کورونا کی تیسری لہر اور معاشی چیلنجز

اس وقت ملک میں کورونا وائرس ایک مرتبہ پھر شدت اختیارکرتا جارہا ہے۔

اس وقت ملک میں کورونا وائرس ایک مرتبہ پھر شدت اختیارکرتا جارہا ہے۔ فوٹو:فائل

ملک بھرمیں کوروناکے وار جاری ہیں ، ایک دن میں 43 افراد جاں بحق ،جب کہ2011 نئے کیسزسامنے آنے سے متاثرین کی تعداد پانچ لاکھ 97 ہزارسے زائد ہوگئی ہے ،این سی اوسی کے مطابق کل 13 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں،وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر سامنے آرہی ہے،جس کی وجہ برطانوی وائرس نکلا ہے۔

لاہور، جہلم، اوکاڑہ، گجرات میں 70فیصد کیسز اسی سے متعلق ہیںجب کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے شہریوں کو کورونا ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے۔ابھی قوم کورونا وائرس کی دوسری لہر سے نبرد آزما تھی کہ طبی ماہرین تیسری لہر کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں۔

اس وقت ملک میں کورونا وائرس ایک مرتبہ پھر شدت اختیارکرتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خودساختہ طور پر تصور کرلیا ہے کہ کورونا وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہم نے بے احتیاطی اور لاپرواہی کی تمام حدیں عبورکرلی ہیں ۔ بیرون ممالک سے آنیوالے پاکستانی بھی خود کو قرنطینہ نہیں کررہے اور کورونا وائرس کی نئی اقسام کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں ۔ یہ صورتحال الارمنگ ہے ، کیونکہ صرف لاہور میں 8 جب کہ گوجرانوالہ 9فیصد کورونا کیسز کی مثبت آنے کی شرح ہے۔

حکومت نے ملکی معیشت کو سہارا دینے اور عام آدمی کی مشکلات کو کم کرنے کی غرض سے پابندیاں اٹھائی تھیں ، لیکن ہم نے جس طرح ایس او پیز کو اپنے پاؤں تلے روندا ہے، اس کا خمیازہ اب بھگتنے جارہے ہیں ۔تمام پبلک مقامات پر عوام کا ہجوم ہے ، سماجی فاصلہ رکھنے اور ماسک پہننے کی لازمی احتیاط کرنا ہم نے چھوڑ دی ہے، ایک غیرسنجیدہ طرزعمل پوری قوم نے اختیارکرلیا ہے ، ایک ایسی وباء جو دنیا میں اب تک لاکھوں انسانوں کی جان لے چکی ہے ، کیا وہ ہماری جان بخشی کردے گی ایسا ہرگز نہیں ہے۔

ہم احتیاط کا دامن چھوڑ کر موت کی وادی میں جارہے ہیں،اتنی زیادہ غفلت اور لاپرواہی کا چلن ہمیں لے ڈوبے گا۔دوسری جانب سیاسی عدم استحکام اور کورونا کیسز ڈھائی ماہ کی بلند سطح پر پہنچنے ، پاکستان کو ملنے والے برآمدی آرڈرز کے دیگر ممالک کو منتقل ہونے کے خدشات کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں گزشتہ روز بھی اتار چڑھاؤ کے بعد رواں سال کی سب سے بڑی مندی رونما ہوئی ہے جس سے انڈیکس کی 43000 پوائنٹس کی نفسیاتی حد بھی گر گئی ، مندی کے سبب 86 فی صد حصص کی قیمتیں گر گئیں جب کہ سرمایہ کاروں کے مزید ایک کھرب، چوراسی ارب،اکتالیس کروڑ دس لاکھ 97ہزار روپے ڈوب گئے ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت کو اب تک 5 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کا تمام تر انحصار آئی ایم ایف اور بیرونی امداد پر ہے۔ ہمارے جو بھی ماہرین اقتصادیات آتے ہیں، وہ بیرون ملک سے آتے ہیں،وہ پاکستان کے وسائل کو پاکستان کے لیے استعمال کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کا عالمی منڈی کے ساتھ کوئی مستحکم رشتہ نہیں۔ پاکستان کی پیداواری صلاحیت کو کمزور کیا جارہا ہے۔ کورونا سے معیشت کی شرح نمو منفی 00.04 ہوگئی ہے۔ کورونا وائرس کے عالمی اثرات کے باعث محصولات میں خاصی کمی واقع ہوئی اس وبا سے پاکستان میں صنعت اور خدمات کے شعبے کے علاوہ سب سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

