زرعی تحقیق ملک کی ضرورت ہے
شہروں کو ترقی ضرور دیں لیکن مہربانی کر کے دیہات پر بھی توجہ دیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
PUTRAJAYA:
بھارتی پنجاب کی زرعی زمینیں پاکستانی پنجاب سے کمتر زرخیز ہیں لیکن بھارتی پنجاب پورے بھارت کا پیٹ بھرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے بھارتی پنجاب کے کسان اپنی حکومت کی کاشتکار مخالف پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور دہلی میں سراپا احتجاج ہیں لیکن ابھی تک ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔بھارتی پنجاب کے ساتھ پاکستانی پنجاب کی سرحد ملتی ہے لیکن پاکستانی پنجاب بھارت کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان کا پیٹ بھی نہیں بھر سکتا۔
وجہ یہ نہیں کہ پاکستانی پنجاب کے کاشتکاروںنے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کر لیا ہے، وجہ صرف یہ سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت ابھی تک ایسی زرعی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہی ہے جن کے ذریعے زرعی پیداوار کو اس حد تک بڑھایا جاتا کہ صرف صوبہ پنجاب ہی پاکستان کے عوام کا پیٹ بھر لیتا اور کاشتکار کی مالی حالت بھی بہتر ہو جاتی۔
پاکستان جو دنیا کے سب سے بڑے زرعی نظام کا حامل ہے، اس کی نہروں کی حالت یہ ہے کہ ان کی باقاعدگی سے صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نہری پانی ضرورت کے مطابق زمینوں تک پہنچ نہیں پاتا، اس پر نہر اور ریونیو کے محکمے مستزاد ہیں جو قدم قدم پر کاشتکار اور مالک زمین کا راستہ روکتے ہیں۔
اگر کسی غریب کسان نے فصل کی کاشت کے لیے کسی حکومتی محکمے سے یا زرعی بینک سے زمین کی ضمانت فراہم کر کے قرض حاصل کر لیا ہے اور فصل اچھی نہ ہونے کی وجہ سے اس قرض کی واپسی مشکل ہو گئی ہے تو بینک کا عملہ ریونیو کے محکمے کے ساتھ مل کر کاشتکار کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ میں نے خود کئی بار اس عمل کا مشاہدہ کیا ہے کہ ریونیو والے کاشتکار کو حراست میں لے کر حوالات میں بند کر دیتے ہیں۔ قرض چکانے کا حل غریب کسان کے پاس صرف یہی رہ جاتا ہے کہ جس زمین کو ضمانت کے طور پر اس نے گروی رکھا ہوتا ہے اس کو وہ اونے پونے داموں فروخت کر کے اپنی جان بخشی کراتا ہے۔
میں جو اپنے بزرگوں کی طرح ایک غیر حاضر زمیندار ہوں، میرا فرض صرف یہ ہے کہ ورثے میں ملی زمین کو آباد رکھوں، اس غیر حاضری کی وجہ سے میری آمدنی زمین کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور میری یہ موروثی زمینیں ٹھیکیداروں اور مزارعوں کے حوالے چلی آرہی ہیں جو اس کی پیداواری صلاحیت سے زیادہ فصلیں حاصل کرنے کی کوشش میں زمین کی زرخیزی کو ختم کر دیتے ہیں حالانکہ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے اور اس سے زیادہ پیداوارحاصل کرنے کے لیے فصل کے درمیانی مدت میں زمین کو خالی رکھا جاتا تھا لیکن آج کے زمانے میں انواع واقسام کی کھادوں سے فصل کو وقتی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن فصل در فصل کاشت زمین کی زرخیزی کو ختم کر دیتی ہے۔دوسری طرف جن علاقوں میں زراعت کا مکمل انحصار ٹیوب ویل کے پانی کا مرہون منت ہے۔
ان علاقوں کے کسانوں نے ٹیوب ویل کے کم پانی کے باوجود زیادہ فصلیں کاشت کرنا اپنا معمول بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی مزید گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اوروہ وقت قریب ہے جب زمین سے پانی نکالنا انسانی وسائل سے باہر ہو جائے گااور جو زمینیں ٹیوب ویل کے پانی سے کاشت کی جارہی ہیں وہ بنجر ہو جائیں گی۔
مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ زرعی ترقی کے لیے نیک نیتی سے کام نہیں کیا گیا اور کاشتکار ابھی تک روائتی طریقہ کار اپنا کر فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے صرف اشتہاروں کے ذریعے زبانی جمع خرچ کیا جاتارہا ہے ۔ پنجاب میں ایک قدیم زرعی یونیورسٹی بھی قائم ہے ،کئی زرعی تحقیق کے ادارے بھی ہیں لیکن ان اداروں کے لیے جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، وہ عملے کی تنخواہوں اور دفتری ضروریات بمشکل پوری کرتے ہیں ۔
