رسمِ آزادی کیوں نہیں

کیفی اعظمی نے اپنی فکر سے جبر کے پنجوں کی گرفت کمزور کر دی ہے۔

Warza10@hotmail.com

سوچا تھا کہ کبھی تفصیل سے کیفی اعظمی،شمشاد بیگم اور شبانہ اعظمی سے بیتی گئی ملاقاتوں اور گفتگو کا حال لکھوں گا ، مگر خواتین کے امسال یوم پر مجھے کیفی اعظمی کی وہ گفتگو یاد آگئی جو انھوں نے کراچی قیام کے دوران نارتھ ناظم آباد میں مجھ سمیت ہمارے ہم رکاب و شاعر توقیر چغتائی اور ڈاکٹر ایس این ایم شہزاد کی موجودگی میں کی تھی اور اپنی معروف نظم''عورت'' لکھنے کی وجہ اپنی بیوی شمشاد بیگم کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ میرے کمیونسٹ فکر اور نظریئے کو سادھارن کرنے میں میری ہم سفر شمشاد بیگم کا مرکزی کردار ہے،جس میں شبانہ اعظمی کے ساتھ بابا اعظمی کو آزادی دینے میں وہ ہمیشہ آگے آگے رہیں اور شمشاد بیگم کے مضبوط ارادوں نے میرے سخن سے ''عورت'' ایسی نظم تخلیق کروائی۔

آج کیفی اعظمی کی اسی نظم ''عورت'' کے فکری تعداد میں اضافے نے جگہ جگہ عورت مارچ اور عورت کے حقوق کے لیے جو کام کیا ہے لگتا ہے کہ کیفی اعظمی نے اپنی فکر سے جبر کے پنجوں کی گرفت کمزور کر دی ہے،کیفی اعظمی کی نظم ''عورت'' آج عورت کے حقوق کا مضبوط مرکزی حوالہ ہے۔عورت کی ذہنی اور فکری آزادی انسانی آزادی کا سب سے اہم جز ہے جس کے مقابل لگتا ہے کہ جبرکی علامتی رِیت اور رسم کے چل چلائو نے استحصال کی سرمایہ دارانہ چالاکیوں میں دراڑیں ڈالنا شروع کردی ہیں۔

جدید ترقی یافتہ کہلائی جانے والی دنیا میں چاہے وہ شاہی خاندان کی میگھن مرکل ہو یا آسائشات اور دولت کے انبار میں پلنے والی نسل ، متوسط زندگی گذارنے یا ٹپکتی کٹھیا میں پلنے والے افراد ، سب کے سب ایک ایسی روایتوں میں جکڑے ہوئے ہیں ، جن کی ڈوریں کچی ہوتی نظر آرہی ہیں ، اب سب یہ بات جان چکے ہیں کہ رِیت رسموں کو سینے سے لگانے کا دور قریب المرگ ہے۔

اس سے قبل کہ روایتوں میں جکڑے رِیت و رسم اور جبر کی زنجیریں احساس و خیالات کی انگڑائی میں خس و خاشاک ہوجانے کی طرف گامزن ہوں ، بہتر ہے کہ رِیت و رسم کے حصار میں خود کو محفوظ سمجھنے والے جبرکے آلہ کار جلد اپنے رویوں میں بدلتی دنیا کے تقاضوں کو اپنا لیں وگرنہ پھر سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔ مجھے امریکا کی وہ خواتین اب تک یاد ہیں جو اپنی تنخواہوں یا اجرت مانگنے کے جرم میں 1908 میں گھوڑوں کی ٹاپوں تلے ریاستی حکم پرکچل دی گئی تھیں،سرمایہ دار امریکا کی خواتین حقوق کے خلاف سب سے پہلے کمیونسٹ خیالات کے زیر اثر امریکی سوشلسٹ پارٹی نے ہی آواز بلند کی اور 1909 میں خواتین حقوق کے دن کی بنیاد رکھی۔

یہ سوشلسٹوں کی خواتین آزادی کی وہ متحرک تحریک تھی جو کوپن ہیگن سے سفر کرتے ہوئے یورپ پہنچی اور یورپ کی خواتین نے باضابطہ طور سے 1913 میں 8 مارچ کو اسے عالمی تحریک بنایا،گویا جب بھی انسانی آزادی کی کوئی تحریک دنیا میں چلی، اس کی کونپلیں ہمیشہ کمیونسٹ فکر یا سوشلسٹ فکر کے بطن سے ہی پھوٹیں،آزادی حاصل کرنے کی خواتین کی یہ تحریک آج عالمی طور سے ایک تناور درخت بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک صدی سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود کیا دنیا کی خواتین اپنے انسانی حقوق پانے میں سرخرو ہوئیں یا دنیا کے مختلف سماج میں اب تک وہ کونسی رکاوٹیں ہیں جو انسان اور باالخصوص خواتین کے بنیادی حقوق کی حاصلات میں سینہ تانے کھڑی ہیں۔

سوالات کی گھمبیرتا میں جائے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین حقوق کی آزادی میں تنگ نظر مذہبی سوچ اور اس کو پروان چڑھانے والا سرمایہ دارانہ نظام کا وہ منافع ہے جو سرمایہ دار اپنی مزدور خواتین کو محنت کے مطابق اجرت دینے سے انکاری ہوتا ہے۔


