جمہوری بریک تھرو ایک صائب فیصلہ
ملکی انتخابات کی تاریخ ایک داستان ہوشربا کے طور پر قوم کے حافظے میں گردش کرتی رہتی ہے
سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے مطابق خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدارتی ریفرنس کے ذریعے مانگی گئی رائے پر اپنی رائے دی۔
اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 4 ایک کی اکثریت سے رائے دی اور چیف جسٹس نے رائے پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رائے سے اختلاف کیا۔
ملکی انتخابات کی تاریخ ایک داستان ہوشربا کے طور پر قوم کے حافظہ میں گردش کرتی رہتی ہے، اسی طرح جمہوری تجربے، صائب عدالتی فیصلے بھی قوم کے جمہوری احساسات اور عوام میں موجود جمہوری عمل، ووٹ کی پرچی اور بیلٹ و باکس کی کشمکش کو بھی جمہوریت کے عوامی نظام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کل ہوں گے، عدالتی رائے کے آنے کے بعد جذبات کے گلیشیئر پگھل چکے، قانونی جنگ کا نتیجہ بھی سامنے آگیا، چنانچہ جوش پر اب ہوش کے غالب آنے کا وقت ہے، عدالتی فیصلہ کے بعد انتخابی عمل میں کوئی دشواری، ابہام یا الجھن ہرگز نہیں، جمہوری تقاضے بدل گئے، سیاست اس جگہ آکر رک گئی جہاں قانون کو فیصلہ دینا تھا، اسی فیصلہ کی روشنی میں سینیٹ کے انتخابات منعقدہ ہونگے، جمہوریت کو اپنا راستہ ملے گا، سینیٹرز منتخب ہونگے اور جو منتخب ہونگے وہ ملک وقوم کی ترقی و عوام کی فلاح وبہبود کو جمہوریت کا انعام ہی سمجھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ شفاف انتخابات کرائے اور کرپشن سے الیکشن کو محفوظ بنائے۔ عدالتی رائے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے جب کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔ اکثریتی رائے میں عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے، الیکشن کمیشن 218 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ 1967 میں نیاز احمد کیس میں فیصلہ دے چکی ہے۔
واضح رہے کہ 25 فروری کو سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں اور ان انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے رائے سنائے جانے کے موقع پر اٹارنی جنرل پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹسز جاری کیے تھے، مزید یہ کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، اراکین الیکشن کمیشن اور دیگر کو بھی نوٹس جاری ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ صدر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر پہلی سماعت 4 جنوری 2021 کو ہوئی تھی، جس کے بعد فروری سے اس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئی تھیں۔
دستور پاکستان کا آرٹیکل 226 کہتا ہے کہ 'دستور کے تابع تمام انتخابات ماسوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے'۔ اسی معاملے پر صدر مملکت عارف علوی نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے اس سوال کا جواب چاہا تھا کہ آیا آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ رائے دہی کی شرط سینیٹ انتخابات پر لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔ صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔ صدر مملکت نے 6 فروری 2021 کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے اور اسے جاری کر دیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا تھا اور اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا تھا۔ بہرکیف قوم اس صائب عدالتی فیصلہ پر مسرور ودلشاد ہے، ملک بھر میں تین مارچ کو سینیٹ کے انتخابات شیڈول کے مطابق ہونگے۔
