اردو کی بہن بنگلہ
اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے کلکتہ (مغربی بنگال) میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
زباں فہمی نمبر 88
(دوسرا اور آخری حصہ)
بنگال کے سلطان حسین شاہ کی تعریف میں کہا گیا یہ شعر بڑی حد تک آج بھی قابل فہم ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اُس کے عہد میں اردو بہ سُرعت تمام ترقی کررہی تھی۔ سلطان حسین شاہ کا ذکرِخیر اُس کے ایک اور معاصرحضرت شاہ بہاؤالدین باجن (رحمۃاللہ علیہ)، مصنف 'خزانہ رحمت]گوجری کتاب[،' (پ: ۷۹۰ھ،متوفیٰ۹۱۲ھ/۱۵۰۶ء) نے بالکل سیدھی سادی اردو میں کیا ہے:
باجنؔ جو کسی کے عیب ڈھانکے
اُس سے ارجن تھر تھر کانپے
{ بہاؤ الدین باجن عر ف شاہ باجن (رحمۃاللہ علیہ) کی زندگی پر ایک کتاب ''حضرت شاہ باجن۔ ایک مطالعہ'' اخترپرویز صاحب نے بُرہان پور (ہندوستان) سے لکھ کر2005ء میں شایع کی ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اسی کتاب میں ماقبل لکھی گئی تحقیقی کتاب 'شاہ بہاؤالدین باجن۔ حیات اور گُجری (گوجری) کلام']از ڈاکٹرشیخ فریدبرہان پوری : ۱۹۹۲ء [کا بھی ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربی وفارسی کے عالم اور اردو کے قدیم ترین رُوپ گوجری کے شاعر تھے اور اُن سمیت اُس دور کے شعراء کے یہاں (ہندی، فارسی، گوجری اور دیگر زبانوں کے ملاپ سے) ریختہ گوئی عام تھی۔
شاہ باجن کی کتاب 'خزانہ رحمت' کے پانچ قلمی نسخوں میں ایک، جامعہ کراچی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ حضرت باجن کے شاگرد ومُرید، محدث اعظم شیخ علی متّقی (۸۸۵ھ تا ۹۷۵ھ) نے 'کنزالعُمّال' نامی مشہور کتاب تالیف کی تھی۔ اختر پرویز صاحب نے شاہ باجن کی لکھی ہوئی مناجات کے یہ اشعار نقل کرکے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کس قدر عام فہم اردو، اس قدیم عہد میں بھی موجود تھی:
تیرے پنتھ کوئی چل نہ سکے/جو چلے سو چل چل تھکے/پڑھ پنڈِت دھوتیاں/سب جان سُدھ بُدھ کھویاں (کھوئیاں)/سب جوگی جوگ بسارے۔ اختر پرویز صاحب کی کتاب میں اردو کے قدیم ترین ریختہ گو شاعر کا نام شیخ سعدی دکنی برہان پوری دیا گیا ہے جن کا مشہور ترین شعر ہے: سعدی ؔ غزل انگیختہ، شِیروشکر آمیختہ/دَرریختہ، دُر ریختہ ، ہم شعر ہے، ہم گیت ہے۔ حالانکہ اُن سے قبل امیر خسرو ہو گزرے ہیں}۔ باجن (رحمۃاللہ علیہ) کا شعر نقل کرنے کے بعد، ڈاکٹر وفاراشدی صاحب نے بہت روانی سے ایک عہد کا خلاصہ کیا:''اسی قسم کی اردو، دسویں صدی کے شعراء مثلاً شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور بہاؤالدین برمادی کے کلام میں بھی عام ہے۔ شیخ جیون، محبوب عالم، مولانا عبدی، گیارھویں صدی کے مشہور شعراء گزرے ہیں۔
