عمر ان خان اور مولا نا فضل الرحمان
دیکھنےمیں اورحقیقت میں عمران خان اورمولانا فضل الرحمن بالکل مختلف انسان ہیں۔مگربہت سی چیزیں دونوں کوقریب بھی لاتی ہیں۔
KARACHI:
ظاہراً دونوں میں بہت فرق ہیں۔ ایک فربہ جسم دوسرا بہترین کھلاڑیوں کی طرح چست۔ ایک داڑھی والا دوسرا اس اہتمام کے بغیر۔ ایک کی تربیت مقامی مدارس اور روایتی مذہبی تعلیمی اداروں کے ذریعے ہوئی۔ دوسرا مغرب سے مستفید ہوا، وہیں کا اندازِ زندگی سیکھا اور طویل عرصہ تک وہ انداز اپنائے رکھا۔ ایک کی گھریلو زندگی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں، دوسرا ذاتی اعتبار سے خبروں کا مرکز بنا رہا۔ ایک روایتی سیاست دان کی نسبت سے جانا جاتا ہے۔ ہر حکومت کے کنویں سے پانی پیا ، ہر دور میں اپنی جماعت کے لیے سہولیات اکھٹی کیں۔ دوسرا انقلابی نعرے لے کر آیا، پہلی مرتبہ حکمرانی کا مزا چکھ رہا ہے۔ ایک کی سیاست دیہی علاقوں تک محدود ہے،گاؤں اور دور دراز کے محلوں میں مخصوص طبقہ فکر کا پسندیدہ ہے۔ دوسرا پاکستان بھر میں قومی قائد ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ جدید اور جدت پسند سوچ اور طبقے اُس کو چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان کی ووٹ کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت کا سربراہ ہے۔ دیکھنے میں اور حقیقت میں عمران خان اور مولانا فضل الرحمن بالکل مختلف انسان ہیں۔ اُن کی کوئی قدر مشتر ک نظر نہیں آتی، اُن کی سیاست کی بنیاد، وضع قطع، اُٹھنا بیٹھنا،اوڑھنا بچھونا سب کچھ مختلف ہیں۔ مگر بہت سی چیزیں دونوں کو قریب بھی لاتی ہیں۔
اگر اس زاویے سے دونوں سیاست دانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حیران کن حد تک ایک جیسے لگتے ہیں۔ مثلا مولانا فضل الرحمن مدارس کے اُس نیٹ ورک کو چلاتے ہیں جہاں سے طالبان پیدا ہوئے۔ وہ اِن طالبان کو اپناتے بھی ہیں اور اپنا مانتے بھی ہیں۔ اُن کے نزدیک طالبان پاکستان کی شان بھی ہیں اور جان بھی۔ وہ اُن کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے لیے بھی طالبان اپنے ہی ہیں۔ طالبان کا انداز اپنائے بغیر وہ ان کے ایجنڈے کے بہت سے نکات سے اتفاق بھی کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی طرح وہ بھی روایتی طریقہ کار اور خیبرپختو نخوا کی پشتون ثقافت کی اساس کے مداح ہیں۔ مولانا فضل الرحمن امریکا کو جہاد کے ذریعے شکست دینے والے نقطہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں امریکا شیطان اعظم ہے، اُس کو کنکر مارنا عین ثواب کا کا م ہے۔ عمران خان بھی اپنے بیان کے ذریعے اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ امریکا کو غاصب اور عملاً پاکستان کا دشمن سمجھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی طرح وہ افغانستان میں ہونے والی مزاحمت کو جائز اور وہاں پر موجود فوجوں کو قبضے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دونوں ڈرونز کے مخالف ہیں اور ہوائی حملوں کے ذریعے ملک میں ہونے والے نقصانات پر اُن کے افکار اتنے ملتے جلتے ہیں کہ بسا اوقات دیے گئے بیانات میں سے یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ عمران خان کا ہے یا مولانا فضل الرحمن کا۔ دونوں طالبان کے ساتھ بات چیت کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ کل جماعتی اعلامیے کے تحت اس بات چیت کو آگے بڑھا کر پاکستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
