ہسپانوی سامراج دو سوسال قتل عام کرتا رہا

حملہ آور اور قابضین کتنے خونخوار اور درندے تھے کہ لاکھوں انسانوں کا برسوں بلکہ صدیوں قتل کرتے رہے اور زندہ جلاتے رہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

ارجنٹینا ''ان کا سلطنت'' کا سابقہ خطہ تھا۔ بعدازاں ہسپانوی حملہ آوروں نے مختلف مقامی قوموں، برادریوں اور قبیلوں کو یکجا کرکے ارجنٹینا کو اپنی نوآبادی بنایا۔ بعد میں تسلسل کے ساتھ مقامی آبادی کا قتل عام کرتے رہے۔ آخر کار یہاں کی مقامی آبادی صرف ایک فیصد رہ گئی تھی۔

ہسپانوی حکمرانوں نے یہاں کی آبادی کی نسل کو بدلنے کے لیے ان کی خواتین اور لڑکیوں سے ریپ کرکے 26 فیصد ہسپانوی نسل کے لوگوں میں تبدیل کردیا۔ آج کل ارجنٹینا امریکی سرزمین پر ایک یورپی ملک بن گیا ہے ۔ اب ہسپانوی کے علاوہ دیگر یورپی مہاجرین بشمول اٹالین، جرمن اور فرنچ وغیرہ آباد ہیں۔ یہ اس وقت ارجنیٹنا کی کل آبادی کے 92 فیصد ہیں۔ 1816 میں ارجنٹینا نے ہسپانیہ سے خودمختاری حاصل کرنے کے بعد تقریباً ساری مقامی آبادی کو نیست و نابود کردیا۔

1870 تک ملک کے بڑے رقبے پر مقامی لوگوں کا کنٹرول تھا۔ وہ چور، بدتہذیب، بے رحم اور خونخوار کہلاتے تھے۔ 1832 میں آخر کار جوان مینوئل ڈی روزاز، بیسوریس آئرس کے گورنر نے نسل کشی کے لیے منصوبہ بنایا جس کا نام ''ریگستان پر فتح''رکھا گیا۔ انھوں نے رینکوئل، میسپوچے، پوایلچی، سیلک نام، ٹیہولچے، پے ہونچیں اور دیگر قوموں کا قتل عام کیا۔ مقامی آبادی کا قتل کرنے کے بعد ہسپانیہ، اٹلی اور دیگر علاقوں سے لوگوں کو لایا گیا۔

47 سال بعد 1879 میں دوسرا ''ریگستان کی فتح'' کے نام سے حملہ کیا گیا۔ اس کی ذمے داری جنرل لیوآرجنٹینو روکا جوکہ جنگ کے وزیر تھے وہ بعد میں 1880 میں ارجنٹینا کے صدر بن گئے۔ روکا کی فوج جدید اسلحے سے لیس تھی جو مقامی باسیوں کو بھاگنے پر سزائیں دیتی تھی۔ ان سزاؤں میں جلا کر راکھ کرنا بھی شامل تھا۔ 18 اکتوبر 1884 میں دو سرداروں کی کمانڈ میں 3000 مقامی آبادی نے اپنی بقا کے لیے جنگ لڑی مگر ان کی شکست ہوئی۔ شکست خوردہ آبادی کو ''لاپامپا'' صوبے میں ''کولوینا ایمیسلومیٹر'' جوکہ جیل کی طرح تھا، وہاں منتقل کردیا گیا۔

آج کل ارجنٹینا دنیا کا چوتھا بڑا اسپینش زبان بولنے والا ملک ہے۔ اسپین، میکسیکو اور کولمبیا کے بعد ارجنٹینا کا نمبر آتا ہے۔ 2012 کی قومی مردم شماری کے مطابق 40.28 ملین آبادی، کل 41.28 آبادی اسپینش بولتی تھی۔ قدیم آبادی ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک پر بوجھ ہیں۔ انھیں دشمن گردانا جاتا ہے، عجمی بھی کہلاتے ہیں، ناپسندیدہ، بدتہذیب اور گندے لوگ کہلاتے ہیں، یورپین کہتے ہیں کہ انھیں ایک لمحہ بھی نہیں رہنا چاہیے۔

برازیل پنڈوراما پام درختوں کا ملک کہلاتا تھا۔ جس کا اب نام برازیل ہے۔ 1500 ہسپانوی کرائے کے بحری قزاق پیڈروالوارس کیبرال کی رہنمائی میں پرتگال کے بادشاہ مینوئل 1 کی جانب سے 10,000 کروزاڈوز (رائج السکہ) جوکہ 35 کلو سونے کے برابر تھا کے عوض کیبرال 13 بحری جہازوں کے ساتھ 22 اپریل 1500 میں پہنچا۔ فتح کے بعد ٹوم ڈی سوزا، برازیل کا پہلا گورنر جنرل مقرر کیا گیا جو 1549 میں بڑے بحری بیڑے کے ساتھ پہنچا تھا، اس کے علاوہ چار سو ڈگری ڈاڈوس اور چھ سو جیسٹیز (جوکہ اخلاقی مجرم تھے) بھی ان کے ہمراہ پہنچے۔ اس وقت برازیل میں 200 مقامی قومیں اور قبیلے موجود تھے۔


