تعلیمی صورتحال اور ہماری ذمے داری
تعلیم کی بدولت بچے معاشرت، تہذیب، مذہب، قانون اور رہن سہن کے طریقے سیکھتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے غریب ترین ممالک میں زیادہ تر بچے ان پڑھ ہیں، جس کی بڑی وجہ تعلیم تک کم رسائی اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ ہیں۔
دنیا کے تقریباً 25 کروڑ بچے پڑھنا لکھنا نہیں جانتے جن میں سے بیشترکا تعلق افریقہ، جنوبی اور مغربی ایشیا اور دیگر غریب ترین ممالک سے ہے، ان ممالک میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان، 75 فیصد تعلیمی عملے کے غیر تربیت یافتہ ہونے اور بچوں کی تعلیم تک رسائی کے مواقع کم ہونے کی وجوہ اور ناخواندگی کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔
ان ممالک کی حکومتیں اس شعبہ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پا رہیں اور ان کا تعلیمی بجٹ بھی غیر مناسب ہے، 25 کروڑ بچوں کی بنیادی تعلیم کے اخراجات 129 ارب ڈالر ہیں جو عالمی پرائمری تعلیمی کا صرف 10 فیصد ہیں۔ جاپان میں تعلیمی شعبے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوزکی جاتی ہے جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ26 لاکھ 37 ہزار 942 بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اسکول جانے کی عمر کے باوجود ملک بھرکے 44 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں، ملک میں پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری لیول کے 5 کروڑ11 لاکھ 72 ہزار 486 بچے ہیں جن میں سے 2 کروڑ85 لاکھ 34 ہزار 544 بچے اسکول جاتے ہیں، پرائمری لیول میں 2 کروڑ21 لاکھ 28 ہزار 952 بچے ہیں جن میں سے 1 کروڑ71 لاکھ 2 ہزار 984 بچے اسکولوں میں ہیں، ان میں سے 27 فیصد کے حساب سے 50لاکھ 25 ہزار 968 بچے اسکول نہیں جاتے ہیں، مڈل لیول کے 1 کروڑ 25 لاکھ 48 ہزار 713 بچے ہیں جن میں سے 61 لاکھ 47 ہزار 869 بچے اسکول جاتے ہیں لیکن 64 لاکھ 844 بچے اسکول سے باہر ہیں جن کی تعداد 61 فیصد ہے۔
ہائی لیول کے 82 لاکھ 24 ہزار 318 بچے ملک میں ہیں جن میں سے 33 لاکھ 44 ہزار 585 بچے اسکول جاتے ہیں تاہم 59.3 فیصد کے حساب سے 48 لاکھ 79 ہزار 733 بچے اسکول نہیں جاتے، سیکنڈری لیول کے 82 لاکھ 70 ہزار 503 بچے ہیں جن میں سے 19 لاکھ 39 ہزار 106 بچے اسکول جاتے ہیں تاہم 6.7 فیصد کے حساب سے 63 لاکھ 31 ہزار 397 بچے اسکول سے باہر ہیں۔
تعلیم کی بدولت بچے معاشرت، تہذیب، مذہب، قانون اور رہن سہن کے طریقے سیکھتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا مذہب اسلام ہر مرد و عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیتا ہے، اگر ہم سیرت نبوی کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے نبیؐ نے اپنے معلم ہونے پر فخر محسوس کیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اسکولوں میں بچوں کو سزا دے کر پڑھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مار بچوں کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح پودے کے لیے پانی۔ مار کے ڈر سے بچہ تعلیم حاصل کر تو لے گا مگر اس میں اس کی مرضی شامل نہیں ہوگی، وہ مجبوراً تعلیم حاصل کر رہا ہوگا اور ایسی تعلیم اس کی شخصیت کو نکھارنے میں کوئی مدد نہ دے گی۔
ہمارے اساتذہ کرام بچوں کو مختلف طرح کی سزائیں، اس لیے دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے تعلیمی و انتظامی مقاصد حاصل کرسکیں۔ ان سزاؤں میں بچوں کو مرغا بنانا ، مارنا ، برا بھلا کہنا، دوسروں کے سامنے غصہ کرنا اور دھمکانا وغیرہ شامل ہیں۔ سزا ہمارا وہ رویہ ہوتا ہے جس سے بچے کو تکلیف یا شرمندگی ہوتی ہے اور جس کی بنا پر وہ مجبور ہوکر خاطر خواہ نتائج دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سزا دینے سے بچے سدھر جائیں گے؟
