داؤد ابراہیم بمبئی کا ڈان کیسے بنا
پولیس افسر کا سپنا دیکھتے ایک نوخیز لڑکے کو سب سے بڑے بھارتی شہر کی زیرزمین دنیا کا بے تاج بادشاہ بن ڈالا
وہ اپنی موٹرسائیکل پر گھر جا رہا تھا کہ راستے میں اسے محلے کا ایک دوست،کریم ملا۔ان کی آپس میں بہت دوستی تھی۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔چہرے پہ زخم کے نشان تھے۔دوست کی یہ بری حالت دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا۔کریم نے روتے ہوئے بتایا:''بھائی،حامد نے آج پھر مجھے مارا ۔یہ دیکھو،میرا کیا برا حال کر دیا۔''
حامد علاقے کا بدمعاش تھا۔اس کا بھائی،ماجد منشیات کے دھندے میں ملوث تھا۔دونوں علاقے کے ڈان،بشو دادا کے گینگ میں شامل تھے۔بشو سب سے بڑے بھارتی شہر،بمبئی کا نامی گرامی دادا تھا۔شہر کے علاقے،ڈونگری میں اسے زیرزمین دنیا کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا۔ڈونگری میں کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ بشو دادا کو چھو بھی سکے۔ مگر اب ڈونگری میں ایک اور دادا جنم لے چکا تھا...داؤد ابراہیم جو بشو دادا کے گرگوں کی غنڈہ گردی اور من مانی کارروائیاں تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔یہ 1974ء کی بات ہے۔
ڈونگری میں زیادہ تر محنت کش طبقہ آباد تھا۔ان میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔یہ مسلمان بندرگاہ اور مختلف کارخانوں میں کام کرتے ۔بہت سے ٹھیلے لگاتے اور چھوٹی موٹی دکانیں چلاتے ۔بڑے بازاروں میں دکانیں بوہریوں کی ملکیت تھیں جن کا پاس پیسہ تھا۔ان کے علاوہ بیشتر باسی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے۔ان کے دکھ سکھ سانجھے تھے اور مذہبی اختلافات عنقا،البتہ معاشی مفادات ڈونگری کے لیڈروں کو آپس میں برسرپیکار رکھتے۔
سادہ زندگی پہ مطمئن روح
انیس سالہ داؤد کے والد،ابراہیم کاسکر ہیڈکانسٹیبل تھے۔وہ مہاراشٹر کے گاؤں،ممکا سے تعلق رکھتے۔ابراہیم کے والد،حسن گاؤں سے تلاش معاش میں ڈونگری آئے۔وہاں انھوں نے حجام کی دکان کھولی اور رزق حلال کمانے لگے۔بیٹے کو تعلیم دلوائی اور ابراہیم پولیس کی ملازمت پانے میں کامیاب رہے۔وہ سرکاری نوکری پانے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے۔بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں محکمہ پولیس رشوت لینے کے معاملے میں بدنام ہے۔ابراہیم کی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے کبھی کسی سے رشوت نہ لی۔حالانکہ ان کا خاندان خاصا بڑا تھا،پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں۔وہ مگر سالہا سال تک ماہوار پچھتر روپے تنخواہ پر گذارا کرتے رہے۔ساری عمر چھوٹے سے مکان میں گذار دی۔
اسی دیانت داری کے باعث علاقے کے شرفا ہی نہیں جرائم پیشہ بھی ابراہیم کی عزت کرتے۔داؤد ابراہیم کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ گھر میں اکثر فاقہ رہتا۔صبح چائے اور بن سے ناشتا ہوتا اور پھر اہل خانہ رات ہی کو کھانا کھاتے۔اس غربت کے عالم میں بھی ابراہیم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ رشوت لے کر اپنی غریبی دور کر لیں۔ وہ قناعت اور سادہ زندگی پہ مطمئن رہے۔البتہ وہ کبھی کبھی واقف کاروں کے محکمہ پولیس میں اٹکے کام ضرور کروا دیتے۔حتی کہ پولیس ڈونگری کے کسی جرائم پیشہ کو ناروا تنگ کرتی تو اس کی بھی مدد کر دیتے۔مصیبت زدوں کی دادرسی کرنا شاید ان کی فطرت تھی۔
امیدیں خاک میں مل گئیں
1966 ء میں قتل کا ایک کیس حل نہ کرنے کی پاداش میں چند پولیس والوں کو معطل کر دیا گیا۔ان میں ابراہیم کاسکر بھی شامل تھے۔وہ معطلی کی حالت ہی میں ریٹائر ہو گئے۔ملازمت گئی تو آمدن کا واحد ذریعہ بھی ختم ہو ا۔وہ پھر چھوٹے موٹے وقتی کام کرنے لگے تاکہ گھریلو اخراجات کی خاطر رقم مہیا ہو سکے۔تب داؤد اسکول میں پڑھتا تھا۔وہ بچپن سے بہت ذہین تھا۔باپ کی تمنا تھی کہ وہ لکھ پڑھ کر پولیس افسر بن جائے ۔
لہذا ابراہیم نے بڑے چاؤ سے اسے اسکول میں داخل کرایا۔مگر ملازمت ختم ہوئی تو باپ کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔باوجود کوشش کے ابراہیم فیس نہ دے سکے تو بیٹے کو اسکول سے نکال دیا گیا۔پھر داؤد کا بیشتر وقت محلے کے لڑکوں کے ساتھ گذرنے لگا۔ابرہیم اپنے جھمیلوں اور مصروفیات کے سبب داؤد پر نظر نہ رکھ سکے۔محلے کے آوارہ اور لڑاکے لڑکوں کی صحبت میں داؤد بھی جرائم پیشہ بن گیا۔وہ چوری کرنے اور جیبیں کاٹنے لگا۔اس نے پہلی چوری چودہ برس کی عمر میں کی۔یہ 1969ء کا واقعہ ہے۔
جب والد کو خبر ملی کہ داؤد نے ایک دکان میں آدمی کو لوٹنے کی کوشش کی ہے تو انھوں نے بیٹے کو بہت مارا۔مگر بیٹا جرائم کے راستے پر چل نکلا تھا۔باپ سے کئی بار مار کھا کر بھی وہ اپنی راہ پہ گامزن رہا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ماں اور بہنوں کو بھوکا اور بدحال نہیں دیکھ سکتا۔وہ چاہتا ہے کہ ماں اور بہنیں اچھا پہنیں،اچھا کھائیں اور اچھے گھر میں رہیں۔یہ ارمان پورے کرنے کے لیے پیسہ چاہیے تھاجو بیروزگار باپ نہ دے سکا۔لہذا دولت کمانے کی خاطر داؤد غنڈہ بن گیا۔تقریباً چھ فٹ قد کا وہ لڑکا دلیر،ذہین اور لڑاکا تھا۔
اس کی شعلہ صفت فطرت اور طلسماتی شخصیت سے محلے کے سبھی لڑکے ڈرتے تھے۔جلد ہی داؤد نے اپنا گینگ بنا لیا اور ڈونگری میں آباد امیر بوہریوں سے بھتّا لینے لگا۔بوہری کاروباری لوگ تھے،وہ کسی لفڑے میں الجھنا پسند نہ کرتے ۔انھوں نے مناسب یہی سمجھا کہ داؤد کو ہر ماہ کچھ رقم دے کر ٹال دیا جائے۔یوں اس کا گروہ پھلنے پھولنے لگا۔جب داؤد کی بدولت رقم گھر میں آنے لگی تو اس سے تین بھائی بھی آ ملے۔یوں گینگ مذید طاقتور ہو گیا۔
شہر کے بڑے دادا
اس زمانے میں بمبئی کے علاقے مختلف داداؤں نے بانٹ رکھے تھے۔یہ دادا اسمگلنگ،جوئے بازی،جسم فروشی،شراب و منشیات کی خریدوفروخت،بھتّا خوری اور ''سپاری''لے کر قتل تک کے دھندوں میں ملوث تھے۔شہر میں تین سب سے بڑے دادا یعنی ڈان تھے:کریم لالہ،حاجی مستان اور مدلائر۔ان کے گروہوں میں شامل چھوٹے دادا پھر اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم رہتے۔جیسے بشو دادا کا تعلق کریم لالہ کے دھڑے سے تھا۔
