ضمنی انتخابات کے بعد سینٹ الیکشن حکومت کے لئے بڑا چیلنج
وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں معتمد خاص مانے جانے والے جہانگیر ترین بھی کچھ عرصہ گم رہنے کے بعد منظرعام پرآچکے ہیں۔
ملک میں ہونیوالے حالیہ ضمنی انتخابات میں حکومت کے خلاف باقاعدہ طبل جنگ بج چکاہے، حالات نے کروٹ لے لی ہے، عوام اپنا فیصلہ سنا رہی ہے۔
یہ بھی شائد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو بری طرح شکت ہوئی ہے جوکہ اپوزیشن کیلئے انتخابی نتائج حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا ثمر ہے اور اگرکپتان اور اسکی ٹیم اسی محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ لگی رہی تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی کیونکہ حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف صرف خیبر پختونخوا میں سابق فاٹا سے کامیابی حاصل کر سکی ہے باقی چاروں صوبوں سے شکست ہوئی ہے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اپوزیشن کی بجائے اپنے بوجھ سے گرنے کے عوامی بیانیہ کی جھلک واضح نظر آرہی ہے اور ڈسکہ کے ضمنی انتخابات نے جہاں صوبائی حکومت کی انتظامی صلاحیتوں پر سوالات اٹھائے وہیں پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات بھی بڑھا دی ہیں ۔
ضمنی انتخابات میں حزب اختلاف کے امیدواروں کی نمایاں کامیابی اصل میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی ردعمل ہے جس کی واضح مثال سندھ کے ضمنی انتخابات ہیں کہ سندھ میں بدترین حکومت ہے اور پچھلے تیرہ سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا مگر اسکے باوجود کراچی کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک طرف پیپلز پارٹی کو ووٹ ملے تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور کراچی میں بھی تحریک انصاف تیسرے نمبر پر آگئی ہے۔
ادھر خیبر پختونخوا میں تو پچھلے آٹھ سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے مگر وہاں بھی پی ٹی آئی کو اپنی ہی خالی ہونیوالی سیٹ پر شکست ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ عوام کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے کپتان خود گھبراہٹ کا شکار ہوتے معلوم ہورہے ہیں۔ اوپر سے حزب اختلاف کے زہر آلود بیانات کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
ادھر مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نوازکی طرف سے کپتان کو گھر میں گھس کر مارنے کے طنز نے تو کپتان کو متحرک کردیا اورکپتان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کی وجوہات جاننے کیلئے خود میدان میں نکل پڑے ہیں اور پی ٹی آئی کے رہنماوں کی اسلام آباد یاترا شروع ہوگئی ہے۔ پیر کو وزیر اعظم عمران خان سیگورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے جس میں خیبر پختونخوا میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ ضمنی انتخابات میں شکست کی وجوہات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
ادھر این اے 75 سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن کے نتائج میں تاخیر کے معاملے پر بھی الیکشن کمیشن کی تحقیقات جاری ہیں لیکن پولنگ اسٹیشنز کے پریزائیڈنگ افسران مع پولنگ ریکارڈکے غائب ہونے اور پھر صبح چھ بجے واپسی پر الیکشن کمیشن کے سامنے آنے والا تحریری ردعمل غیر معمولی ہے جس میں الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کے ریکارڈ میں ردوبدل کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
اس معاملے کی اب تحقیقاتی رپورٹ تیار کر لی گئی جو الیکشن کمشنر پنجاب کو بھیج دی گئی ہے کہ ڈپٹی ریٹرننگ افسر کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمشنر پنجاب کو رات ڈھائی بجے نتائج نہ ملنے کی اطلاع دی گئی جس میں 360 میں سے 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج موصول نہیں ہوئے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صبح 6 بجے پولنگ اسٹیشنز کے پریزائیڈنگ افسران مع پولنگ ریکارڈ واپس پہنچے تھے اس رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جن 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج موصول نہیں ہوئے ان کے نتائج میں ردو بدل کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر نے این اے 75 کے ڈی آر او اور ریٹرننگ افسر کو بھی اسلام آباد طلب کر رکھا ہے جہاں چیف الیکشن کمشنر این اے 75 کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے متعلق سماعت کریں گے اور اس دوران تحقیقاتی رپورٹ بھی زیر بحث آئے گی، ان سطور کی اشاعت تک چیف الیکشن کمشنر کے زیر سماعت کیس کی تفصیلات بھی سامنے آچکی ہونگی اور پورے ملک کی نظریں اس کیس پر لگی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ این اے 75 کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد شفاف انتخابات کروانے کا رخ متعین کرے گا۔
اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا جو بھی فیصلہ آئے گا حکومت اس فیصلے پر عمل کرے گی ساتھ ہی الیکشن کمیشن کا بھی امتحان ہے کہ اسے بھی اپنا فیصلہ منوانا ہوگا جو آئندہ عام انتخابات میں شفافیت کی راہ ہموار کرے گا، یہ شفاف انتخابات ہر ایک کا حق ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ بھی مگر بدقسمتی ہے کہ جب وقت آتا ہے تو سب بھاگ جاتے ہیں۔
پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سکندر سلطان راجہ جیسا دبنگ ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوا ہے جسکی سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی پیشی ہوئی ہے اور ہر فورم پر آئین و قانون کی بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس نے نہ صرف حکومت وقت کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار کیا بلکہ الیکشن کمیشن کا آئینی کردار اجاگر کرنے میںبھی کامیاب رہے ہیں اس لئے توقع کرتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر عوام کا ملک میں شفاف انتخابات کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہونگے۔
ضمنی انتخابات کے بعد اب سینٹ کے انتخابات حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہیں اور سینٹ کے انتخابات وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت کے اعصاب پر پوری طرح سوار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سینٹ انتخابات سے متعلق پارٹی رہنماوں سے مسلسل رابطوں میں ہیں بڑی بیٹھک ہو رہی ہیں، اسی حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابراعوان کا بھی رابطہ ہوا۔
پیر کو ہونیوالی اس ٹیلیفونک گفتگو میں اسمبلی کے جاری اجلاس، آئینی اور قانونی امور سمیت سینیٹ انتخابات پر جامع مشاورت کی گئی ہے جس میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات ہائی جیک کرنے والے جمہوریت پر دھبہ ہیںاور اوپن ووٹنگ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کا واحد راستہ ہے، سینیٹ انتخابات ہائی جیک کرنے والے جمہوریت پردھبہ ہیں، وزیراعظم نے ٹیلیفونک گفتگومیں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرحلیم عادل شیخ کی گرفتاری پر بھی بات چیت کی ہے ۔
دوسری جانب یوسف رضا گیلانی نے بھی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کی ہے، اسی طرح ن لیگ ، پیپلز پارٹی سمیت دوسری جماعتوں کے رہنما بھی خاصے متحرک ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما و سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی جانب سے تو حکمران جماعت کے ووٹ توڑنے سے متعلق دعویٰ بھی سامنے آیا ہے، حکمران جماعت کے ووٹ توڑنے کا انحصار اوپن بیلٹ یا سیکرٹ بیلٹ پر ہو گا، انکا کہنا ہے کہ اگر سیکرٹ بیلٹنگ ہوئی تو نتائج آپ کے سامنے ہوں گے، حفیظ شیخ اْڑ جائیں گے اور یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمیں جتنے ووٹوں کی ضرورت ہو گی ہم توڑ لیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے اور سینٹ انتخابات میں ضمنی انتخابات جیسے نتائج کی صورتحال سے بچنے کیلئے تمام تدبیریں اختیار کی جا رہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں معتمد خاص مانے جانے والے جہانگیر ترین بھی کچھ عرصہ گم رہنے کے بعد منظر عام پر آچکے ہیں اور میڈٖیا کی زینت بنے ہوئے ہیں، دونوں طرف سے جہانگیر ترین سے رابطوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حفیظ شیخ کی حمایت میں تو جہانگیر ترین کا اگرچہ بیان آگیا اور یوسف رضا گیلانی کے رابطوں کی جہانگیر ترین کی جانب سے تردید بھی آچکی ہے ۔
جہانگیر ترین نے واضح الفاظ میں کہا کہ حفیظ شیخ پرانے دوست ہیں اور پارٹی کے امیدوار بھی ہیں، حفیظ شیخ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ادھر پریس کانفرنس کے دوران یوسف رضا گیلانی نے بھی پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے کہنا تھا میری جہانگیر ترین سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان سے کوئی رابطہ ہوا ہے البتہ انکا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین میرے عزیز ہیں ان کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین کی تردیدکے باوجود سیاسی حلقوں میں ابھی کنفیوژن بدستور موجود ہے اور اگلے چندروز میں معلوم ہوجائے گا کہ جہانگیر ترین کا طیارہ اب کس کیلئے فضا میں بلند ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کو اندرونی اختلافات کے باعث نہ صرف اپنے ممبران کے ٹوٹنے کا خطرہ ہے بلکہ اتحادیوں کی بے وفائی کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے۔
