بنگلہ دیش انتخابات متنازع حیثیت اختیار کر گئے
بنگلہ دیش میں اتوار کو ہونے والے عام انتخابات میں حکمران عوامی لیگ ایک بار پھر کامیاب ہوگئی۔۔۔
بنگلہ دیش میں اتوار کو ہونے والے عام انتخابات میں حکمران عوامی لیگ ایک بار پھر کامیاب ہوگئی۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(بی این پی) جس کی سربراہ خالدہ ضیا ہیں سمیت 20اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ یوں ان انتخابات کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پولنگ شروع ہوتے ہی ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہو گیا' پولنگ اسٹیشنوں پر پٹرول بموں سے حملے کیے گئے جس سے دو سو کے قریب پولنگ اسٹیشن جل کر راکھ ہو گئے جب کہ پولیس کی مظاہرین پر فائرنگ سے 21 افراد ہلاک ہو گئے۔
حکمران جماعت کی سربراہ شیخ حسینہ واجد اور اپوزیشن جماعت بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا کے درمیان سیاسی میدان میں ایک عرصہ سے رسہ کشی چلی آ رہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کے بانی اور پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور خالدہ ضیا بنگلہ دیش کے سابق صدر جنرل ضیاء الرحمان کی بیوہ ہیں وہ خود بھی بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد بائیں بازو سے اور خالدہ ضیا دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل حکمران جماعت اقتدار چھوڑ دیتی تھی اور نگران حکومتوں کی نگرانی میں انتخابات منعقد ہوتے تھے لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے 2011ء میں اس سلسلے کا خاتمہ کر دیا۔ اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا نے شیخ حسینہ واجد سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حکومت چھوڑ دیں اور انتخابات نگران حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں مگر حسینہ واجدکی جانب سے یہ مطالبہ ماننے سے انکار پر خالدہ ضیاء نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور 29 دسمبر2013ء کو ڈھاکہ میں بڑے مارچ اور ملک گیر مظاہروں کی کال دے دی جس کے بعد کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے حکومت نے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کرنے کے علاوہ خالدہ ضیا کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا جو بدستور نظر بند ہیں۔ اپوزیشن نے الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے نتائج مسترد کر دیے ہیں' اس طرح یہ الیکشن متنازعہ ہو گئے ہیں۔ ڈھاکہ میں ووٹنگ کے لیے تمام اپیلوں اور تیاریوں کے باوجود سڑکیں بالکل سنسان رہیں اور پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جب کہ ٹرن آؤٹ بھی انتہائی کم رہا۔ انتخابی نتائج کا اعلان ہوتے ہی حکومت کے حامی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے' ہوائی فائرنگ کی اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔
شیخ حسینہ واجد نے اپنے مختصر پیغام میں عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے اس جیت کو ان کی فتح قرار دیا۔ اگرچہ شیخ حسینہ واجد نے الیکشن باآسانی جیت لیا ہے کیونکہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث 300 میں سے 153 نشستوں پر حکومتی اتحاد کے ارکان بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تھے جب کہ 147 نشستوں پر انتخابات ہوئے مگر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے باعث بنگلہ دیش میں امن و امان کے حالات خراب ہو گئے ہیں۔ پولیس فائرنگ اور ہنگاموں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہڑتالوں کے باعث ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جمہوریت کا اصول ہے کہ حکومت عام انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن کی رائے اور تجاویز کا احترام کرتی اور ہر اس اقدام سے گریز کرتی ہے جس سے انتخابات کی شفافیت پر انگلی اٹھے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو مگر شیخ حسینہ واجد نے ایک بار پھر انتخابات جیتنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے، انھوں نے سب سے پہلے حکومت چھوڑنے اور نگران حکومت تشکیل دینے سے واضح انکار کر دیا جب اپوزیشن نے احتجاج کیا تو انھوں نے اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا کو گھر پر نظر بند کر دیا اور سڑکوں پر ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کر دیا۔ مگر اپوزیشن جماعتوں نے شیخ حسینہ واجد کے ہر ہتھکنڈے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کی نگرانی میں عام انتخابات کے انعقاد سے انکار کر دیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حسینہ واجد جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر ہر صورت اور ہر قیمت پر الیکشن جیتنے کا ارادہ کر چکی تھیں خواہ ملک میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا' یورپی یونین اور دولت مشترکہ نے حکومت بنگلہ دیش کی درخواست کے باوجود الیکشن مانیٹر کرنے کے لیے مبصرین بھیجنے سے معذرت کر لی تھی۔ اب بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ حکمران جماعت کے ارکان انتخابات جیتنے کی خوشی میں جشن منا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے اور اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کے خلاف عام ہڑتال کی نئی کال دے دی ہے۔ یہی صورتحال جاری رہی تو اپوزیشن کی جانب سے ہنگامے اور ہڑتالیں روز مرہ کا معمول بن جائیں گی اس صورت حال کے تناظر میں بنگلہ دیش میں آنے والے دن زیادہ پر امن اور خوشگوار دکھائی نہیں دے رہے ۔ جب تک خالدہ ضیا نظر بند رہتی ہیں اپوزیشن کے احتجاج کے باعث حکومت کے لیے پریشان کن حالات پیدا ہوتے رہیں گے۔ خالدہ ضیا انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہیں اور حکومت نئے انتخابات کرانے پر تیار دکھائی نہیں دیتی۔ اگر بنگلہ دیش میں یہی مخدوش حالات رہے تو ممکن ہے کہ فوج آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جائے اور شیخ حسینہ واجد کو حکومت چھوڑ کر نگران حکومت کے لیے راضی ہونا پڑے کیونکہ منصفانہ الیکشن ہی ملک میں امن و امان بحال کرنے کی واحد صورت ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے اقتدار کے لیے ملک کا امن داؤ پر لگا دیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہے اور وہ ان قوتوں کو دبا رہی ہیں جو پاکستان کی حامی ہیں یا رہی ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو 1971ء میں پاکستان کی حمایت کرنے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے عدالت کے ذریعے پھانسی کے تختہ پر چڑھا کر پاکستان سے اپنی نفرت کا کھلم کھلا اظہار کر دیا ہے۔ دوسری جانب خالدہ ضیا کو مذہبی قوتوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات مضبوط کرنے کی خواہاں ہیں۔ اس طرح بنگلہ دیش میں دو طاقتور عوامی اور سیاسی قوتیں آپس میں ٹکرا چکی ہیں۔ متنازعہ الیکشن کے بعد حکومت مظاہرین کو دبانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنا رہی ہے جس سے بنگلہ دیش کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
حکمران جماعت کی سربراہ شیخ حسینہ واجد اور اپوزیشن جماعت بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا کے درمیان سیاسی میدان میں ایک عرصہ سے رسہ کشی چلی آ رہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کے بانی اور پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور خالدہ ضیا بنگلہ دیش کے سابق صدر جنرل ضیاء الرحمان کی بیوہ ہیں وہ خود بھی بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد بائیں بازو سے اور خالدہ ضیا دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل حکمران جماعت اقتدار چھوڑ دیتی تھی اور نگران حکومتوں کی نگرانی میں انتخابات منعقد ہوتے تھے لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے 2011ء میں اس سلسلے کا خاتمہ کر دیا۔ اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا نے شیخ حسینہ واجد سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حکومت چھوڑ دیں اور انتخابات نگران حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں مگر حسینہ واجدکی جانب سے یہ مطالبہ ماننے سے انکار پر خالدہ ضیاء نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور 29 دسمبر2013ء کو ڈھاکہ میں بڑے مارچ اور ملک گیر مظاہروں کی کال دے دی جس کے بعد کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے حکومت نے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کرنے کے علاوہ خالدہ ضیا کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا جو بدستور نظر بند ہیں۔ اپوزیشن نے الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے نتائج مسترد کر دیے ہیں' اس طرح یہ الیکشن متنازعہ ہو گئے ہیں۔ ڈھاکہ میں ووٹنگ کے لیے تمام اپیلوں اور تیاریوں کے باوجود سڑکیں بالکل سنسان رہیں اور پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جب کہ ٹرن آؤٹ بھی انتہائی کم رہا۔ انتخابی نتائج کا اعلان ہوتے ہی حکومت کے حامی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے' ہوائی فائرنگ کی اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔
شیخ حسینہ واجد نے اپنے مختصر پیغام میں عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے اس جیت کو ان کی فتح قرار دیا۔ اگرچہ شیخ حسینہ واجد نے الیکشن باآسانی جیت لیا ہے کیونکہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث 300 میں سے 153 نشستوں پر حکومتی اتحاد کے ارکان بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تھے جب کہ 147 نشستوں پر انتخابات ہوئے مگر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے باعث بنگلہ دیش میں امن و امان کے حالات خراب ہو گئے ہیں۔ پولیس فائرنگ اور ہنگاموں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہڑتالوں کے باعث ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جمہوریت کا اصول ہے کہ حکومت عام انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن کی رائے اور تجاویز کا احترام کرتی اور ہر اس اقدام سے گریز کرتی ہے جس سے انتخابات کی شفافیت پر انگلی اٹھے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو مگر شیخ حسینہ واجد نے ایک بار پھر انتخابات جیتنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے، انھوں نے سب سے پہلے حکومت چھوڑنے اور نگران حکومت تشکیل دینے سے واضح انکار کر دیا جب اپوزیشن نے احتجاج کیا تو انھوں نے اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا کو گھر پر نظر بند کر دیا اور سڑکوں پر ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کر دیا۔ مگر اپوزیشن جماعتوں نے شیخ حسینہ واجد کے ہر ہتھکنڈے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کی نگرانی میں عام انتخابات کے انعقاد سے انکار کر دیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حسینہ واجد جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر ہر صورت اور ہر قیمت پر الیکشن جیتنے کا ارادہ کر چکی تھیں خواہ ملک میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا' یورپی یونین اور دولت مشترکہ نے حکومت بنگلہ دیش کی درخواست کے باوجود الیکشن مانیٹر کرنے کے لیے مبصرین بھیجنے سے معذرت کر لی تھی۔ اب بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ حکمران جماعت کے ارکان انتخابات جیتنے کی خوشی میں جشن منا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے اور اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کے خلاف عام ہڑتال کی نئی کال دے دی ہے۔ یہی صورتحال جاری رہی تو اپوزیشن کی جانب سے ہنگامے اور ہڑتالیں روز مرہ کا معمول بن جائیں گی اس صورت حال کے تناظر میں بنگلہ دیش میں آنے والے دن زیادہ پر امن اور خوشگوار دکھائی نہیں دے رہے ۔ جب تک خالدہ ضیا نظر بند رہتی ہیں اپوزیشن کے احتجاج کے باعث حکومت کے لیے پریشان کن حالات پیدا ہوتے رہیں گے۔ خالدہ ضیا انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہیں اور حکومت نئے انتخابات کرانے پر تیار دکھائی نہیں دیتی۔ اگر بنگلہ دیش میں یہی مخدوش حالات رہے تو ممکن ہے کہ فوج آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جائے اور شیخ حسینہ واجد کو حکومت چھوڑ کر نگران حکومت کے لیے راضی ہونا پڑے کیونکہ منصفانہ الیکشن ہی ملک میں امن و امان بحال کرنے کی واحد صورت ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے اقتدار کے لیے ملک کا امن داؤ پر لگا دیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہے اور وہ ان قوتوں کو دبا رہی ہیں جو پاکستان کی حامی ہیں یا رہی ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو 1971ء میں پاکستان کی حمایت کرنے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے عدالت کے ذریعے پھانسی کے تختہ پر چڑھا کر پاکستان سے اپنی نفرت کا کھلم کھلا اظہار کر دیا ہے۔ دوسری جانب خالدہ ضیا کو مذہبی قوتوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات مضبوط کرنے کی خواہاں ہیں۔ اس طرح بنگلہ دیش میں دو طاقتور عوامی اور سیاسی قوتیں آپس میں ٹکرا چکی ہیں۔ متنازعہ الیکشن کے بعد حکومت مظاہرین کو دبانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنا رہی ہے جس سے بنگلہ دیش کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