نوشہرہ میں تحریک انصاف کی شکست سینٹ الیکشن پر کیا اثرات ہونگے
پارٹی قیادت سرجوڑ کر بیٹھنے کے باوجود کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانا پڑا۔
نہ تو کوئی ضمنی الیکشن پہلی مرتبہ ہوا ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی حکومت میں کوئی ضمنی الیکشن پہلی مرتبہ ہاری ہو،اس سے قبل بھی سوات،بنوں اور پشاور میں پی ٹی آئی ضمنی انتخابات ہار چکی ہے لیکن پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی انتخابات دو وجوہات کی بناء پر انتہائی فوکسڈ ہوگئے تھے۔
مذکورہ الیکشن چونکہ نوشہرہ میں منعقد ہو رہا تھا کہ جو وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک کا آبائی ضلع ہے اورپرویزخٹک صوبہ کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور ساتھ ہی میدان سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی بھی گردانے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ الیکشن پاکستان تحریک انصاف بمقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن بن گیا تھا حالانکہ اس حلقہ سے اے این پی کے امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے تھے تاہم چونکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں ن لیگ کی حمایت کر رہی تھیں اس لیے ساری توجہ نوشہرہ ضمنی الیکشن پر لگی ہوئی تھی اوریہ معرکہ ن لیگ نے سرکر لیا ہے جس کی وجہ سے اب پی ٹی آئی میں طوفان اٹھا ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت سے چہرے گرد آلود دکھائی دے رہے ہیں۔
چونکہ اس الیکشن کے حوالے سے سب کی نظریں وفاقی وزیر دفاع پر لگی ہوئی تھیں یہی وجہ ہے کہ اس حلقہ میں شکست کا سارا ملبہ بھی انہی پر گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی ان کے بھائی سابق صوبائی وزیر لیاقت خٹک کو بھی کابینہ سے فارغ کردیا گیا ہے کیونکہ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے پارٹی امیدوار کی مخالفت کر رہے تھے بلکہ انہوں نے ن لیگی امیدوار کی حمایت میں انتخابی مہم بھی چلائی جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر کوئی اور ہی کہانی سنانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی پارٹی کے امیدوار کی شکست کے لیے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار قراردے رہے ہیں جو یقینی طور پر حیران کن ہے تاہم اس الزام کی وجہ سے صورت حال گھمبیرہو گئی ہے کیونکہ چھ ہزار ووٹ غائب ہونے کا الزام بھی عائد کیاجا رہا ہے۔
نوشہرہ الیکشن کے حوالے سے صورت حال یہ تھی کہ وفاقی وزیر کے بھائی لیاقت خٹک جو محمودخان کابینہ کا حصہ تھے ،اپنے صاحبزادے کے لیے پی کے 63کا یہ ٹکٹ مانگ رہے تھے لیکن وفاقی وزیر نے اپنے ساتھی میاں جمشیدالدین کاکاخیل مرحوم کا پاس رکھتے ہوئے ٹکٹ ان کے صاحبزادے میاں عمر کو دلوادیا۔اور پی ٹی آئی کی شکست کی پہلی اینٹ اسی اختلاف نے رکھی کیونکہ اس کے بعد کی صورت حال یہ رہی ہے کہ نوشہرہ میں پی ٹی آئی بھی تقسیم رہی اور خٹک خاندان بھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ(ن)کے امیدوار اختیارولی خان الیکشن میں فاتح ٹھہرے جن کی جیت کے لیے بہت بڑی سپورٹ مسلم لیگ کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے نوشہرہ میں انتخابی جلسہ کرتے ہوئے فراہم کر دی۔
