موت کی حقیقت
خوف یا ڈر ایک فطری جذبہ ہے، جو قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود رہتا ہے۔
انسان کبھی موت کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا، وہ زندگی کی بے ثباتی کو فراموش کردیتا ہے۔ ایسا کرنا شاید اس کے لیے ضروری ہے کیونکہ اگر وہ موت کے دکھ یا اصلیت کی سوچ کو لے کر بیٹھ جائے تو شاید ہی زندگی کے کام پایہ تکمیل تک پہنچ پائیں۔
زندگی فانی ہے اور انسان ایک مخصوص وقت کے لیے دنیا میں آتا ہے۔ انسان کو اس کی موت کا وقت معلوم نہیں ہوتا ، اگر اسے کسی طرح علم ہوجائے کہ اس کا آخری وقت قریب ہے تو اس کی ذہنی کیفیت بدل جاتی ہے، وہ تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے شب و روز اورکام کی کارکردگی متاثر ہوجاتے ہیں۔
خوف یا ڈر ایک فطری جذبہ ہے، جو قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود رہتا ہے۔ رات کی تاریکی خوف ، ڈر اور پراسراریت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سیاہ رنگ بے یقینی ، اسرار ، بدی کی قوت ، منفی سوچ اور مایوسی کا استعارہ ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ موت کا رنگ ہے۔ لہٰذا کافی لوگ رات کو غمزدہ و بے چین ہوجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو سب سے بڑا خوف زندگی کے چھن جانے کا خوف ہے ، جسے Thanatophobia کہا جاتا ہے جس کے دوران مریض کو اپنی موت کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
جسے ڈیتھ اینگزائٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت کے دوران اس عارضے میں مبتلا اپنے قریبی رشتوں سے جدائی کا سوچ کر تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ جدائی، دکھ، جدائی کے نقصان کا سوچ کر بے حد پریشان رہنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے روزمرہ کام متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کا عارضہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، پینک ڈس آرڈر یا کسی اور نفسیاتی عارضے سے بھی جڑا ہوا ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ موت کا خوف Necrophobia کی صورت میں ظاہرہوتا ہے جو مردوں، قبرستان، مقبروں، کفن یا موت سے تعلق رکھنے والی اشیاء سے وابستہ ہوتا ہے۔ پچپن میں بچوں کو ڈرانا بھی آگے چل کر نفسیاتی عارضے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بعض والدین بچوں سے موت کی حقیقت چھپاتے ہیں۔ بچے نانی ، نانا، دادی و دادا وغیرہ کے بہت قریب ہوتے ہیں۔
اکثر بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ حج وغیرہ پرگئے ہیں،جب انھیں اس تلخ حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ وہ ابدی نیند سوچکے ہیں اور اب کبھی نہیں لوٹیں گے تو ان کے ذہن میں موت کے لیے ناپسندیدگی اور غیرقبولیت کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جو بچوں کی ذہنی حالت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موت کے قریب ہونا یا اپنے والدین کو اس کیفیت میں دیکھنا تکلیف دے احساس ہے۔ موت کا خوف نوجوانوں کو زیادہ لاحق ہوتا ہے۔ زیادہ تر وہ لوگ جو کسی حادثے میں کسی کی موت کے منظر کو قریب سے دیکھتے ہیں۔کسی سانحے وحادثے کا براہ راست مشاہدہ ، موت کے خوف میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، جس کی علامات کچھ اس طرح سے محسوس ہوتی ہیں۔
شدید تشویشی دورے، دل کی رفتار کی بی ترتیبی
پیٹ کا درد ، چکر آنا ، متلی کی کیفیت ، زیادہ پسینہ آنا، گرمی وسردی کی شدت کو محسوس کرنا وغیرہ۔ اس نوعیت کی علامات کے حامل نوجوان ، تعلیمی وسماجی سرگرمیوں حصہ لینے سے گھبراتے ہیں۔ ان میں مستقل مزاجی ، یکسوئی اور فیصلے کی قوت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ناپختہ شخصیت فرار کے راستے تلاش کرتی ہے اور منفی عادات اپنا لیتی ہے۔ مزاج کی تبدیلی کو ہمیشہ اہمیت دینی چاہیے۔ قریبی رشتے کی موت کی صورت، اگر بار بار دہرانے سے وہ سانحہ اور اس سے وابستہ دکھ لاشعور میں پختہ ہوگئے تو ذہنی صحت کے لیے مستقل خطرہ بن جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں خاموشی کئی خطرات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بات چیت کرنا یا دل کی بات کہنا ایسی حالت میں اشد ضروری ہے، اگر گھر میں حساس، خاموش اور لاتعلق نوجوان و بڑی عمر کے افراد موجود ہوں تو انھیں اس کیفیت سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خاندانی جھگڑے اورکدورتیں ذہنی صحت کی زوال پذیری کی بڑی وجوہات ہیں۔ ویسے تو نفسیاتی علاج کی طرف توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے بہرکیف آپ اپنے یا خاندان کے معالج خود بن سکتے ہیں۔