لالہ اور بشو دادا، دونوں ابراہیم کاسکر کے واقف کار تھے۔ایک دیانت دار کانسٹیبل کے طور پہ وہ اس کی عزت کرتے۔جب ابراہیم کی نوکری جاتی رہی تو بشو دادا وقتا فوقتاً اسے مالی مدد دیتا رہا۔1974ء تک مگر داؤد ابرہیم کا گینگ بھی خاصا طاقتور ہو چکا تھا۔ گروہ میں دس سے زائد لڑکے شامل تھے۔اب وہ اپنے علاقے میں بشو دادا کے کارندوں کی دادا گیری اور بدمعاشی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔یہی وجہ ہے جب حامد خان نے اس کے جگری یار کو مارا پیٹا تو داؤد نے اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔کریم کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور حامد خان کے اڈے پر جا دھمکا۔حامد کے سامنے پہنچتے ہی داؤد نے اسے گالی دی اور بڑے طیش سے بولا:''کیوں بے،تو اپنے آپ کو اکھا بمبئی کا بہت بڑا دادا سمجھنے لگا ہے؟ہیں،بتا نا؟''
حامد نے اسے آگ بگولہ دیکھا تو بھیگی بلی بن گیا۔کہنے لگا:''نہیں داؤد بھائی،تمھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔''
''ایک بات سن لے۔بشو دادا کا منہ دیکھ کر تجھے بخش دیا ورنہ ابھی تیرا قیمہ بنا دیتا۔''داؤد دھاڑ کر بولا۔
حامد نے دیکھا کہ نوخیز لونڈے کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ا س کی ساری شیخی ہوا ہو گئی۔اسے محسوس ہو گیا کہ وہ بشو دادا کا گرگا نہ ہوتا تو داؤد ابھی اس کو بری طرح پیٹ ڈالتا۔داؤد نے اسے ''بندے کا پتر''بننے کو کہا اور پھنکارتا ہوا چلا گیا۔حامد جانتا تھا کہ اس معاملے کی خبر بشو دادا تک ضرور پہنچے گی۔داؤد کی بلند آواز سن کے محلے کے لوگ جمع ہو گئے تھے۔تبھی اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔اس کی مدد سے وہ غصیلے داؤد سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکتا تھا۔وہ فوراً بشو سے ملنے روانہ ہو گیا۔
بے عزتی کا ناقابل فراموش واقعہ
بشو اپنے علاقے میں فٹ بال کا میچ دیکھ رہا تھا۔حامد نے نمک مرچ لگا کر اسے سارا واقعہ سنایا اور کہا:''دادا ،وہ آپ کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔سب کے سامنے آپ کو ماں بہن کی گالیاں دیں۔''یہ گالیاں حقیقت میں حامد کے لیے تھیں مگر اس نے بڑی عیاری سے ان کا رخ بشو کی سمت پھیر دیا۔حسب توقع یہ سن کر دادا شدید غصّے میں آ گیا۔وہ قطعاً یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی اس کے علاقے میں اسی کی بے عزتی کر ڈالے۔اور وہ بھی ایک انیس سالہ لونڈے کے ہاتھوں!وہ فٹ بال میچ بھول گیا اور اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ جلد از جلد ابراہیم اور صابر کو بیٹھک میں بلوا لیں۔
سہہ پہر کو ابراہیم بڑے بیٹے،صابر اور پڑوسی رحیم چاچا کو لیے بشو دادا سے ملنے آیا۔دادا نے انھیں بیٹھنے کانہیں کہا اور بڑی تلخی سے بولا:''داؤد نے مجھے گالیاں دی ہیں۔ابراہیم ،اپنے چھوکرے کو سمجھا لو ورنہ...''
''دادا!لڑکے سے غلطی ہو گئی۔اسے معاف کر دو۔''ابرہیم بولے
''غلطی!''بشو دادا دھاڑ کر بولا۔وہ پھر صابر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا:''جب تیرے باپ کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی کہ تم لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتا تو تب میں نے اسے سہارا دیا۔اور اب تم لوگ،سب ...لوگ، اسی تھالی کو گالی دیتے ہو۔تم لوگوں نے نمک حرامی کر کے اس طرح میرے احسان کا بدلہ دیا؟دفع ہو جاؤ یہاں سے...''
ابراہیم اور صابر مرے مرے قدم اٹھاتے باہر نکل گئے۔ان کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔چہرے پر ہوائیاں اڑی تھیں۔باپ بیٹے کا کانوں میں ''احسان''اور ''نمک حرامی''کے الفاظ گونج رہے تھے۔ان کی آج سبھی لوگوں کے سامنے خوب بے عزتی ہوئی تھی۔رحیم چاچا وہیں رہ گیا تھا۔وہ بشو دادا سے کہنے لگا:''آپ چھوٹے لڑکے سے ایسی باتیں نہ بولتے تو اچھا تھا دادا!'
''چھوٹا لڑکا!اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی گندی زبان سے مجھے گالیاں دیں تو کیا میں تماشا دیکھتا رہتا؟''بشو ترشی سے بولا۔
بیٹے کا خون کھول اٹھا
صابر گھر پہنچتے ہی رونے لگا۔داؤد کی حرکتوں کے باعث پورا خاندان نالاں تھا مگر پہلے کبھی کسی نے ابراہیم کاسکر اور اس کے بچوں کی سرعام توہین نہیں کی تھی۔آج طاقت کے نشے میں چور متکبر بشو دادا ساری حدیں پار کر گیا تھا۔ابراہیم کچھ نہ بولے اور خاموشی سے بیٹھے خلا میں گھورتے رہے۔چہرہ پتھر جیسا ہو گیا تھا۔داؤد رات گئے گھر آیا۔اب وہ اکثر اسی وقت آتا تھا تاکہ باپ کی ڈانٹ ڈپٹ نہ سننی پڑے۔صابر کی بری حالت دیکھ کر وہ سناٹے میں آ گیا۔تب بڑے بھائی نے اسے سارا ماجرا سنایا۔داؤد کا تو خون کھول اٹھا۔
یہ درست تھا کہ والد اس سے سخت ناراض تھے۔اب بھی وہ اس پہ ہاتھ اٹھا دیتے۔پھٹکارنا تو معمول بن چکا تھا مگر وہ ان کی بہت عزت کرتا تھا۔باپ کے سامنے نظریں جھکائے رکھتا اور انگلی تک نہ اٹھاتا۔اب اسی باپ اور بھائی کی بے عزتی کا سن کر وہ غصّے کے مارے لرزنے لگا۔اس نے قسم کھائی کہ وہ ان کی تضحیک کرنے پر بشو دادا کی سلطنت کا تیاپانچہ کر ڈالے گا۔
داؤد دراصل جانتا تھا کہ بشو نہیں والد نے اس پہ احسانات کر رکھے ہیں۔جب کبھی پولیس اسے تنگ کرتی تھی تو بشو ابراہیم کاسکر کا سہارا لیتا تاکہ سر پہ آئی بلا ٹال سکے۔ابراہیم قانونی معاملات میں بھی کبھی کبھی اس کی مدد کر دیا کرتے۔جب وہ بیروزگار ہو گئے تو بشو نے چند بار انھیں معمولی رقم بجھوائی تھی۔بس اسی مدد کو احسان کا روپ دے کر بشو نے اپنے محسن اور شریف انسان کی توہین کر ڈالی۔یہ معاملہ داؤد کی برداشت سے باہر ہو گیا۔رحیم چاچا اور محلے کے دیگر بڑے چاہتے تھے کہ داؤد جواب نہ دے ۔مگر اس نے انھیں بتایا:''بشو دادا نے جو حرکت کی ہے، اسے بہت مہنگی پڑے گی۔''
دادا پہ نرالا حملہ
داؤد مگر یہ بھی جانتا تھا کہ بشو دادا کا مقابلہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔اس کا گروہ پندرہ سولہ تجربے کار گرگوں پہ مشتمل تھا جو ''پہلوان''کہلاتے۔بشو نے ایک اکھاڑہ کھول رکھا تھا جہاں وہ اپنے بندوں کو لڑائی کے داؤ پیچ اور طمنچے چلانا سکھاتا تھا۔وہ خود بھی عمدہ پہلوان تھا اور چاقو چلانے کے گُر جانتاتھا۔ غوروفکر کے بعد داؤد کو خیال آیا کہ اگر بھرے بازار میں بشو کی بے عزتی کر دی جائے تو وہ دوبارہ علاقے میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔بشو کو یہ بڑا غرورو مان تھا کہ علاقے میں اسے چنوتی دینے والا کوئی نہیں۔اب اس سے انتقام لینے کی یہ تدبیر بہترین محسوس ہوئی۔سوال پھر یہ اٹھا کہ بشو کی تضحیک کیونکر کی جائے؟
