گھر سے مکان تک
بہن بھائیوں میں دوری پیدا ہورہی ہے۔ خون کے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی بلکہ خون سفید ہوچکا ہے
ذکیہ آنٹی کے انتقال کی خبر آج ہی ملی تھی اور مجھے واقعتاً بہت افسوس ہوا تھا۔ وہ ہمارے پرانے محلے میں رہتیں، پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں تھیں۔ ان کا گھرانا ایک مثالی کنبہ کہلاتا تھا۔
ان کے شوہر جنہیں سب ادب سے خالو محبوب کہا کرتے تھے، درحقیقت خالہ کی طرح وہ بھی محلے کے تمام چھوٹے بڑے افراد میں اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے مقبول تھے۔ خاندان کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے کی روایت تو گویا کوئی ان سے سیکھتا۔ ان کے سارے بچے بہت مودب اور آپس میں محبت کرنے والے تھے۔ سب مل جل کر ہی رہا کرتے تھے۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ ان کا گزارا کیسے ہوتا ہوگا کیوں کہ جاوید بھائی بجلی کا بل دیتے، تو ظہیر بھیا سوئی گیس والوں سے نمٹتے۔ اسی طرح احد بھائی کا کام گھر کا سودا سلف لانے کا تھا۔ سب اپنی اپنی ذمے داریاں پوری دیانتداری سے نبھا رہے تھے۔
خالو محبوب کے تمام بیٹوں کی شادیاں ہوچکی تھیں، جبکہ دو بییٹوں کے رشتے بھی تقریباً طے ہونے والے تھے۔ ان دنوں میری شادی قریب تھی۔ ہمارے دروازے کے بالکل سامنے ہونے کی وجہ سے اکثر خالہ ذکیہ سے ملاقات ہوا کرتی تھی۔ کبھی بازار جاتے ہوئے تو کبھی دیگر مصروفیات میں وہ امی اور باجی کا ہاتھ بٹانے کے لیے ہمارے گھر آجایا کرتی تھیں۔
لیکن اب ایسے لگتا تھا کہ شاید وہ اداس رہنے لگی ہیں۔ اپنے گھر کا کام بھی وہ بہوؤں کے سپرد کرکے ایک کونے میں پڑی رہتیں۔ ورنہ کبھی کسی نے انھیں فارغ بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ اس دوران میرے گھر والے بھی میری شادی کے بعد ایک نئے علاقے میں شفٹ ہوگئے تھے۔ خالہ ذکیہ کی اچانک وفات نے مجھے چونکا دیا اور میں افسوس کرنے کےلیے خالو محبوب سے ملنے گئی تو وہ افسردہ سی ہنسی کے ساتھ ملے اور کہا کہ بیٹا تمھاری خالہ چلی گئیں اور جانتی ہو کہ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ساری زندگی ایک تسبیح کے دانوں کی طرح بچوں کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔ لیکن یہ ہمارے بچے اینٹوں کے مکان کی خاطر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ ابھی بھی اس مکان کا بٹوارا ہونے لگا ہے۔ مجھ بوڑھے میں کہاں اتنی ہمت کہ ان کو فساد سے روک سکوں۔ ابھی میں زندہ ہوں لیکن لگتا ہے کہ جیتے جی ہی مر چکا ہوں۔
ایک طرف بیٹیاں ہیں تو بیٹے انھیں حصہ دینے سے انکاری ہیں۔ بیٹے ہیں تو وہ روز اپنے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ مکان کے ساتھ ساتھ اب تو باپ کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے کہ اسے کون رکھے گا؟ خالو کو تسلی دے کر جب میں گھر آئی تو یہی سوچا کہ یہ تو ہمارے گھر گھر کی کہانی ہے۔ کہیں گھر داماد ہیں تو وہ بیویوں کے گھر پر قابض ہیں، تو کہیں بہن بھائیوں میں دوری پیدا ہورہی ہے۔ خون کے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی بلکہ خون سفید ہوچکا ہے۔