یہ بھی شائد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو بری طرح شکت ہوئی ہے جوکہ اپوزیشن کیلئے انتخابی نتائج حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا ثمر ہے اور اگرکپتان اور اسکی ٹیم اسی محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ لگی رہی تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی کیونکہ حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف صرف خیبر پختونخوا میں سابق فاٹا سے کامیابی حاصل کر سکی ہے باقی چاروں صوبوں سے شکست ہوئی ہے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اپوزیشن کی بجائے اپنے بوجھ سے گرنے کے عوامی بیانیہ کی جھلک واضح نظر آرہی ہے اور ڈسکہ کے ضمنی انتخابات نے جہاں صوبائی حکومت کی انتظامی صلاحیتوں پر سوالات اٹھائے وہیں پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات بھی بڑھا دی ہیں ۔
ضمنی انتخابات میں حزب اختلاف کے امیدواروں کی نمایاں کامیابی اصل میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی ردعمل ہے جس کی واضح مثال سندھ کے ضمنی انتخابات ہیں کہ سندھ میں بدترین حکومت ہے اور پچھلے تیرہ سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا مگر اسکے باوجود کراچی کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک طرف پیپلز پارٹی کو ووٹ ملے تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور کراچی میں بھی تحریک انصاف تیسرے نمبر پر آگئی ہے۔
ادھر خیبر پختونخوا میں تو پچھلے آٹھ سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے مگر وہاں بھی پی ٹی آئی کو اپنی ہی خالی ہونیوالی سیٹ پر شکست ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ عوام کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے کپتان خود گھبراہٹ کا شکار ہوتے معلوم ہورہے ہیں۔ اوپر سے حزب اختلاف کے زہر آلود بیانات کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
ادھر مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نوازکی طرف سے کپتان کو گھر میں گھس کر مارنے کے طنز نے تو کپتان کو متحرک کردیا اورکپتان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کی وجوہات جاننے کیلئے خود میدان میں نکل پڑے ہیں اور پی ٹی آئی کے رہنماوں کی اسلام آباد یاترا شروع ہوگئی ہے۔ پیر کو وزیر اعظم عمران خان سیگورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے جس میں خیبر پختونخوا میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ ضمنی انتخابات میں شکست کی وجوہات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
ادھر این اے 75 سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن کے نتائج میں تاخیر کے معاملے پر بھی الیکشن کمیشن کی تحقیقات جاری ہیں لیکن پولنگ اسٹیشنز کے پریزائیڈنگ افسران مع پولنگ ریکارڈکے غائب ہونے اور پھر صبح چھ بجے واپسی پر الیکشن کمیشن کے سامنے آنے والا تحریری ردعمل غیر معمولی ہے جس میں الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کے ریکارڈ میں ردوبدل کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
اس معاملے کی اب تحقیقاتی رپورٹ تیار کر لی گئی جو الیکشن کمشنر پنجاب کو بھیج دی گئی ہے کہ ڈپٹی ریٹرننگ افسر کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمشنر پنجاب کو رات ڈھائی بجے نتائج نہ ملنے کی اطلاع دی گئی جس میں 360 میں سے 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج موصول نہیں ہوئے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صبح 6 بجے پولنگ اسٹیشنز کے پریزائیڈنگ افسران مع پولنگ ریکارڈ واپس پہنچے تھے اس رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جن 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج موصول نہیں ہوئے ان کے نتائج میں ردو بدل کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر نے این اے 75 کے ڈی آر او اور ریٹرننگ افسر کو بھی اسلام آباد طلب کر رکھا ہے جہاں چیف الیکشن کمشنر این اے 75 کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے متعلق سماعت کریں گے اور اس دوران تحقیقاتی رپورٹ بھی زیر بحث آئے گی، ان سطور کی اشاعت تک چیف الیکشن کمشنر کے زیر سماعت کیس کی تفصیلات بھی سامنے آچکی ہونگی اور پورے ملک کی نظریں اس کیس پر لگی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ این اے 75 کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد شفاف انتخابات کروانے کا رخ متعین کرے گا۔
اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا جو بھی فیصلہ آئے گا حکومت اس فیصلے پر عمل کرے گی ساتھ ہی الیکشن کمیشن کا بھی امتحان ہے کہ اسے بھی اپنا فیصلہ منوانا ہوگا جو آئندہ عام انتخابات میں شفافیت کی راہ ہموار کرے گا، یہ شفاف انتخابات ہر ایک کا حق ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ بھی مگر بدقسمتی ہے کہ جب وقت آتا ہے تو سب بھاگ جاتے ہیں۔
پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سکندر سلطان راجہ جیسا دبنگ ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوا ہے جسکی سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی پیشی ہوئی ہے اور ہر فورم پر آئین و قانون کی بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس نے نہ صرف حکومت وقت کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار کیا بلکہ الیکشن کمیشن کا آئینی کردار اجاگر کرنے میںبھی کامیاب رہے ہیں اس لئے توقع کرتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر عوام کا ملک میں شفاف انتخابات کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہونگے۔
ضمنی انتخابات کے بعد اب سینٹ کے انتخابات حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہیں اور سینٹ کے انتخابات وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت کے اعصاب پر پوری طرح سوار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سینٹ انتخابات سے متعلق پارٹی رہنماوں سے مسلسل رابطوں میں ہیں بڑی بیٹھک ہو رہی ہیں، اسی حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابراعوان کا بھی رابطہ ہوا۔
پیر کو ہونیوالی اس ٹیلیفونک گفتگو میں اسمبلی کے جاری اجلاس، آئینی اور قانونی امور سمیت سینیٹ انتخابات پر جامع مشاورت کی گئی ہے جس میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات ہائی جیک کرنے والے جمہوریت پر دھبہ ہیںاور اوپن ووٹنگ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کا واحد راستہ ہے، سینیٹ انتخابات ہائی جیک کرنے والے جمہوریت پردھبہ ہیں، وزیراعظم نے ٹیلیفونک گفتگومیں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرحلیم عادل شیخ کی گرفتاری پر بھی بات چیت کی ہے ۔
دوسری جانب یوسف رضا گیلانی نے بھی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کی ہے، اسی طرح ن لیگ ، پیپلز پارٹی سمیت دوسری جماعتوں کے رہنما بھی خاصے متحرک ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما و سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی جانب سے تو حکمران جماعت کے ووٹ توڑنے سے متعلق دعویٰ بھی سامنے آیا ہے، حکمران جماعت کے ووٹ توڑنے کا انحصار اوپن بیلٹ یا سیکرٹ بیلٹ پر ہو گا، انکا کہنا ہے کہ اگر سیکرٹ بیلٹنگ ہوئی تو نتائج آپ کے سامنے ہوں گے، حفیظ شیخ اْڑ جائیں گے اور یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمیں جتنے ووٹوں کی ضرورت ہو گی ہم توڑ لیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے اور سینٹ انتخابات میں ضمنی انتخابات جیسے نتائج کی صورتحال سے بچنے کیلئے تمام تدبیریں اختیار کی جا رہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں معتمد خاص مانے جانے والے جہانگیر ترین بھی کچھ عرصہ گم رہنے کے بعد منظر عام پر آچکے ہیں اور میڈٖیا کی زینت بنے ہوئے ہیں، دونوں طرف سے جہانگیر ترین سے رابطوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حفیظ شیخ کی حمایت میں تو جہانگیر ترین کا اگرچہ بیان آگیا اور یوسف رضا گیلانی کے رابطوں کی جہانگیر ترین کی جانب سے تردید بھی آچکی ہے ۔
جہانگیر ترین نے واضح الفاظ میں کہا کہ حفیظ شیخ پرانے دوست ہیں اور پارٹی کے امیدوار بھی ہیں، حفیظ شیخ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ادھر پریس کانفرنس کے دوران یوسف رضا گیلانی نے بھی پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے کہنا تھا میری جہانگیر ترین سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان سے کوئی رابطہ ہوا ہے البتہ انکا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین میرے عزیز ہیں ان کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین کی تردیدکے باوجود سیاسی حلقوں میں ابھی کنفیوژن بدستور موجود ہے اور اگلے چندروز میں معلوم ہوجائے گا کہ جہانگیر ترین کا طیارہ اب کس کیلئے فضا میں بلند ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کو اندرونی اختلافات کے باعث نہ صرف اپنے ممبران کے ٹوٹنے کا خطرہ ہے بلکہ اتحادیوں کی بے وفائی کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے۔