مسئلہ صرف کوویڈ ویکسین کا نہیں
یہاں تک تو فلم بہترین چل رہی تھی۔لیکن ہاف ٹائم کے بعد جیسا کہ ہوتا ہے کہانی نے اداسی کی جانب موڑ لے لیا۔
چند ماہ قبل خوشخبری آئی کہ سرکارِ عالی نے کوویڈ ویکسین کی خریداری کے لیے ڈیڑھ ارب روپے کی رقم مختص کردی ہے۔پھر پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت نے قومی اسمبلی میں یہ خبر سنائی کہ عوام کو ویکسین مفت میسر ہو گی۔
پھر خبر آئی کہ حکومت نے نجی شعبے کو بھی ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔پھر خبر آئی کہ حکومت نے پندرہ فروری سے ملک میں ویکسینیشن پروگرام شروع کر دیا ہے۔
ایک تصویر بھی شایع ہوئی جس میں وزیرِ اعظم عمران خان اور دیگر ایک ہیلتھ ورکر کو چین سے تحفے میں ملنے والی پانچ لاکھ ویکسینز کی پہلی ڈوز لگتے دیکھ رہے ہیں۔
یہاں تک تو فلم بہترین چل رہی تھی۔لیکن ہاف ٹائم کے بعد جیسا کہ ہوتا ہے کہانی نے اداسی کی جانب موڑ لے لیا۔
اس ضمن میں پہلی اطلاع ملی کہ اگرچہ پہلے مرحلے میں لگ بھگ پونے تین لاکھ ہیلتھ ورکرز کی پہلی ویکسینیشن ہو چکی ہے۔ مگر چند ہیلتھ ورکرز ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔وہ شائد سوشل میڈیا پر ویکسینیشن کے خلاف طرح طرح کے مفروضاتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ہیں۔چنانچہ سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کو انتباہ جاری کرنا پڑا کہ جو ہیلتھ ورکر ویکسینیشن سے انکار کرے گا اس کی نوکری تیل ہو جائے گی۔
درمیان میں یہ خبر بھی آئی کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی صاحبزادی اور داماد نے کسی ہیلتھ ورکر کا کوڈ نمبر استعمال کرتے ہوئے ویکسین کی پہلی ڈوز لگوا لی اور کسی ستم ظریف نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔چنانچہ محمد زبیر جو کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بڑے بھائی بھی ہیں۔دونوں کو اپنی اگلی پیڑھی کی اس حرکت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحتی گفتگو کرنا پڑ گئی۔
ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن کے بعد حکومت نے عوامی ویکسنیشن کے پہلے مرحلے میں پینسٹھ برس سے اوپر کے بزرگوں کی رجسٹریشن کھولی۔اس ملک میں پینسٹھ برس سے اوپر کی آبادی لگ بھگ اسی لاکھ ہے۔ مگر ایک ماہ کے دوران صرف ایک لاکھ اسی ہزار بزرگوں نے ہی ویکسینیشن کے لیے رجسٹریشن کروائی۔سرکاری صحت کے حلقوں نے اس عدم دلچسپی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔
اور پھر پچھلے ہی ہفتے پہلا متوقع سرکاری یو ٹرن بھی سامنے آ گیا۔قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے روبرو نیشنل ہیلتھ سروسز کے سیکریٹری عامر اشرف خواجہ نے بم پھوڑ دیا کہ حکومت کا اس سال ویکسین خریدنے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔ہم صرف عطیے میں ملنے والی کھیپ کا انتظار کر رہے ہیں۔مارچ میں چین سے گیارہ ملین ویکسینز کی جو کھیپ آنی تھی اس میں بھی تاخیر ہو گئی ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ایگزیکٹوز کے ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام نے بتایا کہ چین کی کین سائنو ویکسین کی ایک ڈوز کی قیمت تیرہ ڈالر ہے۔لہٰذا اب ہم بین الاقوامی عطیہ کنندگان اور دوست ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ہیلتھ سیکریٹری کے بقول اس برس سات کروڑ آبادی کی ویکسنیشن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔اس مقصد کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی خیراتی اتحاد گیوی کی جانب سے سولہ ملین آسٹرا زنیکا آکسفورڈ ویکسینز کا عطیہ ملے گا۔اس امداد سے بیس فیصد آبادی کو فائدہ ہوگا۔
یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا تیار کر رہا ہے اور جون تک کھیپ موصول ہو جائے گی۔ پاکستان کی پندرہ فیصد آبادی میں کورونا سے مدافعت کی اینٹی باڈیز صلاحیت پیدا ہو چکی ہے لہٰذا اسے ویکسنیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بقول سیکریٹری ہیلتھ اگر ملک کی سول و فوجی قیادت اپنی ویکسنیشن کرواتے ہوئے تصویر کشی کروا لے تو جن لوگوں کے دل میں ویکسین کے سلسلے میں شکوک و شبہات ہیں وہ خاصی حد تک دور ہو سکتے ہیں۔
سیکریٹری ہیلتھ نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ حکومت نے نجی شعبے کو ویکیسن منگوانے کی اجازت دے دی ہے تاکہ صاحبِ استطاعت طبقہ اپنے طور پر ویکسینیشن کروا سکے۔مگر اب تک نجی شعبے سے کوئی سنجیدہ پیش کش سامنے نہیں آئی۔ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کو رجسٹریشن کے لیے اب تک جو تین درخواستیں موصول ہوئی ہیں وہ نامکمل ہیں۔ان میں نہ ویکسین کا نام ہے اور نہ ہی قیمت درج کی گئی ہے۔
ایک اور مصیبت کا بھی سامناہے۔ گزشتہ برس مارچ میں جب دنیا میں کوویڈ ویکسین کا وجود بھی نہ تھا۔ڈی ایچ اے کراچی میں ایک مشکوک ڈاکٹر سید دلدار علی کو کلفٹن پولیس نے جعلی ویکسین بیچنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔
گزشتہ ہفتے ہی یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی نے ایک ایسے گروہ کا سراغ لگایا جس نے جعلی آفر لیٹرز کے ذریعے مختلف حکومتی اداروں کو پیشگی رقم کے عوض چودہ ارب یورو مالیت کی ایک ارب ویکیسن ڈوز فراہم کرنے کی پیش کش کی۔تاہم فراہمی کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔اینٹی فراڈ ایجنسی کے بقول اس گروہ میں پیشہ ور مجرم سنڈیکیٹس اور موقع پرست عناصر شامل ہیں جن کا گٹھ جوڑ یورپ سے باہر چین اور مشرقِ بعید تک پھیلا ہوا ہے۔
جب کہ ویکسین ساز کمپنیوں نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے اب تک جتنے بھی آرڈر بک کیے ہیں وہ براہ راست حکومتوں اور ذمے دار بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ہیں۔یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی کے مطابق ایک بچولیے ( مڈل مین ) نے اٹلی کی چند ریجنل حکومتوں سے بھی براہ راست رابطہ کر کے ویکسین بیچنے کی پیش کش کی۔اینٹی فراڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جعلی پیش کش صرف مالی نقصان کا ہی نہیں بلکہ ویکیسنز پر عوامی اعتماد متزلزل ہونے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
انھی خطرات کے پیشِ نظر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے دو روز قبل اقوامِ متحدہ کے تحت انسدادِ جرائم کی چودھویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر ویکسینشن پروگرام کامیاب بنانا ہے تو عالمی برادری کو فراڈ اور جعلی ویکسین کے خطرے کا فوری مشترکہ سدِباب کرنا پڑے گا۔کیونکہ ویکسینیشن مہم ارب ہا ڈالر کا معاملہ ہے اور جہاں اتنا پیسہ ہو وہاں جرائم پیشہ گروہوں کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ خود ویکسینیشن۔