ایک رائے یہ تھی کہ اس پہ گولی چلائی جائے۔مگر اس زمانے میں گولی چلانے والا غنڈہ بزدل اور نامرد سمجھا جاتا۔داؤد بھی طمنچے نہیں اپنی ذہانت اور طاقت کے بل بوتے پر خود کو منوانا چاہتا تھا۔اس لیے یہ حل نہیں بھایا۔وہ اور اس کے لڑکے چاقو بازی میں طاق نہ تھے لہذا یہ تدبیر بھی نامناسب لگی۔الٹا ان کو پھینٹی لگ جاتی۔آخر طے پایا کہ بشو پر گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے چاند ماری کی جائے۔آخری وقت میں داؤد نے لڑکوں سے سوڈا واٹر کی خالی بوتلیں بھی منگوا لیں۔وہ انھیں بھی بشو دادا اور اس کے محافظوں پہ پھینکنا چاہتا تھا۔یوں داؤد کے ذہن ِرسا نے ایک انوکھا ہتھیار دریافت کر لیا۔بمبئی کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ سوڈا واٹر کی بوتلیں دنگے فساد میں استعمال ہوئیں۔
بشو حیران رہ گیا
اس زمانے میں غنڈوں کی بھی کچھ اقدار اور اصول تھے۔وہ پیسے کے پیچھے لگ کر مادر پدر آزاد نہیں ہوئے تھے۔مذہبی رسوم بھی بجا لاتے۔بشو مقامی مسجد میںجمعہ پڑھتا تھا۔اسے زیادہ سے زیادہ بے عزت کرنے کی خاطر فیصلہ ہوا کہ بعد از جمعہ اس پہ حملہ کیا جائے۔چناں چہ مقررہ وقت داؤد اور اسے کے گرگے مسجد سے کچھ دور کھڑے ہو گئے۔اسلحہ ساتھ تھا...خالی بوتلوں کے کریٹ اور گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے بھرے ٹوکرے۔جمعہ ختم ہوا تو بشو باہر نکلا۔تین چار پہلوان ساتھ تھے۔اسے دیکھتے ہی داؤد اینڈ کمپنی نے اسلحہ سنبھال حملہ کر دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ سر تا پا گندگی سے لتھڑ گیا۔ٹوٹتی بوتلوں کی کرچیوں سے زخم بھی لگے۔
یہ منظر دیکھ کر وہاں جمع لوگ سناٹے میں آ گئے۔ان سے بھی زیادہ بشو اور اس کے پہلوان حیران پریشان تھے۔آج تک کسی نے بشو پر حملہ نہیں کیا تھا۔اب اسے نشانہ بنایا گیا تو وہ بھی بوتلوں ،انڈوں اور ٹماٹروں کے غیرروایتی اسلحے سے!چند منٹ تو بشو اور اسے کے گرگوں کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کریں۔وہ اپنا آپ گندگی سے بچاتے رہے۔آخر بشو دادا نے خود کو سنبھالا،نیفے سے چاقو نکالا،کڑاکے دار آواز میں کھولا اور اسے ہاتھوں میں تولتا داؤد کی سمت بڑھا۔اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔
داؤد جانتا تھا کہ وہ چاقو چلانے میں بشو کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔اسی لیے زیادہ شدت سے بشو پر بوتلیں پھینکنے لگا تاکہ وہ نزدیک نہ آ سکے۔اسی دوران ایک پہلوان بشو کی مرسڈیز کار لیے وہاں آن پہچا۔بشو نے عافیت یہی سمجی کہ وہاں سے فرار ہو جائے۔وہ گندگی سے لتھڑ چکا تھا۔بوتلوں کے ٹکروں نے ہاتھ پاؤں زخمی کر ڈالے تھے۔پھر لوگوں نے اس کی ذلت و بے بسی کا جو تماشا دیکھا تھا،بشو کے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔لہذا مقابلہ کرنے کے بجائے اس نے پسپائی اختیار کر لی۔
دربار کا تیاپانچہ
داؤد اور اس کے ساتھی کار پر بھی بوتلیں پھینکنے لگے۔انھوں نے اس کا عقبی شیشہ اور بتیاں توڑ ڈالیں۔تاہم بشو دادا اور اسے کے چمچے کار میں بیٹھ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔جب وہ دم دبا کر بھاگ گئے تو لڑکوں نے فتح کی خوشی میں نعرہ ہائے تحسین بلند کیے مگر داؤد اس جیت سے خوش نہ تھا۔ابھی بدلے کی آگ سرد نہیں ہوئی تھی۔وہ بشو دادا کی پتا ہی کاٹ دینا چاہتا تھا۔اس نے اپنے ساتھیوں کو موٹرسائکلوں پہ بٹھایا اور انھیں لیے بشو کے اکھاڑے پہنچ گیا جہاں دادا اپنی انا کی تسلین کے لیے دربار بھی لگاتا تھا۔
وہ ایک بڑا اکھاڑہ تھا ۔ کئی قد آدم آئینے نصب تھے۔ پہلوان ان کے سامنے کشتی کیا کرتے۔بیٹھنے کی خاطر کرسیاں اور صوفے بھی رکھے تھے۔بادام سے شربت بنانے کی مشین بھی نظر آتی۔بشو کو یہ شربت بہت پسند تھا۔داؤد اور اس کے گینگ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ڈنڈے مار مار کر سارے آئینے،کرسیاں،صوفے اور دیگر سازوسامان توڑ ڈالا۔بادام شربت بنانے کی مشین بھی نہ بخشی گئی۔بشو دادا کا اڈہ تباہ وبرباد کر کے داؤد کو کچھ سکون ملا۔وہ لڑکوں کو لیے چلا گیا۔مگر بشو کے جوابی حملے کا مقابلہ کرنے کی خاطر چاق وچوبند رہا۔
اور دور اختتام کو پہنچا
بشو دادا سرعام اپنی تذلیل ہونے پہ غصے سے کانپ رہا تھا۔اس کا بس چلتا تو وہ اسی وقت داؤد کے پیٹ میں چاقو گھسا دیتا۔وہ پھر داؤد کو عبرت ناک سزا دینے کے لیے منصوبہ بنانے لگا۔مگر قدرت الہی کچھ اور ہی فیصلہ کر چکی تھی۔دراصل اس وقت ایک اعلی پولیس افسر ابرہیم کاسکر کا پرانا واقف کار اور قدر دان تھا۔جب اسے اطلاع ملی کہ بشو نے ابراہیم کی بے عزتی کی ہے تو بہت صدمہ پہنچا۔اس کے حکم پر اگلے ہی دن پولیس نے نیشنل سیکورٹی ایکٹ کے تحت بشو کو گرفتار کر لیا۔اس نئے قانون کی رو سے بمبئی پولیس کسی کو بھی ایک سال تک زیرحراست رکھ سکتی تھی اور اس کی ضمانت نہ ہوتی۔ یوں ڈونگری میں بشو دادا کا دور اختتام پذیر ہوا۔کریم لالہ نے بشو کی غیرحاضری میں علاقہ اس کے دست راست،خالد پہلوان کے سپرد کر دیا۔
بمبئی کے غنڈوں میں خالد پہلوان عجیب وغریب کریکٹر تھا۔وہ مدھیہ پردیش سے تعلق رکھتا تھا۔بی اے پاس تھا جو اس وقت اعلی تعلیمی ڈگری تھی۔پولیس میں بھرتی ہونے بمبئی آیا مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا۔لمبا چوڑا تھا،اس لیے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر جرائم پیشہ گروہ کا حصہ بن گیا جس نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔مگر متکبر بشو دادا اس سے بھی برا سلوک کرتا تھا۔درحقیقت تکبر ہی اس کے زوال کا سبب بنا۔داؤد یہ سچائی جانتا تھا۔اس نے خالد پہلوان کو پیغام بھجوایا:''دادا!میری تم سے کوئی لڑائی نہیں۔لہذا ہمارا آپس میں کوئی لفڑا نہیں ہونا چاہیے۔''خالد نے بھی دوستانہ انداز میں جواب دیا۔یوں ڈونگری میں دونوں گروہوں کی گینگ وار ختم ہو گئی۔خالد بعد ازاں داؤد کا حمایتی بن گیا اور ایک بار اس کی جان بھی بچائی۔
ایک تصور کا جنم