جس کے ردعمل میں جب سوشلسٹ فکر کے تحت خواتین اپنے سماجی ، سیاسی اور معاشی حقوق حاصل کرنے کے واسطے جدوجہد اور تحریک کے عمل میں آتی ہیں تو چالاک سرمایہ دار خواتین کے حقوق روکنے کی خاطر مذہبی اوتاروں کے توسط سے سماج کی فرسودہ رسموں اور رِیتوں میں جکڑنے کے لیے گرجا ، مندر اور عبادت گاہوں کے نام پر سرمائے کی بوریاں کھول کر محنت کرنے والی خواتین کے معاشی استحصال کی راہ نکال کر انھیں چار دیواری میں مقید کرنے کی کوشش کرتا ہے اور گھر میں مقید خواتین کو مذہبی اوتار یا عقائد کے پردے پہنا کر ان خواتین کو حقوق حاصل کرنے کی تحریک سے بھی دورکرتا ہے اور رسم و رواج کے بندھن باندھ کر انھیں چار دیواری میں رہنے پر مجبورکرکے، مذہبی فرمانبرداری کا طوق ڈال کر ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں پر قبضہ کرکے گھر کی خواتین کو سماج کے لیے عضو معطل کر دیتا ہے اور خواتین حقوق میں سرگرم خواتین پر'' بے حیائی'' کی مکارانہ چال سے طعنہ تھوپ کر دراصل سماج کے مضبوط اور بڑے طبقے کو جدوجہد سے روکتا ہے۔

جس کا لازمی نتیجہ خواتین حقوق کی جنگ میں سماج کی بڑی تعداد کی عدم شرکت خواتین حقوق کی جنگ سے الک رہ کر سماج کے تشدد ، ہراسمنٹ ، اور ہوسناکی کا مسلسل شکار رہتی ہیں ، جب کہ دوسری جانب سرمایہ دار طبقہ خواتین حقوق کی راہ میں ان خواتین سماجی تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے جو خواتین کے حقوق پر بظاہر کام کرتی ہیں مگر دراصل خواتین حقوق کے نام پر بیشتر ان این جی اوز کا مقصد پسی ہوئی خواتین کی مدد سے زیادہ فنڈز کا حصول ہوتا ہے ، جس سے سرمایہ دار خواتین کا حق کھانے اور مذہبی اوتار سماج کی ''عورت'' کو رِیتوں رسموں میں جکڑکر عقائد کے مفادات کا دھندا چلاتا ہے اور یوں سماج کا یہ سب سے طاقتور حصہ سماجی و سیاسی جدوجہد سے محروم رکھا جاتا ہے۔

جس کا فائدہ آخری نتیجے میں سرمایہ دار ہی اٹھاتا ہے۔سرمایہ دار اور مذہبی اوتارکے گٹھ جوڑ اور سماج کو روشن سمت لے جانے کی کوشش کے لیے جب تک سوشلسٹ فکرکے علم اور اجزائے ترکیبی کو نہیں سمجھا جائے گا ، اس وقت تک آج اور مستقبل کی عورت فرسودہ رِیتوں رسموں میں جکڑی رہے گی اور سماج کے منفی رویوں سے چھٹکارا نا ممکن ہوگا۔

ہمارے سماج میں گھرکی چار دیواری سے نکل کر لڑکی کی تعلیم اور روزگار کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ اپنے طور پر اس کے محافظ سمجھنے والے ماں باپ ، بھائی بہنیں اور شوہر بنتے ہیں، یہ سماج کا مذہبی اور فرسودہ رسموں کا وہ پہلو یا خوف ہے جو ''خواتین'' کی صلاحیتوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کا خطرناک رجحان ہے ،جس پرکبھی اخلاقیات کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے تو کبھی اس خوف کو عقائد کی قبا پہنا کر خاتون کے تخلیقی جوہر اور اس کے شعوری معاشی استحکام کو روکا جاتا ہے۔

یہ رویہ دیہات سے زیادہ شہروں کی زندگی میں در آیا ہے جس کی ایک وجہ دیہات سے شہروں کی جانب منتقلی ذہنوں کی شعوری وسعت سے زیادہ معاشی اور مفاداتی ہے ، جو سماج کے رشتوں اور خاندان کے جڑائوکو دن بدن کمزورکر رہی ہے ، اسی کے ساتھ تقدس کی چادر میں ماں باپ کے رشتوں کو جکڑکر غیر شعوری احترام کی جانب بطور خاص لڑکیوں کو پابند بنایا جاتا ہے جو ایک مہلک بیماری کی صورت میں لڑکی کی ازدواجی زندگی پر منفی اثرات ڈالتا ہے،جب کہ والدین کا فرمانبرداری سے زیادہ مقدم رشتہ ان کے احترام کا ہونا چاہیے نا کہ اس خاتون کے احساسات اور آزادی کا گلہ گھونٹ کر اسے بیل مانند کھونٹے سے باندھ دیا جائے ، جب تک ماں باپ اولاد کے سہولت کار اور ان کی آیندہ کی زندگی میں ان کی مرضی و منشا کا احترام نہیں کریں گے۔

اس وقت تک ہمارے سماج کے اکثر گھر جاگیردارانہ اور قبائلی منصب پر ہی رہیں گے، لہٰذا عورت کی آزادی خود مختاری اور اس کی معاشی مضبوطی کا پہلا زینہ گھر کی فرسودہ سوچ کو پرے رکھنا یا ختم کرنا ضروری ہے، اگر گھر کے افراد عورت کے احترام کا سبب بنیں گے تو سماجی جڑت اور روشن سوچ کے آنگن میں شعوری سوتے پھوٹیں گے...وگرنہ... خواتین حقوق کا واحد ذریعہ جدوجہد ، بہادری اور فرسودہ رِیتوں رسموں سے نجات صرف سوشلسٹ فکر و نظریات ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ تبھی تو کیفی اعظمی کہہ گئے کہ

بن کے طوفان چھلکنا ہے ابلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
Load Next Story