وزیر اعلیٰ کی حکمت عملی سے پی ٹی آئی اپنی سیٹیں جیتنے میں کامیاب

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے خود کو بہترین سیاستدان اور جوڑ توڑ کا ماہر ثابت کیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے خود کو بہترین سیاستدان اور جوڑ توڑ کا ماہر ثابت کیا ہے۔ فوٹو: فائل

سینٹ انتخابات کا معاملہ ختم ہوا جس کے حوالے سے اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کے آفٹر شاکس کا سلسلہ تو جاری ہی ہے لیکن اگر ہم خیبرپختونخوا کی حد تک بات کریں تو یہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے حصہ بقدر جثہ پا لیا ہے۔

حکومت کو اپنے اراکین اسمبلی کی تعداد کے مطابق سینٹ کی بارہ میں سے دس نشستیں ملنی چاہئیں تھیں اور حکومت کو دس نشستیں ہی ملی ہیں جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کے حصہ میں دو نشستیں آنی تھیں اور اپوزیشن کو دو نشستیں ہی ملی ہیں، جو ہوا اس میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے خود کو بہترین سیاستدان اور جوڑ توڑ کا ماہر ثابت کیا ہے حالانکہ اس سے قبل صوبہ میں انتہائی ہوشیار سیاستدان پرویزخٹک کی حکومت تھی لیکن ان کی صورت حال یہ رہی کہ انھیں 2015ء کے سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن کا ہاتھ تھام کر جے یوآئی کی راہ روکنی پڑی جبکہ 2018ء میں پیپلزپارٹی ان سے ایک نشست چھین کر لے گئی۔

لیکن محمودخان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے اپنے حصہ کی پوری دس نشستوں پر اپنے امیدواروں کو کامیاب کرایا ہے ،گو کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی اپنی تعداد سے زائد امیدوار میدان میں اتارے ہوئے تھے اور دونوں جانب سے یہ دعوے کیے جا رہے تھے کہ وہ اضافی نشستوں پر کامیابی حاصل کریں گے۔

تاہم یہ بات بھی بالکل واضح تھی کہ حکومت کی دلچسپی اپنے دس امیدواروں کی کامیابی تک ہی محدود ہے اور یہی حال دوسری جانب اپوزیشن کا بھی تھا کہ جس نے اگرچہ میدان میں تو پانچ امیدوار اتارے تھے لیکن اس کا فوکس دو نشستوں کے حصول پر مرکوز تھا ۔

حکومت کی صورت حال یہ رہی کہ اس کے ارکان کے حوالے سے دو قسم کی آراء پائی جاتی ہے ، جنرل نشستوں پر پی ٹی آئی کے پانچ امیدواروں کو 88 ووٹ پڑے جبکہ پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی تعداد94 ہے جس کے ساتھ اسے مسلم لیگ ق کے ایک اور تین آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی۔

تاہم حکومتی ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ حکومت نے جنرل نشستوں کے لیے اپنے پانچ امیدواروں کے لیے 19,19 ارکان پر مشتمل پانچ پینل ترتیب دیئے تھے اور اضافی ارکان کے ووٹ بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار تاج محمد آفریدی کو منتقل کر دیئے تھے ،اس صورت میں بھی پی ٹی آئی امیدواروں کو 95 ووٹ ملنے چاہئیں تھے لیکن انھیں88 ووٹ حاصل ہوئے جس کا واضح مطلب ہے کہ حکمران اتحاد کے 7 ووٹ غائب ہوگئے لیکن اس بارے میں حکومتی ذرائع الگ ہی کہانی سناتے ہیں جن کا کہناہے کہ حکمران اتحاد کا ایک ووٹ بھی غائب نہیں ہوا۔


حکمران اتحاد کے ارکان کی مجموعی تعداد102 ہے جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے بھی 4 ارکان شامل ہیں اور حکمران اتحاد کو اتنے ہی ووٹ پڑے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے پانچ امیدواروں نے جنرل نشستوں پر 88 ووٹ حاصل کیے جبکہ باپ کے تاج آفریدی نے 14 ووٹ لیے جو مجموعی طور پر 102 بن جاتے ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے جنرل نشستوں کے تین امیدواروں نے 42 ووٹ حاصل کیے جبکہ ایک ووٹ مسترد ہوا اور وہ بھی اپوزیشن امیدواروں کو پڑنے والا ووٹ تھا کیونکہ حکمران اتحاد نے اپنے پورے ووٹ حاصل کیے۔