دونوں خود کش حملوں پر واضح، مضبوط اور مسلسل موقف دینے سے کتراتے ہیں اور اکا دکا بیان دینے کو کافی سمجھتے ہیں۔ دونوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں خلفشار اندرونی دہشت گرد نہیں بلکہ بیرونی سازشی ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ ہندوستان سے متعلق پالیسی بھی ایک ہی جیسی ہے۔ عمران خان ہندوستان کے ساتھ تعلقات اس حد تک بہتربنانا چاہتے ہیں کہ سرحدوں پر اکھٹے جوہر ی پاور پلانٹ بنانے کی تجویز اُن کو قابل عمل معلوم ہوتی ہے۔ مولانا صاحب کے لیے اپنے مدارس اور دیوبند میں موجود رشتہ ہندوستان اور پاکستان کے مثالی رشتے کی بنیاد ہے۔ دونوں کشمیر کے معاملے پر بات چیت اور لین دین کے قائل ہیں۔ دونوں کے منہ سے آ پ کبھی بھی ہندوستان کی طرف سے پاکستان کے خلاف مسلسل بین الا قوامی طور پر چلائی جانے والی مہم کے حوالے سے کوئی خاص ردعمل نہیں سنیں گے۔ اندرونی طور پر شہری علاقوں کو چھوڑ کر دونوں کا سیاسی حلقہ تقریبا ایک جیسا ہی ہے۔ دونوں ایک ہی قسم کے ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے بیانات تراشتے اور نقطہ فکر ڈھالتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ قدر جو عمران خان اور جے یو آئی کو قر یب لائی ہے وہ ان کے میڈیا نمایندگان ہیں۔ عمران خان نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو نمایندہ بنایا ہے جب کہ مولانا نے جان اچکزئی جمالی کو، ظاہر ہے ایک عورت ہے ایک مرد لیکن دونوں کی انگریزی باکمال ہے۔ وہ ہر معاملے پر بیان دے کر میڈیا کی اُس جنگ کا کلیدی حصہ بن گئے ہیں جس میں خاموشی ہزار گناہوں کے برابر سمجھی جاتی ہے اور پریس کانفرنس جاری کرنا ناگزیر جانا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دونوں اگر کسی جگہ اکھٹا ہو کر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے لگے تو بالکل ایسا محسوس ہو گا جیسا بی بی سی کا کوئی پروگرام چل رہا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں ظاہر ہے یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اتنی اقدار مشترک رکھنے کے باوجود ہر وقت آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ اگرچہ دونوں کے الزامات بھی ایک دوسر ے کے بارے میں ایک ہی جیسے ہیں۔ فضل الرحمن، عمران خان کو یہودی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ جب کہ عمران خان، فضل الرحمن کی سیاست کو بدترین بنیادوں پر چلانے کا طعنہ دیتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا خفیہ ہا تھ بتلاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا خیال ہے کہ عمران خان کی آمد فوج اور آئی ایس آئی کی مدد سے ہوئی ہے جب کہ عمران خان، فضل الرحمن کی طرف سے ہونے والے حملوں کو انھیں اداروں کی بالواسطہ وار قرار دیتے ہیں۔ عا م حالات میں یہ دونوں جماعتیں اکھٹی ہو سکتی تھیں۔ ملکر پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ کر سکتی تھیں۔ طالبان کو گلے لگا سکتی تھیں۔ امریکا سے جان چھڑا سکتی تھیں۔ مگر کیا کریں دونوں بڑے لیڈر ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گزارہ نہیں کر سکتے۔ دونوں کو اکیلا کھیلنے کی عادت ہے۔ اور وہ بھی وکٹ کے دونوں اطراف سے لہذا اِن کی لڑائی جاری رہے گی۔ اگرچہ فضل الرحمن کے لیے یہ لڑائی جیتنا مشکل معلوم ہو رہا ہے۔ عمران کی شہرت کا سورج عروج پر ہے۔ مو لانا صاحب کے سامنے اس وقت چیلنج یہ ہے کہ یہ سورج ان کے لیے سوا نیز ے پر نہ آ جائے۔ اور سیا سی قیامت بر پا نہ کر دے۔