ایک سال بعد بشو دادا رہا ہو گیا مگر اس نے ڈونگری کا رخ نہیں کیا۔ وہ اپنے آبائی شہر، حیدرآباد دکن چلا گیا اور وہیں بقیہ ایام گذارے۔یوں داؤد نے نہایت دلیری اور ذہانت سے اپنے پہلے بڑے دشمن کا صفایا کر ڈالا۔بشو سے چھٹکارا پا کر اسے احساس ہوا کہ بڑے دادا اپنے گرگوں کی مدد سے بدمعاشی کرتے ہیں۔بشو تو خیر خود بھی پہلوان تھا لیکن بیشتر دادا چاقو تک چلانا نہیں جانتے ۔بس پیسے اور تعلقات کی طاقت نے انھیں اپنے اپنے علاقوں میں ڈان بنا دیا ۔اسی احساس نے داؤد میں یہ تصّور پروان چڑھایا کہ وہ اپنی صلاحیتیوں کے سہارے نام نہاد داداؤں کو چاروں شانے چت کر کے بمبئی کی زیرزمین دنیا کا بے تاج بادشاہ بن جائے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بشو دادا ابراہیم کاسکر اور صابر کی تذلیل نہ کرتا تو شاید داؤد کی سرگرمیوں کا دائرہ کار ڈونگری تک محدود رہتا۔آخر بھتّا لینے سے اس کے اور اہل خانہ کے اخراجات پورے ہو رہے تھے اور اسی ضرورت نے اسے غنڈہ بنایا تھا۔ویسے بھی وہ کھلے عام داداگیری کر کے باپ کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ دولت مند بے ایمانی سے عوام سے پیسہ لوٹتے اور اینٹھتے ہیں۔لہذا ان فراڈیوں سے بھتّا لینا جائز ہے۔داؤد امرا کو گھاس تک نہ ڈالتا مگر غریبوں کے ساتھ ہمدردی اور پیار سے پیش آتا۔یہ بمبئی کے اکثر داداؤں کا وتیرہ تھا۔ وہ ڈھکے چھپے انداز میں غریبوں کی ہر ممکن مدد کرتے۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ، ممد بھائی ایک ایسے ہی حقیقی کردار پہ مبنی ہے۔مگر بمبئی میں بشو دادا جیسے غنڈے بھی بستے تھے جو طاقت و حیثیت پا کر مغرور وگھمنڈی ہو جاتے۔داؤد کا پالا بھی ایسے ہی دادا سے پڑا۔
نشانہ چوک گیا
بشو سے دو دو ہاتھ کرنے سے داؤد کی سربستہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آ گئیں۔تب وہ ڈونگری سے باہر بھی نگاہیں دوڑانے لگا۔بشو پہ غلبہ پا کر اب وہ دوسرے داداؤں کے علاقوں تک بھی رسائی چاہتا تھا۔اس کا پہلا نشانہ حاجی مستان بنا مگر یہ چوک گیاجس پر داؤد کو خاصی خفت اٹھانا پڑی۔اور باپ کی مار سے جو تکلیف ہوئی،وہ الگ تھی۔حاجی مستان بمبئی میں سونے وچاندی کا بڑا اسمگلر تھا۔کچھ عرصہ قبل اس نے اپنے آدمیوں سے داؤد کے دو ساتھی،ابوبکر اور اعجاز پٹوائے تھے۔بشو سے نمٹ کر اب وہ اپنے دو ساتھیوں کی پٹائی کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔یہ بھی اس کے لیے عزت کا مسئلہ بن گیا۔قبل ازیں بتایا گیا،داؤد بشو کو پھر طاقتور دشمن سمجھتا تھا۔حاجی مستان اس کی نظر میں بزدل تھا جو عالی شان دفتر میں بیٹھ کر حکم چلاتا،کسی سے لڑنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔
دولت کے بل پہ مستان نے طاقت پائی تھی،داؤد نے اسی منبع پر حملے کا فیصلہ کیا۔دسمبر 1974ء میں اسے 'ٹپ''ملی کہ دو انگادیے کالے دھن کے پانچ لاکھ روپے لیے حاجی مستان کے اڈے جائیں گے۔بمبئی میں وہ لوگ انگادیہ کہلاتے جو مال ایک سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے۔عموماً یہ ماڑواری ہوتے جو اپنے ساتھ گارڈ بھی نہ رکھتے۔اسی بات نے داؤد کو اکسایا کہ ان پہ حملہ کر کے رقم چھین لے۔4دسمبر کی صبح وہ اپنا گینگ لیے مقررہ جگہ پہنچا۔ایک ٹھیلا ٹیکسی کو مار کر اسے روکا گیا۔اس میں بیٹھے افراد نے کھلے چاقو دیکھے تو ان کی گھگھی بندھ گئی۔ڈکی سے پونے پانچ لاکھ روپے داؤد کے ہاتھ لگے۔مگر اسے ٹپ دینے والے سے ایک فاش غلطی ہو گئی...یہ رقم حاجی مستان نہیں بمبئی کے میٹروپولٹین کوآپریٹیو بینک کی ملکیت تھی۔
ایک لیجنڈری کردار
چوالیس سال قبل پونے پانچ لاکھ رقم خاصی بڑی رقم تھی،آج کے پانچ کروڑ روپے سے بھی زیادہ۔اسی لیے دن دیہاڑے انجام پائی ڈکیتی نے بمبئی میں تہلکہ مچا دیا۔پولیس کو جلد پتا چل گیا کہ اس کے پیچھے کون ہے۔داؤد نے اپنی شناخت چھپانے کی دانستہ کوشش نہیں کی تھی کیونکہ وہ تو اپنی دانست میں مستان کو لوٹ رہا تھا۔اگلے دن اخبارات میں ڈاکے کی خبر شہہ سرخیوں میں چھپی۔سارے شہر کے باسیوں کی نظریں ڈونگری کے نوخیز دادا پہ مرکوز ہو گئیں۔
داؤد نے بزعم خود مستان کو لوٹ کا بڑا معرکہ مارا تھا مگر یہاں تو بازی ہی الٹ گئی۔جب اسے حقیقت معلوم ہوئی تو داؤد گھبرا گیا۔وہ قطعاً پولیس کو اپنے پیچھے لگانے کا خواہش مند نہ تھا۔لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔اسے مجبوراً صابر کے ساتھ دوستوں کے گھر روپوش ہونا پڑا۔اُدھر پولیس نے داؤد کے ساتھی گرفتار کر لیے مگر بھائیوں کی گرد بھی نہ پا سکی۔ابراہیم کاسکر کو بیٹے کے نئے کارنامے کی خبر ملی تو وہ گنگ رہ گئے۔وہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ نوجوانی کا جوش ہے،کچھ عرصے بعد ختم ہو جائے گا۔مگر بیٹے نے ڈاکہ ڈال کر ان کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی۔اب وہ محلے میں لوگوں سے نظر ملانے کی ہمت کھو بیٹھے تھے۔اگرچہ علاقے کے لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ اگر بیٹے غلط راہ پر چل نکلے ہیں تو اس میں والدین کا قصور نہیں،وہ جانتے تھے کہ ابراہیم کاسکر اور ان کی بیگم آمنہ بھلے مانس و شریف لوگ ہیں۔
اسی دن کرائم برانچ سے ابرہیم کا بلاوا آیا۔وہ واپس آئے تو لوگوں نے دیکھا کہ بہت مضحمل اور پژمردہ ہیں۔صدیوں کے بیمار لگتے ۔وہ مخبروں کا اپنا نیٹ ورک رکھتے تھے۔ان کی مدد سے بیٹوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے باپ کو دیکھاتو بھاگنے کی ہمت نہ کر سکے۔والد انھیں گھر لے آئے اور اپنی پیٹی سے بیٹوں کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔محلے والے ہاتھ نہ روکتے تو شاید ابرہیم انھیں معذور کر دیتے۔پھر وہ انھیںکرائم برانچ چھوڑ آئے۔پولیس والوں نے داؤد اور صابر کی حالت زار دیکھی تو ششدر رہ گئے۔انھوں نے پھر لاتیں اور گھونسے مارنے کا اپنا پروگرام ملتوی کر دیا۔
دونوں بھائی کچھ عرصہ جیل میں رہے۔پھر ان کی ضمانت ہو گئی۔وہ چند ماہ خاموش رہے مگر ڈاکہ ڈال کر انھیں اکھا بمبئی میں جو شہرت ملی تھی،اس کا اپنا ہی مزہ تھا۔چناں چہ جلد پھر گینگ بن گیا اور معمول کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔داؤد پھر تیزی سے اپنے گروہ کا دائرہ کار بڑھاتا چلا گیا۔
اس کے سبھی داداؤں سے مقابلے ہوئے جن میں وہ فتح یاب ٹھہرا۔1985ء تک وہ بلا شرکت غیرے بمبئی کا سب سے بڑا ڈان بن چکا تھا۔یہ اعزاز اب تک کسی دادا کو نہیں ملا تھا۔1988ء میں ابراہیم کاسکر چل بسے ۔صابر کو پہلے ہی 1981ء میں کریم لالہ کے گروہ نے قتل کر دیا تھا۔1986ء میں داؤد دبئی چلا گیا اور وہاں سے اپنی سلطنت چلانے لگا۔1993ء میں بھارتی حکومت نے اسے بمبئی کی ریلوں میں بم دہماکوں کا ذمے دار قرار دیا۔تب سے بھارتی خفیہ ایجنسیاں کتوں کی طرح داؤد کی بو سونگھتی پھرتی ہیں مگر اس کی گرد تک نہ پا سکیں۔داؤد آج پاک وہند کی دنیائے جرائم میں افسانوی حیثیت اختیار کر چکا۔کوئی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا چل بسا مگر اس کی ڈرامائی داستان حیات آنے والوں وقتوں میں بھی دہرائی جاتی رہے گی۔
