حکومت کا اپنے ہی قائم کردہ براڈ شیٹ کمیشن سے عدم تعاون
تحقیقاتی کمیشن کو وزارت خزانہ، قانون اور اٹارنی جنرل آفس سے مکمل ریکارڈ نہ مل سکا
وفاقی حکومت کی جانب سے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کرنے والے اپنے ہی کمیشن سے عدم تعاون کیا جارہا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا تاہم اس سارے عمل کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے ہی عدم تعاون کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کمیشن کو تاحال مکمل ریکارڈ نہ مل سکا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کمیشن نے احمر بلال صوفی اور رقم کی ادائیگی کے وقت لندن ہائی کمیشن کے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس ڈائریکٹر شاہد بیگ سمیت گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں۔ کمیشن کو اب تک مطلوبہ ریکارڈ صرف نیب نے فراہم کیا ہے جب کہ وزارت خزانہ، قانون، اٹارنی جنرل آفس سے تاحال مکمل ریکارڈ نہیں مل سکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن نے تحقیقات کا باضابطہ آغاز 9 فروری کو کیا تھا، اداروں اور محکموں کی جانب سے ریکارڈ مل گیا تو 22 مارچ تک تحقیقات مکمل ہوجائیں گی۔
براڈ شیٹ کیس کیا ہے؟
سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں نیب نے 2000 میں برطانوی کمپنی براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کمپنی کو 200 سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسران، فوجی حکام اور دیگر کے نام دیے گئے تھے، جن کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ 28 اکتوبر 2003 میں نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا۔
براڈ شیٹ نے پاکستانی حکومت کے خلاف برطانیہ میں ثالثی کا مقدمہ جیتا۔ عدالتی حکم پر کمپنی کے مالک کاوے موسوی کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ 29 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی۔ اپوزیشن اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا گیا۔
کمیشن کا دائرہ اختیار ناصرف براڈ شیٹ تنازع کے معاملات کی تحقیقات کرنا ہے بلکہ اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں چھپائے گئے اثاثے برآمد کرنے کی بے دل اور غلط سمت کوششوں کی وجہ سے ریاست کو اتنا بڑا نقصان کیوں ہوا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا تاہم اس سارے عمل کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے ہی عدم تعاون کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کمیشن کو تاحال مکمل ریکارڈ نہ مل سکا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کمیشن نے احمر بلال صوفی اور رقم کی ادائیگی کے وقت لندن ہائی کمیشن کے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس ڈائریکٹر شاہد بیگ سمیت گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں۔ کمیشن کو اب تک مطلوبہ ریکارڈ صرف نیب نے فراہم کیا ہے جب کہ وزارت خزانہ، قانون، اٹارنی جنرل آفس سے تاحال مکمل ریکارڈ نہیں مل سکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن نے تحقیقات کا باضابطہ آغاز 9 فروری کو کیا تھا، اداروں اور محکموں کی جانب سے ریکارڈ مل گیا تو 22 مارچ تک تحقیقات مکمل ہوجائیں گی۔
براڈ شیٹ کیس کیا ہے؟
سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں نیب نے 2000 میں برطانوی کمپنی براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کمپنی کو 200 سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسران، فوجی حکام اور دیگر کے نام دیے گئے تھے، جن کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ 28 اکتوبر 2003 میں نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا۔
براڈ شیٹ نے پاکستانی حکومت کے خلاف برطانیہ میں ثالثی کا مقدمہ جیتا۔ عدالتی حکم پر کمپنی کے مالک کاوے موسوی کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ 29 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی۔ اپوزیشن اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا گیا۔
کمیشن کا دائرہ اختیار ناصرف براڈ شیٹ تنازع کے معاملات کی تحقیقات کرنا ہے بلکہ اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں چھپائے گئے اثاثے برآمد کرنے کی بے دل اور غلط سمت کوششوں کی وجہ سے ریاست کو اتنا بڑا نقصان کیوں ہوا۔