اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی ۔۔۔
وہ ڈٹ جائے تو دنیا کے اعزازات اس کے آگے سرنگوں ہیں۔
KARACHI:
کسی بھی قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ہمارے سماج کی باصلاحیت خود کو منوانے کا ایک خاص ہنر رکھتی ہیں۔ اس کی مستقل مزاجی اور اپنے جذبے سے محبت ہی اس کے لیے کام یابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔
وہ کائنات کی رعنائی سے مزین ایک خوب صورت تصویر ہے، اس کا چٹان جیسا حوصلہ اس کے ارادوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ڈٹ جائے تو اس کی بہادری کے تمغے اس کو عقیدت سے سلام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ساغر صدیقی نے خوب کہا ہے کہ 'اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی، خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی، ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے، بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی، خدائی کا انصاف خاموش رہتا، سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی۔۔۔''
خواتین ہر رنگ میں ان مول ہیں، ماں ہے تو جنت کا منظر، بیٹی ہے تو رحمت، بیوی ہے تو سکون، اور بہن ہے تو اس کے روپ میں خوش بو کا دریچہ ہے۔
اگرچہ پاکستان میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بہت سے شعبوں میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے، جب کہ بہت سے شعبوں میں ابھی کام کرنا باقی ہے، لیکن مجموعی طور پر انھوں نے اپنی ذہانت کا لوہا منوا یا ہے، تاہم پاکستانی معاشرہ مردانہ بالادستی کے اصول پر استوار نظر آتا ہے۔
خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین ویسے ہی بے بس اور مجبور ہیں جیسے پس ماندہ ماضی کی چلتی پھرتی تصویر ہوں۔ وہ سارا دن مشقت کی چکی پیستی ہیں، لیکن بدلے میں ان کو صرف عورت ہونے کا طعنہ ہی ملتا ہے، اسے بارہا یاد کرایا جاتا ہے کہ وہ شوہر کو صرف حاکم تصور کرے اور اس سے کسی بھی طرح کی ہمدردی کی امید نہ رکھے۔ چھوٹی عمر سے وہ کھیتوں میں کام کرنا شروع کرتی ہے، جو بڑھاپے تک جاری رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ابھی تک زمانۂ جاہلیت میں جی رہے ہیں، آج بھی زیادہ تر افراد کی سوچ یہی ہے کہ بچیوں کو پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، بس ہانڈی چولھا ہی تو جھونکنا ہے تو کیوں کر ان پر پیسہ خرچ کیا جائے اور انھیں کیوں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔
یہ بات ذہن میں بٹھا لی گئی ہے کہ ''عورت تو صرف مرد کی خدمت گزاری کے لیے پیدا کی گئی ہے۔'' وہ ایک جیتا جاگتا وجود ہے، تازہ فضا میں سانس لینا اس کا حق ہے، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اور اپنے مستقبل کے لیے اچھا فیصلہ کرنا کوئی گناہ نہیں ہے کہ جس پر عدالت لگائی جائے اور عورت کو قصور وار ٹھیرا کر عمر قید کی سزا سنائی جائے۔ یہ فرسودہ اور متعصبانہ خیالات ایک ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں خواتین کی ترقی رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔
گھریلو حالات، غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ جب وہ روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے، تو اس پر نہ صرف الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، بلکہ جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ یوم خواتین پر ہونے والے مختلف سیمینار، تقاریب اور کانفرنسوں کا مقصد عورت کو تحفظ اور اور اس کا جائز مقام دینا ہے، لیکن اگر یہ محض تقاریر میں دینا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس سے نہ تو خواتین کی فلاح وبہبود ممکن ہے اور نہ ہی ان کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر عورت کا قتل ایک معمولی بات گردانی جاتی ہے۔ تیزاب پھینک کر ان کو عمر بھر کے لیے معذور کر دینا بھی آج کے دور کی بات ہے۔ ماضی میں ہونے والی تحریکوں کا مطالعہ ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ محنت کش خواتین، مردوں کے شانہ بہ شانہ اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھی ہیں۔ خواتین جو آبادی کا نصف حصے سے بھی زیادہ ہیں، ان کے متعلق یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ 'یہ کمزور ہیں، اور مکمل حقوق کی حق دار نہیں، ان کا معاشرتی زندگی کے باقی پہلوؤں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ فرسودہ خیالات ہی تو ہمارے معاشرے کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔
خواتین کا عالمی دن ان تمام بہادر خواتین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، جنھوں نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی اور تنظیموں کی صورت میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑی۔