حامد علاقے کا بدمعاش تھا۔اس کا بھائی،ماجد منشیات کے دھندے میں ملوث تھا۔دونوں علاقے کے ڈان،بشو دادا کے گینگ میں شامل تھے۔بشو سب سے بڑے بھارتی شہر،بمبئی کا نامی گرامی دادا تھا۔شہر کے علاقے،ڈونگری میں اسے زیرزمین دنیا کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا۔ڈونگری میں کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ بشو دادا کو چھو بھی سکے۔ مگر اب ڈونگری میں ایک اور دادا جنم لے چکا تھا...داؤد ابراہیم جو بشو دادا کے گرگوں کی غنڈہ گردی اور من مانی کارروائیاں تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔یہ 1974ء کی بات ہے۔
ڈونگری میں زیادہ تر محنت کش طبقہ آباد تھا۔ان میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔یہ مسلمان بندرگاہ اور مختلف کارخانوں میں کام کرتے ۔بہت سے ٹھیلے لگاتے اور چھوٹی موٹی دکانیں چلاتے ۔بڑے بازاروں میں دکانیں بوہریوں کی ملکیت تھیں جن کا پاس پیسہ تھا۔ان کے علاوہ بیشتر باسی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے۔ان کے دکھ سکھ سانجھے تھے اور مذہبی اختلافات عنقا،البتہ معاشی مفادات ڈونگری کے لیڈروں کو آپس میں برسرپیکار رکھتے۔
سادہ زندگی پہ مطمئن روح
انیس سالہ داؤد کے والد،ابراہیم کاسکر ہیڈکانسٹیبل تھے۔وہ مہاراشٹر کے گاؤں،ممکا سے تعلق رکھتے۔ابراہیم کے والد،حسن گاؤں سے تلاش معاش میں ڈونگری آئے۔وہاں انھوں نے حجام کی دکان کھولی اور رزق حلال کمانے لگے۔بیٹے کو تعلیم دلوائی اور ابراہیم پولیس کی ملازمت پانے میں کامیاب رہے۔وہ سرکاری نوکری پانے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے۔بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں محکمہ پولیس رشوت لینے کے معاملے میں بدنام ہے۔ابراہیم کی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے کبھی کسی سے رشوت نہ لی۔حالانکہ ان کا خاندان خاصا بڑا تھا،پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں۔وہ مگر سالہا سال تک ماہوار پچھتر روپے تنخواہ پر گذارا کرتے رہے۔ساری عمر چھوٹے سے مکان میں گذار دی۔
اسی دیانت داری کے باعث علاقے کے شرفا ہی نہیں جرائم پیشہ بھی ابراہیم کی عزت کرتے۔داؤد ابراہیم کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ گھر میں اکثر فاقہ رہتا۔صبح چائے اور بن سے ناشتا ہوتا اور پھر اہل خانہ رات ہی کو کھانا کھاتے۔اس غربت کے عالم میں بھی ابراہیم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ رشوت لے کر اپنی غریبی دور کر لیں۔ وہ قناعت اور سادہ زندگی پہ مطمئن رہے۔البتہ وہ کبھی کبھی واقف کاروں کے محکمہ پولیس میں اٹکے کام ضرور کروا دیتے۔حتی کہ پولیس ڈونگری کے کسی جرائم پیشہ کو ناروا تنگ کرتی تو اس کی بھی مدد کر دیتے۔مصیبت زدوں کی دادرسی کرنا شاید ان کی فطرت تھی۔
امیدیں خاک میں مل گئیں
1966 ء میں قتل کا ایک کیس حل نہ کرنے کی پاداش میں چند پولیس والوں کو معطل کر دیا گیا۔ان میں ابراہیم کاسکر بھی شامل تھے۔وہ معطلی کی حالت ہی میں ریٹائر ہو گئے۔ملازمت گئی تو آمدن کا واحد ذریعہ بھی ختم ہو ا۔وہ پھر چھوٹے موٹے وقتی کام کرنے لگے تاکہ گھریلو اخراجات کی خاطر رقم مہیا ہو سکے۔تب داؤد اسکول میں پڑھتا تھا۔وہ بچپن سے بہت ذہین تھا۔باپ کی تمنا تھی کہ وہ لکھ پڑھ کر پولیس افسر بن جائے ۔
لہذا ابراہیم نے بڑے چاؤ سے اسے اسکول میں داخل کرایا۔مگر ملازمت ختم ہوئی تو باپ کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔باوجود کوشش کے ابراہیم فیس نہ دے سکے تو بیٹے کو اسکول سے نکال دیا گیا۔پھر داؤد کا بیشتر وقت محلے کے لڑکوں کے ساتھ گذرنے لگا۔ابرہیم اپنے جھمیلوں اور مصروفیات کے سبب داؤد پر نظر نہ رکھ سکے۔محلے کے آوارہ اور لڑاکے لڑکوں کی صحبت میں داؤد بھی جرائم پیشہ بن گیا۔وہ چوری کرنے اور جیبیں کاٹنے لگا۔اس نے پہلی چوری چودہ برس کی عمر میں کی۔یہ 1969ء کا واقعہ ہے۔
جب والد کو خبر ملی کہ داؤد نے ایک دکان میں آدمی کو لوٹنے کی کوشش کی ہے تو انھوں نے بیٹے کو بہت مارا۔مگر بیٹا جرائم کے راستے پر چل نکلا تھا۔باپ سے کئی بار مار کھا کر بھی وہ اپنی راہ پہ گامزن رہا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ماں اور بہنوں کو بھوکا اور بدحال نہیں دیکھ سکتا۔وہ چاہتا ہے کہ ماں اور بہنیں اچھا پہنیں،اچھا کھائیں اور اچھے گھر میں رہیں۔یہ ارمان پورے کرنے کے لیے پیسہ چاہیے تھاجو بیروزگار باپ نہ دے سکا۔لہذا دولت کمانے کی خاطر داؤد غنڈہ بن گیا۔تقریباً چھ فٹ قد کا وہ لڑکا دلیر،ذہین اور لڑاکا تھا۔
اس کی شعلہ صفت فطرت اور طلسماتی شخصیت سے محلے کے سبھی لڑکے ڈرتے تھے۔جلد ہی داؤد نے اپنا گینگ بنا لیا اور ڈونگری میں آباد امیر بوہریوں سے بھتّا لینے لگا۔بوہری کاروباری لوگ تھے،وہ کسی لفڑے میں الجھنا پسند نہ کرتے ۔انھوں نے مناسب یہی سمجھا کہ داؤد کو ہر ماہ کچھ رقم دے کر ٹال دیا جائے۔یوں اس کا گروہ پھلنے پھولنے لگا۔جب داؤد کی بدولت رقم گھر میں آنے لگی تو اس سے تین بھائی بھی آ ملے۔یوں گینگ مذید طاقتور ہو گیا۔
شہر کے بڑے دادا
اس زمانے میں بمبئی کے علاقے مختلف داداؤں نے بانٹ رکھے تھے۔یہ دادا اسمگلنگ،جوئے بازی،جسم فروشی،شراب و منشیات کی خریدوفروخت،بھتّا خوری اور ''سپاری''لے کر قتل تک کے دھندوں میں ملوث تھے۔شہر میں تین سب سے بڑے دادا یعنی ڈان تھے:کریم لالہ،حاجی مستان اور مدلائر۔ان کے گروہوں میں شامل چھوٹے دادا پھر اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم رہتے۔جیسے بشو دادا کا تعلق کریم لالہ کے دھڑے سے تھا۔
لالہ اور بشو دادا، دونوں ابراہیم کاسکر کے واقف کار تھے۔ایک دیانت دار کانسٹیبل کے طور پہ وہ اس کی عزت کرتے۔جب ابراہیم کی نوکری جاتی رہی تو بشو دادا وقتا فوقتاً اسے مالی مدد دیتا رہا۔1974ء تک مگر داؤد ابرہیم کا گینگ بھی خاصا طاقتور ہو چکا تھا۔ گروہ میں دس سے زائد لڑکے شامل تھے۔اب وہ اپنے علاقے میں بشو دادا کے کارندوں کی دادا گیری اور بدمعاشی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔یہی وجہ ہے جب حامد خان نے اس کے جگری یار کو مارا پیٹا تو داؤد نے اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔کریم کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور حامد خان کے اڈے پر جا دھمکا۔حامد کے سامنے پہنچتے ہی داؤد نے اسے گالی دی اور بڑے طیش سے بولا:''کیوں بے،تو اپنے آپ کو اکھا بمبئی کا بہت بڑا دادا سمجھنے لگا ہے؟ہیں،بتا نا؟''
