ایوان نے اعتماد کا اظہار نہ کیا تو اپوزیشن میں چلا جاؤں گا وزیر اعظم

الیکشن کمیشن نےسینیٹ میں بکنے والوں کو بچا لیا، اقتدار میں رہوں نہ رہوں ملک لوٹنے والوں سےلڑتا رہوں گا، قوم سے خطاب

وزیراعظم سینیٹ انتخابات کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لیں گے.

وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ہفتے کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لوں گا اور سب کے سامنے پوچھوں گا کہ آپ کو مجھ پر اعتماد ہے یا نہیں اگر میں اہل نہیں ہوں اور مجھ پر اعتماد ظاہر نہیں کیا جاتا تو میں اپوزیشن میں چلا جاؤں گا۔

عمران خان نے کہا کہ ایوان سے پوچھوں گا کہ آپ کو مجھ پر اعتماد ہے یا نہیں اور اگر آپ علی الاعلان مجھ پر عدم اعتماد کریں گے تو میں آپ کی عزت کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کو میرا پیغام ہے کہ اگر اقتدار چلا جاتا ہے تو میرا کیا نقصان ہوگا۔ مجھے سرمایہ جمع نہیں کرنا اور جائیداد نہیں بنانی۔ سفر اور سیکیورٹی کے علاوہ مجھ پر حکومت کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہورہا۔ آپ کو بتانا چاہتا ہوں جب تک آپ ملک کا لوٹا مال واپس نہیں کرتے ، اقتدار میں نہ بھی رہوں تو آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ ملک ایک عظیم ملک اس وقت بنے گا جب اس میں ڈاکوؤں کو سزائیں ملیں گی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کیا میری اکیلے کی ذمے داری ہے کہ میں ان ڈاکوؤں کے پیچھے پڑا رہوں۔ قوم کو بھی اس حوالے سےاپنی ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔ کرپٹ لوگوں پر پھول نہیں پھینکے جاتے۔ دنیا میں ایک ملک بتائیں جہاں کرپٹ لوگوں کے لیے جزا و سزا کا نظام نہ ہو اور وہاں ترقی ہورہی ہو۔

ان کا کہنا تھاکہ تحریک انصاف کو جتنی نشتیں ملنی تھیں وہ مل گئیں۔ سار پیسہ یوسف رضا گیلانی پیسے تقسیم کررہے تھے۔ مجھے میرے ایم این ایز ، خواتین ارکان پارلیمنٹ نے بتایا کہ دو دو کروڑ کی آفر ہورہی ہے۔

قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کہ میں الیکشن کمیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ میں آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے۔ پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپزر کی مخالفت کی اگر ایسا ہوجاتا تو آج جو ہمارے ایم این اے بکے ہیں ہم ان کا پتا لگا لیتے۔ الیکشن کمیشن نےسینیٹ میں بکنے والوں کو بچا لیا۔ سینیٹ میں پیسے لے کر ہماری سیاست کو کرپٹ کیاگیاہے، کرپٹ ٹولے نے ووٹ چوری کےلیےخفیہ بیلٹ کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ آپ کو سپریم کورٹ نے موقعہ دیا تو کیا 1500 بیلٹ پیپر پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ آج آپ نے ملک کی جمہوریت کا وقار مجروح کیا ہے اور اسے نقصان پہنچایا ہے۔

وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی مسائل کو سمجھنے کے سینیٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا اسے سمجھنا ضروری ہے۔ سینیٹ میں گذشتہ تیس چالیس سال سے پیسہ چلتا ہے۔ جو سینیٹر بننا چاہتا ہے وہ ارکان پارلیمنٹ کو خریدتا ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے اندر ملک کی لیڈر شپ آتی ہے اور ارکان پارلیمنٹ انہیں منتخب کرتے ہیں۔ مجھے تب سے حیرت رہی کہ سینیٹر رشوت دے کر یہ نمائندگی حاصل کرتا ہے اور دوسری جانب قومی اسمبلی کے رکن ضمیر بیچتے ہیں۔ تب سے اوپن بیلٹ کے لیے مہم شروع کی۔

انہوں نے کہا کہ جب سینیٹ انتخاب میں 20 رکن نے ووٹ بیچا تو انہیں پارٹی سے نکال دیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے میثاق جمہوریت میں اوپن بیلنٹ کی بات کی تھی۔ جب ان پارٹیوں نے بھی اوپن بیلٹ کی تائید نہیں کی تو ہم سپریم کورٹ گئے جہان جج صاحبان نے بھی بار بار سینیٹ الیکشن میں پیسا چلنے کی بات کی۔

عمران خان نے کہا کہ ریفرینس کے دوران ایک ویڈیو سامنے آئی اور اس ریفرینس کی سماعت کے دوران عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخاب شفاف کروانے کی تاکید کی۔ خفیہ رائے شماری کو اپوزیشن نے جمہوریت کے خلاف قرار دیا جب کہ میثاق جمہوریت میں یہ اس پر متفق ہوچکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان پر کرپشن کے مقدمات ختم کردیے جائیں اور میں انہیں مشرف کی طرح این آر او دے دوں۔ لیکن میرے انکار کرنے پر انہوں نے کوششیں شروع کردیں۔

یہ خبر بھی پڑھیے: وزیر اعظم پر اعتماد کا ووٹ؛ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ کورونا میں اپوزیشن نے حکومت کو ناکام کرنے کی کوشش کی اسی طرح فیٹیٖ کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بھی ہم سے نیب کی قوانین میں تبدیلی لانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ مجھے ان کا صرف ایک دباؤ ہے کہ میں انہیں این آر او دے دوں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن نے اوپن بیلٹ کی مخالفت اس لیے کی کہ حفیظ شیخ اور یوسف گیلانی کے انتخابات میں پیسا چلانا تھا۔ یوسف گیلانی کو سینیٹ انتخاب جتوا کر میرے سر پر ان کا مقصد عدم اعتماد کی تلوار لٹکا کر این آراو حاصل کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد پاکستان کا وقار تھا لیکن 1985 کے غیر جماعتی انتخاب کے بعد سیاست میں پیسہ اور کرپشن عروج پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد سے ملک کا زوال شروع ہوا۔

 
Load Next Story