احتساب کا نعرہ اور تحریک انصاف
اس ملک میں آج تک کوئی احتساب نہیں ہو پایا ہے۔
جس طرح جنرل محمد ضیاء الحق نے بزورطاقت وشمشیراس ملک پر گیارہ برس اکیلے بلاکسی مضبوط مخالفت و مزاحمت کے حکومت کی اوراپنی حکومت کے اِس تسلسل کے لیے مذہب کانام استعما ل کیااُسی طرح ہمارے ایک اور غیر جمہوری حکمراں پرویز مشرف نے اپنی غیر قانونی حکمرانی کوطوالت بخشنے کے لیے احتساب کانعرہ بلند کیا تھا۔اِن دونوں حضرات نے اپنے اِس رویہ سے نہ صرف احتساب بلکہ مذہب جیسے مقدس نام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
نتیجتاً آج ہماری قوم مذہب کا نام استعمال کرنے والوں سے اس قدر دور ہوگئی ہے کہ وہ اب ایسے کسی بھی سیاسی رہنماکوووٹ دینے سے گریز کرتی دکھائی دیتی ہے جواقتدارکے لیے ایسے دعوے کرتاہو۔ اِسی طرح پرویز مشرف کے نام نہاداحتساب کو دیکھ لینے کے بعدہمارے یہاں کوئی بھی شخص احتساب کے نعروں پراعتبار کرنے کوتیار نہیں۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکمران نے سابقہ حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیک وقت دونوں چیزوں یعنی ریاست مدینہ اوراحتساب کی بات کی۔لوگوں نے 2011 سے تحریک انصاف کے نعروں پر توجہ دینی شروع کی۔
اِس سے پہلے پندرہ برس تک تحریک انصاف سیاسی تنہائی کا شکار رہی۔لیکن2011 سے ایساکرشمہ ہوگیا کہ جوق درجوق لوگ دوسری پارٹیوں سے نکل نکل کر تحریک انصاف میں شامل ہوتے چلے گئے اور یہ جماعت غریبوں سے زیادہ مالدار اور ماڈرن گھرانوں کے لیے حیران کن طور پر قابل قبول بنتی چلی گئی۔ڈی چوک کے 126دنوں والے دھرنوں میں ہمیں اکثریت ایسے لوگوں ہی کی دکھائی دیتی تھی۔ وہ صرف خان صاحب کے مداح ہوتے تھے ۔گالوں پر پارٹی کے نشان اور جھنڈوں کے اسٹیکر سجائے نوجوانوں کو والہانہ انداز میں رقص کناں دیکھا گیا۔ یہ نوجوان پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے خواب کی تعبیر کے لیے دھرنے میں آتے تھے ۔ آخر کار تحریک انصاف اقتدار میں آگئی۔ اب لوگ خواب کو حقیقت بنتا دیکھنا چاہتے تھے۔
تین سال ہونے کو آئے ہیں عوام کے خواب تاحال خواب ہی ہیں۔ انھیں بس الزامات کے بوچھاڑ سنائی دے رہی ہے اوراُنہی الزامات پر سیاسی مخالفوں کو نیب زدہ قرارد دیاجارہاہے۔ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرکے اُنہیں قرار واقعی سزا دینا تو دور کی بات ہے کسی سے کچھ وصول بھی نہیں کیاجاسکا۔ اُن کے خلاف اگر کوئی واضح اورٹھوس ثبوت ہوتے تووہ شاید ہماری عدالتوں سے یوں ضمانتوں پررہانہیں ہوپاتے۔ براڈ شیٹ کیس میں مبینہ ملزمان سے پیسہ وصول کرنے کے بجائے الٹااُنہیں 50لاکھ دینے پڑگئے۔
دوسری جانب عوام مہنگائی اوربیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ہم نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں لکھاتھاکہ اپوزیشن کے حربوں کاجواب عوام کوریلیف دینا ہے ۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوجاتی تو اپوزیشن خود ہی ناکام ونامرا د ہوجاتی مگر ایسا نہ ہوسکا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے پورے پانچ سالہ دور اقتدار میں مفاہمت اوردوستی کواپناشعاربنایاہواتھا،وہ اپوزیشن کے سخت سے سخت حملوں کو بھی بڑی نرمی اوراستقامت سے برداشت کرلیاکرتے تے۔ سڑکوں پرگھسیٹے جانے جیسے جملوں کو بھی وہ بڑی تنددہی اورخوش اسلوبی سے قبول کرلیاکرتے تھے۔کسی کوبھی ایک دن کے لیے جیل میں نہیں ڈالا۔ شاید اِسی وجہ سے لوگ اپوزیشن کوطعنہ دیاکرتے تھے کہ یہ ایک فرینڈلی اپوزیشن ہے۔خان صاحب اپنی توانائی ملک کی ترقی وخوشحالی پرصرف کریں توعوام آج بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس ملک میں آج تک کوئی احتساب نہیں ہوپایاہے۔ یہ سخت اورکڑے احتساب کانعرہ تو بہت سے حکمرانوں نے لگایالیکن احتساب توکجا وہ این آراو کے نام پر بڑے بڑے مجرموں کو معاف کرنے پرمجبورہوگئے۔حالانکہ دیکھاجائے تووہ کسی بھی جمہوری حکمراں سے بہت زیادہ مضبوط اورپاور فل بھی تھے۔آج بھی اِس احتساب نے عوام کو بھی مایوس اوربددل کردیاہے۔
