بلوچستان عوامی پارٹی سینٹ کی چوتھی بڑی جماعت بن گئی

حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی 6 نشستیں حاصل کرنے کے بعد سینیٹ میں چوتھی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔

حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی 6 نشستیں حاصل کرنے کے بعد سینیٹ میں چوتھی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ فوٹو : فائل

بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں میں سے 8 نشستیں حکومت و اتحادی جماعتوں اور 4 نشستیں اپوزیشن نے جیت لیں۔

حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی 6 نشستیں حاصل کرنے کے بعد سینیٹ میں چوتھی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اس سے قبل سینیٹ میں 4 سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد 6 نشستیں بی اے پی کی تھیں اس طرح اب بلوچستان سینیٹ کی 23 نشستوں میں سے 12نشستیں بی اے پی کی ہیں جبکہ نومنتخب سینیٹر عبدالقادر جوکہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں وہ حکمران جماعت بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے کامیاب ہوکر آئے ہیں ۔

سینیٹر عبدالقادر نے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اصولی فیصلہ کیا ہے اس طرح ان کے تحریک انصاف میں شامل ہونے سے بلوچستان سے سینیٹ میں تحریک انصاف کو واحد نمائندگی مل گئی ہے، کیونکہ اس وقت بلوچستان سے سینیٹ میں تحریک انصاف کی کوئی نمائندگی نہیں ہے یوں تحریک انصاف کی سیٹوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے چیئرمین سینٹ کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی کے میر صادق سنجرانی کو دوبارہ اس عہدے کیلئے حکومت کا مشترکہ ا میدوار نامزد کرکے '' ترپ'' کا پتہ کھیلا ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق سینیٹ میں اس وقت پی ڈی ایم کو عددی اعتبار سے برتری حاصل ہے اگر بلوچستان کے حوالے سے دیگر قوم پرست جماعتیں ان کی حمایت کرتی ہیں تو وہ پی ڈی ایم کے متوقع امیدوار و سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو شکست دے سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے نیشنل پارٹی کی قیادت سے رابطہ کیا ہے جن کی اس وقت سینیٹ میں دو نشستیں ہیں تاہم نیشنل پارٹی نے انہیں صاف جواب دے دیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ ہے اور وہ سینیٹ میں چیئرمین سینٹ کے عہدے کیلئے اسکے نامزد امیدوار کو ہی ووٹ دے گی۔

اسی طرح صادق سنجرانی اور بی اے پی کی قیادت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی دیگر قوم پرست جماعتوں سے بھی رابطے کر رہی ہے جس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بی این پی اور اے این پی شامل ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت اے این پی بھی حالیہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان سے ایک نشست لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان سے اے این پی کا یہ واحد ووٹ پی ڈی ایم کو جاتا ہے یا اس کی بلوچستان میں اتحادی جماعت بی اے پی کو ، تاہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اے این پی کے لئے یہ ایک بڑی آزمائش ہے۔


دوسری جانب بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن کی اہم جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل جنہوں نے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن بلوچستان سیزز سرپرائز دے گی تاہم انہوں نے اس سے قبل بلوچستان کی حکومت کی جانب سے 4-8کی دی جانے والی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو 6-6کا فارمولا دیا تھا جسے بی اے پی اور اسکی اتحادی جماعتوں نے قبول نہیں کیا تھا۔

تاہم نتائج آنے کے بعد 4-8کا فارمولا ہی اپلائی ہوا جس پر بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے جنرل نشست پر ناکام ہونے والے ایک امیدوار ساجد ترین ایڈووکیٹ کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے کیونکہ انہیں شبہ ہے کہ ان کی جماعت کے دو ارکان کے ووٹ ادھر اُدھر ہوگئے ہیں جبکہ دوسری اپوزیشن جماعت جے یو آئی کے بھی دوارکان پر شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ دونوں جماعتوںکے اندر اس حوالے سے احتساب کا عمل جاری ہے جس کی رپورٹ آنے پر کارروائی کرنے کا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بظاہر سینیٹ الیکشن کے دوران یہ تاثر مل رہا تھا کہ متحدہ اپوزیشن متحد ہے تاہم حکومت اور اس کے اتحادی یکجا نہیں ہیں لیکن وزیراعلیٰ جام کمال اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اچانک سرگرم ہوئے ، انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اور اتحادی جماعتوں میں ناراض ارکان اسمبلی کو منایا اور 48 گھنٹوں کے دوران اپنا مشن پورا کر کے حکومتی اتحاد کو یکجا کر لیا جس کا رزلٹ سینیٹ الیکشن میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی 12میں سے 8 نشستوں پر کامیابی کی صورت میں دکھائی دیا۔

بعض سیاسی حلقوں کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے عہدے کیلئے صادق سنجرانی کی نامزدگی کے فیصلے پر بی اے پی کے اندر اختلافات کی خبریں آرہی ہیں جنہیںراضی کرنے کے لئے پارٹی کی قیادت اپنے تئیں کوشش کر رہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائے گی ۔

سیاسی حلقوں کے مطابق سینیٹ الیکشن کے بعد متحدہ اپوزیشن ملک میں تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر بلوچستان میں بھی سرگرم ہوگئی ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پنجاب کے بعد بلوچستان میں بھی حکومت گرانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس کے لئے جمعیت علماء ا سلام کے ساتھ ساتھ سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت بی این پی پیش پیش ہے۔

ان حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال بھی سینیٹ کے انتخابات سے ایکٹیو نظر آرہے ہیں اور انہوں نے نہ صرف اپنی جماعت کے ارکان بلکہ اتحادیوں سے بھی کافی وعدے کئے ہیں، یقیناً موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں وہ ان وعدوں پر عملدرآمد کریں گے جس میں بعض وزراء و مشیروں کے محکموں میں تبدیلی اور افسر شاہی میں تقرر و تبادلے جیسے اہم اقدامات شامل ہیں ، اس کے علاوہ آنے والے بجٹ میں اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی اور اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ فنڈز کی فراہمی بھی ان کی ترجیحات ہوں گی یہ وہ حربہ ہے جس سے وہ اپنی حکومت کو محفوظ کر سکتے ہیں۔
Load Next Story