'' جب تازہ ہوا کے لیے روشندان اور کھڑکیاں کھلتی ہیں تو مچھر اور مکھیاں بھی گھس آتے ہیں۔اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے''۔( ڈینگ ڑاؤ بنگ)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
پھر خبر آئی کہ حکومت نے نجی شعبے کو بھی ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔پھر خبر آئی کہ حکومت نے پندرہ فروری سے ملک میں ویکسینیشن پروگرام شروع کر دیا ہے۔
ایک تصویر بھی شایع ہوئی جس میں وزیرِ اعظم عمران خان اور دیگر ایک ہیلتھ ورکر کو چین سے تحفے میں ملنے والی پانچ لاکھ ویکسینز کی پہلی ڈوز لگتے دیکھ رہے ہیں۔
یہاں تک تو فلم بہترین چل رہی تھی۔لیکن ہاف ٹائم کے بعد جیسا کہ ہوتا ہے کہانی نے اداسی کی جانب موڑ لے لیا۔
اس ضمن میں پہلی اطلاع ملی کہ اگرچہ پہلے مرحلے میں لگ بھگ پونے تین لاکھ ہیلتھ ورکرز کی پہلی ویکسینیشن ہو چکی ہے۔ مگر چند ہیلتھ ورکرز ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔وہ شائد سوشل میڈیا پر ویکسینیشن کے خلاف طرح طرح کے مفروضاتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ہیں۔چنانچہ سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کو انتباہ جاری کرنا پڑا کہ جو ہیلتھ ورکر ویکسینیشن سے انکار کرے گا اس کی نوکری تیل ہو جائے گی۔
درمیان میں یہ خبر بھی آئی کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی صاحبزادی اور داماد نے کسی ہیلتھ ورکر کا کوڈ نمبر استعمال کرتے ہوئے ویکسین کی پہلی ڈوز لگوا لی اور کسی ستم ظریف نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔چنانچہ محمد زبیر جو کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بڑے بھائی بھی ہیں۔دونوں کو اپنی اگلی پیڑھی کی اس حرکت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحتی گفتگو کرنا پڑ گئی۔
ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن کے بعد حکومت نے عوامی ویکسنیشن کے پہلے مرحلے میں پینسٹھ برس سے اوپر کے بزرگوں کی رجسٹریشن کھولی۔اس ملک میں پینسٹھ برس سے اوپر کی آبادی لگ بھگ اسی لاکھ ہے۔ مگر ایک ماہ کے دوران صرف ایک لاکھ اسی ہزار بزرگوں نے ہی ویکسینیشن کے لیے رجسٹریشن کروائی۔سرکاری صحت کے حلقوں نے اس عدم دلچسپی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔
اور پھر پچھلے ہی ہفتے پہلا متوقع سرکاری یو ٹرن بھی سامنے آ گیا۔قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے روبرو نیشنل ہیلتھ سروسز کے سیکریٹری عامر اشرف خواجہ نے بم پھوڑ دیا کہ حکومت کا اس سال ویکسین خریدنے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔ہم صرف عطیے میں ملنے والی کھیپ کا انتظار کر رہے ہیں۔مارچ میں چین سے گیارہ ملین ویکسینز کی جو کھیپ آنی تھی اس میں بھی تاخیر ہو گئی ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ایگزیکٹوز کے ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام نے بتایا کہ چین کی کین سائنو ویکسین کی ایک ڈوز کی قیمت تیرہ ڈالر ہے۔لہٰذا اب ہم بین الاقوامی عطیہ کنندگان اور دوست ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ہیلتھ سیکریٹری کے بقول اس برس سات کروڑ آبادی کی ویکسنیشن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔اس مقصد کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی خیراتی اتحاد گیوی کی جانب سے سولہ ملین آسٹرا زنیکا آکسفورڈ ویکسینز کا عطیہ ملے گا۔اس امداد سے بیس فیصد آبادی کو فائدہ ہوگا۔
یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا تیار کر رہا ہے اور جون تک کھیپ موصول ہو جائے گی۔ پاکستان کی پندرہ فیصد آبادی میں کورونا سے مدافعت کی اینٹی باڈیز صلاحیت پیدا ہو چکی ہے لہٰذا اسے ویکسنیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بقول سیکریٹری ہیلتھ اگر ملک کی سول و فوجی قیادت اپنی ویکسنیشن کرواتے ہوئے تصویر کشی کروا لے تو جن لوگوں کے دل میں ویکسین کے سلسلے میں شکوک و شبہات ہیں وہ خاصی حد تک دور ہو سکتے ہیں۔
سیکریٹری ہیلتھ نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ حکومت نے نجی شعبے کو ویکیسن منگوانے کی اجازت دے دی ہے تاکہ صاحبِ استطاعت طبقہ اپنے طور پر ویکسینیشن کروا سکے۔مگر اب تک نجی شعبے سے کوئی سنجیدہ پیش کش سامنے نہیں آئی۔ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کو رجسٹریشن کے لیے اب تک جو تین درخواستیں موصول ہوئی ہیں وہ نامکمل ہیں۔ان میں نہ ویکسین کا نام ہے اور نہ ہی قیمت درج کی گئی ہے۔
ایک اور مصیبت کا بھی سامناہے۔ گزشتہ برس مارچ میں جب دنیا میں کوویڈ ویکسین کا وجود بھی نہ تھا۔ڈی ایچ اے کراچی میں ایک مشکوک ڈاکٹر سید دلدار علی کو کلفٹن پولیس نے جعلی ویکسین بیچنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔
گزشتہ ہفتے ہی یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی نے ایک ایسے گروہ کا سراغ لگایا جس نے جعلی آفر لیٹرز کے ذریعے مختلف حکومتی اداروں کو پیشگی رقم کے عوض چودہ ارب یورو مالیت کی ایک ارب ویکیسن ڈوز فراہم کرنے کی پیش کش کی۔تاہم فراہمی کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔اینٹی فراڈ ایجنسی کے بقول اس گروہ میں پیشہ ور مجرم سنڈیکیٹس اور موقع پرست عناصر شامل ہیں جن کا گٹھ جوڑ یورپ سے باہر چین اور مشرقِ بعید تک پھیلا ہوا ہے۔
جب کہ ویکسین ساز کمپنیوں نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے اب تک جتنے بھی آرڈر بک کیے ہیں وہ براہ راست حکومتوں اور ذمے دار بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ہیں۔یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی کے مطابق ایک بچولیے ( مڈل مین ) نے اٹلی کی چند ریجنل حکومتوں سے بھی براہ راست رابطہ کر کے ویکسین بیچنے کی پیش کش کی۔اینٹی فراڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جعلی پیش کش صرف مالی نقصان کا ہی نہیں بلکہ ویکیسنز پر عوامی اعتماد متزلزل ہونے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
انھی خطرات کے پیشِ نظر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے دو روز قبل اقوامِ متحدہ کے تحت انسدادِ جرائم کی چودھویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر ویکسینشن پروگرام کامیاب بنانا ہے تو عالمی برادری کو فراڈ اور جعلی ویکسین کے خطرے کا فوری مشترکہ سدِباب کرنا پڑے گا۔کیونکہ ویکسینیشن مہم ارب ہا ڈالر کا معاملہ ہے اور جہاں اتنا پیسہ ہو وہاں جرائم پیشہ گروہوں کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ خود ویکسینیشن۔
'' جب تازہ ہوا کے لیے روشندان اور کھڑکیاں کھلتی ہیں تو مچھر اور مکھیاں بھی گھس آتے ہیں۔اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے''۔( ڈینگ ڑاؤ بنگ)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)