تاہم یہ تھیوری قدرے کمزور دکھائی دیتی ہے کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ پی ٹی آئی اپنے ایک آدھ امیدوار کو داؤ پر لگاتے ہوئے باپ کے امیدوارکو اپنے ووٹ منتقل کرے تاہم اگر محمودخان اور ان کی ٹیم نے اپنے پتے اس انداز ہی میں کھیلے ہیں کہ اتحادی جماعت کے امیدوار کو ووٹ بھی منتقل کیے اور دوسری وتیسری ترجیح کے ووٹ دیتے ہوئے اپنے امیدواروں کی کامیابی کو بھی یقینی بنایا تو ان کے لیے داد تو بنتی ہی ہے ، دوسری جانب اپوزیشن کا معاملہ یقینی طور پر ڈانواڈول رہا کیونکہ اپوزیشن جنرل نشستوں پر ایک اضافی نشست کے ساتھ میدان میں اتری تھی جو اسے حاصل نہیں ہو پائی جبکہ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی نشست پر بھی اس کے ووٹ غائب ہوئے ۔

پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر کو ٹیکنوکریٹ کی نشست پر 43 کی بجائے34 ووٹ پڑے ،گویا 9 ووٹ غائب ہوگئے، دوسری جانب ٹیکنوکریٹ نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو 6 اضافی ووٹ حاصل ہوئے جبکہ خواتین کی نشستوں پر اپوزیشن کی امیدوار عنایت بیگم کو 36 ووٹ ملے یعنی 7 ووٹ غائب ہوئے اور پی ٹی آئی کی دونوں امیدواروں ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور فلک ناز چترالی کو 107 ووٹ حاصل ہوئے جو حکمران اتحاد کے ووٹوں کی تعداد سے5 زائد رہے اوریہ اضافی ووٹ یقینی طور پر اپوزیشن ہی کی جانب سے حکومت کو منتقل ہوئے۔

اپوزیشن کے جنرل نشستو ں پر کامیاب ہونے والے دونوں امیدواروں مولانا عطاء الرحمٰن اور حاجی ہدایت اللہ کی کامیابی میں حکمران اتحاد کی بیک ڈور سے ملنے والی مدد شامل ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین سینٹ کے عہدہ کے لیے اپنے امیدوار صادق سنجرانی کے لیے ووٹ مانگنے ولی باغ پہنچ گئی ۔ اگرچہ بعض حلقے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی چیئرمین سینٹ الیکشن کے حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے ہمراہ ولی باغ آمد کو معمول کی انتخابی مہم قراردے رہے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے امیدوار سید یوسف رضاگیلانی کے لیے ووٹ مانگنے چوہدری برادران کے پاس گئے۔

تاہم پی ٹی آئی امیدوار کی ولی باغ آمد کے ڈانڈے کہیں سے کہیں ملانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور بعض حلقے تو اے این پی کو پی ڈی ایم سے باہر بھی جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں لیکن شاید ہی ایسی صورت بن پائے،اے این پی، پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں اپنا الگ امیدوار میدان میں لاتے ہوئے پہلے ہی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں اپنی پوزیشن خراب کرچکی ہے اس لیے اب وہ شاید ہی کوئی ایسا قدم اٹھائے کہ جس سے معاملات مشکوک شکل اختیار کریں۔

تاہم جہاں تک حکومتی امیدوار کی ولی باغ آمد کا تعلق ہے تو حکومت ہو یا اپوزیشن کسی کو بھی اپنے گھر ووٹ مانگنے کے لیے آنے سے روکا نہیں جا سکتا۔سینٹ کے معاملات ابھی ٹھنڈے نہیں پڑے کیونکہ چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہونا ابھی باقی ہے اور وہ بھی خفیہ رائے شماری کے ذریعے، اسی لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی چیئرمین سینٹ کے عہدہ کے حوالے سے یہ جنگ جیتنے کی کوششیں سروع کر دی ہیں۔
Load Next Story