بچوں کو سزا دینے کا معمول ختم کرنے کے لیے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا سزا سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوتے ہیں؟ کیا سزاؤں کے علاوہ بچوں کو نظم و ضبط سکھانے کے لیے کوئی اوربہتر طریقہ ممکن ہے؟ اگر سزا دینے سے خاطرخواہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں تو سزاؤں کو بار بار دہرانا کیوں پڑتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں میں بچوں کی بہتر تربیت کے لیے سزا کے بجائے دیگر مثبت طریقے استعمال کیے جانے چاہیئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ استاد کو قابل ہونا چاہیے۔ استاد کے دل میں بچوں کے لیے شفقت اور محبت ہونی چاہیے۔ استاد کو اچھے کردارکا عملی نمونہ ہونا چاہیے۔ بچوں کو اسکولوں میں کھیل کود اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے چاہیئیں۔ بچوں کو ان کے منفی رویوں کے نتائج سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ بچوں کی طرف سے پرنسپل اور اساتذہ کا رویہ مثبت ہونا چاہیے۔ پڑھائی لکھائی میں کمزور بچوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
بچوں کے مثبت رویوں اور اچھی کارکردگی پر بلاتفریق حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ رہنمائی اور مشاورت کے ذریعے بچوں کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ اسکولوں میں بچوں کی تربیت کے لیے مثبت طریقوں کو معمول بنانے میں اسکول، اساتذہ، والدین اور محکمہ تعلیم کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایسی صورت میں بچے اسکول لگن کے ساتھ آئیں گے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لیں تاکہ وہ بچوں کے مسائل کو جان سکیں۔ والدین کو بچے کے کسی مسئلے کی صورت میں پرنسپل یا اسکول کے اندر قائم کردہ کمیٹی سے آ کر بات چیت کرنے سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ اساتذہ سے رہنمائی لے کر اور اپنے بچوں کی کارکردگی جان کر ان کے مسئلے حل کرنے چاہئیں۔ بچوں کو ذمے دار بنانے کے لیے ان کو بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا، دوسرے بچوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنا اور پڑھائی پر پورا دھیان دینے کی ترغیب دینی چاہیے۔
بچوں کو مار پیٹ کر ڈسپلن سکھانے یا پڑھائی میں اچھے نتائج حاصل کرنے کی کوشش ایک لاحاصل عمل ہوگا۔ والدین ہر وقت بچے کو تعلیمی سرگرمیوں پر فوکس نہ کروائیں بلکہ بچوں کو کچھ وقت کھیل کود کے لیے بھی دینا چاہیے ورنہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج ہوکر رہ جائیں گے۔ علاوہ ازیں ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھنا بھی والدین کی اہم ذمے داری ہے، اگر والدین بچوں کو اعتماد میں نہیں لیں گے اور ان کے مسائل کا حل پیار سے نہیں کریں گے تو نتیجتاً بچے والدین سے ڈریں گے اور ان سے سچ چھپائیں گے، اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولیں گے جس سے بچے مزید الجھتے چلے جائیں گے۔
محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ اسکولوں میں سزاؤں پر پابندی کے حوالے سے مکمل پالیسی مرتب کرے اور ہر اسکول میں اس کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ اسکولوں میں سزاؤں کے واقعات کی صورت میں مناسب ایکشن لینا چاہیے۔ اسکولوں میں جسمانی اور ذہنی سزاؤں کے خاتمے سے معیار تعلیم بلند ہوگا اور کوئی بچہ اسکول سے بھاگے گا نہیں۔ بچے خوشی سے اسکول آئیں گے اور دلچسپی سے پڑھیں گے۔ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔
دنیا کے تقریباً 25 کروڑ بچے پڑھنا لکھنا نہیں جانتے جن میں سے بیشترکا تعلق افریقہ، جنوبی اور مغربی ایشیا اور دیگر غریب ترین ممالک سے ہے، ان ممالک میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان، 75 فیصد تعلیمی عملے کے غیر تربیت یافتہ ہونے اور بچوں کی تعلیم تک رسائی کے مواقع کم ہونے کی وجوہ اور ناخواندگی کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔
ان ممالک کی حکومتیں اس شعبہ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پا رہیں اور ان کا تعلیمی بجٹ بھی غیر مناسب ہے، 25 کروڑ بچوں کی بنیادی تعلیم کے اخراجات 129 ارب ڈالر ہیں جو عالمی پرائمری تعلیمی کا صرف 10 فیصد ہیں۔ جاپان میں تعلیمی شعبے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوزکی جاتی ہے جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ26 لاکھ 37 ہزار 942 بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اسکول جانے کی عمر کے باوجود ملک بھرکے 44 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں، ملک میں پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری لیول کے 5 کروڑ11 لاکھ 72 ہزار 486 بچے ہیں جن میں سے 2 کروڑ85 لاکھ 34 ہزار 544 بچے اسکول جاتے ہیں، پرائمری لیول میں 2 کروڑ21 لاکھ 28 ہزار 952 بچے ہیں جن میں سے 1 کروڑ71 لاکھ 2 ہزار 984 بچے اسکولوں میں ہیں، ان میں سے 27 فیصد کے حساب سے 50لاکھ 25 ہزار 968 بچے اسکول نہیں جاتے ہیں، مڈل لیول کے 1 کروڑ 25 لاکھ 48 ہزار 713 بچے ہیں جن میں سے 61 لاکھ 47 ہزار 869 بچے اسکول جاتے ہیں لیکن 64 لاکھ 844 بچے اسکول سے باہر ہیں جن کی تعداد 61 فیصد ہے۔
ہائی لیول کے 82 لاکھ 24 ہزار 318 بچے ملک میں ہیں جن میں سے 33 لاکھ 44 ہزار 585 بچے اسکول جاتے ہیں تاہم 59.3 فیصد کے حساب سے 48 لاکھ 79 ہزار 733 بچے اسکول نہیں جاتے، سیکنڈری لیول کے 82 لاکھ 70 ہزار 503 بچے ہیں جن میں سے 19 لاکھ 39 ہزار 106 بچے اسکول جاتے ہیں تاہم 6.7 فیصد کے حساب سے 63 لاکھ 31 ہزار 397 بچے اسکول سے باہر ہیں۔
تعلیم کی بدولت بچے معاشرت، تہذیب، مذہب، قانون اور رہن سہن کے طریقے سیکھتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا مذہب اسلام ہر مرد و عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیتا ہے، اگر ہم سیرت نبوی کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے نبیؐ نے اپنے معلم ہونے پر فخر محسوس کیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اسکولوں میں بچوں کو سزا دے کر پڑھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مار بچوں کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح پودے کے لیے پانی۔ مار کے ڈر سے بچہ تعلیم حاصل کر تو لے گا مگر اس میں اس کی مرضی شامل نہیں ہوگی، وہ مجبوراً تعلیم حاصل کر رہا ہوگا اور ایسی تعلیم اس کی شخصیت کو نکھارنے میں کوئی مدد نہ دے گی۔
ہمارے اساتذہ کرام بچوں کو مختلف طرح کی سزائیں، اس لیے دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے تعلیمی و انتظامی مقاصد حاصل کرسکیں۔ ان سزاؤں میں بچوں کو مرغا بنانا ، مارنا ، برا بھلا کہنا، دوسروں کے سامنے غصہ کرنا اور دھمکانا وغیرہ شامل ہیں۔ سزا ہمارا وہ رویہ ہوتا ہے جس سے بچے کو تکلیف یا شرمندگی ہوتی ہے اور جس کی بنا پر وہ مجبور ہوکر خاطر خواہ نتائج دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سزا دینے سے بچے سدھر جائیں گے؟
