مغلپورہ زیادتی کا واقعہ سپریم کورٹ کیلیے ’’ٹیسٹ کیس ‘‘ بن گیا

نوٹسوں،کھوکھلے نعروں اور سیاسی بیانات سے متاثرہ خاندان کو سوائے بدنامی اور رسوائی کے کچھ نہ ملا

مجرم نہیں پکڑے جاتے تو یہ عدلیہ کے ازخودنوٹس لینے کے اختیارات پر بڑا سوالیہ نشان ہو گا، قانونی ماہرین فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے موجودہ اور سابق چیف جسٹس صاحبان کی طرف سے ازخود نوٹسوں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے نوٹس کے باوجود لاہور میں5سالہ بچی سے زیادتی کے ملزمان تاحال گرفتار نہ کیے جا سکے۔

درندگی کا یہ ہولناک واقعہ پچھلے سال13ستمبر کو پیش آیا تھا اور تاحال متاثرہ خاندان کو انصاف فراہمی کے خالی وعدوں اور ارباب اختیار کی بھرپور میڈیا کوریج سے زیادہ اس کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے پیشرو موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی طرف سے اس کیس (مغلپورہ زیادتی کیس ) میں لیے گئے ازخود نوٹسوں کو ملکی اور غیرملکی میڈیا میں بھرپور کوریج ملی۔ کچھ ایسی ہی پذیرائی وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے لیے گئے نوٹس کو بھی ملی۔ آئی جی پنجاب کو بھی اس میڈیا کوریج میں حصہ ملا جب انھوں نے اس کیس کی تحقیقات کیلیے 2 الگ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دیں۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ بھی اکثر ٹی وی چینلز پر اس کیس سے متعلق تندوتیز بیانات داغتے نظر آئے۔

ادھر اپوزیشن بھی ملزمان کی عدم گرفتاری پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے میں پیچھے نہیں رہی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے لاہور پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا تاہم متاثرہ خاندان یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتا رہا اور اسے ان نوٹسوں، کھوکھلے نعروں اور سیاسی بیانات سے سوائے بدنامی اور رسوائی کے اور کچھ نہ ملا ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چیف جسٹس جیلانی کے دوسرے ازخود نوٹس کے بعد بھی مجرم نہیں پکڑے جاتے تو یہ عدلیہ کے ازخودنوٹس لینے کے اختیارات پر بڑا سوالیہ نشان ہو گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 13 ستمبر کو جس دن یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا، اس وقت کے چیف جسٹس افتخارچوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو اگلے روز واقعے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ آئی جی پنجاب نے اگلے روز رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کرا دی لیکن اس روز یا اس کے بعد اس معاملے پر عدالت میں کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔




افتخار چوہدری 11دسمبر کو سبکدوش ہوئے تو نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے21دسمبر کو اس واقعے کا دوبارہ ازخودنوٹس لیتے ہوئے مجرمان کی عدم گرفتاری پر آئی جی پنجاب کو طلب کر لیا جنھوں نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہو کر عدالت کو بتایا کہ تاحال کوئی مجرم گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ انھوں نے بتایا کہ 186مشتبہ افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ، ڈی این اے اور پولی گرافک ٹیسٹ بھی کرائے گئے تاہم مجرموں کی گرفتاری میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ عدالت نے آئی جی پنجاب کو مجرموں کی گرفتاری کیلیے 2 ہفتوں کا وقت دیا اور اب اس کیس کی سماعت اسلام آباد میں ہو گی۔

جہاں تک انویسٹی گیشن کا تعلق ہے تو ایس پی امتیاز سرور کے تبادلے کے باعث ان کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کو تحلیل کر دیا گیا۔ دوسری تحقیقاتی ٹیم ایس پی عمر ورک کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی جو اس کیس پرکام کر رہی ہے لیکن گرفتاریوں کے ضمن میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ تفتیشی افسر ذکاء اللہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ مجرموں کی گرفتاری کیلیے وہ جو کر سکتے تھے، انھوں نے کیا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اب ایک ہی صورت ہے کہ مجرم کسی اور کیس میں گرفتار ہو اور خود اعتراف جرم کر لے۔ ایڈووکیٹ ٹیپو سلمان مخدوم کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹسوں نے کیس خراب کیا اور ان سے متاثرہ بچی کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کے جواز کیلیے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اس کیس کا دو بار ازخود نوٹس لیا ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story