اس زمانے میں ناصرف پنجاب اور دہلی میں، بلکہ بنگال، اَوَدھ، بِہار اور ہر شمالی ومشرقی صوبے میں، عام طور سے اوسط درجے کی صاف اور شُستہ اردو بولی جاتی تھی اور نظم ہوتی تھی۔ ( 'بنگال میں اردو' بحوالہ 'نظم اردو از ناطقؔ لکھنوی)۔ {آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کردوں کہ 'بنگال میں اردو' کے محقق مزاج مصنف ڈاکٹر وفاراشدی (اصل نام عبدالستارخان) مرحوم کی مادری نہیں بلکہ آبائی زبان، کلکتہ سے تعلق کی بناء پر، بنگلہ تھی اور انھوں نے اس کا حق ادا کردیا}۔ یہاں روانی میں ناطقؔ سے سہو ہوا جو ڈاکٹروفاراشدی نے بھی دہرایا۔
شیخ جیون یا جیوں ہی کا اصل نام محبوب عالم تھا۔ وہ جھجر (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ سیدمیراں بھیک چشتی صابری (رحمۃاللہ علیہ) کے مرید اور خلیفہ تھے اور اُن کے کلام میں عربی وفارسی الفاظ مقامی لہجے کے مطابق تلفظ میں شامل ہیں۔ انھوں نے نعتیہ شاعری میں منفرد مقام پایا اور حضورنبی کریم (ﷺ) کے وصال کے موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت فاطمۃالزہراء اور حضرت عمرفاروق (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے منظوم اظہارِخیال، مرثیے کو اپنے کلام کی شکل دی۔ مؤخرالذکر کے نعتیہ مرثیے بہ الفاظ شیخ جیون کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
عجب محبوب ِ عالَم تھا، نہایت خوب بالَم تھا+مِرا نِت پرت پالم تھا، رہا ہے بیٹھ کس ٹھاؤں (ٹھکانہ)۔]'عقیدت کا سفر' از حمایت علی شاعر، دنیائے ادب، کراچی : ۱۹۹۹ء[۔
سلطان علاؤالدین حسین شاہ (متوفیٰ ۱۵۱۹ء) نے بنگال میں عظیم ''حسین شاہی'' سلطنت کی بنیاد رکھی اور اپنے عہداقتدار ( 1493-1519) میں اسلام کے احیاء وفروغ کے لیے خدمات انجام دیں۔ اس کے ابتدائی حالات مشہور نہیں۔ اس نے حبشی نژاد سلطان شمس الدین مظفرشاہ ( 1491-93)کے دربار میں ملازمت حاصل کی اور ترقی کرتے کرتے وزیراعظم کے منصب تک جاپہنچا اور پھر شاہ کے خلاف کامیاب بغاوت کے نتیجے میں خود بادشاہ بن بیٹھا۔ [Encyclopaedia Britannica:https://www.britannica.com/
biography/Husayn-Shah-Ala-al-Din]
سلطان علاؤالدین حسین شاہ اور اُس کے فرزند سلطان ناصرالدین نصرت شاہ کا عہد سلطنت بنگال کا زرّیں عہد کہلاتا ہے۔ اُس کے دور میں بنگالی ہندوؤں نے شاہی مناصب تک رسائی میں کامیابی حاصل کی، حتیٰ کہ اُس کا وزیراعظم، محافظ ِ اعظم (باڈی گارڈز کا سربراہ)، دبیرِخاص (پرائیویٹ سیکریٹری)، طبیب ِ خاص، وزیر مال اور حاکم چٹاگانگ بنگالی ہندو ہی تھے۔ سلطان حسین شاہ نے اپنی سلطنت کو وسیع کرتے ہوئے شمال میں کچھ، بِہار (کماٹا) اور مغربی آسام (کام رُوپ) پر قبضہ کیا تو جنوب مغرب میں اُڑیسہ (اب اوڈیشا) اور مشرق میں تِری پورہ پر بھی اپنے جھنڈے گاڑدیے۔
[https://publishing.cdlib.org/ucpressebooks/view?docId=
ft067n99v9&chunk.id=s1.2.6&toc.id=ch02&brand=ucpress]
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (رحمۃاللہ علیہ) ]پیدائش ۷۰۷ھ بمقام سِمنان، خراسان، وفات ۸۲۸ھ بمقام بنگال مطابق بیان ڈاکٹر وفا راشدی۔ راشدی صاحب نے سن وفات ۷۹۸ھ درج کیا ہے[ کے کلام میں بنگلہ نما اردو کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
