وقت دعا ہے
بنگالی خواہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، ان کا خمیر انحراف،احتجاج اور بغاوت سے اٹھا ہے۔
میری نگاہوں میں ڈھاکے کی سڑکیں ہیں، بلند آہنگ نعرے ہیں۔ ہم بنگلہ دیشی پرچم اٹھائے شہید مینار کی طرف رواں دواں ہیں۔ کیا جوش اور ولولہ ہے۔
بنگالی خواہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، ان کا خمیر انحراف،احتجاج اور بغاوت سے اٹھا ہے۔ یہ آج کی نہیں صدیوں پرانی روایت ہے۔ میں تاریخ میں زیادہ دور تک سفر نہیں کرتی۔ صرف تین ساڑھے تین صدیوں کے صفحوں کو پلٹتی ہوں۔ یہ وہی تھے جو 1856 میں اپنے سراج الدولہ کے لیے انگریز سے لڑ لیے تھے۔
مانا کہ سراج الدولہ کو شکست ہوئی تھی، کچھ اس کی اپنی غلطیاں اور بہت زیادہ غداروں کی ہوس اقتدار۔ لیکن کسی جنگ یا کسی تحریک میں شکست حرف آخر تو نہیں ہوتی۔ وہ لڑتے ہی رہے، بیسویں صدی آئی تو انھوں نے مسلم لیگ کا مقدمہ لڑا اور جیت گئے۔ ان کے اکثریتی ووٹ نہ ہوتے تو پاکستان کیسے وجود میں آتا۔ ہم ان کے شکر گزار ہونے کے بجائے پہلے دن سے ان پر حکمرانی کرنے لگے۔ہمیںاپنی بلند قامتی، اپنے چوڑے سینے اور اپنے اجلے رنگ پر غرور تھا۔
مشرقی بنگال کے لوگ منکسر المزاج اور سادہ لوح، وہ ہمارا بڑبولا پن اور ہماری نخوت برداشت کرتے رہے لیکن پھر وہ دن بھی آیا کہ جو مسجدوں کا شہر تھا اور جس کے نمازیوں کا خشوع خضوع اور گریہ دیکھنے کی چیز تھا، انھوں نے اپنے حق کی بات کی۔
محترمہ فاطمہ جناح کو سر آنکھوں پر بٹھایا، شیخ مجیب ان کے چرنوں میں بیٹھے لیکن جب انھیں یقین ہوگیا کہ ان کے ووٹوں سے بننے والے پاکستان میں انھیں ان کا حق نہیں مل سکتا تو انھوں نے انگلیاں ٹیڑھی کرلیں اور لاکھوں بے گناہ انسان خواہ وہ بنگلہ بولتے تھے یا اردو ان کاخون ناحق مشرقی بنگال کے بلند و پست پر بہہ گیا۔ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالے، ان کی سربراہی میں لڑنے والے ہزار ہا سپاہی ہندوستان میں جنگی قیدی بنے اور جب وہ لوٹ کر آئے تو ان کی زندگی بہ ظاہر ٹھیک رہی لیکن درحقیقت سر کے بل کھڑی ہوگئی۔
مشرقی بنگال، بنگلہ دیش بنا اور اب وہ بہت سے معاملات میں ہم سے آگے ہے لیکن ہم اپنے پیچھے کچھ ایسے جراثیم چھوڑ آئے ہیں جنھوں نے باضمیر بنگلہ دیشیوں کے لیے زندگی مشکل بنادی ہے۔ وہاں بھی جمہوریت کے پردے کے پیچھے آمریت کے نوکیلے دانت نظر آتے ہیں، وہاں بھی ہر وہ شخص غدار وطن ہے جو راج سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے سوال کرنے کی جرات کرلے یا اپنے حق کی طلب گاری کرے۔
بنگلہ دیش میں 2013 اور 2016 کے درمیان ان لوگوں پر نہایت متشددانہ حملے ہوئے جو سیکولر خیالات رکھتے تھے، کسی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے بلاگس میں کھل کر وہ باتیں لکھتے تھے جو بنگلہ دیشی انتہا پسندوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں اس نوعیت کے خیالات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حوالے سے سب سے خوفناک حملہ جولائی 2016 میں ہوا تھا جب مسلح افراد نے ڈھاکے میں سفارتی علاقے کے ایک کیفے میں گھس کر اندھا دھند گولیاں چلادی تھیں اور 22 افراد عین موقع پر ہلاک ہوگئے تھے۔