ایوان بالا کے انتخابات ملکی جمہوریت کے استحکام کی سمت ایک اہم قدم ہے، وزیر اعظم عمران خان نے حکمت عملی تیار کرلی۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں اراکین کے مسائل سنے، ان کے خدشات دور کیے اور خود ہی میدان سنبھال لیا، اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، اراکین سینیٹ سمیت امیدواروں کا سیاسی جوڑ تور عروج پر ہے، اعصابی جنگ شروع ہوچکی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جمہوری تقاضہ تو یہی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کو ہر قسم کے بلیم گیم سے پاک رکھیں، انتخابی عمل میں جس بڑے پیمانہ پر پیسے کے استعمال کی داستانیں بیان کی گئیں اس پر یقین کرنے کے لیے بھی بڑے دل گردے کی ضرورت ہے تاہم ملکی سیاست میں انتخابات میں دھاندلی، جعلسازی اور دھونس دھمکی کا روایتی عمل دخل رہا ہے، عام انتخابات عموماً بوگس ووٹنگ کے نام سے نامعتبر ٹھہرائے جاتے رہے، اگرچہ ماہرین انیس سو ستر کے عام انتخابات کو فیئر قرار دیتے ہیں مگر قوم بہر حال اس سنگ میل پر نظر مرکوز رکھے تب بات بنے گی جب بیلٹ باکس میں ووٹ بغیر کسی فراڈ، جعلسازی، چوری اور غیر منصفانہ طور پر ڈالا گیا ہو، وہ جمہوریت کی روح کے خلاف پولنگ بوتھ میں رائے دینے کے مترادف ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ترغیب، آلودگی، جعلسازی اور امیدواروں کی خرید وفروخت سے پاک ہوں، اوپن بیلٹ اور خفیہ رائے دہی کی جو کشمکش عوام نے دیکھی وہ ہر جمہوریت پسند کو رنجیدہ اور ملول کرنے کے لیے کافی ہے، ارباب اختیار جمہوریت پر لگنے والے سبھی داغ دھو سکتے ہیں، وہ انتخابی عمل کو شفافیت عطا کرسکتے ہیں لیکن جو کالا دھن الیکشن جیتنے کے لیے پانی کی طرح بہایا جائے وہ الزام جمہوریت کی رسوائی کا باعث بن جاتا ہے۔
بہرحال سینیٹ الیکشن کے حوالے سے حکومت اور پی ڈی ایم کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، مختلف رہنماؤں نے آپس میں ملاقاتیں کی ہیں جب کہ سابق صدر آصف زرداری بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اسلام آباد اور فرحت اللہ بابر کے پی سے ٹیکنوکریٹ سیٹ پر مشترکہ امیدوار ہیں، پہلے مرحلے کے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم نے خیبر سے پشین تک حکومت کو ہرایا ہے، امید رکھتے ہیں پی ڈی ایم کے امیدوار اچھے نتائج دیں گے۔ ہم سینیٹ الیکشن میں حکومت کو سرپرائز دیں گے۔
پی ڈی ایم نے حکومت کو ہر میدان میں چیلنج کر رکھا ہے، عوام حکومت نہیں پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں، سینیٹ الیکشن ثابت کریگا ارکان پارلیمنٹ حکومت نہیں پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں، سینیٹ الیکشن میں پی ڈی ایم امیدوار سرپرائزنگ نتائج دینگے۔ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہونگے۔ ہم کے پی میں جماعت اسلامی سمیت ساری اپوزیشن کو متحد کرچکے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی مفاہمت کا نتیجہ ن لیگ کی زیادہ سیٹوں کی صورت میں نکلا ہے، ایم کیو ایم کراچی کو لاوارث چھوڑنے پر حکومت سے ناراض ہے۔ ایم کیو ایم کو چاہیے کہ پی ڈی ایم میں شامل ہو کر کراچی کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملکی سیاست نے انگڑائیاں لینا شروع کر دی ہیں، حکومتی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، پوری قوم کے لیے خوشخبری ہے کہ پی ڈی ایم مرکز اور چاروں صوبوں میں متحد ہے، پی ڈی ایم اتحاد سے مشترکہ طور پر سینیٹ الیکشن لڑ رہی ہے، انشاء اللہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ مخالفین کو امید تھی کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک دوسرے کے ووٹ توڑیں گی، ایسا نہیں ہوا اور بڑے نظم سے جماعتیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہمارے تین نوجوانوں کو شہید کیا گیا، جہاں امن اور معیشت نہیں ہو گی تو ایسے حکمرانوں کو ناکام تصور کیا جائے گا۔
ایسے حکمرانوں سے خلاصی قوم کی ملک کی بڑی خدمت ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوگا جس میں آیندہ کی حکمت عملی پھر طے کی جائے گی۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں سینیٹ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق مشاورت کی گئی۔ دریںاثناء سابق صدر آصف زرداری اسلام آباد پہنچ گئے، وہ دو مارچ کو اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں عشائیہ میں شرکت کرینگے اور سینیٹ الیکشن میں ووٹ ڈال کر واپس کراچی جائیں گے۔
اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 4 ایک کی اکثریت سے رائے دی اور چیف جسٹس نے رائے پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رائے سے اختلاف کیا۔
ملکی انتخابات کی تاریخ ایک داستان ہوشربا کے طور پر قوم کے حافظہ میں گردش کرتی رہتی ہے، اسی طرح جمہوری تجربے، صائب عدالتی فیصلے بھی قوم کے جمہوری احساسات اور عوام میں موجود جمہوری عمل، ووٹ کی پرچی اور بیلٹ و باکس کی کشمکش کو بھی جمہوریت کے عوامی نظام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کل ہوں گے، عدالتی رائے کے آنے کے بعد جذبات کے گلیشیئر پگھل چکے، قانونی جنگ کا نتیجہ بھی سامنے آگیا، چنانچہ جوش پر اب ہوش کے غالب آنے کا وقت ہے، عدالتی فیصلہ کے بعد انتخابی عمل میں کوئی دشواری، ابہام یا الجھن ہرگز نہیں، جمہوری تقاضے بدل گئے، سیاست اس جگہ آکر رک گئی جہاں قانون کو فیصلہ دینا تھا، اسی فیصلہ کی روشنی میں سینیٹ کے انتخابات منعقدہ ہونگے، جمہوریت کو اپنا راستہ ملے گا، سینیٹرز منتخب ہونگے اور جو منتخب ہونگے وہ ملک وقوم کی ترقی و عوام کی فلاح وبہبود کو جمہوریت کا انعام ہی سمجھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ شفاف انتخابات کرائے اور کرپشن سے الیکشن کو محفوظ بنائے۔ عدالتی رائے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے جب کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔ اکثریتی رائے میں عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے، الیکشن کمیشن 218 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ 1967 میں نیاز احمد کیس میں فیصلہ دے چکی ہے۔
واضح رہے کہ 25 فروری کو سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں اور ان انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے رائے سنائے جانے کے موقع پر اٹارنی جنرل پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹسز جاری کیے تھے، مزید یہ کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، اراکین الیکشن کمیشن اور دیگر کو بھی نوٹس جاری ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ صدر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر پہلی سماعت 4 جنوری 2021 کو ہوئی تھی، جس کے بعد فروری سے اس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئی تھیں۔
دستور پاکستان کا آرٹیکل 226 کہتا ہے کہ 'دستور کے تابع تمام انتخابات ماسوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے'۔ اسی معاملے پر صدر مملکت عارف علوی نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے اس سوال کا جواب چاہا تھا کہ آیا آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ رائے دہی کی شرط سینیٹ انتخابات پر لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔ صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔ صدر مملکت نے 6 فروری 2021 کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے اور اسے جاری کر دیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا تھا اور اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا تھا۔ بہرکیف قوم اس صائب عدالتی فیصلہ پر مسرور ودلشاد ہے، ملک بھر میں تین مارچ کو سینیٹ کے انتخابات شیڈول کے مطابق ہونگے۔