''چھپری (بکری) کے مُنھ کھنڈا سمائے (کھنڈ یعنی چاول کا چُورا)''۔ مخدوم سمنانی کی تصنیف 'رسالہ اخلاق وتصوف ' (۷۵۸ھ مطابق ۱۳۰۸ء ) کو ڈاکٹرابواللیث صدیقی اور پروفیسر حامدحسن قادری جیسے محققین نے اردو کی سب سے قدیم کتاب قرار دیا ہے۔ خاکسار کا مؤقف ہے کہ اردو کی تشکیل میں ویدک بولیوں، سنسکِرِت، قدیم ہندی، مراٹھی ودیگر دراوڑزبانوں، ہندکو، سرائیکی، گوجری، گجراتی اور پنجابی کے علاوہ بنگلہ یا بنگالی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بنگلہ کی تاریخ کا خلاصہ یوں ہے کہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اور ہندوستان کی دوسری بڑی زبان، بنگلہ کم وبیش ڈیڑھ ہزار سال پرانی ہے۔ سلطنت ِمگدھ میں بنگال کی شمولیت کے دور میں، مشرقی مگدھی پراکِرِت نے رواج پایا تو ترقی کرتے کرتے یہی بنگلہ بن گئی۔
انیسویں صدی میں جدید بنگلہ ادب کی تخلیق کا عمل شروع ہوا جو بہت تیزی سے مقبول بھی ہوگیا۔ یہاں ایک نہایت دل چسپ انکشاف ملاحظہ فرمائیے۔ ماہرلسانیات شبیرعلی کاظمی کی تحقیق کی رُو سے لفظ بنگالی، برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی آمد سے قبل موجود ہی نہ تھا، جو پنڈت ہرا پرشادشاستری جی کی تصنیف ''بودھ گان و دوہا '' (اصل نام ''چریا، اچریا، بنت چھایا''، ناشربنگیہ پریشد، کلکتہ :۱۹۱۷ء) میں شامل بُدھ مت کے سادھوؤں کے ''پدوں'' (حمدیہ نظموں) میں موجود ہے۔
یہ پد 650ء تا 1000ء کے درمیان تصنیف کیے گئے۔ (''پراچین اردو۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے قبل اردو کے آثار'' از شبیر علی کاظمی، مکتبہ اسلوب، کراچی: ۱۹۸۲ء)۔ اُنھوں نے پنڈت شاستری جی کی تصنیف ''بودھ گان و دوہا'' کے سینتالیس ''پدوں'' (حمدیہ نظموں) کا بالتحقیق جائزہ وترجمہ کیا (جو بنگلہ رسم الخط میں اردو کتاب سے ساٹھ برس قبل شایع ہوئی تھی)۔ ہرچند کہ یہ قدیم بنگلہ کی ایک شکل ہے، مگر اس حقیقت کا اظہار کم کیا گیا، جبکہ اس میں اردو کے قدیم آثار کا تجزیہ کرتے ہوئے کاظمی صاحب کہتے ہیں کہ ''ان پدوں کی دریافت سے اردو کا کھوج، ساتویں آٹھویں صدی عیسوی تک مل جاتا ہے جو دستاویزی بھی ہے اور مستند بھی''۔ اردو میں منتقل کرنے سے قبل، کاظمی صاحب نے اس کتاب کے بنگلہ، انگریزی اور تبتی تراجم کا مطالعہ کیا اور اس کارنامے کی انجام دہی میں ڈاکٹر شہیداللہ، ڈاکٹر انعام الحق، ڈاکٹر غلام مقصود ہلالؔ اور ڈاکٹربگچی کے کام سے بھرپور اکتساب کیا۔
اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آیا ان دو زبانوں کا باہمی تعلق، تقریباً پیدائشی بنیاد پر ثابت نہیں ہوتا؟ اسی اردو کتاب میں شبیر علی کاظمی صاحب نے قدیم اردو شاعر، شاہ میراں عشاق کا نمونہ کلام نقل کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اس میں ماگدھی/مگدھی بنگالی کے آثار ہیں: اس بھول جے کوئی تھاکے+تو دوزخ مان راکھے۔ اسی طرح حضرت برہان الدین جانم کا یہ شعر بھی اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے: کیوں نہ لیوے اس بھی کوئی+سہانا چطورجے کوئی ہوئے۔
