حوالہ و ہنڈی کا منظم کاروبار دہشت گردی کے نیٹ ورک کا معاون بن گیا
بے نامی اکائونٹس سے34 ارب روپے پشاور اورکوئٹہ منتقل ہوئے،بینکس ومنی ایکسچینج کمپنیاں رقم کے مالکان سے مکمل لاعلم ہیں۔
FAISALABAD:
فاٹا اوربلوچستان میں سرگرم دہشت گردتنظیموں کو بینکنگ چینل کے ذریعے فنڈزکی فراہمی کی جارہی ہے،ملک کی نامور منی ایکس چینج کمپنیاں بینک افسران کی ملی بھگت سے ہرماہ اربوں روپے پشاور اورکوئٹہ کے بے نامی اکائونٹس میں منتقل کررہی ہیں۔
منی اورلانڈرنگ اورٹیررسٹ فنانسنگ کے سدباب کیلیے بنایاجانے والا ادارہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اوردیگر متعلقہ ادارے اپنی ناک کے نیچے ہونے والے حوالہ اور ہنڈی کے غیرقانونی کاروبارسے مکمل طورپربے خبر ہیں،ایف آئی اے نے چندماہ کے دوران کئی ارب روپے حوالہ اورہنڈی کے ذریعے کوئٹہ اورپشاورمنتقل کیے جانے کے ثبوت حاصل کرلیے ہیں۔تفصیلات کے مطابق ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کی جانے والی اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے حقائق نے بڑے پیمانے پرحوالہ اور ہنڈی کے کاروباراوراس کے اہم کرداروں کارازطشت از بام کردیاہے،تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ حوالہ اور ہنڈی کے منظم کاروبارکے ذریعے دہشت گردتنظیموںکوفنڈزکی فراہمی کے بھی اہم شواہدسامنے آئے ہیںاور قومی امکان ہے کہ اگرتحقیقاتی ادارے ہرماہ پشاور،کوئٹہ اوربعض اوقات آزاد کشمیرمیں کھلوائے گئے بے نامی اکائونٹس کے ذریعے رقم وصول کرنے والے افرادکاکھوج لگالیں توان رقوم کے ذریعے کی جانے والی دہشتگرد کارروائیوں کابھی پتہ لگایاجاسکے۔
تحقیقاتی افسران نے ہوشرباحقائق سامنے آنے کے بعدحوالہ اورہنڈی کے وسیع اور منظم کاروبارکے خلاف تمام ترتوانائیوںکے ساتھ تحقیقات شروع کرنے کافیصلہ کیا ہے، تاحال ایف آئی اے حکام مختلف نجی بینکوں سے ایک ارب روپے سے زائدپشاور اورکوئٹہ کے بینک اکائونٹس میں منتقل کرنے کے شواہد ملنے کے بعداینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت9مقدمات درج کرچکے ہیں اوران الزامات میں نجی بینکوں کے درجنوں افسران کوگرفتار کیاجاچکاہے،ملک کی ایک نامور منی ایکس چینج کمپنی کے بے نامی اکائونٹس کے ذریعے چند ماہ کے دوران34 ارب روپے پشاور اورکوئٹہ منتقل کیے گئے اورحیران کن امر یہ ہے کہ بینکوں اورمنی ایکس چینج کمپنیاں ان رقم کے مالکان اورمنتقل کیے جانے والے افرادسے مکمل طور پر لاعلم ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے اب تک پشاور اورکوئٹہ کے نجی بینکوں میں کھولے گئے درجنوں بے نامی اکائونٹس منجمندکردیے گئے ہیںاور ان اکائونٹس کے مالکان کوتحریری طور پر نوٹس بھی جاری کیے جاچکے ہیں تاہم اکائونٹس کھلوانے کیلیے فراہم کیے جانے والے تمام افراد اور ان کے رہائشی پتے جعلی ثابت ہوچکے ہیں، جس کے بعدایف آئی اے نے ممکنہ طور پر ان رقوم کو دہشت گردی کے نیٹ ورک کو فراہمی کے خطوط پرتحقیقات کا آغاز کردیاہے، ایف آئی اے حکام کا کہناہے کہ اس ساری صورتحال میں تشویشناک امریہ ہے کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کاقیام اسی مقصد کیلیے کیاگیاتھاکہ کسی بھی مشکوک بینک ٹرانزیکشن کی جانچ پڑتال کے بعداسے قانون نافذکرنے والے اداروں کو ریفر کرناتھاتاکہ منی لانڈرنگ اورٹیررسٹ فنانسنگ کاسدباب کیاجاسکے تاہم گزشتہ کئی سالوں سے جاری بینکنگ چینل کے ذریعے کھلے عام جاری حوالہ اورہنڈی کے منظم نیٹ ورک سے متعلق نہ صرف ایف ایم یولاعلم رہابلکہ تمام نجی بینکوں کے ریگولیٹرکے طور پراسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی اس غیرقانونی کاروبار کے خلاف کوئی موثرکارروائی کرنے سے قاصررہاہے،ایف آئی اے کی جانب سے اس سلسلے میں نہ صرف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے بلکہ حوالہ اور ہنڈی کی فوری روک تھام کیلیے متعلقہ اداروں سے بھی رجوع کرلیا گیا ہے۔