اس کے لیے خود تلقینی، حوصلے و مثبت سوچ کو اپنانا ہوگا۔ ذہن میں مثبت مکالما ترتیب دینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ بار بار ایک ہی سوچ کی گردان کا راستہ روکنا ہوگا جس کا واحد حل تعمیری و تخلیقی مشغلے اپنانا ہے۔ کسی قریبی عزیز کی بیماری کے وقت، گھر کے تمام افراد ذہنی الجھن و یکسانیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ عزیز / عزیزہ کچھ عرصے کے مہمان ہیں تو بے نام اداسی، یاسیت، خوف اور آنے والے لمحوں کا عذاب چین لینے نہیں دیتا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خود کو اور دیگر رشتوں کو آنیوالے کٹھن وقت کے لیے ذہنی طور پر تیارکرنا ہوتا ہے۔
موت کے سانحے کے بعد اگرکوئی روکر یا چیخ کر اپنی اندرکی بھڑاس نکالنا چاہتا ہے تو اسے یہ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ خاموش ہو جائیں مرحوم کی روح کو تکلیف ہو رہی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ کافی بچے اور نوجوان دنیا کے خوف سے دل کی بھڑاس پر صبرکا پہرہ بٹھا لیتے ہیں، اگر کہیں تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے تو میسر نہیں ہوتی، اگر لفظوں کا سہارا چاہیے تو وہ نہیں ملتا۔
سماجی زندگی میں لوگ زخموں پر نمک پاشی کا ہنر تو سیکھ چکے ہیں مگر انھیں دکھ بانٹنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اس تلخ یاد کو ذہن کے کونے میں پھینک کر خوش رہنے کی کوشش یا دکھاوا ذہنی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں، انھیں سمجھنا اور حقیقت کے آئینے میں مسائل کو دیکھنا اور برے وقت کو کھلے دل و ذہن کے ساتھ راستہ دینا، اس صدمے کو ذہن سے فراموش کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
قریبی عزیز کی موت ایک تبدیلی ہے، جو انسان کو یکسر بدل کے رکھ دیتی ہے۔ سہارے چھوٹ جائیں تو اندرکا انسان مضبوط ہوجاتا ہے۔
زندگی فانی ہے اور انسان ایک مخصوص وقت کے لیے دنیا میں آتا ہے۔ انسان کو اس کی موت کا وقت معلوم نہیں ہوتا ، اگر اسے کسی طرح علم ہوجائے کہ اس کا آخری وقت قریب ہے تو اس کی ذہنی کیفیت بدل جاتی ہے، وہ تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے شب و روز اورکام کی کارکردگی متاثر ہوجاتے ہیں۔
خوف یا ڈر ایک فطری جذبہ ہے، جو قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود رہتا ہے۔ رات کی تاریکی خوف ، ڈر اور پراسراریت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سیاہ رنگ بے یقینی ، اسرار ، بدی کی قوت ، منفی سوچ اور مایوسی کا استعارہ ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ موت کا رنگ ہے۔ لہٰذا کافی لوگ رات کو غمزدہ و بے چین ہوجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو سب سے بڑا خوف زندگی کے چھن جانے کا خوف ہے ، جسے Thanatophobia کہا جاتا ہے جس کے دوران مریض کو اپنی موت کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
جسے ڈیتھ اینگزائٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت کے دوران اس عارضے میں مبتلا اپنے قریبی رشتوں سے جدائی کا سوچ کر تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ جدائی، دکھ، جدائی کے نقصان کا سوچ کر بے حد پریشان رہنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے روزمرہ کام متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کا عارضہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، پینک ڈس آرڈر یا کسی اور نفسیاتی عارضے سے بھی جڑا ہوا ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ موت کا خوف Necrophobia کی صورت میں ظاہرہوتا ہے جو مردوں، قبرستان، مقبروں، کفن یا موت سے تعلق رکھنے والی اشیاء سے وابستہ ہوتا ہے۔ پچپن میں بچوں کو ڈرانا بھی آگے چل کر نفسیاتی عارضے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بعض والدین بچوں سے موت کی حقیقت چھپاتے ہیں۔ بچے نانی ، نانا، دادی و دادا وغیرہ کے بہت قریب ہوتے ہیں۔
