دہشت گردی اور ابہام

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید اور زخمی ہونے والے فوجی ہمارے قومی ہیرو ہیں، آرمی چیف

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید اور زخمی ہونے والے فوجی ہمارے قومی ہیرو ہیں، آرمی چیف۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے بعض قوتیں ابہام پیدا کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں یہ سلسلہ خاصے عرصے سے جاری ہے حالانکہ خود کش حملوں' بم دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں پاک فوج اور شہریوں کی بڑی تعداد شہید ہو چکی ہے۔ پاکستان جیسا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ریاست اور عوام کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی جاتی ہے اور یہ کام ملک کی بعض بااثر سیاسی جماعتیں اور نامور شخصیات کر رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاک فوج دہشت گردوں کے سامنے دیوار ہے اور ان کا نشانہ بھی پاک فوج ہی ہے۔ اگلے روز چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے راولپنڈی میں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن میڈیسن کا دورہ کیا' یہاں مختلف کارروائیوں میں زخمی ہونے والے فوجی اہلکاروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس موقعے پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید اور زخمی ہونے والے فوجی ہمارے قومی ہیرو ہیں' جن پر قوم کو فخر ہے۔

اصل بات یہی ہے کہ جو لوگ دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور لڑائی میں اپنی جانیں دے رہے ہیں یا زخمی ہو رہے ہیں' ان کی قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے کیونکہ وہ پورے پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں' اس اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ واقعی قوم کے ہیرو ہیں۔ کسی سیاسی جماعت' تنظیم یا شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ معاشرے میں اس حوالے سے ابہام اور کنفیوژن پیدا کریں' اس حقیقت کا سب کو علم ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی کرکٹ ٹیم پاکستان آ کر کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ چند برس پہلے پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو لاہور میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ اس واردات میں خوش قسمتی سے سری لنکا کے کھلاڑی محفوظ رہے تاہم دہشت گردوں نے کئی پولیس اہلکاروں اور عام افراد کو قتل کیا۔ اس سانحے کے بعد دنیا کی تمام کرکٹ ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکارکر دیا۔ دوسری کھیلوں کا بھی یہی حال ہے' پاکستان میں کوئی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ نہیں ہو سکتا' حالانکہ انٹرنیشنل ٹورنامنٹس معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے۔


وہاں دولت مشترکہ گیمز ہوئیں' آئی پی ایل ہو رہی ہے' دنیا کی کرکٹ ٹیمیں وہاں آ کر کھیل رہی ہیں' ایشین گیمز وہاں ہو چکی ہیں۔ ان ٹورنامنٹس اور کھیلوں کی وجہ سے بھارت میں معاشی سرگرمیاں تیزی سے بڑھی ہیں اور اس کی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں پوری اسپورٹس انڈسٹری زوال کا شکار ہو گئی ہے' اس سے آگے بڑھ کر اگر پوری معیشت کا حال دیکھیں تو صورت حال انتہائی تشویشناک نظر آتی ہے' خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو سرمایہ کاری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا' سندھ میں کراچی پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے لیکن وہاں جو حالات ہیں' وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ صرف پنجاب ہی ایک ہی ایک ایسا خطہ ہے جہاں کسی حد تک امن و امان ہے اور سرمایہ کاری کے لیے حالات ساز گار ہیں۔ اس منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو ملکی معیشت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ پاکستان اس حال تک کیوں پہنچا؟ اس کا جواب تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پاکستان آج جس انتہا پسندی اور اس سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے' اس میں ملک کی مقتدر اشرافیہ کا سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ پالیسی سازی کا فریضہ وہی انجام دیتی رہی ہے۔

اس میں سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کا برابر کا حصہ ہے۔ ملک میں ایک پالیسی کے تحت ایسی سوچ کو پروان چڑھایا گیا جو جدیدیت سے متصادم تھی۔ ایسی پالیسی کے تحت ملک کے سماجی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی خصوصاً خیبر پختونخوا' بلوچستان اور سندھ میں قبائلی نظام اور جاگیرداری کو مستحکم کیا گیا۔ کسی سیاسی و مذہبی جماعت نے خیبرپختونخوا میں فاٹا کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کی جدوجہد نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں صنعتی عمل شروع ہو سکا اور نہ ہی زراعت کو فروغ حاصل ہوا۔ اس علاقے کے غریب لوگ روز گار کے لیے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہوئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اگر خیبر پختونخوا اور فاٹا میں آئینی اصلاحات کر کے وہاں صنعتی عمل کا آغاز کیا جاتا' زراعت اور باغبانی کو ترقی دی جاتی تو ان علاقوں سے انسانی ہجرت کو روکا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور کسی سیاسی اور مذہبی جماعت نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی سکون سے بیٹھی رہیں۔ بلوچستان کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے۔ بلوچستان اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب وہاں صنعتی عمل شروع ہو' زراعت اور چھوٹے کاروباروں کو ترقی دی جائے۔

ایسا ہونے سے ایک طرف تو تعلیم کا فروغ ہو گا تو دوسری طرف غریب لوگوں کے لیے روز گار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ ملک کے دوسرے حصوں کے سرمایہ دار بھی وہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یہی حال اندرون سندھ کا ہے۔ اندرون سندھ میں جاگیرداری نظام برقرار ہے۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع جسے سرائیکی بیلٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ وہاں بھی جاگیرداریت پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ایسے سماجوں میں انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینا انتہائی آسان کام ہے۔ پاکستان میں برسراقتدار اشرافیہ نے یہی راستہ اختیار کیا۔ اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ موجودہ حکومت بھی ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ اس نے انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ حکومت اب بھی طالبان سے مذاکرات کی باتیں کر رہی ہے۔ تحریک انصاف بھی یہی کہہ رہی ہے' جے یو آئی کا بھی یہی موقف ہے۔ جماعت اسلامی بھی اسی موقف کی قائل ہے۔ سب لوگ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں لیکن کسی کے پاس مذاکرات کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ سرکاری ادارے بھی گومگو کا شکار ہیں۔ یہ صورت حال ملک میں امن و امان قائم کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ابہام دور نہیں ہوتا' وطن عزیز میں امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملکی معیشت ترقی کر سکتی ہے۔
Load Next Story