فاٹا اوربلوچستان میں سرگرم دہشت گردتنظیموں کو بینکنگ چینل کے ذریعے فنڈزکی فراہمی کی جارہی ہے،ملک کی نامور منی ایکس چینج کمپنیاں بینک افسران کی ملی بھگت سے ہرماہ اربوں روپے پشاور اورکوئٹہ کے بے نامی اکائونٹس میں منتقل کررہی ہیں۔
منی اورلانڈرنگ اورٹیررسٹ فنانسنگ کے سدباب کیلیے بنایاجانے والا ادارہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اوردیگر متعلقہ ادارے اپنی ناک کے نیچے ہونے والے حوالہ اور ہنڈی کے غیرقانونی کاروبارسے مکمل طورپربے خبر ہیں،ایف آئی اے نے چندماہ کے دوران کئی ارب روپے حوالہ اورہنڈی کے ذریعے کوئٹہ اورپشاورمنتقل کیے جانے کے ثبوت حاصل کرلیے ہیں۔تفصیلات کے مطابق ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کی جانے والی اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے حقائق نے بڑے پیمانے پرحوالہ اور ہنڈی کے کاروباراوراس کے اہم کرداروں کارازطشت از بام کردیاہے،تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ حوالہ اور ہنڈی کے منظم کاروبارکے ذریعے دہشت گردتنظیموںکوفنڈزکی فراہمی کے بھی اہم شواہدسامنے آئے ہیںاور قومی امکان ہے کہ اگرتحقیقاتی ادارے ہرماہ پشاور،کوئٹہ اوربعض اوقات آزاد کشمیرمیں کھلوائے گئے بے نامی اکائونٹس کے ذریعے رقم وصول کرنے والے افرادکاکھوج لگالیں توان رقوم کے ذریعے کی جانے والی دہشتگرد کارروائیوں کابھی پتہ لگایاجاسکے۔
تحقیقاتی افسران نے ہوشرباحقائق سامنے آنے کے بعدحوالہ اورہنڈی کے وسیع اور منظم کاروبارکے خلاف تمام ترتوانائیوںکے ساتھ تحقیقات شروع کرنے کافیصلہ کیا ہے، تاحال ایف آئی اے حکام مختلف نجی بینکوں سے ایک ارب روپے سے زائدپشاور اورکوئٹہ کے بینک اکائونٹس میں منتقل کرنے کے شواہد ملنے کے بعداینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت9مقدمات درج کرچکے ہیں اوران الزامات میں نجی بینکوں کے درجنوں افسران کوگرفتار کیاجاچکاہے،ملک کی ایک نامور منی ایکس چینج کمپنی کے بے نامی اکائونٹس کے ذریعے چند ماہ کے دوران34 ارب روپے پشاور اورکوئٹہ منتقل کیے گئے اورحیران کن امر یہ ہے کہ بینکوں اورمنی ایکس چینج کمپنیاں ان رقم کے مالکان اورمنتقل کیے جانے والے افرادسے مکمل طور پر لاعلم ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے اب تک پشاور اورکوئٹہ کے نجی بینکوں میں کھولے گئے درجنوں بے نامی اکائونٹس منجمندکردیے گئے ہیںاور ان اکائونٹس کے مالکان کوتحریری طور پر نوٹس بھی جاری کیے جاچکے ہیں تاہم اکائونٹس کھلوانے کیلیے فراہم کیے جانے والے تمام افراد اور ان کے رہائشی پتے جعلی ثابت ہوچکے ہیں، جس کے بعدایف آئی اے نے ممکنہ طور پر ان رقوم کو دہشت گردی کے نیٹ ورک کو فراہمی کے خطوط پرتحقیقات کا آغاز کردیاہے، ایف آئی اے حکام کا کہناہے کہ اس ساری صورتحال میں تشویشناک امریہ ہے کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کاقیام اسی مقصد کیلیے کیاگیاتھاکہ کسی بھی مشکوک بینک ٹرانزیکشن کی جانچ پڑتال کے بعداسے قانون نافذکرنے والے اداروں کو ریفر کرناتھاتاکہ منی لانڈرنگ اورٹیررسٹ فنانسنگ کاسدباب کیاجاسکے تاہم گزشتہ کئی سالوں سے جاری بینکنگ چینل کے ذریعے کھلے عام جاری حوالہ اورہنڈی کے منظم نیٹ ورک سے متعلق نہ صرف ایف ایم یولاعلم رہابلکہ تمام نجی بینکوں کے ریگولیٹرکے طور پراسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی اس غیرقانونی کاروبار کے خلاف کوئی موثرکارروائی کرنے سے قاصررہاہے،ایف آئی اے کی جانب سے اس سلسلے میں نہ صرف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے بلکہ حوالہ اور ہنڈی کی فوری روک تھام کیلیے متعلقہ اداروں سے بھی رجوع کرلیا گیا ہے۔