ایک جانب تو ملک بھر میں تمام معاشی ،اقتصادی وتجارتی سرگرمیاںزور وشور سے جارہی ہیں تو دوسری جانب تعلیمی اداروں کی بار بار اور مسلسل بندش کے باعث پورے ملک کا تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔ موجودہ حکومت نے ملک کے تعلیمی ادارے بند کیے اور یہ کہا کہ آن لائن تعلیم دی جائے گی۔ یہ جانے بغیر کہ ہر گھر میں چار سے چھ بچے تو ہوتے ہیں، لیکن ہر ایک کے پاس اپنا کمپیوٹر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر گھر میں انٹر نیٹ کی سہولت ہوتی ہے۔ لہٰذا طلبہ کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہی ہے۔

دوسری جانب حکومت نے کمپیوٹرز اور اس سے متعلقہ آلات اور موبائل فون پر اس قدر ٹیکس لگا دیا کہ وہ عام آدمی تو کیا متوسط طبقے کے فرد کی پہنچ سے بھی دور ہوگئے۔حالیہ دنوں میں مثبت کیسز سامنے سے تعلیمی اداروں کو بتدریج بند کیا جارہا ہے ، یہ ایک خطرناک عمل ہے جس کا خمیازہ آنے والی ہماری نسلیں بھگتیں گی ۔


کورونا وائرس کے بحران کے دوران دنیا بھر کی طرح پاکستان کی معیشت بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ کورونا وائرس کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال کے سبب پاکستان کی مالی حیثیت پربھی یہ دباؤ بڑھا ہے۔وائرس سے قبل پاکستان کی طرف سے اقتصادی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 3 فیصد تک اضافے کا امکان تھا، تاہم وباء کی وجہ سے یہ اب منفی 0.4 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی میدان کی اس اگلی جنگ کے لیے پاکستان کی حکومت اور شعبہ ہائے زندگی کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔

کورونا وائرس کے معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہونے سے شرح نمو گراؤٹ کا شکارہوگئی ہے ، اگر شرح نمو مسلسل گرنا شروع ہوجائے تو لوگ لمبے عرصے تک بے روزگار رہتے ہیں۔صرف مارچ میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ 25 فی صد تک گری ہے اور روپے کی قدر میں چھ فی صد کمی واقع ہونے سے ملک کی معیشت پر دباؤ پڑا ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں انٹر پول نے خبردار کیا تھا کہ عالمی سطح پر جرائم پیشہ افراد آن لائن جعلی کورونا ویکسین فروخت کرسکتے ہیں۔ اسی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیرنے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ جعلی کوویڈ 19 ویکسین اور دیگر جعلی طبی مصنوعات بنانے اور تقسیم کرنے والے مجرموں کے سدباب کو یقینی بنائے۔نیویارک میں 14 ویں کرائم کانگریس کے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں پاکستانی سفیر نے خبردار کیا کہ کوویڈ 19 نے متعدد خطرات کو بے نقاب کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے وقت میں جعلی ویکسین تیار کرنے والوں کو معمولی سی بھی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے۔