ڈاکٹر وفا راشدی کی کتاب 'بنگال میں اردو' (1955)میں اردو اور بنگلہ کے مشترک الفاظ کی تعداد پچھہتر فی صد بتائی گئی جبکہ اُن کے مدتوں بعد، قیام بنگلہ دیش کے بھی ایک طویل عرصے بعد ہماری فاضل کرم فرما قلمی دوست، پروفیسر ڈاکٹر اُم سلمیٰ (مرحومہ) نے جدید بنگلہ میں ایسے ساٹھ فی صد الفاظ کی نشان دہی کی ہے۔
ان کی درج کی ہوئی فہرست کے مطابق اشیائے خورونوش بشمول دودھ، شوربوت (شربت)، کھیر، کاباب (کباب)، تورکاری(ترکاری)، دوئی (دہی)، شُوجی (سُوجی)، لباس و زیورات بشمول چادر (چادر)، شال (شال)، شابن (سابن یا صابن)، بچھاتا (بچھونا)، جوتا (جوتا)، کُرتا (کُرتا)، کنگن (کنگن)، پیشے بشمول اُکیل (وکیل)، بابرچی (باورچی)، چاکور (چاکر)، دورجی (درزی)، چوکیدار (چوکیدار)، کوشائی (قسائی: قصائی غلط ہے)، موچی (موچی)، رشتے ناتے بشمول بابا (باپ)، ماں (ماں)، دیبور (دیور)، شالی (سالی)، شوشر (سُسر)، شالا(سالا)، شامی (سوامی)، اعضائے جسمانی بشمول بوگول (بغل)، پیٹ (پیٹ)، پِیٹھ (پِیٹھ)، پا (پاؤں)، دانت (دانت)، کان (کان)گال (گال)، گلا (گلا)، پھل پھول بشمول آم (آم)، آدا (ادرک)، پان (پان)، بیگُن (بیگَن)، ٹماٹو(ٹماٹر)، تورمج (تربوز)، گولاپ (گلاب)، معدنیات بشمول ٹین (ٹین: قلعی)، پارہ (پارہ)، پیتول (پیتل)، کانچ (کانچ)، موتی (موتی)، ہیرا (ہیرا) اور چرند پرند بشمول بلبل (بلبل)، بیڑال (بلّی)، اؤٹ (اونٹ)، باچھر (بچھڑا) اور شاب (سانپ) جیسے الفاظ ان دو زبانوں میں مشترک ہیں۔
(بنگلہ زبان پر اردو کا اثراز پروفیسر ڈاکٹر اُم سلمیٰ، پروفیسر شعبہ اردو و فارسی، جامعہ ڈھاکا، بنگلہ دیش: یاد بود ہفتادوپنجمین سال تأ سیس بخشش فارسی واردو، در دانش گاہ داکا، بنگلہ دیش:۱۹۹۶ء)۔ {خاکسار کی دو کتابوں سارک کہانی۔ سارک ممالک کے بچوں کی کہانیاں، مطبوعہ ۲۰۰۸ء اور 'اپنی اپنی کتھائیں'۔ سارک ممالک کی لو ک کہانیاں کے لیے مواد کی فراہمی میں بنگلہ دیش سے احمد سعدی مرحوم، اُم سلمیٰ مرحومہ اور ڈاکٹر حلیمہ خاتون مرحومہ نے بہت تعاون کیا۔ تبادلہ کتب کے اس عمل میں خاکسار نے ان مشاہیر کی تحریریں یہاں پاکستان میں شایع کرائیں۔
ڈاکٹرام سلمیٰ کے ایک اور دوسرے فاضل کے دوسرے فارسی مقالے کا اردو ترجمہ، حلیمہ خاتون کی شاعری پر اردو اور انگریزی مضامین اور ان کے انگریزی وبنگلہ کلام کے تراجم کا کام بھی کیا اور کرایا۔ احمدسعدی، ایوب جوہر اور شمیم زمانوی نے خاکسار کے ہائیکو انٹرنیشنل کے لیے ہائیکو نگاری کی، جبکہ یہی شغف ڈاکٹر حلیمہ نے انگریزی میں فرماکر میری حوصلہ افزائی کی}۔ احمد سعدی اور ام سلمیٰ نیز س ۔م ساجد کی تحریروں میں ایسے بنگلہ فقرے یا جملے ملتے ہیں جنھیں سرسری دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ اردو ہی کی کوئی شکل ہے۔
خاکسار کو مزید جستجو ہوئی تو بنگلہ الفاظ کی یہ فہرست آن لائن دستیاب ہوئی، جس سے خاکسار کے مؤقف کو مزید تقویت ملی: آب ہاوا (آب وہوا)، بَرو (بڑا)، پانیو (پانی ومشروبات)، پھَول (پھل)، پوشاک (پوشاک، لباس)، پیشہ (پیشہ)، چھوٹو (چھوٹا)، دھرمو (دھرم، مذہب)، شونگیت (سنگیت)، شاموئے (سمے، وقت)، شاک سوبجی (سبزی ترکاری)، شرِیر (شریریعنی جسم)، کھادّو (کھانے کی اشیاء، خصوصاً پھل سبزی)، کامرا (کمرا)، گاڑی (گاڑی)، مانوش (مانَس یعنی لوگ جیسے بھلے مانَس)
