے گی جو جبری گمشدگی کے مسئلہ کی آڑ میں ملک کے امیج کو نقصان پہنچانے کی سازش کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ اعلان جلد ہی عملی شکل اختیار کرے گا اور یہ بات حقیقت کا روپ دھارے گی کہ اس ملک پر آئین کی حکمرانی ہے۔ 1973 کے آئین کے انسانی حقوق کے باب میں ہر فرد کو تحفظ اور ہر فرد کی زندگی کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس اعلان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب پاکستان دنیا کے ان مہذب ممالک میں شامل ہوجائے گا جہاں شہریوں کے انسانی حقوق سب سے زیادہ مقدم ہوتے ہیں۔