حامد نے اسے آگ بگولہ دیکھا تو بھیگی بلی بن گیا۔کہنے لگا:''نہیں داؤد بھائی،تمھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔''
''ایک بات سن لے۔بشو دادا کا منہ دیکھ کر تجھے بخش دیا ورنہ ابھی تیرا قیمہ بنا دیتا۔''داؤد دھاڑ کر بولا۔
حامد نے دیکھا کہ نوخیز لونڈے کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ا س کی ساری شیخی ہوا ہو گئی۔اسے محسوس ہو گیا کہ وہ بشو دادا کا گرگا نہ ہوتا تو داؤد ابھی اس کو بری طرح پیٹ ڈالتا۔داؤد نے اسے ''بندے کا پتر''بننے کو کہا اور پھنکارتا ہوا چلا گیا۔حامد جانتا تھا کہ اس معاملے کی خبر بشو دادا تک ضرور پہنچے گی۔داؤد کی بلند آواز سن کے محلے کے لوگ جمع ہو گئے تھے۔تبھی اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔اس کی مدد سے وہ غصیلے داؤد سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکتا تھا۔وہ فوراً بشو سے ملنے روانہ ہو گیا۔
بے عزتی کا ناقابل فراموش واقعہ
بشو اپنے علاقے میں فٹ بال کا میچ دیکھ رہا تھا۔حامد نے نمک مرچ لگا کر اسے سارا واقعہ سنایا اور کہا:''دادا ،وہ آپ کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔سب کے سامنے آپ کو ماں بہن کی گالیاں دیں۔''یہ گالیاں حقیقت میں حامد کے لیے تھیں مگر اس نے بڑی عیاری سے ان کا رخ بشو کی سمت پھیر دیا۔حسب توقع یہ سن کر دادا شدید غصّے میں آ گیا۔وہ قطعاً یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی اس کے علاقے میں اسی کی بے عزتی کر ڈالے۔اور وہ بھی ایک انیس سالہ لونڈے کے ہاتھوں!وہ فٹ بال میچ بھول گیا اور اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ جلد از جلد ابراہیم اور صابر کو بیٹھک میں بلوا لیں۔
سہہ پہر کو ابراہیم بڑے بیٹے،صابر اور پڑوسی رحیم چاچا کو لیے بشو دادا سے ملنے آیا۔دادا نے انھیں بیٹھنے کانہیں کہا اور بڑی تلخی سے بولا:''داؤد نے مجھے گالیاں دی ہیں۔ابراہیم ،اپنے چھوکرے کو سمجھا لو ورنہ...''
''دادا!لڑکے سے غلطی ہو گئی۔اسے معاف کر دو۔''ابرہیم بولے
''غلطی!''بشو دادا دھاڑ کر بولا۔وہ پھر صابر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا:''جب تیرے باپ کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی کہ تم لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتا تو تب میں نے اسے سہارا دیا۔اور اب تم لوگ،سب ...لوگ، اسی تھالی کو گالی دیتے ہو۔تم لوگوں نے نمک حرامی کر کے اس طرح میرے احسان کا بدلہ دیا؟دفع ہو جاؤ یہاں سے...''
ابراہیم اور صابر مرے مرے قدم اٹھاتے باہر نکل گئے۔ان کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔چہرے پر ہوائیاں اڑی تھیں۔باپ بیٹے کا کانوں میں ''احسان''اور ''نمک حرامی''کے الفاظ گونج رہے تھے۔ان کی آج سبھی لوگوں کے سامنے خوب بے عزتی ہوئی تھی۔رحیم چاچا وہیں رہ گیا تھا۔وہ بشو دادا سے کہنے لگا:''آپ چھوٹے لڑکے سے ایسی باتیں نہ بولتے تو اچھا تھا دادا!'
''چھوٹا لڑکا!اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی گندی زبان سے مجھے گالیاں دیں تو کیا میں تماشا دیکھتا رہتا؟''بشو ترشی سے بولا۔
بیٹے کا خون کھول اٹھا
صابر گھر پہنچتے ہی رونے لگا۔داؤد کی حرکتوں کے باعث پورا خاندان نالاں تھا مگر پہلے کبھی کسی نے ابراہیم کاسکر اور اس کے بچوں کی سرعام توہین نہیں کی تھی۔آج طاقت کے نشے میں چور متکبر بشو دادا ساری حدیں پار کر گیا تھا۔ابراہیم کچھ نہ بولے اور خاموشی سے بیٹھے خلا میں گھورتے رہے۔چہرہ پتھر جیسا ہو گیا تھا۔داؤد رات گئے گھر آیا۔اب وہ اکثر اسی وقت آتا تھا تاکہ باپ کی ڈانٹ ڈپٹ نہ سننی پڑے۔صابر کی بری حالت دیکھ کر وہ سناٹے میں آ گیا۔تب بڑے بھائی نے اسے سارا ماجرا سنایا۔داؤد کا تو خون کھول اٹھا۔
یہ درست تھا کہ والد اس سے سخت ناراض تھے۔اب بھی وہ اس پہ ہاتھ اٹھا دیتے۔پھٹکارنا تو معمول بن چکا تھا مگر وہ ان کی بہت عزت کرتا تھا۔باپ کے سامنے نظریں جھکائے رکھتا اور انگلی تک نہ اٹھاتا۔اب اسی باپ اور بھائی کی بے عزتی کا سن کر وہ غصّے کے مارے لرزنے لگا۔اس نے قسم کھائی کہ وہ ان کی تضحیک کرنے پر بشو دادا کی سلطنت کا تیاپانچہ کر ڈالے گا۔
داؤد دراصل جانتا تھا کہ بشو نہیں والد نے اس پہ احسانات کر رکھے ہیں۔جب کبھی پولیس اسے تنگ کرتی تھی تو بشو ابراہیم کاسکر کا سہارا لیتا تاکہ سر پہ آئی بلا ٹال سکے۔ابراہیم قانونی معاملات میں بھی کبھی کبھی اس کی مدد کر دیا کرتے۔جب وہ بیروزگار ہو گئے تو بشو نے چند بار انھیں معمولی رقم بجھوائی تھی۔بس اسی مدد کو احسان کا روپ دے کر بشو نے اپنے محسن اور شریف انسان کی توہین کر ڈالی۔یہ معاملہ داؤد کی برداشت سے باہر ہو گیا۔رحیم چاچا اور محلے کے دیگر بڑے چاہتے تھے کہ داؤد جواب نہ دے ۔مگر اس نے انھیں بتایا:''بشو دادا نے جو حرکت کی ہے، اسے بہت مہنگی پڑے گی۔''
دادا پہ نرالا حملہ
داؤد مگر یہ بھی جانتا تھا کہ بشو دادا کا مقابلہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔اس کا گروہ پندرہ سولہ تجربے کار گرگوں پہ مشتمل تھا جو ''پہلوان''کہلاتے۔بشو نے ایک اکھاڑہ کھول رکھا تھا جہاں وہ اپنے بندوں کو لڑائی کے داؤ پیچ اور طمنچے چلانا سکھاتا تھا۔وہ خود بھی عمدہ پہلوان تھا اور چاقو چلانے کے گُر جانتاتھا۔ غوروفکر کے بعد داؤد کو خیال آیا کہ اگر بھرے بازار میں بشو کی بے عزتی کر دی جائے تو وہ دوبارہ علاقے میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔بشو کو یہ بڑا غرورو مان تھا کہ علاقے میں اسے چنوتی دینے والا کوئی نہیں۔اب اس سے انتقام لینے کی یہ تدبیر بہترین محسوس ہوئی۔سوال پھر یہ اٹھا کہ بشو کی تضحیک کیونکر کی جائے؟