نتیجتاً آج ہماری قوم مذہب کا نام استعمال کرنے والوں سے اس قدر دور ہوگئی ہے کہ وہ اب ایسے کسی بھی سیاسی رہنماکوووٹ دینے سے گریز کرتی دکھائی دیتی ہے جواقتدارکے لیے ایسے دعوے کرتاہو۔ اِسی طرح پرویز مشرف کے نام نہاداحتساب کو دیکھ لینے کے بعدہمارے یہاں کوئی بھی شخص احتساب کے نعروں پراعتبار کرنے کوتیار نہیں۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکمران نے سابقہ حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیک وقت دونوں چیزوں یعنی ریاست مدینہ اوراحتساب کی بات کی۔لوگوں نے 2011 سے تحریک انصاف کے نعروں پر توجہ دینی شروع کی۔
اِس سے پہلے پندرہ برس تک تحریک انصاف سیاسی تنہائی کا شکار رہی۔لیکن2011 سے ایساکرشمہ ہوگیا کہ جوق درجوق لوگ دوسری پارٹیوں سے نکل نکل کر تحریک انصاف میں شامل ہوتے چلے گئے اور یہ جماعت غریبوں سے زیادہ مالدار اور ماڈرن گھرانوں کے لیے حیران کن طور پر قابل قبول بنتی چلی گئی۔ڈی چوک کے 126دنوں والے دھرنوں میں ہمیں اکثریت ایسے لوگوں ہی کی دکھائی دیتی تھی۔ وہ صرف خان صاحب کے مداح ہوتے تھے ۔گالوں پر پارٹی کے نشان اور جھنڈوں کے اسٹیکر سجائے نوجوانوں کو والہانہ انداز میں رقص کناں دیکھا گیا۔ یہ نوجوان پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے خواب کی تعبیر کے لیے دھرنے میں آتے تھے ۔ آخر کار تحریک انصاف اقتدار میں آگئی۔ اب لوگ خواب کو حقیقت بنتا دیکھنا چاہتے تھے۔
تین سال ہونے کو آئے ہیں عوام کے خواب تاحال خواب ہی ہیں۔ انھیں بس الزامات کے بوچھاڑ سنائی دے رہی ہے اوراُنہی الزامات پر سیاسی مخالفوں کو نیب زدہ قرارد دیاجارہاہے۔ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرکے اُنہیں قرار واقعی سزا دینا تو دور کی بات ہے کسی سے کچھ وصول بھی نہیں کیاجاسکا۔ اُن کے خلاف اگر کوئی واضح اورٹھوس ثبوت ہوتے تووہ شاید ہماری عدالتوں سے یوں ضمانتوں پررہانہیں ہوپاتے۔ براڈ شیٹ کیس میں مبینہ ملزمان سے پیسہ وصول کرنے کے بجائے الٹااُنہیں 50لاکھ دینے پڑگئے۔
دوسری جانب عوام مہنگائی اوربیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ہم نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں لکھاتھاکہ اپوزیشن کے حربوں کاجواب عوام کوریلیف دینا ہے ۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوجاتی تو اپوزیشن خود ہی ناکام ونامرا د ہوجاتی مگر ایسا نہ ہوسکا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے پورے پانچ سالہ دور اقتدار میں مفاہمت اوردوستی کواپناشعاربنایاہواتھا،وہ اپوزیشن کے سخت سے سخت حملوں کو بھی بڑی نرمی اوراستقامت سے برداشت کرلیاکرتے تے۔ سڑکوں پرگھسیٹے جانے جیسے جملوں کو بھی وہ بڑی تنددہی اورخوش اسلوبی سے قبول کرلیاکرتے تھے۔کسی کوبھی ایک دن کے لیے جیل میں نہیں ڈالا۔ شاید اِسی وجہ سے لوگ اپوزیشن کوطعنہ دیاکرتے تھے کہ یہ ایک فرینڈلی اپوزیشن ہے۔خان صاحب اپنی توانائی ملک کی ترقی وخوشحالی پرصرف کریں توعوام آج بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس ملک میں آج تک کوئی احتساب نہیں ہوپایاہے۔ یہ سخت اورکڑے احتساب کانعرہ تو بہت سے حکمرانوں نے لگایالیکن احتساب توکجا وہ این آراو کے نام پر بڑے بڑے مجرموں کو معاف کرنے پرمجبورہوگئے۔حالانکہ دیکھاجائے تووہ کسی بھی جمہوری حکمراں سے بہت زیادہ مضبوط اورپاور فل بھی تھے۔آج بھی اِس احتساب نے عوام کو بھی مایوس اوربددل کردیاہے۔