ایک بابرکت تقریب
اخوت کے قرض حسنہ پروگرام میں کسی حکومت یا عالمی امدادی اداروں کا کوئی حصہ نہیں۔
اصل اسلام یہی ہے اور دراصل مسلمان یہی لوگ ہیں جو ایک فلاحی معاشرہ قائم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ وہ معاشرہ جوانسانی تاریخ میں پہلی بار مدینے کی مسلمان ریاست سے شروع ہوا تھا۔رسول اللہﷺ کے لیے ہجرت مدینہ کے فوری بعد سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری کا تھا۔
مہاجرین دین کی خاطر اپنا گھر بار اور سازو سامان چھوڑ کر مدینہ پہنچے تھے۔ آپﷺ نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے انصار ومہاجرین کو اخوت کے رشتے میںجوڑ دیا ۔ ایک مہاجر کو دوسرے انصاری کا بھائی بنا دیا ۔ مہاجرین جومدینہ پہنچ کر پریشانی کا شکار اور خود کو تنہا محسوس کر رہے تھے، اس فیصلے کے بعد اپنی تکالیف بھول گئے۔ اخوت کے اس رشتے کی مثالیں رہتی دنیا تک دی جاتی رہیں گی۔
میں ذکر کر نا چاہ رہا ہوں ایک تقریب کا جو برکتوں سے بھری ہوئی تھی اور ان تقاریب کا تسلسل تھی جو آج سے دو دہائیاںقبل ''اخوت'' کے نام سے شروع کی گئی تھی۔ اخوت کی پہلی تقریب جو لاہور کے گورنر ہاؤس کے سر سبز لان میں منعقد ہوئی تھی جس کے متعلق میرے والد نے اخوت کا تعارف کراتے ہوئے اپنے کالم میں لکھا تھاکہ '' گورنر پنجاب نے بڑے شوق اور جذبے سے اس تقریب کی میزبانی کی اور اس متاثر کن تقریب میں وہ صحافی بھی شریک ہوئے جن کی جیبوں میں سوائے تنخواہ کے اورکچھ نہ تھا۔
وہ تقریب کی رپورٹ کرنے کے لیے آئے تھے لیکن اس دوران اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اپنے قلیل رزق حلال میں سے اس کارخیر میں حصہ لینا واجب سمجھا ۔ شہر کے دولت مند لوگوں نے اخوت کی اچھی خاصی خدمت کی اور ہم صحافیوں نے بھی پانچ سو ہزار تک حصہ لیا جب کہ دوسرے لوگ لاکھوں کی صورت میں اس کار خیر میں شریک تھے۔ اس سے اندازہ کریں کہ یہ تقریب کس قدر کامیاب اور ولولہ انگیز تھی''۔
وہ ''اخوت'' کے آغاز کاوقت تھااور آج یہ فلاحی تنظیم جو بیسویں سالگرہ کی تقریب منا رہی ہے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سود سے پاک قرضوں کا اجرا کر رہی ہے ۔لاہور کے شاہی قلعہ کے مرکزی دروازے کے سامنے اوربادشاہی مسجد کے بلند و بالا میناروں سے بکھرتی روشنی کے سائے میں حضوری باغ کاسر سبز لان برقی قمقموں سے منور تھا۔ لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کی میزبانی میں منعقد ہ تقریب کی صدارت کی سعادت صدر پاکستان محترم عارف علوی کے حصے میں آئی۔
تقریب میں مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ اخوت کے قرض حسنہ کی خدمات سے مستفید ہونے والوں کے علاوہ مجھ جیساگنہگار بھی ڈاکٹرامجد ثاقب کی دعوت پر اس بابرکت محفل میں حاضر تھا۔حضوری باغ جس کے ایک پہلو میں حضرت علامہ محمد اقبال ؒ آسودہ خاک ہیںجنھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا خواب دیکھا تھا جہاں پر وہ ایک آزاد شہری کے طور پر باعزت زندگی گزار سکیں لیکن وہ اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے سے پہلے ہی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے اور اچھا ہی ہوا کہ جو حال ہم نے ان کے خوابوں کے پاکستان کاکیا وہ سب کے سامنے ہے اورہم سب اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
علامہ کے خواب کو تعبیر دینے کی ایک جھلک ہمیں اخوت کی صورت میں نظر آتی ہے جو غربت میں پسے ہوئے پاکستانیوں کو بلا سود قرضوں کی فراہمی کے ذریعے انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اخوت کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب لکھتے ہیں کہ ہر شخص کا ایک خواب ہونا چاہیے، اقبال کا ایک خواب تھا،سرسید کا ایک خواب تھا، مارٹر لوتھر کنگ کا بھی ایک خواب تھا۔ ہم خواب نہیں دیکھتے اس لیے ہمیں تعبیر نہیں ملتی۔ خوابوں کا یہ سفر مشکل نہیں ہاں پہلا قدم مشکل ہوتا ہے۔ہمارا یقین ہے کہ جس کا کام ہے وہی وسائل کا بندوبست بھی کرے گا۔ بحیثیت مسلمان وہ توکل کے قائل ہیں۔