[https://www.50languages.com/vocab/ur/bn/]
اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے کلکتہ (مغربی بنگال) میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اسی ادارے نے جہاں دیگر مقامی زبانوں کی سرپرستی کی، سائنس کی تعلیم مقامی زبانوں میں عام کی، وہیں للو لال جی کی پریم ساگر شایع کرکے مصنوعی ہندی کو جنم دیا اور پھر لسانی تنازُع شروع ہوگیا۔ کلکتہ علم وفن کی اشاعت کا ایسا مرکز بن گیا کہ وہاں 1859ء میں کوئی بیس مطبع [Printing press] تھے۔ اردو کے ہر شعبے کی کتب کی اشاعت کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ فورٹ ولیم کالج کے عہداولین میں میرامّن، حیدربخش حیدری، شیرعلی افسوسؔ، میر بہادرعلی حسینی، میرزا کاظم علی جوانؔ، اکرام علی، لطف، مولوی حفیظ الدین، ولاؔ، شیداؔ، اشکؔ، تپشؔ، میر علی اور ڈاکٹر گِل کِرسٹ نے اپنے کارناموں سے ایک جہان کو متأثر کیا۔ شاعری کے زرّیں دور میں (۱۸۲۵ء تا ۱۸۷۵ء) نسّاخؔ جیسا فاضل استاذالاساتذہ (استاذ کی جمع اساتذہ، استاد کی جمع اساتید) سخنور بجائے خود ایک عہد کا نام ہے۔
مابعد ادوار میں ہم ۱۹۱۰ء تا ۱۹۵۴ء کے اسمائے گرامی میں رضا علی وحشت ؔ جیسے توانا شجر کا ذکر ہرگز فراموش نہیں کرسکتے، جبکہ دیگر میں آزادؔ، ناطقؔ ، آرزوؔ ، عندلیب شادانی، احسن احمداشکؔ اور پرویز شاہدی بھی بڑ ے نام ہیں۔ ہندوشعراء اور خواتین کا شعری حصہ الگ باب ہے۔ یہ تمام تفصیلات 'بنگال میں اردو'، 'مشرقی بنگال میں اردو' اور پھر جدید دور میں 'بنگلہ دیش میں اردو' جیسی کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ رنجن بھٹا چاریہ صاحب کی تصانیف اسی موضوع اور دیگر موضوعات پر سیرحاصل معلومات فراہم کرتی ہیں اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
ہرچند کہ مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) کے بنگلہ دیش بننے کے بعد، اردو تصنیف وتالیف واشاعت کا سلسلہ محدود ہوا، مگر رُکا نہیں، البتہ مغربی بنگال کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ وہاں اردو زبان وادب کی بھرپور خدمت جاری ہے اور اسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل ہے۔ راقم نے ایک مضمون بعنوان مضمون بعنوان ''خطہ بنگال، اردو اور احمدالیاس'' اپنے بزرگ معاصر،اردو کے شاعر وادیب اور انگریزی واردو کے صحافی محترم احمدالیاس کی کتاب 'بنگلہ دیش میں اردو' کے تبصرے کے طور پر لکھا تھا۔ اس کا ایک اقتباس:''اس موضوع پر سابق مشرقی بنگال و مشرقی پاکستان کی سرزمین سے اب تک تازہ ترین کتاب ہے (جو ۲۰۱۴ء میں شایع ہوئی، مجھ تک ۲۰۱۷ء میں پہنچی اور میں نے اس پر ۲۰۱۹ء میں خامہ فرسائی کی)، مغربی بنگال یعنی ہندوستانی ریاست (صوبہ) بنگال میں بہرحال کام جاری ہے، مگر پاکستان میں، ( بوجوہ)، وہ بھی کم کم دستیاب ہے، البتہ انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف فائلز تلاش کی جاسکتی ہیں۔
