پنجاب میں 100 سال سے کلراور شورہ زدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے کا کامیاب تجربہ

نامیاتی مائع کے استعمال سے 100 سال سے بنجراورکلرزدہ زمین کی حالت ہی بدل گئی

پنجاب میں کلر اور شورزدہ رقبہ 37 لاکھ 14 ہزارایکڑ سے زائد ہے فوٹو: امتیاز خان

پنجاب کے ضلع حافظ آباد کا علاقہ پنڈی بھٹیاں میں کلر اورشورزدہ اراضی کو قابل کاشت بنانے کے لئے پاکستانی زرعی ماہر کا تیار کردہ نامیاتی مائع استعمال کیا گیا ہے جس سے 100 سال سے بنجراورکلرزدہ زمین کی حالت ہی بدل گئی ہے۔

پنجاب میں کلراور شورزدہ رقبہ 37 لاکھ 14 ہزارایکڑ سے زائد ہے اوراس میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، تحقیقاتی ادارہ شورہ زدہ اراضیات کئی دہائیوں سے ان ایسی زمینوں کو قابل کاشت بنانے کی کوشش میں لگا ہے۔ تحقیقاتی مرکز کے پرنسپل سائنسدان غلام عباس ونڈ نے بتایا کہ اس وقت کلراور شورزدہ اراضیات کو قابل کاشت بنانے کے لئے جپسم اور تیزاب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جپشم اورتیزاب کا انتخاب زمین میں نمک کی مقدار کو دیکھ کرکیاجاتا ہے ۔ اہم اس طریقہ سے اراضی کوقابل کاشت بنانے میں کافی عرصہ درکارہوتا ہے اور پھر یہ عمل مسلسل کرنا پڑتا ہے۔ اب یہاں جو نامیاتی مائع استعمال کیا گیا ہے اس کے حیرت انگیز نتائج آئے ہیں، استعمال کے صرف پانچ دن بعد ہی زمین میں کینچوے بننا شروع ہوگئے ہیں اور زمین نے پانی جذب کرنا شروع کردیا ہے۔

تحقیقاتی ادارہ شورزدہ اراضیات کے آفتاب احمدشیخ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اس وقت ان کا ادارہ کلراورشورزدہ اراضیات کوقابل کاشت بنانے کے لئے تسلیم شدہ طریقہ ہی استعمال کررہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں پانی کی کمی، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت ، طویل عرصہ تک زمینوں کوکاشت نہ کرنے سے کلراورشورہ زدہ اراضی کارقبہ بڑھ رہا ہے جوکہ تشویش ناک ہے۔


آفتاب احمد شیخ کہتے ہیں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سید بابربخاری نے جو نامیاتی لیکیوئیڈ فارمولاتیارکیا ہے اس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں، اب ہم اس مٹی کا لیبارٹری میں تجزیہ بھی کریں تاکہ یہ دیکھاجاسکے کہ مٹی کے اجزامیں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ ایک انقلاب ہوگا

پنڈی بھٹیاں کے جس علاقے میں اس فارمولے کواستعمال کیا گیا ہے وہاں اب گندم کاشت کی گئی ہے جبکہ اس کھیت کے ساتھ ہی کلراورشورہ زدہ وسیع وعریض رقبہ موجود ہے جس پر سفید کلرکی تہہ جمی نظرآتی ہے۔

نامیاتی مائع فارمول اتیار کرنے والے سید بابربخاری نے بتایا کہ اس فارمولے سے ریتیلی اور پتھریلی زمینوں پربھی مختلف باغات کی کاشت کی جاچکی ہے جب کہ اس سے فصلوں کی مجموعی پیداوار اور صحت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس نامیاتی مائع کو پانی میں شامل کرکے زمین کو سیراب کیا جاتا ہے، چند ہی دن میں اس زمین میں کینچوے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو کلرزدہ مٹی کو کھاتے اور پھر جو مادہ خارج کرتے ہیں اس سے زمین مستقل طور پر زرخیز ہوجاتی ہے۔ ایک ایکڑ کے لئے دو لیٹر مائع استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مائع سمندری زرعی بوٹیوں سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے استعمال سے فصلوں میں کیمیائی کھادوں اور زہروں کے استعمال کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے جب کہ یہ روایتی کھادوں اور زہروں کے مقابلے میں انتہائی سستا بھی ہے۔

سید بابر بخاری کے مطابق حکومت اگراس فارمولے کوتسلیم کرلیتی ہے تولاکھوں ایکڑرقبے کوقابل کاشت بنایاجاسکتا ہے جس سے ملک میں بیروزگاری اورغربت کا خاتمہ ہوگا اورزرعی پیداوارمیں بھی اضافہ ہوگا۔
Load Next Story