ظاہراً دونوں میں بہت فرق ہیں۔ ایک فربہ جسم دوسرا بہترین کھلاڑیوں کی طرح چست۔ ایک داڑھی والا دوسرا اس اہتمام کے بغیر۔ ایک کی تربیت مقامی مدارس اور روایتی مذہبی تعلیمی اداروں کے ذریعے ہوئی۔ دوسرا مغرب سے مستفید ہوا، وہیں کا اندازِ زندگی سیکھا اور طویل عرصہ تک وہ انداز اپنائے رکھا۔ ایک کی گھریلو زندگی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں، دوسرا ذاتی اعتبار سے خبروں کا مرکز بنا رہا۔ ایک روایتی سیاست دان کی نسبت سے جانا جاتا ہے۔ ہر حکومت کے کنویں سے پانی پیا ، ہر دور میں اپنی جماعت کے لیے سہولیات اکھٹی کیں۔ دوسرا انقلابی نعرے لے کر آیا، پہلی مرتبہ حکمرانی کا مزا چکھ رہا ہے۔ ایک کی سیاست دیہی علاقوں تک محدود ہے،گاؤں اور دور دراز کے محلوں میں مخصوص طبقہ فکر کا پسندیدہ ہے۔ دوسرا پاکستان بھر میں قومی قائد ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ جدید اور جدت پسند سوچ اور طبقے اُس کو چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان کی ووٹ کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت کا سربراہ ہے۔ دیکھنے میں اور حقیقت میں عمران خان اور مولانا فضل الرحمن بالکل مختلف انسان ہیں۔ اُن کی کوئی قدر مشتر ک نظر نہیں آتی، اُن کی سیاست کی بنیاد، وضع قطع، اُٹھنا بیٹھنا،اوڑھنا بچھونا سب کچھ مختلف ہیں۔ مگر بہت سی چیزیں دونوں کو قریب بھی لاتی ہیں۔
اگر اس زاویے سے دونوں سیاست دانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حیران کن حد تک ایک جیسے لگتے ہیں۔ مثلا مولانا فضل الرحمن مدارس کے اُس نیٹ ورک کو چلاتے ہیں جہاں سے طالبان پیدا ہوئے۔ وہ اِن طالبان کو اپناتے بھی ہیں اور اپنا مانتے بھی ہیں۔ اُن کے نزدیک طالبان پاکستان کی شان بھی ہیں اور جان بھی۔ وہ اُن کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے لیے بھی طالبان اپنے ہی ہیں۔ طالبان کا انداز اپنائے بغیر وہ ان کے ایجنڈے کے بہت سے نکات سے اتفاق بھی کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی طرح وہ بھی روایتی طریقہ کار اور خیبرپختو نخوا کی پشتون ثقافت کی اساس کے مداح ہیں۔ مولانا فضل الرحمن امریکا کو جہاد کے ذریعے شکست دینے والے نقطہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں امریکا شیطان اعظم ہے، اُس کو کنکر مارنا عین ثواب کا کا م ہے۔ عمران خان بھی اپنے بیان کے ذریعے اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ امریکا کو غاصب اور عملاً پاکستان کا دشمن سمجھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی طرح وہ افغانستان میں ہونے والی مزاحمت کو جائز اور وہاں پر موجود فوجوں کو قبضے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دونوں ڈرونز کے مخالف ہیں اور ہوائی حملوں کے ذریعے ملک میں ہونے والے نقصانات پر اُن کے افکار اتنے ملتے جلتے ہیں کہ بسا اوقات دیے گئے بیانات میں سے یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ عمران خان کا ہے یا مولانا فضل الرحمن کا۔ دونوں طالبان کے ساتھ بات چیت کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ کل جماعتی اعلامیے کے تحت اس بات چیت کو آگے بڑھا کر پاکستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
