وفاقی وزرا کی جج کے خلاف پریس کانفرنس وزیراعظم عمران خان سے بیان حلفی طلب
پشاور ہائی کورٹ کا فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم
ہائی کورٹ نے پرویزمشرف کو پھانسی کی سزا دینے پروفاقی وزراء کی پریس کانفرنس پرتوہین عدالت کی درخواست پر وزیراعظم عمران خان سے بیان حلفی طلب کرلیا۔
جسٹس روح الامین اورجسٹس سید عتیق شاہ پرمشتمل پشاورہائی کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے سنگین غداری کیس میں سابق صدرپرویز مشرف کو پھانسی کی سزا دینے پر وفاقی وزراء کی خصوصی عدالت کے جج کے خلاف پریس کانفرنس پر توہین عدالت کی درخواست پرسماعت کی۔
دوران سماعت وزیر اعظم کے مشیربرائے داخلہ امور شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل انور منصورعدالت میں پیش ہوئے۔ شہزاد اکبر نے عدالت کے روبرو غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے جو ہوا اس پر معافی چاہتے ہیں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔
انور منصور نے بھی عدالت کے روبرو غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پتہ نہیں مجھے کیو فریق بنایا گیا، جو کچھ ہوا اس پرمعاوفی چاہتے ہیں۔
جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اور پارلیمنٹ سپریم ادارے ہیں اس کا احترام سب پر لازم ہے، کسی کے خلاف کوئی فیصلہ آئے تو جذبات میں نہیں آنا چاہیے، آپ اس وقت ایک ذمہ دار عہدے پر فائز تھے، آپ ان کو روک سکتے تھے شائد اسی وجہ سے آپ کو فریق بنایا گیا ہے، کوئی عام ملزم اگر اس طرح کرے تو ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں اس کو ہم برداشت کرتے ہیں، اگر بڑے عہدے پر بیٹھے لوگ اس طرح کرتے ہیں تو اچھی بات نہیں ہے۔
جسٹس سید عتیق شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل نے انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس میں اس فیصلے کا حوالہ دیا۔ ایک طرف آپ اس فیصلے کو اچھا قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل عزیز الدین کاکاخیل ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس میں عدالت نے ان کو سزا دی تھی۔ انہیں بھی توہین عدالت کی ہے ان کو بھی سخت سزا دی جائے۔
عدالت نے شہزاد اکبر اور انور منصور کو حکم دیا کہ وہ اپنا بیان حلفی جمع کریں پھر ہم استثنیٰ دیں گے، وزیراعظم بھی اپنا بیان حلفی جمع کریں، عدالت نے وفاقی وزیر فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
توہین عدالت درخواست کا پس منظر
17 دسمبر 2019 کو سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے انھیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سزائے موت سے قبل اگر پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور تین روز تک وہاں لٹکایا جائے۔
عدالتی فیصلے پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پرویز کانفرنس کی تھی۔ فروغ نسیم نے جسٹس وقار سیٹھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جج صاحب نے اس طرح کا فیصلہ دے کر خود کو ذہنی طور پر غیر مستحکم ثابت کردیا ہے لہٰذا سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جسٹس وقار کو فی الفور کام کرنے سے روک دیا جائے جبکہ عدالت عظمٰی کے سینیئر ججز سے درخواست ہے کہ انہیں کسی بھی قسم کا انتظامی اور عدالتی کام نہ دیا جائے۔
شہزاد اکبر نے اسی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'خصوصی عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا، فیصلے میں عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی گئیں، فیصلے کے پیرا 66 پر شدید تحفظات ہیں، یہ پیرا پوری دنیا میں شرم کا باعث بن رہا ہے، وفاقی حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل بھی کرنے جارہے ہیں۔
جسٹس روح الامین اورجسٹس سید عتیق شاہ پرمشتمل پشاورہائی کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے سنگین غداری کیس میں سابق صدرپرویز مشرف کو پھانسی کی سزا دینے پر وفاقی وزراء کی خصوصی عدالت کے جج کے خلاف پریس کانفرنس پر توہین عدالت کی درخواست پرسماعت کی۔
دوران سماعت وزیر اعظم کے مشیربرائے داخلہ امور شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل انور منصورعدالت میں پیش ہوئے۔ شہزاد اکبر نے عدالت کے روبرو غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے جو ہوا اس پر معافی چاہتے ہیں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔
انور منصور نے بھی عدالت کے روبرو غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پتہ نہیں مجھے کیو فریق بنایا گیا، جو کچھ ہوا اس پرمعاوفی چاہتے ہیں۔
جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اور پارلیمنٹ سپریم ادارے ہیں اس کا احترام سب پر لازم ہے، کسی کے خلاف کوئی فیصلہ آئے تو جذبات میں نہیں آنا چاہیے، آپ اس وقت ایک ذمہ دار عہدے پر فائز تھے، آپ ان کو روک سکتے تھے شائد اسی وجہ سے آپ کو فریق بنایا گیا ہے، کوئی عام ملزم اگر اس طرح کرے تو ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں اس کو ہم برداشت کرتے ہیں، اگر بڑے عہدے پر بیٹھے لوگ اس طرح کرتے ہیں تو اچھی بات نہیں ہے۔
جسٹس سید عتیق شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل نے انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس میں اس فیصلے کا حوالہ دیا۔ ایک طرف آپ اس فیصلے کو اچھا قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل عزیز الدین کاکاخیل ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس میں عدالت نے ان کو سزا دی تھی۔ انہیں بھی توہین عدالت کی ہے ان کو بھی سخت سزا دی جائے۔
عدالت نے شہزاد اکبر اور انور منصور کو حکم دیا کہ وہ اپنا بیان حلفی جمع کریں پھر ہم استثنیٰ دیں گے، وزیراعظم بھی اپنا بیان حلفی جمع کریں، عدالت نے وفاقی وزیر فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
توہین عدالت درخواست کا پس منظر
17 دسمبر 2019 کو سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے انھیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سزائے موت سے قبل اگر پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور تین روز تک وہاں لٹکایا جائے۔
عدالتی فیصلے پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پرویز کانفرنس کی تھی۔ فروغ نسیم نے جسٹس وقار سیٹھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جج صاحب نے اس طرح کا فیصلہ دے کر خود کو ذہنی طور پر غیر مستحکم ثابت کردیا ہے لہٰذا سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جسٹس وقار کو فی الفور کام کرنے سے روک دیا جائے جبکہ عدالت عظمٰی کے سینیئر ججز سے درخواست ہے کہ انہیں کسی بھی قسم کا انتظامی اور عدالتی کام نہ دیا جائے۔
شہزاد اکبر نے اسی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'خصوصی عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا، فیصلے میں عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی گئیں، فیصلے کے پیرا 66 پر شدید تحفظات ہیں، یہ پیرا پوری دنیا میں شرم کا باعث بن رہا ہے، وفاقی حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل بھی کرنے جارہے ہیں۔