بڑے گروہوں میں ٹیوپیس، گوارانیس، گیس اور اراواکس تھے۔ اس وقت وہاں کی آبادی 5 ملین کی تھی جوکہ تقریباً پرتگال کی آبادی کے برابر تھی۔ جب برازیل فتح ہوا اس وقت پرتگال کی بادشاہت انتہائی بحران کا شکار تھی۔ برازیل پر قبضے کے بعد یہاں کی مقامی آبادی کو کیتھولک مسیح میں تبدیل کیا گیا۔ پرتگیز حکمرانوں نے بتدریج مقامی آبادی کو غلام بنایا اور قتل کیا۔ آخر کار انھیں مریضوں کا استعمال شدہ کمبل فراہم کیا جس میں چیچک اور خسرہ کے جراثیم موجود تھے جس کے نتیجے میں 50 لاکھ کی مقامی آبادی 3 لاکھ تک رہ گئی۔

اس آبادی کے خلاف کو پر کرنے کے لیے افریقہ سے غلام خریدے گئے۔ انھیں 18 جون 1452 میں یہ اختیار دیا گیا کہ وہ مزید زیادہ سے زیادہ خطے پر قبضہ کرسکیں۔ یہ عمل کرنے کے لیے اسپین اور پرتگال نے انھیں گرانٹ دی تھی۔ بعدازاں وہاں ساراسین (عرب مسلم) اور پیگانس اور دیگر ایسے دہریوں کو لایا گیا جو مسیح کے دشمن گردانے جاتے تھے بعد میں پاپل بل کی رہنمائی میں پرتگیز نے 30 لاکھ افریقی غلاموں کو اغوا کیا اور برازیل میں گنے کی کاشت کرنے کے لیے بلامعاوضہ جوت دیا۔

ان سے رات کو بھی کام لیا جاتا تھا، انھیں معقول غذا دی جاتی تھی اور نہ آرام۔ یوپ لیو Extended X کے کہنے پر 1531 کی بجائے 1536 میں برازیل سے انھیں نکالا گیا۔ بعد میں برازیل میں جتنے غیر کیتھولک یورپی آباد ہوئے تھے ان سب کو سزائے موت سنائی گئی۔ مشکوک لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا، ان کی تفتیش کی گئی اور سزائیں دی گئیں۔

یوروگوئے کی فتح کی شروعات میں اسپین کا بادشاہ جوان ڈیاس ڈی سولیس (1470-1516) غالباً ایک پرتگیز ڈاکو تھا۔ سولیس 1515 میں اسپین سے 70 جنگجو یوروگوئے دریا اور پیرانا دریا سے داخل ہوئے۔ اس علاقے میں چیروا مقامی قبیلہ رہتا تھا۔ یہ لوگ جنوبی برازیل اور ارجنٹینا کے باسی تھے۔ چیرواؤں نے سولیس اور اس کی فوج کو قتل کردیا۔ سولیس نے اپنے سالے کو بچانے کے لیے جہاز سے اسپین بھیج دیا۔

جوان ڈیاز ڈی سولیس کے مرنے کے بعد دوسرے ہسپانوی مداخلت کاروں نے یہ پالیسی ترتیب دی کہ چیروا جو سب سے زیادہ نوآبادیات بنانے کے خلاف تھے انھیں نکالا جائے۔ وہ دو سو سال تک ہسپانوی مداخلت کارچیروا کو قتل کرتے اور شکار کرتے رہے اپریل 11، 1531 کو ''برنابے ریویرا'' یوروگئے کا پہلا صدر تھا، ایک موقع پر دھوکہ دہی کرکے برنابے ری ویرا نے چیروا عوام کو ایک جگہ دعوت دے کر اکٹھا کیا اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام بنایا۔

چار ماہ کے وقفے کے بعد چیروا عوام کو دوسرے گروہ کے ذریعے ری ویرا کی سرپرستی میں ''ماٹاؤجو'' میں ذبح کیا گیا۔ یہ تھے وہ عظیم لوگ جنھوں نے قبضہ گیری کے خلاف آخری دم تک لڑے اور جان کی قربانی دی جب کہ حملہ آور اور قابضین کتنے خونخوار اور درندے تھے کہ لاکھوں انسانوں کا برسوں بلکہ صدیوں قتل کرتے رہے اور زندہ جلاتے رہے۔
Load Next Story