بچوں کو سزا دینے کا معمول ختم کرنے کے لیے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا سزا سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوتے ہیں؟ کیا سزاؤں کے علاوہ بچوں کو نظم و ضبط سکھانے کے لیے کوئی اوربہتر طریقہ ممکن ہے؟ اگر سزا دینے سے خاطرخواہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں تو سزاؤں کو بار بار دہرانا کیوں پڑتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں میں بچوں کی بہتر تربیت کے لیے سزا کے بجائے دیگر مثبت طریقے استعمال کیے جانے چاہیئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ استاد کو قابل ہونا چاہیے۔ استاد کے دل میں بچوں کے لیے شفقت اور محبت ہونی چاہیے۔ استاد کو اچھے کردارکا عملی نمونہ ہونا چاہیے۔ بچوں کو اسکولوں میں کھیل کود اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے چاہیئیں۔ بچوں کو ان کے منفی رویوں کے نتائج سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ بچوں کی طرف سے پرنسپل اور اساتذہ کا رویہ مثبت ہونا چاہیے۔ پڑھائی لکھائی میں کمزور بچوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
بچوں کے مثبت رویوں اور اچھی کارکردگی پر بلاتفریق حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ رہنمائی اور مشاورت کے ذریعے بچوں کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ اسکولوں میں بچوں کی تربیت کے لیے مثبت طریقوں کو معمول بنانے میں اسکول، اساتذہ، والدین اور محکمہ تعلیم کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایسی صورت میں بچے اسکول لگن کے ساتھ آئیں گے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لیں تاکہ وہ بچوں کے مسائل کو جان سکیں۔ والدین کو بچے کے کسی مسئلے کی صورت میں پرنسپل یا اسکول کے اندر قائم کردہ کمیٹی سے آ کر بات چیت کرنے سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ اساتذہ سے رہنمائی لے کر اور اپنے بچوں کی کارکردگی جان کر ان کے مسئلے حل کرنے چاہئیں۔ بچوں کو ذمے دار بنانے کے لیے ان کو بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا، دوسرے بچوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنا اور پڑھائی پر پورا دھیان دینے کی ترغیب دینی چاہیے۔
بچوں کو مار پیٹ کر ڈسپلن سکھانے یا پڑھائی میں اچھے نتائج حاصل کرنے کی کوشش ایک لاحاصل عمل ہوگا۔ والدین ہر وقت بچے کو تعلیمی سرگرمیوں پر فوکس نہ کروائیں بلکہ بچوں کو کچھ وقت کھیل کود کے لیے بھی دینا چاہیے ورنہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج ہوکر رہ جائیں گے۔ علاوہ ازیں ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھنا بھی والدین کی اہم ذمے داری ہے، اگر والدین بچوں کو اعتماد میں نہیں لیں گے اور ان کے مسائل کا حل پیار سے نہیں کریں گے تو نتیجتاً بچے والدین سے ڈریں گے اور ان سے سچ چھپائیں گے، اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولیں گے جس سے بچے مزید الجھتے چلے جائیں گے۔
محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ اسکولوں میں سزاؤں پر پابندی کے حوالے سے مکمل پالیسی مرتب کرے اور ہر اسکول میں اس کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ اسکولوں میں سزاؤں کے واقعات کی صورت میں مناسب ایکشن لینا چاہیے۔ اسکولوں میں جسمانی اور ذہنی سزاؤں کے خاتمے سے معیار تعلیم بلند ہوگا اور کوئی بچہ اسکول سے بھاگے گا نہیں۔ بچے خوشی سے اسکول آئیں گے اور دلچسپی سے پڑھیں گے۔ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