ایک رائے یہ تھی کہ اس پہ گولی چلائی جائے۔مگر اس زمانے میں گولی چلانے والا غنڈہ بزدل اور نامرد سمجھا جاتا۔داؤد بھی طمنچے نہیں اپنی ذہانت اور طاقت کے بل بوتے پر خود کو منوانا چاہتا تھا۔اس لیے یہ حل نہیں بھایا۔وہ اور اس کے لڑکے چاقو بازی میں طاق نہ تھے لہذا یہ تدبیر بھی نامناسب لگی۔الٹا ان کو پھینٹی لگ جاتی۔آخر طے پایا کہ بشو پر گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے چاند ماری کی جائے۔آخری وقت میں داؤد نے لڑکوں سے سوڈا واٹر کی خالی بوتلیں بھی منگوا لیں۔وہ انھیں بھی بشو دادا اور اس کے محافظوں پہ پھینکنا چاہتا تھا۔یوں داؤد کے ذہن ِرسا نے ایک انوکھا ہتھیار دریافت کر لیا۔بمبئی کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ سوڈا واٹر کی بوتلیں دنگے فساد میں استعمال ہوئیں۔
بشو حیران رہ گیا
اس زمانے میں غنڈوں کی بھی کچھ اقدار اور اصول تھے۔وہ پیسے کے پیچھے لگ کر مادر پدر آزاد نہیں ہوئے تھے۔مذہبی رسوم بھی بجا لاتے۔بشو مقامی مسجد میںجمعہ پڑھتا تھا۔اسے زیادہ سے زیادہ بے عزت کرنے کی خاطر فیصلہ ہوا کہ بعد از جمعہ اس پہ حملہ کیا جائے۔چناں چہ مقررہ وقت داؤد اور اسے کے گرگے مسجد سے کچھ دور کھڑے ہو گئے۔اسلحہ ساتھ تھا...خالی بوتلوں کے کریٹ اور گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے بھرے ٹوکرے۔جمعہ ختم ہوا تو بشو باہر نکلا۔تین چار پہلوان ساتھ تھے۔اسے دیکھتے ہی داؤد اینڈ کمپنی نے اسلحہ سنبھال حملہ کر دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ سر تا پا گندگی سے لتھڑ گیا۔ٹوٹتی بوتلوں کی کرچیوں سے زخم بھی لگے۔
یہ منظر دیکھ کر وہاں جمع لوگ سناٹے میں آ گئے۔ان سے بھی زیادہ بشو اور اس کے پہلوان حیران پریشان تھے۔آج تک کسی نے بشو پر حملہ نہیں کیا تھا۔اب اسے نشانہ بنایا گیا تو وہ بھی بوتلوں ،انڈوں اور ٹماٹروں کے غیرروایتی اسلحے سے!چند منٹ تو بشو اور اسے کے گرگوں کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کریں۔وہ اپنا آپ گندگی سے بچاتے رہے۔آخر بشو دادا نے خود کو سنبھالا،نیفے سے چاقو نکالا،کڑاکے دار آواز میں کھولا اور اسے ہاتھوں میں تولتا داؤد کی سمت بڑھا۔اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔
داؤد جانتا تھا کہ وہ چاقو چلانے میں بشو کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔اسی لیے زیادہ شدت سے بشو پر بوتلیں پھینکنے لگا تاکہ وہ نزدیک نہ آ سکے۔اسی دوران ایک پہلوان بشو کی مرسڈیز کار لیے وہاں آن پہچا۔بشو نے عافیت یہی سمجی کہ وہاں سے فرار ہو جائے۔وہ گندگی سے لتھڑ چکا تھا۔بوتلوں کے ٹکروں نے ہاتھ پاؤں زخمی کر ڈالے تھے۔پھر لوگوں نے اس کی ذلت و بے بسی کا جو تماشا دیکھا تھا،بشو کے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔لہذا مقابلہ کرنے کے بجائے اس نے پسپائی اختیار کر لی۔
دربار کا تیاپانچہ
داؤد اور اس کے ساتھی کار پر بھی بوتلیں پھینکنے لگے۔انھوں نے اس کا عقبی شیشہ اور بتیاں توڑ ڈالیں۔تاہم بشو دادا اور اسے کے چمچے کار میں بیٹھ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔جب وہ دم دبا کر بھاگ گئے تو لڑکوں نے فتح کی خوشی میں نعرہ ہائے تحسین بلند کیے مگر داؤد اس جیت سے خوش نہ تھا۔ابھی بدلے کی آگ سرد نہیں ہوئی تھی۔وہ بشو دادا کی پتا ہی کاٹ دینا چاہتا تھا۔اس نے اپنے ساتھیوں کو موٹرسائکلوں پہ بٹھایا اور انھیں لیے بشو کے اکھاڑے پہنچ گیا جہاں دادا اپنی انا کی تسلین کے لیے دربار بھی لگاتا تھا۔
وہ ایک بڑا اکھاڑہ تھا ۔ کئی قد آدم آئینے نصب تھے۔ پہلوان ان کے سامنے کشتی کیا کرتے۔بیٹھنے کی خاطر کرسیاں اور صوفے بھی رکھے تھے۔بادام سے شربت بنانے کی مشین بھی نظر آتی۔بشو کو یہ شربت بہت پسند تھا۔داؤد اور اس کے گینگ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ڈنڈے مار مار کر سارے آئینے،کرسیاں،صوفے اور دیگر سازوسامان توڑ ڈالا۔بادام شربت بنانے کی مشین بھی نہ بخشی گئی۔بشو دادا کا اڈہ تباہ وبرباد کر کے داؤد کو کچھ سکون ملا۔وہ لڑکوں کو لیے چلا گیا۔مگر بشو کے جوابی حملے کا مقابلہ کرنے کی خاطر چاق وچوبند رہا۔
اور دور اختتام کو پہنچا
بشو دادا سرعام اپنی تذلیل ہونے پہ غصے سے کانپ رہا تھا۔اس کا بس چلتا تو وہ اسی وقت داؤد کے پیٹ میں چاقو گھسا دیتا۔وہ پھر داؤد کو عبرت ناک سزا دینے کے لیے منصوبہ بنانے لگا۔مگر قدرت الہی کچھ اور ہی فیصلہ کر چکی تھی۔دراصل اس وقت ایک اعلی پولیس افسر ابرہیم کاسکر کا پرانا واقف کار اور قدر دان تھا۔جب اسے اطلاع ملی کہ بشو نے ابراہیم کی بے عزتی کی ہے تو بہت صدمہ پہنچا۔اس کے حکم پر اگلے ہی دن پولیس نے نیشنل سیکورٹی ایکٹ کے تحت بشو کو گرفتار کر لیا۔اس نئے قانون کی رو سے بمبئی پولیس کسی کو بھی ایک سال تک زیرحراست رکھ سکتی تھی اور اس کی ضمانت نہ ہوتی۔ یوں ڈونگری میں بشو دادا کا دور اختتام پذیر ہوا۔کریم لالہ نے بشو کی غیرحاضری میں علاقہ اس کے دست راست،خالد پہلوان کے سپرد کر دیا۔
بمبئی کے غنڈوں میں خالد پہلوان عجیب وغریب کریکٹر تھا۔وہ مدھیہ پردیش سے تعلق رکھتا تھا۔بی اے پاس تھا جو اس وقت اعلی تعلیمی ڈگری تھی۔پولیس میں بھرتی ہونے بمبئی آیا مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا۔لمبا چوڑا تھا،اس لیے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر جرائم پیشہ گروہ کا حصہ بن گیا جس نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔مگر متکبر بشو دادا اس سے بھی برا سلوک کرتا تھا۔درحقیقت تکبر ہی اس کے زوال کا سبب بنا۔داؤد یہ سچائی جانتا تھا۔اس نے خالد پہلوان کو پیغام بھجوایا:''دادا!میری تم سے کوئی لڑائی نہیں۔لہذا ہمارا آپس میں کوئی لفڑا نہیں ہونا چاہیے۔''خالد نے بھی دوستانہ انداز میں جواب دیا۔یوں ڈونگری میں دونوں گروہوں کی گینگ وار ختم ہو گئی۔خالد بعد ازاں داؤد کا حمایتی بن گیا اور ایک بار اس کی جان بھی بچائی۔
ایک تصور کا جنم