پاکستانیوں کے لیے ''اخوت'' اب کوئی غیرمعروف نام نہیں رہا بلکہ دنیا بھر کے ماہرین معاشیات اس کی خدمات کے طریقہ کارسے پریشان ہی نہیں حیران بھی ہیں کہ تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک میں ایک فلاحی تنظیم اربوں روپے قرض حسنہ کی شکل میں تقسیم کر رہی ہے جس کی واپسی کی شرح تقریباًسو فیصد ہے جو آج کے معاشرے میں ایک ناممکن سی بات دکھائی دیتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرض حسنہ کے اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں میں مذہب اور صنفی امتیاز کوبالائے طاق رکھ دیا ہوا ہے حتیٰ کہ خواجہ سرا بھی اس شامل ہیں جو اس معاشرہ کا دھتکارا ہوا طبقہ ہیں لیکن اخوت نے انھیں بھی اپنی گود میں پناہ دی ہے۔
ہر مذہب کے لوگوں کے لیے اخوت قرض فراہم کرتی ہے۔مخیر حضرات کے علاوہ قرض حسنہ سے مستفید ہونے والے بھی اس کار خیر میں مسلسل اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جن کی وجہ سے چند ہزار روپوں سے شروع ہونے والا قرض حسنہ کا پروگرام اب اربوں تک جا پہنچا ہے۔ گزشتہ بیس برس سے جاری اس سفرمیں اب تک 140 ارب روپوں سے زائد کے سود سے پاک قرض سے چالیس لاکھ سے زائد لوگ مستفید ہو چکے ہیں۔ قرضہ جات کے علاوہ پہلے مرحلے میں بغیر فیس کے اسکول شروع کیے گئے اور اب ایک جدید علوم کی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آگیا ہے جہاں پر پاکستان کے تمام صوبوں سے طالبعلم اپنے علم کی پیاس بجھا رہے ہیں اور وہ بھی کسی خرچ کے بغیر۔
مشہور ہے کہ پاکستانی حکومت کوٹیکس نہیں دیتے لیکن عطیات کے معاملے میں فراغ دل ہیں اور شاید یہی اخوت کی کامیابی کا راز ہے ۔اخوت کے قرض حسنہ پروگرام میں کسی حکومت یا عالمی امدادی اداروں کا کوئی حصہ نہیں اس کے حصہ دار صرف اور صرف وہ مخیرلوگ ہیں جن کے لیے پرانے یا نئے پاکستان میں کوئی فرق نہیں، بس خدمت کا ایک جذبہ ان کے دلوں میں موجزن ہے اور وہ اپنے سکون قلب کے لیے اس قافلے میں کسی لالچ اور ستائش کے بغیر شریک سفر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کی جانب اصل سفر کا آغاز یہی ہے ۔
مہاجرین دین کی خاطر اپنا گھر بار اور سازو سامان چھوڑ کر مدینہ پہنچے تھے۔ آپﷺ نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے انصار ومہاجرین کو اخوت کے رشتے میںجوڑ دیا ۔ ایک مہاجر کو دوسرے انصاری کا بھائی بنا دیا ۔ مہاجرین جومدینہ پہنچ کر پریشانی کا شکار اور خود کو تنہا محسوس کر رہے تھے، اس فیصلے کے بعد اپنی تکالیف بھول گئے۔ اخوت کے اس رشتے کی مثالیں رہتی دنیا تک دی جاتی رہیں گی۔
میں ذکر کر نا چاہ رہا ہوں ایک تقریب کا جو برکتوں سے بھری ہوئی تھی اور ان تقاریب کا تسلسل تھی جو آج سے دو دہائیاںقبل ''اخوت'' کے نام سے شروع کی گئی تھی۔ اخوت کی پہلی تقریب جو لاہور کے گورنر ہاؤس کے سر سبز لان میں منعقد ہوئی تھی جس کے متعلق میرے والد نے اخوت کا تعارف کراتے ہوئے اپنے کالم میں لکھا تھاکہ '' گورنر پنجاب نے بڑے شوق اور جذبے سے اس تقریب کی میزبانی کی اور اس متاثر کن تقریب میں وہ صحافی بھی شریک ہوئے جن کی جیبوں میں سوائے تنخواہ کے اورکچھ نہ تھا۔
وہ تقریب کی رپورٹ کرنے کے لیے آئے تھے لیکن اس دوران اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اپنے قلیل رزق حلال میں سے اس کارخیر میں حصہ لینا واجب سمجھا ۔ شہر کے دولت مند لوگوں نے اخوت کی اچھی خاصی خدمت کی اور ہم صحافیوں نے بھی پانچ سو ہزار تک حصہ لیا جب کہ دوسرے لوگ لاکھوں کی صورت میں اس کار خیر میں شریک تھے۔ اس سے اندازہ کریں کہ یہ تقریب کس قدر کامیاب اور ولولہ انگیز تھی''۔