پاکستان میں اگر زرعی تحقیق کے لیے کبھی کام ہوا ہے تو وہ ایوب خان کے زمانے میں ہوا تھا جنھوں نے فیصل آباد میں اپنے نام سے ایوب انسٹی ٹیوٹ کے نام سے زرعی تحقیقات کا ایک شاندار ادارہ قائم کیا تھا کئی فصلوں کے بارے میں الگ الگ ادارے قائم کیے اور زرعی عملے کا ایک ہجوم ملک بھر میں پھیلا دیا۔ اس طرح ہم آج زراعت میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ زیادہ تر ایوب خان کی حکومت کا عطیہ ہے ۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ صدراتی دور حکومت میں ان کو ایک کاشتکار گورنر مل گیا تھا چنانچہ ایوب خان اور ملک امیر محمد خان نے مل کر ملک میں زرعی انقلاب برپا کر دیا۔ افسوس کہ ان کے بعد آنے والے حکمران اس زرعی انقلاب میں اضافے تو کیا کرتے انھوں نے اس کو لاوارث چھوڑ دیا۔ فوجی اور صنعتکاروں کی حکومتوں نے زرعی شعبے کو نظر انداز کیا جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔
آج پنجاب میں ایک ایسے وزیر اعلیٰ حکمران ہیں جن کا تعلق ایک پسماندہ زرعی علاقے سے ہے۔ سنا ہے کہ وہ زرعی ترقی میں دلچسپی لے رہے ہیں جس کے لیے انھوں نے کاشتکاروں کے لیے مختلف سہولتوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے زرعی ریسرچ کے اداروں کی اصلاح کریں یعنی ان سے کام شروع کرائیں تا کہ جدید طریقے اپنا کر پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے ۔بلاشبہ تحقیق ایک لمبا کام ہوتا ہے جس کا پھل آنے والی نسلوں کو ملتا ہے، اس لیے وہ صبرو تحمل کے ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے ریسرچ کے اداروں کو سرگرم کریں، ان کے لیے مناسب فنڈز منظور کریں ۔کوئی فصل ہو یا پھل اس پر کسی انقلابی ریسرچ کا نتیجہ کئی برسوں کے بعد برآمد ہوتا ہے، اس لیے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے ۔
شہروں کو ترقی ضرور دیں لیکن مہربانی کر کے دیہات پر بھی توجہ دیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جن کو صرف کھایا جاتا ہے کھلایا نہیں جاتا ۔ میرے گاؤں میں کھیت سے منڈی تک اجناس کی ترسیل کے لیے ایک سڑک اس کی سب سے بڑی نشانی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے تعمیر کے لیے کسی کاشتکار دوست وزیر اعلیٰ کی منتظر ہے۔
بھارتی پنجاب کی زرعی زمینیں پاکستانی پنجاب سے کمتر زرخیز ہیں لیکن بھارتی پنجاب پورے بھارت کا پیٹ بھرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے بھارتی پنجاب کے کسان اپنی حکومت کی کاشتکار مخالف پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور دہلی میں سراپا احتجاج ہیں لیکن ابھی تک ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔بھارتی پنجاب کے ساتھ پاکستانی پنجاب کی سرحد ملتی ہے لیکن پاکستانی پنجاب بھارت کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان کا پیٹ بھی نہیں بھر سکتا۔
وجہ یہ نہیں کہ پاکستانی پنجاب کے کاشتکاروںنے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کر لیا ہے، وجہ صرف یہ سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت ابھی تک ایسی زرعی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہی ہے جن کے ذریعے زرعی پیداوار کو اس حد تک بڑھایا جاتا کہ صرف صوبہ پنجاب ہی پاکستان کے عوام کا پیٹ بھر لیتا اور کاشتکار کی مالی حالت بھی بہتر ہو جاتی۔
پاکستان جو دنیا کے سب سے بڑے زرعی نظام کا حامل ہے، اس کی نہروں کی حالت یہ ہے کہ ان کی باقاعدگی سے صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نہری پانی ضرورت کے مطابق زمینوں تک پہنچ نہیں پاتا، اس پر نہر اور ریونیو کے محکمے مستزاد ہیں جو قدم قدم پر کاشتکار اور مالک زمین کا راستہ روکتے ہیں۔
اگر کسی غریب کسان نے فصل کی کاشت کے لیے کسی حکومتی محکمے سے یا زرعی بینک سے زمین کی ضمانت فراہم کر کے قرض حاصل کر لیا ہے اور فصل اچھی نہ ہونے کی وجہ سے اس قرض کی واپسی مشکل ہو گئی ہے تو بینک کا عملہ ریونیو کے محکمے کے ساتھ مل کر کاشتکار کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ میں نے خود کئی بار اس عمل کا مشاہدہ کیا ہے کہ ریونیو والے کاشتکار کو حراست میں لے کر حوالات میں بند کر دیتے ہیں۔ قرض چکانے کا حل غریب کسان کے پاس صرف یہی رہ جاتا ہے کہ جس زمین کو ضمانت کے طور پر اس نے گروی رکھا ہوتا ہے اس کو وہ اونے پونے داموں فروخت کر کے اپنی جان بخشی کراتا ہے۔