دونوں خود کش حملوں پر واضح، مضبوط اور مسلسل موقف دینے سے کتراتے ہیں اور اکا دکا بیان دینے کو کافی سمجھتے ہیں۔ دونوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں خلفشار اندرونی دہشت گرد نہیں بلکہ بیرونی سازشی ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ ہندوستان سے متعلق پالیسی بھی ایک ہی جیسی ہے۔ عمران خان ہندوستان کے ساتھ تعلقات اس حد تک بہتربنانا چاہتے ہیں کہ سرحدوں پر اکھٹے جوہر ی پاور پلانٹ بنانے کی تجویز اُن کو قابل عمل معلوم ہوتی ہے۔ مولانا صاحب کے لیے اپنے مدارس اور دیوبند میں موجود رشتہ ہندوستان اور پاکستان کے مثالی رشتے کی بنیاد ہے۔ دونوں کشمیر کے معاملے پر بات چیت اور لین دین کے قائل ہیں۔ دونوں کے منہ سے آ پ کبھی بھی ہندوستان کی طرف سے پاکستان کے خلاف مسلسل بین الا قوامی طور پر چلائی جانے والی مہم کے حوالے سے کوئی خاص ردعمل نہیں سنیں گے۔ اندرونی طور پر شہری علاقوں کو چھوڑ کر دونوں کا سیاسی حلقہ تقریبا ایک جیسا ہی ہے۔ دونوں ایک ہی قسم کے ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے بیانات تراشتے اور نقطہ فکر ڈھالتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ قدر جو عمران خان اور جے یو آئی کو قر یب لائی ہے وہ ان کے میڈیا نمایندگان ہیں۔ عمران خان نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو نمایندہ بنایا ہے جب کہ مولانا نے جان اچکزئی جمالی کو، ظاہر ہے ایک عورت ہے ایک مرد لیکن دونوں کی انگریزی باکمال ہے۔ وہ ہر معاملے پر بیان دے کر میڈیا کی اُس جنگ کا کلیدی حصہ بن گئے ہیں جس میں خاموشی ہزار گناہوں کے برابر سمجھی جاتی ہے اور پریس کانفرنس جاری کرنا ناگزیر جانا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دونوں اگر کسی جگہ اکھٹا ہو کر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے لگے تو بالکل ایسا محسوس ہو گا جیسا بی بی سی کا کوئی پروگرام چل رہا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں ظاہر ہے یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اتنی اقدار مشترک رکھنے کے باوجود ہر وقت آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ اگرچہ دونوں کے الزامات بھی ایک دوسر ے کے بارے میں ایک ہی جیسے ہیں۔ فضل الرحمن، عمران خان کو یہودی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ جب کہ عمران خان، فضل الرحمن کی سیاست کو بدترین بنیادوں پر چلانے کا طعنہ دیتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا خفیہ ہا تھ بتلاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا خیال ہے کہ عمران خان کی آمد فوج اور آئی ایس آئی کی مدد سے ہوئی ہے جب کہ عمران خان، فضل الرحمن کی طرف سے ہونے والے حملوں کو انھیں اداروں کی بالواسطہ وار قرار دیتے ہیں۔ عا م حالات میں یہ دونوں جماعتیں اکھٹی ہو سکتی تھیں۔ ملکر پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ کر سکتی تھیں۔ طالبان کو گلے لگا سکتی تھیں۔ امریکا سے جان چھڑا سکتی تھیں۔ مگر کیا کریں دونوں بڑے لیڈر ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گزارہ نہیں کر سکتے۔ دونوں کو اکیلا کھیلنے کی عادت ہے۔ اور وہ بھی وکٹ کے دونوں اطراف سے لہذا اِن کی لڑائی جاری رہے گی۔ اگرچہ فضل الرحمن کے لیے یہ لڑائی جیتنا مشکل معلوم ہو رہا ہے۔ عمران کی شہرت کا سورج عروج پر ہے۔ مو لانا صاحب کے سامنے اس وقت چیلنج یہ ہے کہ یہ سورج ان کے لیے سوا نیز ے پر نہ آ جائے۔ اور سیا سی قیامت بر پا نہ کر دے۔