وہ ''اخوت'' کے آغاز کاوقت تھااور آج یہ فلاحی تنظیم جو بیسویں سالگرہ کی تقریب منا رہی ہے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سود سے پاک قرضوں کا اجرا کر رہی ہے ۔لاہور کے شاہی قلعہ کے مرکزی دروازے کے سامنے اوربادشاہی مسجد کے بلند و بالا میناروں سے بکھرتی روشنی کے سائے میں حضوری باغ کاسر سبز لان برقی قمقموں سے منور تھا۔ لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کی میزبانی میں منعقد ہ تقریب کی صدارت کی سعادت صدر پاکستان محترم عارف علوی کے حصے میں آئی۔
تقریب میں مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ اخوت کے قرض حسنہ کی خدمات سے مستفید ہونے والوں کے علاوہ مجھ جیساگنہگار بھی ڈاکٹرامجد ثاقب کی دعوت پر اس بابرکت محفل میں حاضر تھا۔حضوری باغ جس کے ایک پہلو میں حضرت علامہ محمد اقبال ؒ آسودہ خاک ہیںجنھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا خواب دیکھا تھا جہاں پر وہ ایک آزاد شہری کے طور پر باعزت زندگی گزار سکیں لیکن وہ اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے سے پہلے ہی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے اور اچھا ہی ہوا کہ جو حال ہم نے ان کے خوابوں کے پاکستان کاکیا وہ سب کے سامنے ہے اورہم سب اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
علامہ کے خواب کو تعبیر دینے کی ایک جھلک ہمیں اخوت کی صورت میں نظر آتی ہے جو غربت میں پسے ہوئے پاکستانیوں کو بلا سود قرضوں کی فراہمی کے ذریعے انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اخوت کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب لکھتے ہیں کہ ہر شخص کا ایک خواب ہونا چاہیے، اقبال کا ایک خواب تھا،سرسید کا ایک خواب تھا، مارٹر لوتھر کنگ کا بھی ایک خواب تھا۔ ہم خواب نہیں دیکھتے اس لیے ہمیں تعبیر نہیں ملتی۔ خوابوں کا یہ سفر مشکل نہیں ہاں پہلا قدم مشکل ہوتا ہے۔ہمارا یقین ہے کہ جس کا کام ہے وہی وسائل کا بندوبست بھی کرے گا۔ بحیثیت مسلمان وہ توکل کے قائل ہیں۔
پاکستانیوں کے لیے ''اخوت'' اب کوئی غیرمعروف نام نہیں رہا بلکہ دنیا بھر کے ماہرین معاشیات اس کی خدمات کے طریقہ کارسے پریشان ہی نہیں حیران بھی ہیں کہ تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک میں ایک فلاحی تنظیم اربوں روپے قرض حسنہ کی شکل میں تقسیم کر رہی ہے جس کی واپسی کی شرح تقریباًسو فیصد ہے جو آج کے معاشرے میں ایک ناممکن سی بات دکھائی دیتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرض حسنہ کے اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں میں مذہب اور صنفی امتیاز کوبالائے طاق رکھ دیا ہوا ہے حتیٰ کہ خواجہ سرا بھی اس شامل ہیں جو اس معاشرہ کا دھتکارا ہوا طبقہ ہیں لیکن اخوت نے انھیں بھی اپنی گود میں پناہ دی ہے۔
ہر مذہب کے لوگوں کے لیے اخوت قرض فراہم کرتی ہے۔مخیر حضرات کے علاوہ قرض حسنہ سے مستفید ہونے والے بھی اس کار خیر میں مسلسل اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جن کی وجہ سے چند ہزار روپوں سے شروع ہونے والا قرض حسنہ کا پروگرام اب اربوں تک جا پہنچا ہے۔ گزشتہ بیس برس سے جاری اس سفرمیں اب تک 140 ارب روپوں سے زائد کے سود سے پاک قرض سے چالیس لاکھ سے زائد لوگ مستفید ہو چکے ہیں۔ قرضہ جات کے علاوہ پہلے مرحلے میں بغیر فیس کے اسکول شروع کیے گئے اور اب ایک جدید علوم کی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آگیا ہے جہاں پر پاکستان کے تمام صوبوں سے طالبعلم اپنے علم کی پیاس بجھا رہے ہیں اور وہ بھی کسی خرچ کے بغیر۔
مشہور ہے کہ پاکستانی حکومت کوٹیکس نہیں دیتے لیکن عطیات کے معاملے میں فراغ دل ہیں اور شاید یہی اخوت کی کامیابی کا راز ہے ۔اخوت کے قرض حسنہ پروگرام میں کسی حکومت یا عالمی امدادی اداروں کا کوئی حصہ نہیں اس کے حصہ دار صرف اور صرف وہ مخیرلوگ ہیں جن کے لیے پرانے یا نئے پاکستان میں کوئی فرق نہیں، بس خدمت کا ایک جذبہ ان کے دلوں میں موجزن ہے اور وہ اپنے سکون قلب کے لیے اس قافلے میں کسی لالچ اور ستائش کے بغیر شریک سفر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کی جانب اصل سفر کا آغاز یہی ہے ۔