یہاں یہ کہنا لازم ہے کہ عظیم خطہ بنگال میں اردو کے فروغ کی مبسوط داستان رقم کرنے کے لیے بہار، آسام، اُڑیسہ، اراکان اور برمامیں اردو کی ترویج کا جائزہ بالتحقیق لینا ضروری ہے کہ تاریخ کے سفر میں یہ تمام صوبے /ریاستیں باہم مربوط و منسلک رہ چکی ہیں۔ اس کے لیے 'بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء : ۱۸۵۷ء تک از ڈاکٹر اختر اورینوی، بہار اور اردو شاعری از پروفیسر معین الدین دَردائی، تاریخ شعرائے بہار از سید عزیز الدین بلخی اور ''ارض بہار اور مسلمان '' از عبدالرقیب حقانی (مطبوعہ ۲۰۰۴ء)، اُڑیسہ میں اردو از ڈاکٹرحفیظ اللہ نیول پوری، اُڑیسہ میں اردو ازمحمود بالیسری سمیت متعدد کتب کا یکجا مطالعہ مفید ہوگا''۔ یہاں تنگی وقت اور تنگی قرطاس کے پیش نظر بہت سارا مواد پیش کرنے سے گریز کررہا ہوں۔ ایک ضروری گزارش اپنے محترم قارئین سے: میرے مضامین خصوصاً زباں فہمی کے سلسلے کے کالم، انٹرنیٹ پر دھڑا دھڑ نقل ہورہے ہیں۔
دو ویب سائٹس نے میرے کالم نمب باون اور ترپن (موضوع: اردو اور برصغیر کی زبانوں میں پھلوں اور سبزیوں کے مشترک نام) کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے میرا نام بطور مصنف ومحقق حذف کردیا ہے، تاکہ پڑھنے والوں کو یہ گمان ہو کہ محنت ِ شاقّہ سے لکھے گئے یہ مضامین شاید اُن کی خامہ فرسائی ہے۔ براہ کرم انٹرنیٹ پر تلاش کرکے یا میری فیس بک سے اُن کے ربط[Link] دیکھیں، سائٹس ملاحظہ کریں اور اُنھیں بتائیں کہ یہ جنون کا سودا سہیل احمدصدیقی نے کیا ہے، بغیر محنت کے اپنے سر سہرا نہ سجائیں۔
(دوسرا اور آخری حصہ)
بنگال کے سلطان حسین شاہ کی تعریف میں کہا گیا یہ شعر بڑی حد تک آج بھی قابل فہم ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اُس کے عہد میں اردو بہ سُرعت تمام ترقی کررہی تھی۔ سلطان حسین شاہ کا ذکرِخیر اُس کے ایک اور معاصرحضرت شاہ بہاؤالدین باجن (رحمۃاللہ علیہ)، مصنف 'خزانہ رحمت]گوجری کتاب[،' (پ: ۷۹۰ھ،متوفیٰ۹۱۲ھ/۱۵۰۶ء) نے بالکل سیدھی سادی اردو میں کیا ہے:
باجنؔ جو کسی کے عیب ڈھانکے
اُس سے ارجن تھر تھر کانپے
{ بہاؤ الدین باجن عر ف شاہ باجن (رحمۃاللہ علیہ) کی زندگی پر ایک کتاب ''حضرت شاہ باجن۔ ایک مطالعہ'' اخترپرویز صاحب نے بُرہان پور (ہندوستان) سے لکھ کر2005ء میں شایع کی ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اسی کتاب میں ماقبل لکھی گئی تحقیقی کتاب 'شاہ بہاؤالدین باجن۔ حیات اور گُجری (گوجری) کلام']از ڈاکٹرشیخ فریدبرہان پوری : ۱۹۹۲ء [کا بھی ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربی وفارسی کے عالم اور اردو کے قدیم ترین رُوپ گوجری کے شاعر تھے اور اُن سمیت اُس دور کے شعراء کے یہاں (ہندی، فارسی، گوجری اور دیگر زبانوں کے ملاپ سے) ریختہ گوئی عام تھی۔