ایک سال بعد بشو دادا رہا ہو گیا مگر اس نے ڈونگری کا رخ نہیں کیا۔ وہ اپنے آبائی شہر، حیدرآباد دکن چلا گیا اور وہیں بقیہ ایام گذارے۔یوں داؤد نے نہایت دلیری اور ذہانت سے اپنے پہلے بڑے دشمن کا صفایا کر ڈالا۔بشو سے چھٹکارا پا کر اسے احساس ہوا کہ بڑے دادا اپنے گرگوں کی مدد سے بدمعاشی کرتے ہیں۔بشو تو خیر خود بھی پہلوان تھا لیکن بیشتر دادا چاقو تک چلانا نہیں جانتے ۔بس پیسے اور تعلقات کی طاقت نے انھیں اپنے اپنے علاقوں میں ڈان بنا دیا ۔اسی احساس نے داؤد میں یہ تصّور پروان چڑھایا کہ وہ اپنی صلاحیتیوں کے سہارے نام نہاد داداؤں کو چاروں شانے چت کر کے بمبئی کی زیرزمین دنیا کا بے تاج بادشاہ بن جائے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بشو دادا ابراہیم کاسکر اور صابر کی تذلیل نہ کرتا تو شاید داؤد کی سرگرمیوں کا دائرہ کار ڈونگری تک محدود رہتا۔آخر بھتّا لینے سے اس کے اور اہل خانہ کے اخراجات پورے ہو رہے تھے اور اسی ضرورت نے اسے غنڈہ بنایا تھا۔ویسے بھی وہ کھلے عام داداگیری کر کے باپ کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ دولت مند بے ایمانی سے عوام سے پیسہ لوٹتے اور اینٹھتے ہیں۔لہذا ان فراڈیوں سے بھتّا لینا جائز ہے۔داؤد امرا کو گھاس تک نہ ڈالتا مگر غریبوں کے ساتھ ہمدردی اور پیار سے پیش آتا۔یہ بمبئی کے اکثر داداؤں کا وتیرہ تھا۔ وہ ڈھکے چھپے انداز میں غریبوں کی ہر ممکن مدد کرتے۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ، ممد بھائی ایک ایسے ہی حقیقی کردار پہ مبنی ہے۔مگر بمبئی میں بشو دادا جیسے غنڈے بھی بستے تھے جو طاقت و حیثیت پا کر مغرور وگھمنڈی ہو جاتے۔داؤد کا پالا بھی ایسے ہی دادا سے پڑا۔
نشانہ چوک گیا
بشو سے دو دو ہاتھ کرنے سے داؤد کی سربستہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آ گئیں۔تب وہ ڈونگری سے باہر بھی نگاہیں دوڑانے لگا۔بشو پہ غلبہ پا کر اب وہ دوسرے داداؤں کے علاقوں تک بھی رسائی چاہتا تھا۔اس کا پہلا نشانہ حاجی مستان بنا مگر یہ چوک گیاجس پر داؤد کو خاصی خفت اٹھانا پڑی۔اور باپ کی مار سے جو تکلیف ہوئی،وہ الگ تھی۔حاجی مستان بمبئی میں سونے وچاندی کا بڑا اسمگلر تھا۔کچھ عرصہ قبل اس نے اپنے آدمیوں سے داؤد کے دو ساتھی،ابوبکر اور اعجاز پٹوائے تھے۔بشو سے نمٹ کر اب وہ اپنے دو ساتھیوں کی پٹائی کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔یہ بھی اس کے لیے عزت کا مسئلہ بن گیا۔قبل ازیں بتایا گیا،داؤد بشو کو پھر طاقتور دشمن سمجھتا تھا۔حاجی مستان اس کی نظر میں بزدل تھا جو عالی شان دفتر میں بیٹھ کر حکم چلاتا،کسی سے لڑنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔
دولت کے بل پہ مستان نے طاقت پائی تھی،داؤد نے اسی منبع پر حملے کا فیصلہ کیا۔دسمبر 1974ء میں اسے 'ٹپ''ملی کہ دو انگادیے کالے دھن کے پانچ لاکھ روپے لیے حاجی مستان کے اڈے جائیں گے۔بمبئی میں وہ لوگ انگادیہ کہلاتے جو مال ایک سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے۔عموماً یہ ماڑواری ہوتے جو اپنے ساتھ گارڈ بھی نہ رکھتے۔اسی بات نے داؤد کو اکسایا کہ ان پہ حملہ کر کے رقم چھین لے۔4دسمبر کی صبح وہ اپنا گینگ لیے مقررہ جگہ پہنچا۔ایک ٹھیلا ٹیکسی کو مار کر اسے روکا گیا۔اس میں بیٹھے افراد نے کھلے چاقو دیکھے تو ان کی گھگھی بندھ گئی۔ڈکی سے پونے پانچ لاکھ روپے داؤد کے ہاتھ لگے۔مگر اسے ٹپ دینے والے سے ایک فاش غلطی ہو گئی...یہ رقم حاجی مستان نہیں بمبئی کے میٹروپولٹین کوآپریٹیو بینک کی ملکیت تھی۔
ایک لیجنڈری کردار
چوالیس سال قبل پونے پانچ لاکھ رقم خاصی بڑی رقم تھی،آج کے پانچ کروڑ روپے سے بھی زیادہ۔اسی لیے دن دیہاڑے انجام پائی ڈکیتی نے بمبئی میں تہلکہ مچا دیا۔پولیس کو جلد پتا چل گیا کہ اس کے پیچھے کون ہے۔داؤد نے اپنی شناخت چھپانے کی دانستہ کوشش نہیں کی تھی کیونکہ وہ تو اپنی دانست میں مستان کو لوٹ رہا تھا۔اگلے دن اخبارات میں ڈاکے کی خبر شہہ سرخیوں میں چھپی۔سارے شہر کے باسیوں کی نظریں ڈونگری کے نوخیز دادا پہ مرکوز ہو گئیں۔
داؤد نے بزعم خود مستان کو لوٹ کا بڑا معرکہ مارا تھا مگر یہاں تو بازی ہی الٹ گئی۔جب اسے حقیقت معلوم ہوئی تو داؤد گھبرا گیا۔وہ قطعاً پولیس کو اپنے پیچھے لگانے کا خواہش مند نہ تھا۔لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔اسے مجبوراً صابر کے ساتھ دوستوں کے گھر روپوش ہونا پڑا۔اُدھر پولیس نے داؤد کے ساتھی گرفتار کر لیے مگر بھائیوں کی گرد بھی نہ پا سکی۔ابراہیم کاسکر کو بیٹے کے نئے کارنامے کی خبر ملی تو وہ گنگ رہ گئے۔وہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ نوجوانی کا جوش ہے،کچھ عرصے بعد ختم ہو جائے گا۔مگر بیٹے نے ڈاکہ ڈال کر ان کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی۔اب وہ محلے میں لوگوں سے نظر ملانے کی ہمت کھو بیٹھے تھے۔اگرچہ علاقے کے لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ اگر بیٹے غلط راہ پر چل نکلے ہیں تو اس میں والدین کا قصور نہیں،وہ جانتے تھے کہ ابراہیم کاسکر اور ان کی بیگم آمنہ بھلے مانس و شریف لوگ ہیں۔
اسی دن کرائم برانچ سے ابرہیم کا بلاوا آیا۔وہ واپس آئے تو لوگوں نے دیکھا کہ بہت مضحمل اور پژمردہ ہیں۔صدیوں کے بیمار لگتے ۔وہ مخبروں کا اپنا نیٹ ورک رکھتے تھے۔ان کی مدد سے بیٹوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے باپ کو دیکھاتو بھاگنے کی ہمت نہ کر سکے۔والد انھیں گھر لے آئے اور اپنی پیٹی سے بیٹوں کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔محلے والے ہاتھ نہ روکتے تو شاید ابرہیم انھیں معذور کر دیتے۔پھر وہ انھیںکرائم برانچ چھوڑ آئے۔پولیس والوں نے داؤد اور صابر کی حالت زار دیکھی تو ششدر رہ گئے۔انھوں نے پھر لاتیں اور گھونسے مارنے کا اپنا پروگرام ملتوی کر دیا۔
دونوں بھائی کچھ عرصہ جیل میں رہے۔پھر ان کی ضمانت ہو گئی۔وہ چند ماہ خاموش رہے مگر ڈاکہ ڈال کر انھیں اکھا بمبئی میں جو شہرت ملی تھی،اس کا اپنا ہی مزہ تھا۔چناں چہ جلد پھر گینگ بن گیا اور معمول کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔داؤد پھر تیزی سے اپنے گروہ کا دائرہ کار بڑھاتا چلا گیا۔
اس کے سبھی داداؤں سے مقابلے ہوئے جن میں وہ فتح یاب ٹھہرا۔1985ء تک وہ بلا شرکت غیرے بمبئی کا سب سے بڑا ڈان بن چکا تھا۔یہ اعزاز اب تک کسی دادا کو نہیں ملا تھا۔1988ء میں ابراہیم کاسکر چل بسے ۔صابر کو پہلے ہی 1981ء میں کریم لالہ کے گروہ نے قتل کر دیا تھا۔1986ء میں داؤد دبئی چلا گیا اور وہاں سے اپنی سلطنت چلانے لگا۔1993ء میں بھارتی حکومت نے اسے بمبئی کی ریلوں میں بم دہماکوں کا ذمے دار قرار دیا۔تب سے بھارتی خفیہ ایجنسیاں کتوں کی طرح داؤد کی بو سونگھتی پھرتی ہیں مگر اس کی گرد تک نہ پا سکیں۔داؤد آج پاک وہند کی دنیائے جرائم میں افسانوی حیثیت اختیار کر چکا۔کوئی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا چل بسا مگر اس کی ڈرامائی داستان حیات آنے والوں وقتوں میں بھی دہرائی جاتی رہے گی۔