چونکہ پی ٹی آئی اندرونی طور پر تقسیم تھی اس لیے نوشہرہ الیکشن ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور اس حوالے سے فورای طور پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے لیاقت خٹک کو صوبائی کابینہ سے فارغ بھی کردیاگیاہے تاہم جو ہوا اس کے حوالے سے ساری کی ساری ذمہ داری وفاقی وزیر پرویزخٹک پر عائد کی جارہی ہے اس لیے اب رخ الیکشن کمیشن کی جانب موڑ دیاگیا ہے۔ تاہم جو ہوا اس کے اثرات سینٹ انتخابات پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ سینٹ انتخابات اگلے ہفتے ہونے جا رہے ہیں جس کے لیے حکومت کی تیاریاں اپنی جگہ لیکن اپوزیشن نے بھی آستینیں چڑھا رکھی ہیں اور بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔اپوزیشن کو یہ سپورٹ بھی مل گئی ہے کہ ایک جانب آزاد رکن اسمبلی امجد آفریدی جو پی ٹی آئی ہی کے ستائے ہوئے ہیں۔
وہ اپنے والد سینیٹر شمیم آفریدی کے ہمراہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں حالانکہ ان کے بھائی عباس آفریدی نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں بلکہ سینٹ انتخابات کے لیے جنرل نشست پر ان کے امیدوار بھی ہیں تاہم اس کے باوجود سابق صوبائی وزیر امجد آفریدی نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔
جس سے پیپلزپارٹی کو ایک اضافی نشست مل گئی ہے جس کا فائدہ وہ سینٹ انتخابات میں لے گی جبکہ دوسری جانب نوشہرہ ضمنی انتخابات میں جیت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یقینی طور پر ان دو نشستوں کے اضافے سے اپوزیشن جماعتیں سینٹ انتخابات میں بھرپور فائدہ اٹھائیں گی، یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تاحال کنفیوژن کا شکار ہیں کہ انہوں نے سینٹ الیکشن میں کن امیدواروں کے ساتھ اترنا ہے کیونکہ بظاہر تو پی ڈی ایم کی سطح پر چار نشستوں کے حصول کے لیے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم اے این پی ،جے یوآئی ،مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں سے ہر جماعت ایک سے زائد نشستوں کی خواہش مند ہے اور ان کے حصول کے لیے کوشاں بھی ۔
سینٹ انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کرتنازعہ موجود ہے کیونکہ کچھ امیدوار آخری مرحلے پر سینٹ دنگل کے لیے میدان میں داخل ہوئے ہیں جبکہ ٹکٹ بھی اضافی جاری کیے گئے ہیں جس کا شاید وقتی طور پر مقصد ورکروں کو مطمین کرنا تو ہوسکتاہے لیکن اتنے امیدواروں کے ساتھ میدان میں اترنا کسی بھی طور سود مند نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت سرجوڑ کر بیٹھنے کے باوجود کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانا پڑا جس کے لیے صرف یہی نہیں کہ وزیراعظم کو اس سلسلے میں خود فیصلہ کرنا پڑا بلکہ انھیں پشاور کا دورہ بھی کرنا پڑگیا جو نوشہرہ الیکشن اور سینٹ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر پی ٹی آئی میں پائے جانے والے اختلافات کے خاتمے کے لیے ضروری بھی تھا کیونکہ موجودہ حالات میں جبکہ پی ٹی آئی بارہ میں سے دس سے گیارہ نشستوں کے حصول کے دعوے کررہی ہے۔
اسے نقصان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں، پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار بیٹھی ہوئی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اندربہت سے لوگ، بہت سے لوگوں کے ساتھ حساب بھی برابر کرنے کے چکروں میں ہیں جس کی وجہ سے الگ سے پی ٹی آئی کو سینٹ انتخابات کے موقع پر نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو انتہائی دیکھ بھال کرتے ہوئے ہی اپنے امیدوارمیدان میں اتارنے ہونگے تاکہ مسائل اور مشکلات کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔
سینٹ الیکشن کے موقع پر مشکلات میں کمی لانے کی غرض ہی سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور سابق صوبائی سینئر وزیر عاطف خان کی صلح کرائی گئی حالانکہ دونوں کے درمیان اختلافات گہرے بھی تھے اور ایک سال کے دوران ان کی صلح کرانے کی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہوپارہی تھیں لیکن سینٹ انتخابات کے قریب آتے ہی سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور گورنرخیبرپخونخوا شاہ فرمان اس حوالے سے متحرک ہوئے اور انہوں نے وزیراعلیٰ محمودخان اور سابق سینئر وزیر عاطف خان کو وزیراعظم کے سامنے لابٹھایا تاکہ بگ باس کے سامنے ایک دوسرے سے گلے شکوے کرتے ہوئے دونوں معاملہ ختم کردیں۔
وزیراعلیٰ محمودخان اور عاطف خان کے درمیان تو معاملہ ختم ہوگیاہے لیکن اس حوالے سے سینٹ الیکشن میں قدرے مشکلات پیداہوئی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے سینٹ انتخابات کے لیے جو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں دو ایسے امیدوار بھی شامل ہیں جن کی عاطف خان سے قرابت داری ہے تاہم اطلاعات ہیں کہ ان رشتوں میں قدرے کڑواہٹ پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ عاطف خان کو راضی رکھنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ سینٹ ٹکٹوں میں کچھ اس انداز سے ردوبدل کی جائے کہ عاطف خان بھی راضی رہیں اور دوسری جانب امیدواروں کے حوالے سے بھی زیادہ مسلہ پیدا نہ ہونے پائے ۔
پی ٹی آئی کوخیبرپختونخوا اسمبلی میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ 100ارکان کی حمایت حاصل ہے اور ان سو ووٹوں کی بنیاد پربارہ میں سے دس نشستیں سہولت کے ساتھ وہ جیت سکتی ہے لیکن پی ٹی آئی جنرل نشستوں پر اپنے پانچ کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر تاج محمدآفریدی کی بھی کامیابی چاہتی ہے اور چھ نشستوں پر کامیابی اب کیسے ممکن ہوپائے گی؟ اس کا جواب تلاش کرنا یقینی طور پر آسان نہیں کیونکہ ایسے ہی جوابات کو تلاش کرنے کی کوشش کے نتیجے میں ویڈیوز سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے طوفان برپا ہوتے ہیں ۔سینٹ انتخابات قریب سے قریب تر آتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں جماعت اسلامی جنرل نشست کے لیے اے این پی کو سپورٹ کرسکتی ہے تاکہ 2018ء کے سینٹ انتخابات کا جو قرضہ اس کے سر پر ہے اسے اتارا جا سکے ۔
مذکورہ الیکشن چونکہ نوشہرہ میں منعقد ہو رہا تھا کہ جو وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک کا آبائی ضلع ہے اورپرویزخٹک صوبہ کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور ساتھ ہی میدان سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی بھی گردانے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ الیکشن پاکستان تحریک انصاف بمقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن بن گیا تھا حالانکہ اس حلقہ سے اے این پی کے امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے تھے تاہم چونکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں ن لیگ کی حمایت کر رہی تھیں اس لیے ساری توجہ نوشہرہ ضمنی الیکشن پر لگی ہوئی تھی اوریہ معرکہ ن لیگ نے سرکر لیا ہے جس کی وجہ سے اب پی ٹی آئی میں طوفان اٹھا ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت سے چہرے گرد آلود دکھائی دے رہے ہیں۔
چونکہ اس الیکشن کے حوالے سے سب کی نظریں وفاقی وزیر دفاع پر لگی ہوئی تھیں یہی وجہ ہے کہ اس حلقہ میں شکست کا سارا ملبہ بھی انہی پر گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی ان کے بھائی سابق صوبائی وزیر لیاقت خٹک کو بھی کابینہ سے فارغ کردیا گیا ہے کیونکہ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے پارٹی امیدوار کی مخالفت کر رہے تھے بلکہ انہوں نے ن لیگی امیدوار کی حمایت میں انتخابی مہم بھی چلائی جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر کوئی اور ہی کہانی سنانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی پارٹی کے امیدوار کی شکست کے لیے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار قراردے رہے ہیں جو یقینی طور پر حیران کن ہے تاہم اس الزام کی وجہ سے صورت حال گھمبیرہو گئی ہے کیونکہ چھ ہزار ووٹ غائب ہونے کا الزام بھی عائد کیاجا رہا ہے۔