ایوان بالا کے انتخابات ملکی جمہوریت کے استحکام کی سمت ایک اہم قدم ہے، وزیر اعظم عمران خان نے حکمت عملی تیار کرلی۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں اراکین کے مسائل سنے، ان کے خدشات دور کیے اور خود ہی میدان سنبھال لیا، اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، اراکین سینیٹ سمیت امیدواروں کا سیاسی جوڑ تور عروج پر ہے، اعصابی جنگ شروع ہوچکی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جمہوری تقاضہ تو یہی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کو ہر قسم کے بلیم گیم سے پاک رکھیں، انتخابی عمل میں جس بڑے پیمانہ پر پیسے کے استعمال کی داستانیں بیان کی گئیں اس پر یقین کرنے کے لیے بھی بڑے دل گردے کی ضرورت ہے تاہم ملکی سیاست میں انتخابات میں دھاندلی، جعلسازی اور دھونس دھمکی کا روایتی عمل دخل رہا ہے، عام انتخابات عموماً بوگس ووٹنگ کے نام سے نامعتبر ٹھہرائے جاتے رہے، اگرچہ ماہرین انیس سو ستر کے عام انتخابات کو فیئر قرار دیتے ہیں مگر قوم بہر حال اس سنگ میل پر نظر مرکوز رکھے تب بات بنے گی جب بیلٹ باکس میں ووٹ بغیر کسی فراڈ، جعلسازی، چوری اور غیر منصفانہ طور پر ڈالا گیا ہو، وہ جمہوریت کی روح کے خلاف پولنگ بوتھ میں رائے دینے کے مترادف ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ترغیب، آلودگی، جعلسازی اور امیدواروں کی خرید وفروخت سے پاک ہوں، اوپن بیلٹ اور خفیہ رائے دہی کی جو کشمکش عوام نے دیکھی وہ ہر جمہوریت پسند کو رنجیدہ اور ملول کرنے کے لیے کافی ہے، ارباب اختیار جمہوریت پر لگنے والے سبھی داغ دھو سکتے ہیں، وہ انتخابی عمل کو شفافیت عطا کرسکتے ہیں لیکن جو کالا دھن الیکشن جیتنے کے لیے پانی کی طرح بہایا جائے وہ الزام جمہوریت کی رسوائی کا باعث بن جاتا ہے۔
بہرحال سینیٹ الیکشن کے حوالے سے حکومت اور پی ڈی ایم کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، مختلف رہنماؤں نے آپس میں ملاقاتیں کی ہیں جب کہ سابق صدر آصف زرداری بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اسلام آباد اور فرحت اللہ بابر کے پی سے ٹیکنوکریٹ سیٹ پر مشترکہ امیدوار ہیں، پہلے مرحلے کے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم نے خیبر سے پشین تک حکومت کو ہرایا ہے، امید رکھتے ہیں پی ڈی ایم کے امیدوار اچھے نتائج دیں گے۔ ہم سینیٹ الیکشن میں حکومت کو سرپرائز دیں گے۔
پی ڈی ایم نے حکومت کو ہر میدان میں چیلنج کر رکھا ہے، عوام حکومت نہیں پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں، سینیٹ الیکشن ثابت کریگا ارکان پارلیمنٹ حکومت نہیں پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں، سینیٹ الیکشن میں پی ڈی ایم امیدوار سرپرائزنگ نتائج دینگے۔ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہونگے۔ ہم کے پی میں جماعت اسلامی سمیت ساری اپوزیشن کو متحد کرچکے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی مفاہمت کا نتیجہ ن لیگ کی زیادہ سیٹوں کی صورت میں نکلا ہے، ایم کیو ایم کراچی کو لاوارث چھوڑنے پر حکومت سے ناراض ہے۔ ایم کیو ایم کو چاہیے کہ پی ڈی ایم میں شامل ہو کر کراچی کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملکی سیاست نے انگڑائیاں لینا شروع کر دی ہیں، حکومتی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، پوری قوم کے لیے خوشخبری ہے کہ پی ڈی ایم مرکز اور چاروں صوبوں میں متحد ہے، پی ڈی ایم اتحاد سے مشترکہ طور پر سینیٹ الیکشن لڑ رہی ہے، انشاء اللہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ مخالفین کو امید تھی کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک دوسرے کے ووٹ توڑیں گی، ایسا نہیں ہوا اور بڑے نظم سے جماعتیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہمارے تین نوجوانوں کو شہید کیا گیا، جہاں امن اور معیشت نہیں ہو گی تو ایسے حکمرانوں کو ناکام تصور کیا جائے گا۔
ایسے حکمرانوں سے خلاصی قوم کی ملک کی بڑی خدمت ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوگا جس میں آیندہ کی حکمت عملی پھر طے کی جائے گی۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں سینیٹ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق مشاورت کی گئی۔ دریںاثناء سابق صدر آصف زرداری اسلام آباد پہنچ گئے، وہ دو مارچ کو اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں عشائیہ میں شرکت کرینگے اور سینیٹ الیکشن میں ووٹ ڈال کر واپس کراچی جائیں گے۔