کسی بہن بھائی کو دور کرنا ہے تو اس کےلیے حصہ دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے اور طوہاً و کرہاً اس کو حصہ دے بھی دیا جاتا ہے تو وہ بھی ناکافی، تاکہ وہ کسی بھی جگہ اپنا پلاٹ یا مکان نہ خرید سکے۔ مشترکہ خاندانی نظام ہوتا ہے تو نئے پورشنز کی تعمیر کا ذمہ بھی اسی بہن بھائی کے سر ڈال دیا جاتا ہے جو وہاں رہنا چاہتا ہے، جبکہ باتی تمام پورشن میں اس مذکورہ بہن بھائی کی رقم بھی خرچ ہوئی ہوتی ہے۔ کسی کی قربانی کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور اپنے موقف بار بار اپنے مفاد کی خاطر بدلے جاتے ہیں۔
جبکہ اس سے پہلے بہن بھائیوں کے ساتھ محبت و الفت کے بہت دعوے کیے جاتے ہیں۔ خون کے رشتوں کے بارے میں ہر طرح کی باتیں کی جاتی ہیں کہ ہم کبھی نہیں تبدیل ہوں گے، ہم ہی تمھارے خیر خواہ ہیں۔ ہم سے زیادہ اچھا اور بہتر تمھارے فائدے کےلیے کوئی نہیں سوچ سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت پڑنے پر سب سے پہلے قریبی رشتے دار ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔
منافقت کے اس دور میں سچ پوچھیے تو کوئی رشتہ سچا نہیں۔ بہن بھائی تب تک ہیں جب تک ان کی شادی نہیں ہو جاتی۔ اولاد بھی مخلص نہیں۔ باس ہے تو اسے بھی صرف کام سے غرض ہے لیکن بروقت تو کیا تنخواہ دینے میں بہت دقت ہے۔ کولیگز ہیں تو وہ مفاد پرست، موقع پرست۔ اگر آُپ کو کوئی خیر خواہ مل جائے تو پھر زندگی آسان ہوسکتی ہے۔ کسی پر اعتبار نہ کرنا آج کل خوبی ہے، لیکن دوسری طرف زندگی بھی سہاروں کے بغیر نہیں گزاری جاسکتی، تاہم شرط اتفاق و اتحاد ہے۔ ورنہ گھر کو مکان بننے میں صرف ایک سیکنڈ لگتا ہے۔
بات وہی ہے کہ رشتوں کی تسبیح کا ایک دانہ بھی اپنی جگہ پر موجود نہیں رہتا تو اسے ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا، پھر چاہے دفتر ہو یا گھر، ہر جگہ صرف اینٹوں کی عمارت ہی رہ جاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ان کے شوہر جنہیں سب ادب سے خالو محبوب کہا کرتے تھے، درحقیقت خالہ کی طرح وہ بھی محلے کے تمام چھوٹے بڑے افراد میں اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے مقبول تھے۔ خاندان کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے کی روایت تو گویا کوئی ان سے سیکھتا۔ ان کے سارے بچے بہت مودب اور آپس میں محبت کرنے والے تھے۔ سب مل جل کر ہی رہا کرتے تھے۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ ان کا گزارا کیسے ہوتا ہوگا کیوں کہ جاوید بھائی بجلی کا بل دیتے، تو ظہیر بھیا سوئی گیس والوں سے نمٹتے۔ اسی طرح احد بھائی کا کام گھر کا سودا سلف لانے کا تھا۔ سب اپنی اپنی ذمے داریاں پوری دیانتداری سے نبھا رہے تھے۔
خالو محبوب کے تمام بیٹوں کی شادیاں ہوچکی تھیں، جبکہ دو بییٹوں کے رشتے بھی تقریباً طے ہونے والے تھے۔ ان دنوں میری شادی قریب تھی۔ ہمارے دروازے کے بالکل سامنے ہونے کی وجہ سے اکثر خالہ ذکیہ سے ملاقات ہوا کرتی تھی۔ کبھی بازار جاتے ہوئے تو کبھی دیگر مصروفیات میں وہ امی اور باجی کا ہاتھ بٹانے کے لیے ہمارے گھر آجایا کرتی تھیں۔