نوشہرہ الیکشن کے حوالے سے صورت حال یہ تھی کہ وفاقی وزیر کے بھائی لیاقت خٹک جو محمودخان کابینہ کا حصہ تھے ،اپنے صاحبزادے کے لیے پی کے 63کا یہ ٹکٹ مانگ رہے تھے لیکن وفاقی وزیر نے اپنے ساتھی میاں جمشیدالدین کاکاخیل مرحوم کا پاس رکھتے ہوئے ٹکٹ ان کے صاحبزادے میاں عمر کو دلوادیا۔اور پی ٹی آئی کی شکست کی پہلی اینٹ اسی اختلاف نے رکھی کیونکہ اس کے بعد کی صورت حال یہ رہی ہے کہ نوشہرہ میں پی ٹی آئی بھی تقسیم رہی اور خٹک خاندان بھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ(ن)کے امیدوار اختیارولی خان الیکشن میں فاتح ٹھہرے جن کی جیت کے لیے بہت بڑی سپورٹ مسلم لیگ کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے نوشہرہ میں انتخابی جلسہ کرتے ہوئے فراہم کر دی۔
چونکہ پی ٹی آئی اندرونی طور پر تقسیم تھی اس لیے نوشہرہ الیکشن ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور اس حوالے سے فورای طور پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے لیاقت خٹک کو صوبائی کابینہ سے فارغ بھی کردیاگیاہے تاہم جو ہوا اس کے حوالے سے ساری کی ساری ذمہ داری وفاقی وزیر پرویزخٹک پر عائد کی جارہی ہے اس لیے اب رخ الیکشن کمیشن کی جانب موڑ دیاگیا ہے۔ تاہم جو ہوا اس کے اثرات سینٹ انتخابات پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ سینٹ انتخابات اگلے ہفتے ہونے جا رہے ہیں جس کے لیے حکومت کی تیاریاں اپنی جگہ لیکن اپوزیشن نے بھی آستینیں چڑھا رکھی ہیں اور بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔اپوزیشن کو یہ سپورٹ بھی مل گئی ہے کہ ایک جانب آزاد رکن اسمبلی امجد آفریدی جو پی ٹی آئی ہی کے ستائے ہوئے ہیں۔
وہ اپنے والد سینیٹر شمیم آفریدی کے ہمراہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں حالانکہ ان کے بھائی عباس آفریدی نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں بلکہ سینٹ انتخابات کے لیے جنرل نشست پر ان کے امیدوار بھی ہیں تاہم اس کے باوجود سابق صوبائی وزیر امجد آفریدی نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔
جس سے پیپلزپارٹی کو ایک اضافی نشست مل گئی ہے جس کا فائدہ وہ سینٹ انتخابات میں لے گی جبکہ دوسری جانب نوشہرہ ضمنی انتخابات میں جیت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یقینی طور پر ان دو نشستوں کے اضافے سے اپوزیشن جماعتیں سینٹ انتخابات میں بھرپور فائدہ اٹھائیں گی، یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تاحال کنفیوژن کا شکار ہیں کہ انہوں نے سینٹ الیکشن میں کن امیدواروں کے ساتھ اترنا ہے کیونکہ بظاہر تو پی ڈی ایم کی سطح پر چار نشستوں کے حصول کے لیے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم اے این پی ،جے یوآئی ،مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں سے ہر جماعت ایک سے زائد نشستوں کی خواہش مند ہے اور ان کے حصول کے لیے کوشاں بھی ۔
سینٹ انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کرتنازعہ موجود ہے کیونکہ کچھ امیدوار آخری مرحلے پر سینٹ دنگل کے لیے میدان میں داخل ہوئے ہیں جبکہ ٹکٹ بھی اضافی جاری کیے گئے ہیں جس کا شاید وقتی طور پر مقصد ورکروں کو مطمین کرنا تو ہوسکتاہے لیکن اتنے امیدواروں کے ساتھ میدان میں اترنا کسی بھی طور سود مند نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت سرجوڑ کر بیٹھنے کے باوجود کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانا پڑا جس کے لیے صرف یہی نہیں کہ وزیراعظم کو اس سلسلے میں خود فیصلہ کرنا پڑا بلکہ انھیں پشاور کا دورہ بھی کرنا پڑگیا جو نوشہرہ الیکشن اور سینٹ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر پی ٹی آئی میں پائے جانے والے اختلافات کے خاتمے کے لیے ضروری بھی تھا کیونکہ موجودہ حالات میں جبکہ پی ٹی آئی بارہ میں سے دس سے گیارہ نشستوں کے حصول کے دعوے کررہی ہے۔
اسے نقصان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں، پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار بیٹھی ہوئی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اندربہت سے لوگ، بہت سے لوگوں کے ساتھ حساب بھی برابر کرنے کے چکروں میں ہیں جس کی وجہ سے الگ سے پی ٹی آئی کو سینٹ انتخابات کے موقع پر نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو انتہائی دیکھ بھال کرتے ہوئے ہی اپنے امیدوارمیدان میں اتارنے ہونگے تاکہ مسائل اور مشکلات کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔
سینٹ الیکشن کے موقع پر مشکلات میں کمی لانے کی غرض ہی سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور سابق صوبائی سینئر وزیر عاطف خان کی صلح کرائی گئی حالانکہ دونوں کے درمیان اختلافات گہرے بھی تھے اور ایک سال کے دوران ان کی صلح کرانے کی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہوپارہی تھیں لیکن سینٹ انتخابات کے قریب آتے ہی سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور گورنرخیبرپخونخوا شاہ فرمان اس حوالے سے متحرک ہوئے اور انہوں نے وزیراعلیٰ محمودخان اور سابق سینئر وزیر عاطف خان کو وزیراعظم کے سامنے لابٹھایا تاکہ بگ باس کے سامنے ایک دوسرے سے گلے شکوے کرتے ہوئے دونوں معاملہ ختم کردیں۔
وزیراعلیٰ محمودخان اور عاطف خان کے درمیان تو معاملہ ختم ہوگیاہے لیکن اس حوالے سے سینٹ الیکشن میں قدرے مشکلات پیداہوئی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے سینٹ انتخابات کے لیے جو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں دو ایسے امیدوار بھی شامل ہیں جن کی عاطف خان سے قرابت داری ہے تاہم اطلاعات ہیں کہ ان رشتوں میں قدرے کڑواہٹ پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ عاطف خان کو راضی رکھنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ سینٹ ٹکٹوں میں کچھ اس انداز سے ردوبدل کی جائے کہ عاطف خان بھی راضی رہیں اور دوسری جانب امیدواروں کے حوالے سے بھی زیادہ مسلہ پیدا نہ ہونے پائے ۔
پی ٹی آئی کوخیبرپختونخوا اسمبلی میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ 100ارکان کی حمایت حاصل ہے اور ان سو ووٹوں کی بنیاد پربارہ میں سے دس نشستیں سہولت کے ساتھ وہ جیت سکتی ہے لیکن پی ٹی آئی جنرل نشستوں پر اپنے پانچ کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر تاج محمدآفریدی کی بھی کامیابی چاہتی ہے اور چھ نشستوں پر کامیابی اب کیسے ممکن ہوپائے گی؟ اس کا جواب تلاش کرنا یقینی طور پر آسان نہیں کیونکہ ایسے ہی جوابات کو تلاش کرنے کی کوشش کے نتیجے میں ویڈیوز سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے طوفان برپا ہوتے ہیں ۔سینٹ انتخابات قریب سے قریب تر آتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں جماعت اسلامی جنرل نشست کے لیے اے این پی کو سپورٹ کرسکتی ہے تاکہ 2018ء کے سینٹ انتخابات کا جو قرضہ اس کے سر پر ہے اسے اتارا جا سکے ۔