اکثر بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ حج وغیرہ پرگئے ہیں،جب انھیں اس تلخ حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ وہ ابدی نیند سوچکے ہیں اور اب کبھی نہیں لوٹیں گے تو ان کے ذہن میں موت کے لیے ناپسندیدگی اور غیرقبولیت کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جو بچوں کی ذہنی حالت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موت کے قریب ہونا یا اپنے والدین کو اس کیفیت میں دیکھنا تکلیف دے احساس ہے۔ موت کا خوف نوجوانوں کو زیادہ لاحق ہوتا ہے۔ زیادہ تر وہ لوگ جو کسی حادثے میں کسی کی موت کے منظر کو قریب سے دیکھتے ہیں۔کسی سانحے وحادثے کا براہ راست مشاہدہ ، موت کے خوف میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، جس کی علامات کچھ اس طرح سے محسوس ہوتی ہیں۔
شدید تشویشی دورے، دل کی رفتار کی بی ترتیبی
پیٹ کا درد ، چکر آنا ، متلی کی کیفیت ، زیادہ پسینہ آنا، گرمی وسردی کی شدت کو محسوس کرنا وغیرہ۔ اس نوعیت کی علامات کے حامل نوجوان ، تعلیمی وسماجی سرگرمیوں حصہ لینے سے گھبراتے ہیں۔ ان میں مستقل مزاجی ، یکسوئی اور فیصلے کی قوت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ناپختہ شخصیت فرار کے راستے تلاش کرتی ہے اور منفی عادات اپنا لیتی ہے۔ مزاج کی تبدیلی کو ہمیشہ اہمیت دینی چاہیے۔ قریبی رشتے کی موت کی صورت، اگر بار بار دہرانے سے وہ سانحہ اور اس سے وابستہ دکھ لاشعور میں پختہ ہوگئے تو ذہنی صحت کے لیے مستقل خطرہ بن جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں خاموشی کئی خطرات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بات چیت کرنا یا دل کی بات کہنا ایسی حالت میں اشد ضروری ہے، اگر گھر میں حساس، خاموش اور لاتعلق نوجوان و بڑی عمر کے افراد موجود ہوں تو انھیں اس کیفیت سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خاندانی جھگڑے اورکدورتیں ذہنی صحت کی زوال پذیری کی بڑی وجوہات ہیں۔ ویسے تو نفسیاتی علاج کی طرف توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے بہرکیف آپ اپنے یا خاندان کے معالج خود بن سکتے ہیں۔
اس کے لیے خود تلقینی، حوصلے و مثبت سوچ کو اپنانا ہوگا۔ ذہن میں مثبت مکالما ترتیب دینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ بار بار ایک ہی سوچ کی گردان کا راستہ روکنا ہوگا جس کا واحد حل تعمیری و تخلیقی مشغلے اپنانا ہے۔ کسی قریبی عزیز کی بیماری کے وقت، گھر کے تمام افراد ذہنی الجھن و یکسانیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ عزیز / عزیزہ کچھ عرصے کے مہمان ہیں تو بے نام اداسی، یاسیت، خوف اور آنے والے لمحوں کا عذاب چین لینے نہیں دیتا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خود کو اور دیگر رشتوں کو آنیوالے کٹھن وقت کے لیے ذہنی طور پر تیارکرنا ہوتا ہے۔
موت کے سانحے کے بعد اگرکوئی روکر یا چیخ کر اپنی اندرکی بھڑاس نکالنا چاہتا ہے تو اسے یہ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ خاموش ہو جائیں مرحوم کی روح کو تکلیف ہو رہی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ کافی بچے اور نوجوان دنیا کے خوف سے دل کی بھڑاس پر صبرکا پہرہ بٹھا لیتے ہیں، اگر کہیں تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے تو میسر نہیں ہوتی، اگر لفظوں کا سہارا چاہیے تو وہ نہیں ملتا۔
سماجی زندگی میں لوگ زخموں پر نمک پاشی کا ہنر تو سیکھ چکے ہیں مگر انھیں دکھ بانٹنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اس تلخ یاد کو ذہن کے کونے میں پھینک کر خوش رہنے کی کوشش یا دکھاوا ذہنی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں، انھیں سمجھنا اور حقیقت کے آئینے میں مسائل کو دیکھنا اور برے وقت کو کھلے دل و ذہن کے ساتھ راستہ دینا، اس صدمے کو ذہن سے فراموش کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
قریبی عزیز کی موت ایک تبدیلی ہے، جو انسان کو یکسر بدل کے رکھ دیتی ہے۔ سہارے چھوٹ جائیں تو اندرکا انسان مضبوط ہوجاتا ہے۔