میں جو اپنے بزرگوں کی طرح ایک غیر حاضر زمیندار ہوں، میرا فرض صرف یہ ہے کہ ورثے میں ملی زمین کو آباد رکھوں، اس غیر حاضری کی وجہ سے میری آمدنی زمین کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور میری یہ موروثی زمینیں ٹھیکیداروں اور مزارعوں کے حوالے چلی آرہی ہیں جو اس کی پیداواری صلاحیت سے زیادہ فصلیں حاصل کرنے کی کوشش میں زمین کی زرخیزی کو ختم کر دیتے ہیں حالانکہ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے اور اس سے زیادہ پیداوارحاصل کرنے کے لیے فصل کے درمیانی مدت میں زمین کو خالی رکھا جاتا تھا لیکن آج کے زمانے میں انواع واقسام کی کھادوں سے فصل کو وقتی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن فصل در فصل کاشت زمین کی زرخیزی کو ختم کر دیتی ہے۔دوسری طرف جن علاقوں میں زراعت کا مکمل انحصار ٹیوب ویل کے پانی کا مرہون منت ہے۔
ان علاقوں کے کسانوں نے ٹیوب ویل کے کم پانی کے باوجود زیادہ فصلیں کاشت کرنا اپنا معمول بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی مزید گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اوروہ وقت قریب ہے جب زمین سے پانی نکالنا انسانی وسائل سے باہر ہو جائے گااور جو زمینیں ٹیوب ویل کے پانی سے کاشت کی جارہی ہیں وہ بنجر ہو جائیں گی۔
مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ زرعی ترقی کے لیے نیک نیتی سے کام نہیں کیا گیا اور کاشتکار ابھی تک روائتی طریقہ کار اپنا کر فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے صرف اشتہاروں کے ذریعے زبانی جمع خرچ کیا جاتارہا ہے ۔ پنجاب میں ایک قدیم زرعی یونیورسٹی بھی قائم ہے ،کئی زرعی تحقیق کے ادارے بھی ہیں لیکن ان اداروں کے لیے جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، وہ عملے کی تنخواہوں اور دفتری ضروریات بمشکل پوری کرتے ہیں ۔
پاکستان میں اگر زرعی تحقیق کے لیے کبھی کام ہوا ہے تو وہ ایوب خان کے زمانے میں ہوا تھا جنھوں نے فیصل آباد میں اپنے نام سے ایوب انسٹی ٹیوٹ کے نام سے زرعی تحقیقات کا ایک شاندار ادارہ قائم کیا تھا کئی فصلوں کے بارے میں الگ الگ ادارے قائم کیے اور زرعی عملے کا ایک ہجوم ملک بھر میں پھیلا دیا۔ اس طرح ہم آج زراعت میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ زیادہ تر ایوب خان کی حکومت کا عطیہ ہے ۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ صدراتی دور حکومت میں ان کو ایک کاشتکار گورنر مل گیا تھا چنانچہ ایوب خان اور ملک امیر محمد خان نے مل کر ملک میں زرعی انقلاب برپا کر دیا۔ افسوس کہ ان کے بعد آنے والے حکمران اس زرعی انقلاب میں اضافے تو کیا کرتے انھوں نے اس کو لاوارث چھوڑ دیا۔ فوجی اور صنعتکاروں کی حکومتوں نے زرعی شعبے کو نظر انداز کیا جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔
آج پنجاب میں ایک ایسے وزیر اعلیٰ حکمران ہیں جن کا تعلق ایک پسماندہ زرعی علاقے سے ہے۔ سنا ہے کہ وہ زرعی ترقی میں دلچسپی لے رہے ہیں جس کے لیے انھوں نے کاشتکاروں کے لیے مختلف سہولتوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے زرعی ریسرچ کے اداروں کی اصلاح کریں یعنی ان سے کام شروع کرائیں تا کہ جدید طریقے اپنا کر پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے ۔بلاشبہ تحقیق ایک لمبا کام ہوتا ہے جس کا پھل آنے والی نسلوں کو ملتا ہے، اس لیے وہ صبرو تحمل کے ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے ریسرچ کے اداروں کو سرگرم کریں، ان کے لیے مناسب فنڈز منظور کریں ۔کوئی فصل ہو یا پھل اس پر کسی انقلابی ریسرچ کا نتیجہ کئی برسوں کے بعد برآمد ہوتا ہے، اس لیے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے ۔
شہروں کو ترقی ضرور دیں لیکن مہربانی کر کے دیہات پر بھی توجہ دیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جن کو صرف کھایا جاتا ہے کھلایا نہیں جاتا ۔ میرے گاؤں میں کھیت سے منڈی تک اجناس کی ترسیل کے لیے ایک سڑک اس کی سب سے بڑی نشانی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے تعمیر کے لیے کسی کاشتکار دوست وزیر اعلیٰ کی منتظر ہے۔