لیکن اب ایسے لگتا تھا کہ شاید وہ اداس رہنے لگی ہیں۔ اپنے گھر کا کام بھی وہ بہوؤں کے سپرد کرکے ایک کونے میں پڑی رہتیں۔ ورنہ کبھی کسی نے انھیں فارغ بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ اس دوران میرے گھر والے بھی میری شادی کے بعد ایک نئے علاقے میں شفٹ ہوگئے تھے۔ خالہ ذکیہ کی اچانک وفات نے مجھے چونکا دیا اور میں افسوس کرنے کےلیے خالو محبوب سے ملنے گئی تو وہ افسردہ سی ہنسی کے ساتھ ملے اور کہا کہ بیٹا تمھاری خالہ چلی گئیں اور جانتی ہو کہ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ساری زندگی ایک تسبیح کے دانوں کی طرح بچوں کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔ لیکن یہ ہمارے بچے اینٹوں کے مکان کی خاطر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ ابھی بھی اس مکان کا بٹوارا ہونے لگا ہے۔ مجھ بوڑھے میں کہاں اتنی ہمت کہ ان کو فساد سے روک سکوں۔ ابھی میں زندہ ہوں لیکن لگتا ہے کہ جیتے جی ہی مر چکا ہوں۔
ایک طرف بیٹیاں ہیں تو بیٹے انھیں حصہ دینے سے انکاری ہیں۔ بیٹے ہیں تو وہ روز اپنے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ مکان کے ساتھ ساتھ اب تو باپ کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے کہ اسے کون رکھے گا؟ خالو کو تسلی دے کر جب میں گھر آئی تو یہی سوچا کہ یہ تو ہمارے گھر گھر کی کہانی ہے۔ کہیں گھر داماد ہیں تو وہ بیویوں کے گھر پر قابض ہیں، تو کہیں بہن بھائیوں میں دوری پیدا ہورہی ہے۔ خون کے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی بلکہ خون سفید ہوچکا ہے۔
کسی بہن بھائی کو دور کرنا ہے تو اس کےلیے حصہ دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے اور طوہاً و کرہاً اس کو حصہ دے بھی دیا جاتا ہے تو وہ بھی ناکافی، تاکہ وہ کسی بھی جگہ اپنا پلاٹ یا مکان نہ خرید سکے۔ مشترکہ خاندانی نظام ہوتا ہے تو نئے پورشنز کی تعمیر کا ذمہ بھی اسی بہن بھائی کے سر ڈال دیا جاتا ہے جو وہاں رہنا چاہتا ہے، جبکہ باتی تمام پورشن میں اس مذکورہ بہن بھائی کی رقم بھی خرچ ہوئی ہوتی ہے۔ کسی کی قربانی کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور اپنے موقف بار بار اپنے مفاد کی خاطر بدلے جاتے ہیں۔
جبکہ اس سے پہلے بہن بھائیوں کے ساتھ محبت و الفت کے بہت دعوے کیے جاتے ہیں۔ خون کے رشتوں کے بارے میں ہر طرح کی باتیں کی جاتی ہیں کہ ہم کبھی نہیں تبدیل ہوں گے، ہم ہی تمھارے خیر خواہ ہیں۔ ہم سے زیادہ اچھا اور بہتر تمھارے فائدے کےلیے کوئی نہیں سوچ سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت پڑنے پر سب سے پہلے قریبی رشتے دار ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔
منافقت کے اس دور میں سچ پوچھیے تو کوئی رشتہ سچا نہیں۔ بہن بھائی تب تک ہیں جب تک ان کی شادی نہیں ہو جاتی۔ اولاد بھی مخلص نہیں۔ باس ہے تو اسے بھی صرف کام سے غرض ہے لیکن بروقت تو کیا تنخواہ دینے میں بہت دقت ہے۔ کولیگز ہیں تو وہ مفاد پرست، موقع پرست۔ اگر آُپ کو کوئی خیر خواہ مل جائے تو پھر زندگی آسان ہوسکتی ہے۔ کسی پر اعتبار نہ کرنا آج کل خوبی ہے، لیکن دوسری طرف زندگی بھی سہاروں کے بغیر نہیں گزاری جاسکتی، تاہم شرط اتفاق و اتحاد ہے۔ ورنہ گھر کو مکان بننے میں صرف ایک سیکنڈ لگتا ہے۔
بات وہی ہے کہ رشتوں کی تسبیح کا ایک دانہ بھی اپنی جگہ پر موجود نہیں رہتا تو اسے ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا، پھر چاہے دفتر ہو یا گھر، ہر جگہ صرف اینٹوں کی عمارت ہی رہ جاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