اس قتل عام نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ حکومت نے جوابی کارروائی کی اور اس میں مختلف مسلح گروہوں کے 100سے زیادہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں گرفتار ہوئے۔ 22 افراد کا قتل عام کوئی معمولی بات نہ تھی اور بنگلہ دیشی حکومت دنیا میں ایک معتدل مزاج مسلمان ریاست کی تصویر قائم رکھنا چاہتی تھی۔ نومبر2019 میں حکومت نے سات لوگوں کو اس جرم میں سزا سنائی۔
اسی طرح 31 اکتوبر 2015 میں ایک پبلشر فیصل عارفین ڈپون کو اس کے دفتر میں قتل کیا گیا۔ فیصل کا دفتر ڈھاکا کے مشہور شاہ باغ علاقے میں تھا۔ اس کے قاتل ایک ممنوعہ انتہا پسند گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ فیصل کا ادارہ جاگیرتی پرکاشنی جو کتابیں شایع کرتا ہے وہ مسلمان نوجوانوں کو بہکاتی ہیں۔ اسی کے ادارے سے اویجیت کی بھی ایک کتاب منظر عام پر آئی تھی۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف شیخ حسینہ واجد کی حکومت ان روشن خیال لوگوں سے بھی بہت ناراض ہے جو اس پر اعتراضات کرتے ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ حسینہ حکومت میں بدعنوان لوگ بھرے ہوئے ہیں۔ بہ طور خاص کورونا کے زمانے میں ان پر بہت اعتراضات ہوئے۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے ''بنگلہ دیش ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ'' نافذ کیا اور اس کے تحت بہت سے وہ صحافی، ادیب اور کارٹونسٹ گرفتار کیے گئے اور جیل بھیجے گئے جنھیں موجودہ حکومت سے اختلاف تھا۔
تیسری دنیا کی تمام حکومتوں کی طرح شیخ حسینہ واجد کے لیے بھی تنقید ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اسی لیے مشتاق احمد کو بھی بعض دوسرے نکتہ چیں صحافیوں اور بلاگر کی طرح گرفتار کرلیا گیا۔ مشتاق کی عمر 54 برس تھی۔ وہ سنتھال پرگنہ، لال مٹیا میں اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ رہتے تھے۔ صحافی اور بلاگر ہونے کے ساتھ ہی ان کے گھر میں ایک تالاب تھا جس میں وہ مگر مچھ پالتے تھے۔ یہ جان کر مجھے ہنسی آئی کہ وہ جو اپنے ارد گرد کی دنیا میں ایک سخت گیر حکومت اور ہر وقت قتل پر آمادہ انتہا پسندوں میں گھرے ہوئے تھے تو انھیں مگر مچھ پالنے کی کیا ضرور ت تھی۔
2020 کی مئی میں گرفتار ہونے سے پہلے انھوں نے منہ اندھیرے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک رائے لکھی تھی۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ جب کوئی سماج اپنی معاشی بدحالی پر صدمے کا اظہار کرے اور اسے انسانی جانوں کی پروانہ ہو (ان کا اشارہ کورونا کا شکار ہونے والوں کی طرف تھا) تو اسے کسی وائرس (کووڈ 19) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ جان لینا چاہیے کہ وہ سماج بیمار ہے۔ اپنی اسی پوسٹ میں انھوں نے مملکت کے وزیر صحت کو ''کاکروچ'' سے تشبیہ د ی تھی، یہ وہ باتیں تھیں جس نے حکومت کو برافروختہ کردیا اور وہ گرفتار کرلیے گئے۔
انھیں قاشم پورہ جیل میں رکھا گیا جو اپنی سختی کے لیے مشہور ہے۔ مشتاق کے گھر والوں اور ساتھیوں نے پہلے دن سے ان کے مقدمے کی پیروی کی لیکن سختی کا یہ عالم تھا کہ 6 مرتبہ ان کی ضمانت کی اپیل مسترد کی گئی۔ چند دنوں پہلے وہ شام کو اچانک بے ہوش ہوئے۔ پہلے جیل کے اندر ہی ان کے درد کا درماں ڈھونڈنے کی کوشش گئی لیکن جب ان کی طبیعت زیادہ بگڑی تو انھیں دوسرے اسپتال منتقل کیا گیا۔ وہ وہاں پہنچے تو راستے میں ہی ختم ہوچکے تھے۔
یہ ایک ایسی ہلاکت تھی جسے ان کے ساتھی انصاف کے نام پر قتل قرار دے رہے ہیں۔ نوجوان طلبہ اور مختلف تنظیموں کے نوجوان ان کی موت کی دیانتدارانہ تحقیق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ راتوں کو ان کی یاد میں چراغ جلائے جارہے ہیں اور مشعل بردار جلوس نکل رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے تمام جمہوریت پسند یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ کو ختم کیا جائے۔ اپنی آخری پیشی پر انھوںنے کمرہ عدالت میں اپنے ایک دوست سے فرمائش کی کہ ان کا دل پراٹھا اور بھنا ہوا گوشت کھانے کو چاہ رہا ہے۔ ان کے دوست یہ سنتے ہی دوڑ گئے اور آن کی آن میں پراٹھا اور بھنا ہوا گوشت لے آئے جسے مشتاق احمدنے خوش ہوکر کھایا، یہ ان کا آخری کھانا تھا۔ دوست اس بات کو یاد کرکے زار زار رو رہے ہیں۔
مشتا ق احمد کے ساتھ جو اور لوگ گرفتار ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک مقبول کارٹونسٹ احمد کبیر کشور بھی تھا۔ اس پر بہت تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں اس کے کان کے پردے پر ضرب لگی جس سے مسلسل پیپ بہہ رہی ہے۔ وہ کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا تو لنگڑا کر چل رہا تھا، اس کا وزن 10 کلو گرام کم ہوچکا ہے۔ مشتاق کی موت نے اسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور دوسری مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں ان تمام گرفتار شدہ لوگوں کے حق کے لیے آواز بلند کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی بنگلہ دیشی حکومت سے کہا ہے کہ وہ لوگ جو گرفتار کیے گئے ہیں اور ابھی تک زندہ ہیں، ان پر مقدمہ چلاکر انھیں رہا کیا جائے کیوں کہ ان لوگوں پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ 2018 کو ختم کیا جائے تاکہ آیندہ دوسرے لوگ حکومت کے عتاب کا نشانہ ہر گز نہ بنیں۔
بنگالی خواہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، ان کا خمیر انحراف،احتجاج اور بغاوت سے اٹھا ہے۔ یہ آج کی نہیں صدیوں پرانی روایت ہے۔ میں تاریخ میں زیادہ دور تک سفر نہیں کرتی۔ صرف تین ساڑھے تین صدیوں کے صفحوں کو پلٹتی ہوں۔ یہ وہی تھے جو 1856 میں اپنے سراج الدولہ کے لیے انگریز سے لڑ لیے تھے۔
مانا کہ سراج الدولہ کو شکست ہوئی تھی، کچھ اس کی اپنی غلطیاں اور بہت زیادہ غداروں کی ہوس اقتدار۔ لیکن کسی جنگ یا کسی تحریک میں شکست حرف آخر تو نہیں ہوتی۔ وہ لڑتے ہی رہے، بیسویں صدی آئی تو انھوں نے مسلم لیگ کا مقدمہ لڑا اور جیت گئے۔ ان کے اکثریتی ووٹ نہ ہوتے تو پاکستان کیسے وجود میں آتا۔ ہم ان کے شکر گزار ہونے کے بجائے پہلے دن سے ان پر حکمرانی کرنے لگے۔ہمیںاپنی بلند قامتی، اپنے چوڑے سینے اور اپنے اجلے رنگ پر غرور تھا۔
مشرقی بنگال کے لوگ منکسر المزاج اور سادہ لوح، وہ ہمارا بڑبولا پن اور ہماری نخوت برداشت کرتے رہے لیکن پھر وہ دن بھی آیا کہ جو مسجدوں کا شہر تھا اور جس کے نمازیوں کا خشوع خضوع اور گریہ دیکھنے کی چیز تھا، انھوں نے اپنے حق کی بات کی۔
محترمہ فاطمہ جناح کو سر آنکھوں پر بٹھایا، شیخ مجیب ان کے چرنوں میں بیٹھے لیکن جب انھیں یقین ہوگیا کہ ان کے ووٹوں سے بننے والے پاکستان میں انھیں ان کا حق نہیں مل سکتا تو انھوں نے انگلیاں ٹیڑھی کرلیں اور لاکھوں بے گناہ انسان خواہ وہ بنگلہ بولتے تھے یا اردو ان کاخون ناحق مشرقی بنگال کے بلند و پست پر بہہ گیا۔ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالے، ان کی سربراہی میں لڑنے والے ہزار ہا سپاہی ہندوستان میں جنگی قیدی بنے اور جب وہ لوٹ کر آئے تو ان کی زندگی بہ ظاہر ٹھیک رہی لیکن درحقیقت سر کے بل کھڑی ہوگئی۔
مشرقی بنگال، بنگلہ دیش بنا اور اب وہ بہت سے معاملات میں ہم سے آگے ہے لیکن ہم اپنے پیچھے کچھ ایسے جراثیم چھوڑ آئے ہیں جنھوں نے باضمیر بنگلہ دیشیوں کے لیے زندگی مشکل بنادی ہے۔ وہاں بھی جمہوریت کے پردے کے پیچھے آمریت کے نوکیلے دانت نظر آتے ہیں، وہاں بھی ہر وہ شخص غدار وطن ہے جو راج سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے سوال کرنے کی جرات کرلے یا اپنے حق کی طلب گاری کرے۔
بنگلہ دیش میں 2013 اور 2016 کے درمیان ان لوگوں پر نہایت متشددانہ حملے ہوئے جو سیکولر خیالات رکھتے تھے، کسی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے بلاگس میں کھل کر وہ باتیں لکھتے تھے جو بنگلہ دیشی انتہا پسندوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں اس نوعیت کے خیالات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حوالے سے سب سے خوفناک حملہ جولائی 2016 میں ہوا تھا جب مسلح افراد نے ڈھاکے میں سفارتی علاقے کے ایک کیفے میں گھس کر اندھا دھند گولیاں چلادی تھیں اور 22 افراد عین موقع پر ہلاک ہوگئے تھے۔
اس قتل عام نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ حکومت نے جوابی کارروائی کی اور اس میں مختلف مسلح گروہوں کے 100سے زیادہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں گرفتار ہوئے۔ 22 افراد کا قتل عام کوئی معمولی بات نہ تھی اور بنگلہ دیشی حکومت دنیا میں ایک معتدل مزاج مسلمان ریاست کی تصویر قائم رکھنا چاہتی تھی۔ نومبر2019 میں حکومت نے سات لوگوں کو اس جرم میں سزا سنائی۔
اسی طرح 31 اکتوبر 2015 میں ایک پبلشر فیصل عارفین ڈپون کو اس کے دفتر میں قتل کیا گیا۔ فیصل کا دفتر ڈھاکا کے مشہور شاہ باغ علاقے میں تھا۔ اس کے قاتل ایک ممنوعہ انتہا پسند گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ فیصل کا ادارہ جاگیرتی پرکاشنی جو کتابیں شایع کرتا ہے وہ مسلمان نوجوانوں کو بہکاتی ہیں۔ اسی کے ادارے سے اویجیت کی بھی ایک کتاب منظر عام پر آئی تھی۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف شیخ حسینہ واجد کی حکومت ان روشن خیال لوگوں سے بھی بہت ناراض ہے جو اس پر اعتراضات کرتے ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ حسینہ حکومت میں بدعنوان لوگ بھرے ہوئے ہیں۔ بہ طور خاص کورونا کے زمانے میں ان پر بہت اعتراضات ہوئے۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے ''بنگلہ دیش ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ'' نافذ کیا اور اس کے تحت بہت سے وہ صحافی، ادیب اور کارٹونسٹ گرفتار کیے گئے اور جیل بھیجے گئے جنھیں موجودہ حکومت سے اختلاف تھا۔
تیسری دنیا کی تمام حکومتوں کی طرح شیخ حسینہ واجد کے لیے بھی تنقید ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اسی لیے مشتاق احمد کو بھی بعض دوسرے نکتہ چیں صحافیوں اور بلاگر کی طرح گرفتار کرلیا گیا۔ مشتاق کی عمر 54 برس تھی۔ وہ سنتھال پرگنہ، لال مٹیا میں اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ رہتے تھے۔ صحافی اور بلاگر ہونے کے ساتھ ہی ان کے گھر میں ایک تالاب تھا جس میں وہ مگر مچھ پالتے تھے۔ یہ جان کر مجھے ہنسی آئی کہ وہ جو اپنے ارد گرد کی دنیا میں ایک سخت گیر حکومت اور ہر وقت قتل پر آمادہ انتہا پسندوں میں گھرے ہوئے تھے تو انھیں مگر مچھ پالنے کی کیا ضرور ت تھی۔
2020 کی مئی میں گرفتار ہونے سے پہلے انھوں نے منہ اندھیرے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک رائے لکھی تھی۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ جب کوئی سماج اپنی معاشی بدحالی پر صدمے کا اظہار کرے اور اسے انسانی جانوں کی پروانہ ہو (ان کا اشارہ کورونا کا شکار ہونے والوں کی طرف تھا) تو اسے کسی وائرس (کووڈ 19) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ جان لینا چاہیے کہ وہ سماج بیمار ہے۔ اپنی اسی پوسٹ میں انھوں نے مملکت کے وزیر صحت کو ''کاکروچ'' سے تشبیہ د ی تھی، یہ وہ باتیں تھیں جس نے حکومت کو برافروختہ کردیا اور وہ گرفتار کرلیے گئے۔
انھیں قاشم پورہ جیل میں رکھا گیا جو اپنی سختی کے لیے مشہور ہے۔ مشتاق کے گھر والوں اور ساتھیوں نے پہلے دن سے ان کے مقدمے کی پیروی کی لیکن سختی کا یہ عالم تھا کہ 6 مرتبہ ان کی ضمانت کی اپیل مسترد کی گئی۔ چند دنوں پہلے وہ شام کو اچانک بے ہوش ہوئے۔ پہلے جیل کے اندر ہی ان کے درد کا درماں ڈھونڈنے کی کوشش گئی لیکن جب ان کی طبیعت زیادہ بگڑی تو انھیں دوسرے اسپتال منتقل کیا گیا۔ وہ وہاں پہنچے تو راستے میں ہی ختم ہوچکے تھے۔
یہ ایک ایسی ہلاکت تھی جسے ان کے ساتھی انصاف کے نام پر قتل قرار دے رہے ہیں۔ نوجوان طلبہ اور مختلف تنظیموں کے نوجوان ان کی موت کی دیانتدارانہ تحقیق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ راتوں کو ان کی یاد میں چراغ جلائے جارہے ہیں اور مشعل بردار جلوس نکل رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے تمام جمہوریت پسند یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ کو ختم کیا جائے۔ اپنی آخری پیشی پر انھوںنے کمرہ عدالت میں اپنے ایک دوست سے فرمائش کی کہ ان کا دل پراٹھا اور بھنا ہوا گوشت کھانے کو چاہ رہا ہے۔ ان کے دوست یہ سنتے ہی دوڑ گئے اور آن کی آن میں پراٹھا اور بھنا ہوا گوشت لے آئے جسے مشتاق احمدنے خوش ہوکر کھایا، یہ ان کا آخری کھانا تھا۔ دوست اس بات کو یاد کرکے زار زار رو رہے ہیں۔
مشتا ق احمد کے ساتھ جو اور لوگ گرفتار ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک مقبول کارٹونسٹ احمد کبیر کشور بھی تھا۔ اس پر بہت تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں اس کے کان کے پردے پر ضرب لگی جس سے مسلسل پیپ بہہ رہی ہے۔ وہ کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا تو لنگڑا کر چل رہا تھا، اس کا وزن 10 کلو گرام کم ہوچکا ہے۔ مشتاق کی موت نے اسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور دوسری مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں ان تمام گرفتار شدہ لوگوں کے حق کے لیے آواز بلند کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی بنگلہ دیشی حکومت سے کہا ہے کہ وہ لوگ جو گرفتار کیے گئے ہیں اور ابھی تک زندہ ہیں، ان پر مقدمہ چلاکر انھیں رہا کیا جائے کیوں کہ ان لوگوں پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ 2018 کو ختم کیا جائے تاکہ آیندہ دوسرے لوگ حکومت کے عتاب کا نشانہ ہر گز نہ بنیں۔