جب کہ ایک سائنسی تحقیقی جریدے میں شایع ہونے والے مقالے میںصحت عامہ کے ایک امریکی ماہر گیون یامی نے خبردار کیا ہے کہ اگر کورونا ویکسین کی عالمی تقسیم میں ناانصافی اور تعصب کا یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ وبا اگلے سات سال تک دنیا پر مسلط رہے گی۔ یہ انتباہ عوامی صحت اور وبائی ماہرین نے دیا ہے۔ مارچ 2021تک دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی 28 کروڑ 36 لاکھ خوراکیں دی جاچکی تھیں، تاہم اسی صورتِ حال کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 75 فیصد خوراکیں صرف 10 امیر ممالک میں دی گئی ہیں، جب کہ کئی غریب ممالک ابھی تک کورونا ویکسین سے مکمل طور پر محروم ہیں، جن کی مجموعی آبادی 2.5 ارب (ڈھائی ارب) کے لگ بھگ ہے۔

گزرے برس کورونا وائرس سے برپا ہونے والی آفت کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ اس سے نہ صرف انسانی زندگی کو شدید خطرہ لاحق رہا بلکہ کورونا وبا کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل ہوا اور دنیا بھر کی معیشت متاثر ہوئی۔ فی الوقت وائرس کی ویکسین لوگوں تک پہنچانے اور اس وبا کی قہر سامانی سے نکلنے کی جد و جہد ہورہی ہے۔ اندازہ ہے کہ عالمی معیشت پر کورونا کے اثرات کا تخمینہ لگانے اور معاشی ترقی کی رفتار کو وبا کے آغاز سے پہلے کی سطح پر لانے کے لیے پانچ سے دس سال کا عرصہ لگ جائے گا۔

کورونا وائرس اور جانے والے سال کے حوالے سے ترقی یافتہ یا مضبوط نظام کے تحت چلنے والے ممالک تو وبا پر قابو پانے کے بعد کسی طرح اس دباؤ سے نکلنے کے لیے منصوبہ بندی کر ہی لیں گے البتہ پاکستان جیسے ملک میں یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں پارلیمنٹ یا اجتماعی دانش کا غیر فعال ہونا سر فہرست ہے۔ حکمرانی کے نظام میں قوت فیصلہ کی شدید کمی بھی بڑی مشکل کا سبب ہے۔

2020 کے دوران پاکستان کو مالی وسائل دوست ملکوں کے تعاون اور کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران میں جی۔20 ممالک کی سہولتوں کی وجہ سے حاصل ہوئے تھے۔ کورونا ویکسین دستیاب ہونے کے بعد 2021 کے دوران جوں جوں دنیا میں حالات معمول پر واپس آئیں گے، ترقی یافتہ ممالک یا عالمی مالیاتی ادارے غریب ملکوں کو دی گئی ہنگامی مراعات بھی کم کرنا شروع کردیں گے۔اس صورت میں قرضوں پر انحصار کی عادی پاکستانی حکومت عالمی منڈیوں میں کمرشل بنیادوں پر مہنگے سود پر قرض لینے پر مجبور ہوگی۔

اس طرح پاکستانی عوام پر محصولات کا بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ کیونکہ ملک میں ٹیکس نیٹ بڑھانے، لوگوں کو انکم ٹیکس دینے پر آمادہ کرنے، نظام میں دیرپا اور مؤثر اصلاحات کا کوئی طریقہ کامیاب نہیں ہوا ہے۔ حکومت ابھی تک اپنی آمدنی کے لیے بالواسطہ ٹیکس عائد کرنے پر مجبور ہے جو براہ راست غریب عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ سے ملکی معیشت بھی مسلسل عدم توازن کا شکار رہتی ہے جس کی وجہ سے قرض ریٹنگ میں اس کی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے ابھی تک پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج نہیں کیا، اگر نئے سال میں یہ اہم فیصلہ نہ ہوسکا تو اس سے ایک تو عالمی منڈیوں میں پاکستان کے تجارتی مفادات کو نقصان پہنچتا رہے گا لیکن پاکستا ن کے لیے آسان شرائط پر قرضے حاصل کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔لہٰذا حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکے۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }