پاکستان طالبان سے معاہدے میں سعودی تعاون کا خواہشمند

وزیراعظم سعود الفیصل سے طالبان کومذاکرات پرراضی کرنے کیلیے اثرورسوخ استعمال کرنیکی درخواست کرینگے۔

وزیراعظم سعود الفیصل سے طالبان کومذاکرات پرراضی کرنے کیلیے اثرورسوخ استعمال کرنیکی درخواست کرینگے۔

وفاقی حکومت آج پاکستان کے دورے پرآنے والے سعودی وزیرخارجہ کی مددسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی غیرمعمولی امن معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں پریقین ہے تاکہ ملک کوتباہی کے دہانے پرپہنچا دینے والے تشددکا خاتمہ ہوسکے۔

ایکسپریس ٹریبیون کومعلوم ہواہے کہ سعودالفیصل کے2روزہ دورے میں پاکستانی قیادت کے ایجنڈے میںیہ نکتہ کلیدی اہمیت رکھتاہے کہ پاکستان کے امن عمل میںسعودی حکومت کے وسیع تر کردارکے امکانات تلاش کیے جاسکیں۔ سعودی وزیرخارجہ اس دورے میں صدرممنون، وزیراعظم نواز شریف اوران کے مشیربرائے قومی سلامتی وامورخارجہ سرتاج عزیزسے ملاقات کریںگے۔ ن لیگ حکومت حکیم اللہ محسودکے مارے جانے کے بعدالتوا کا شکارامن عمل کے احیاکے لیے بھرپورکوششیںکررہی ہے۔ واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کے نئے امیرملا فضل اللہ حکومت کی امن کوششوںکا مثبت جواب نہیںدے رہے۔ باخبرذرائع کے مطابق وزیراعظم سعودی وزیرخارجہ سے ملاقات میںطالبان کو مذاکرات کی میزپر لانے کے لیے سعودی اثررسوخ استعمال کرنے کی درخواست کریںگے۔ وزارت خارجہ کے ایک افسرنے کہا کہ حکومت کویقین ہے کہ سعودی عرب اپنے زیراثر طالبان نوازحلقوں کواستعمال کرکے انھیںامن معاہدے پرمائل کرسکتا ہے۔ سعودالفیصل ممکنہ طورپر سعودی عرب کے خاص دوست مولانافضل الرحمٰن اوربابائے (افغان)طالبان مولاناسمیع الحق سے بھی ملیںگے تاہم وزارت خارجہ کے ایک سینئرافسر نے اس بات کی تصدیق سے انکارکیا۔




ایکسپریس ٹریبیون کوذرائع نے بتایاکہ وزیر اعظم کے عشائیے میںان کی سعودی وزیرخارجہ سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ یادرہے کہ یہ دونوںشخصیات سعودی حکمرانوںکے بہت نزدیک تصورکی جاتی ہیںجبکہ طالبان سے مذاکرات میںبھی ان کی کوششیںنمایاں ہیںجو کہ زیادہ ترانھی کے مدرسوں میں زیرتعلیم رہے۔ کابینہ کے ایک سینئررکن سے رابطہ کیاگیا توانھوں نے کہاکہ طالبان کے القاعدہ سے روابط معاملے کو حساس بناتے ہیں۔ اس کے پیش نظرسعودی اس میںملوث ہونے سے احتیاط کررہے ہیں۔ ایک سینئررہنما نے نام رازرکھنے کی شرط پرکہا کہ سعودیہ مالی معاملات کوحربہ بناکر استعمال کرسکتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس بے تحاشاپیسہ ہے اوروہ کچھ بھی خریدسکتے ہیں۔ یہاںیہ امرقابل ذکرہے کہ طالبان نے ماضی میںکہا تھاکہ سعودی عرب ضامن بنے تووہ پاکستان سے امن معاہدہ کرسکتے ہیں۔ ایک سرکاری افسر نے کہاکہ خطے میںسعودی عرب کے اپنے بھی مفادات ہیں۔ یہ واضح نہیںکہ اس معاملے میںوہ اپناکردار اداکرنا چاہے گایا نہیں۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل(ر) طلعت حسین کاکہنا ہے کہ سعودی عرب خلیج کے علاقے سے طالبان کوملنے والے فنڈزروک کران پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
Load Next Story