احسان اللہ احسان کے فرارمیں ملوث فوجیوں کیخلاف کارروائی کی جاچکی ہے ترجمان پاک فوج

فی الوقت علم نہیں ہے کہ احسان اللہ احسان کہاں ہے، لیکن اس کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں، ترجمان پاک فوج

احسان اللہ احسان کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں بھی جاری ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے رکن اور سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے پاکستانی فوج کی تحویل سے فرار ہونے کے ذمہ دار فوجیوں کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے آفس میں غیرملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ چند برس قبل کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رکن اور سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے پاکستانی فوج کی تحویل سے فرار ہونے کے ذمہ دار فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہو جانا ایک بہت سنگین معاملہ تھا اور اس پر مکمل تحقیقات کے بعد اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی، احسان اللہ احسان کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں بھی جاری ہیں، لیکن فی الوقت علم نہیں ہے کہ احسان اللہ احسان کہاں ہے۔

گزشتہ دنوں تحریک طالبان کے سابق ترجمان کی جانب سے نوبل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی کو ٹوئٹر پر دھمکی کے بارے میں ایک سوال پر فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'ان کی معلومات کے مطابق جس ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملالہ کو دھمکی دی گئی وہ ایک جعلی اکاؤنٹ تھا۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھاکہ مسنگ پرسنز کے معاملے پر بننے والے کمیشن نے بہت پیش رفت کی ہے، اس کمیشن کے پاس 6000 سے زائد افراد کے گمشدہ ہونے کے مقدمات تھے، جن میں سے 4000 حل کیے جا چکے ہیں، مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔


میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ گزشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے کیچ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کے قتل سے تعلق کی بنا پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا، یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں لیکن ان کی مزید تفصیل نہیں دے سکتے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ وزیرستان اور دیگر علاقوں میں منظم شدت پسند تنظمیوں کو تو بہت عرصہ پہلے ختم کر دیا گیا تھا اور اب ان میں اس علاقے میں بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن کچھ عرصے سے ان علاقوں میں ایک بار پھر تشدد کے اکا دکا واقعات رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چند بچے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف بہت جارحانہ کارروائیاں شروع کی ہیں، آپ جب بھی شدت پسندوں کا جارحانہ انداز میں پیچھا کرتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ آتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ردعمل پر سیکیورٹی فورسز کا بھی نقصان ہوتا ہے، اب اس علاقے میں کوئی منظم گروہ باقی نہیں رہا، چند چھوٹے موٹے شدت پسند مختلف ناموں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، جن کا جلد ہی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جارہی ہے، بھارت پاکستان مخالف شدت پسندوں کی مدد کر رہا ہے، ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت ایسی شدت پسند تنظیموں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے دے رہا ہے بلکہ نئی ٹیکنالوجی بھی متعارف کرارہا ہے، جس کا مقصد ان دہشت گردوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے، اور اس کا علم افغان انٹیلی جنس کو بھی ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن چاہتا ہے، قیام امن کے سلسلے میں پاکستان نے اخلاص کے ساتھ ہر ممکن کوشش کر لی ہے، اس بات کی گواہی اب تو افغان رہنما بھی دے رہے ہیں، افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اور مذاکرات آگے کیسے بڑھیں گے اور کس فریق کو کیا کرنا ہے، یہ سب افغانستان کے عوام اور حکومت کے کرنے کے کام ہیں، ہمارا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے افغانستان میں دیر پا امن کا قیام۔
Load Next Story