ایک صدی قبل نیویارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں 10 گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی، تو ان پر پولیس نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا، بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر بھی گھسیٹا گیا تاہم اس ظالمانہ تشدد اور جبری مشقت کے خلاف تحریک چلائی گئی ۔ خواتین کی مسلسل تگ و دو کی وجہ سے 1910ء میں ''کوپن ہیگن'' میں خواتین کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں کئی ممالک کی خواتین نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کا مقصد عورتوں پر ہونے والے جبر و استحصال پر غور وفکر کرنا تھا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے 1956ء میں آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن دنیا بھر میں کانفرنسوں اور ورکشاپس کا بھی انعقاد کیا گیا اور اب تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ ایک طرف یہ اس جدوجہد کی یاد ہے، تو دوسری طرف اس دن کا مقصد خواتین کو ان کے حقوق دینا اور معاشرے میں ان کو ایک تحفظ اور مقام دلانے کی یاد دہانی کرانا ہے ۔
ہمیں اگر خواتین کو ان کا حق دلانا ہے، تو ہمیں اپنی معاشرتی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا، تنگ نظر ی اور تعصب سے خود کو نکالنا ہوگا۔ ان کو عزت و احترام سے نواز کر معاشرے ایک اچھا مقام دینا ہے، تاکہ وہ پر سکون اور مطمئن انداز سے اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ یوم خواتین انسانی معاشرے اور خود صنف نازک میں اس شعور کو اجاگر کرنا ہے کہ عورت ہونا باعث عار نہیں ہے بلکہ ایک فخر کا احساس ہے عزت و تکریم کا دوسرا نام ہے۔ اگر ہم خواتین کے حقوق کو اسلامی تناظر میں دیکھیں تو اسلام نے بھی ان کو معاشرتی، قانونی اور سیاسی حقوق دیے ہیں، جن کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست پر ڈالی ہے۔ پاکستان کی عورت آج بھی اپنی اور ملکی ترقی کے کوشاں ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ ''پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا، جب تک مرد اور خواتین شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک نہ ہوں۔''
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو کام کرنے کے نہ صرف مواقع فراہم کیے جائیں، بلکہ انھیں عدم اعتمادی کا شکار ہونے سے بھی بچایا جائے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گام زن ہوں۔
کسی بھی قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ہمارے سماج کی باصلاحیت خود کو منوانے کا ایک خاص ہنر رکھتی ہیں۔ اس کی مستقل مزاجی اور اپنے جذبے سے محبت ہی اس کے لیے کام یابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔
وہ کائنات کی رعنائی سے مزین ایک خوب صورت تصویر ہے، اس کا چٹان جیسا حوصلہ اس کے ارادوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ڈٹ جائے تو اس کی بہادری کے تمغے اس کو عقیدت سے سلام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ساغر صدیقی نے خوب کہا ہے کہ 'اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی، خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی، ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے، بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی، خدائی کا انصاف خاموش رہتا، سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی۔۔۔''
خواتین ہر رنگ میں ان مول ہیں، ماں ہے تو جنت کا منظر، بیٹی ہے تو رحمت، بیوی ہے تو سکون، اور بہن ہے تو اس کے روپ میں خوش بو کا دریچہ ہے۔
اگرچہ پاکستان میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بہت سے شعبوں میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے، جب کہ بہت سے شعبوں میں ابھی کام کرنا باقی ہے، لیکن مجموعی طور پر انھوں نے اپنی ذہانت کا لوہا منوا یا ہے، تاہم پاکستانی معاشرہ مردانہ بالادستی کے اصول پر استوار نظر آتا ہے۔
خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین ویسے ہی بے بس اور مجبور ہیں جیسے پس ماندہ ماضی کی چلتی پھرتی تصویر ہوں۔ وہ سارا دن مشقت کی چکی پیستی ہیں، لیکن بدلے میں ان کو صرف عورت ہونے کا طعنہ ہی ملتا ہے، اسے بارہا یاد کرایا جاتا ہے کہ وہ شوہر کو صرف حاکم تصور کرے اور اس سے کسی بھی طرح کی ہمدردی کی امید نہ رکھے۔ چھوٹی عمر سے وہ کھیتوں میں کام کرنا شروع کرتی ہے، جو بڑھاپے تک جاری رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ابھی تک زمانۂ جاہلیت میں جی رہے ہیں، آج بھی زیادہ تر افراد کی سوچ یہی ہے کہ بچیوں کو پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، بس ہانڈی چولھا ہی تو جھونکنا ہے تو کیوں کر ان پر پیسہ خرچ کیا جائے اور انھیں کیوں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔
یہ بات ذہن میں بٹھا لی گئی ہے کہ ''عورت تو صرف مرد کی خدمت گزاری کے لیے پیدا کی گئی ہے۔'' وہ ایک جیتا جاگتا وجود ہے، تازہ فضا میں سانس لینا اس کا حق ہے، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اور اپنے مستقبل کے لیے اچھا فیصلہ کرنا کوئی گناہ نہیں ہے کہ جس پر عدالت لگائی جائے اور عورت کو قصور وار ٹھیرا کر عمر قید کی سزا سنائی جائے۔ یہ فرسودہ اور متعصبانہ خیالات ایک ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں خواتین کی ترقی رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔
گھریلو حالات، غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ جب وہ روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے، تو اس پر نہ صرف الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، بلکہ جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ یوم خواتین پر ہونے والے مختلف سیمینار، تقاریب اور کانفرنسوں کا مقصد عورت کو تحفظ اور اور اس کا جائز مقام دینا ہے، لیکن اگر یہ محض تقاریر میں دینا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس سے نہ تو خواتین کی فلاح وبہبود ممکن ہے اور نہ ہی ان کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر عورت کا قتل ایک معمولی بات گردانی جاتی ہے۔ تیزاب پھینک کر ان کو عمر بھر کے لیے معذور کر دینا بھی آج کے دور کی بات ہے۔ ماضی میں ہونے والی تحریکوں کا مطالعہ ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ محنت کش خواتین، مردوں کے شانہ بہ شانہ اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھی ہیں۔ خواتین جو آبادی کا نصف حصے سے بھی زیادہ ہیں، ان کے متعلق یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ 'یہ کمزور ہیں، اور مکمل حقوق کی حق دار نہیں، ان کا معاشرتی زندگی کے باقی پہلوؤں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ فرسودہ خیالات ہی تو ہمارے معاشرے کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔
خواتین کا عالمی دن ان تمام بہادر خواتین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، جنھوں نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی اور تنظیموں کی صورت میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑی۔
ایک صدی قبل نیویارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں 10 گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی، تو ان پر پولیس نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا، بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر بھی گھسیٹا گیا تاہم اس ظالمانہ تشدد اور جبری مشقت کے خلاف تحریک چلائی گئی ۔ خواتین کی مسلسل تگ و دو کی وجہ سے 1910ء میں ''کوپن ہیگن'' میں خواتین کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں کئی ممالک کی خواتین نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کا مقصد عورتوں پر ہونے والے جبر و استحصال پر غور وفکر کرنا تھا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے 1956ء میں آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن دنیا بھر میں کانفرنسوں اور ورکشاپس کا بھی انعقاد کیا گیا اور اب تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ ایک طرف یہ اس جدوجہد کی یاد ہے، تو دوسری طرف اس دن کا مقصد خواتین کو ان کے حقوق دینا اور معاشرے میں ان کو ایک تحفظ اور مقام دلانے کی یاد دہانی کرانا ہے ۔
ہمیں اگر خواتین کو ان کا حق دلانا ہے، تو ہمیں اپنی معاشرتی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا، تنگ نظر ی اور تعصب سے خود کو نکالنا ہوگا۔ ان کو عزت و احترام سے نواز کر معاشرے ایک اچھا مقام دینا ہے، تاکہ وہ پر سکون اور مطمئن انداز سے اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ یوم خواتین انسانی معاشرے اور خود صنف نازک میں اس شعور کو اجاگر کرنا ہے کہ عورت ہونا باعث عار نہیں ہے بلکہ ایک فخر کا احساس ہے عزت و تکریم کا دوسرا نام ہے۔ اگر ہم خواتین کے حقوق کو اسلامی تناظر میں دیکھیں تو اسلام نے بھی ان کو معاشرتی، قانونی اور سیاسی حقوق دیے ہیں، جن کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست پر ڈالی ہے۔ پاکستان کی عورت آج بھی اپنی اور ملکی ترقی کے کوشاں ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ ''پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا، جب تک مرد اور خواتین شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک نہ ہوں۔''
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو کام کرنے کے نہ صرف مواقع فراہم کیے جائیں، بلکہ انھیں عدم اعتمادی کا شکار ہونے سے بھی بچایا جائے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گام زن ہوں۔