شاہ باجن کی کتاب 'خزانہ رحمت' کے پانچ قلمی نسخوں میں ایک، جامعہ کراچی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ حضرت باجن کے شاگرد ومُرید، محدث اعظم شیخ علی متّقی (۸۸۵ھ تا ۹۷۵ھ) نے 'کنزالعُمّال' نامی مشہور کتاب تالیف کی تھی۔ اختر پرویز صاحب نے شاہ باجن کی لکھی ہوئی مناجات کے یہ اشعار نقل کرکے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کس قدر عام فہم اردو، اس قدیم عہد میں بھی موجود تھی:
تیرے پنتھ کوئی چل نہ سکے/جو چلے سو چل چل تھکے/پڑھ پنڈِت دھوتیاں/سب جان سُدھ بُدھ کھویاں (کھوئیاں)/سب جوگی جوگ بسارے۔ اختر پرویز صاحب کی کتاب میں اردو کے قدیم ترین ریختہ گو شاعر کا نام شیخ سعدی دکنی برہان پوری دیا گیا ہے جن کا مشہور ترین شعر ہے: سعدی ؔ غزل انگیختہ، شِیروشکر آمیختہ/دَرریختہ، دُر ریختہ ، ہم شعر ہے، ہم گیت ہے۔ حالانکہ اُن سے قبل امیر خسرو ہو گزرے ہیں}۔ باجن (رحمۃاللہ علیہ) کا شعر نقل کرنے کے بعد، ڈاکٹر وفاراشدی صاحب نے بہت روانی سے ایک عہد کا خلاصہ کیا:''اسی قسم کی اردو، دسویں صدی کے شعراء مثلاً شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور بہاؤالدین برمادی کے کلام میں بھی عام ہے۔ شیخ جیون، محبوب عالم، مولانا عبدی، گیارھویں صدی کے مشہور شعراء گزرے ہیں۔
اس زمانے میں ناصرف پنجاب اور دہلی میں، بلکہ بنگال، اَوَدھ، بِہار اور ہر شمالی ومشرقی صوبے میں، عام طور سے اوسط درجے کی صاف اور شُستہ اردو بولی جاتی تھی اور نظم ہوتی تھی۔ ( 'بنگال میں اردو' بحوالہ 'نظم اردو از ناطقؔ لکھنوی)۔ {آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کردوں کہ 'بنگال میں اردو' کے محقق مزاج مصنف ڈاکٹر وفاراشدی (اصل نام عبدالستارخان) مرحوم کی مادری نہیں بلکہ آبائی زبان، کلکتہ سے تعلق کی بناء پر، بنگلہ تھی اور انھوں نے اس کا حق ادا کردیا}۔ یہاں روانی میں ناطقؔ سے سہو ہوا جو ڈاکٹروفاراشدی نے بھی دہرایا۔
شیخ جیون یا جیوں ہی کا اصل نام محبوب عالم تھا۔ وہ جھجر (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ سیدمیراں بھیک چشتی صابری (رحمۃاللہ علیہ) کے مرید اور خلیفہ تھے اور اُن کے کلام میں عربی وفارسی الفاظ مقامی لہجے کے مطابق تلفظ میں شامل ہیں۔ انھوں نے نعتیہ شاعری میں منفرد مقام پایا اور حضورنبی کریم (ﷺ) کے وصال کے موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت فاطمۃالزہراء اور حضرت عمرفاروق (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے منظوم اظہارِخیال، مرثیے کو اپنے کلام کی شکل دی۔ مؤخرالذکر کے نعتیہ مرثیے بہ الفاظ شیخ جیون کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
عجب محبوب ِ عالَم تھا، نہایت خوب بالَم تھا+مِرا نِت پرت پالم تھا، رہا ہے بیٹھ کس ٹھاؤں (ٹھکانہ)۔]'عقیدت کا سفر' از حمایت علی شاعر، دنیائے ادب، کراچی : ۱۹۹۹ء[۔
سلطان علاؤالدین حسین شاہ (متوفیٰ ۱۵۱۹ء) نے بنگال میں عظیم ''حسین شاہی'' سلطنت کی بنیاد رکھی اور اپنے عہداقتدار ( 1493-1519) میں اسلام کے احیاء وفروغ کے لیے خدمات انجام دیں۔ اس کے ابتدائی حالات مشہور نہیں۔ اس نے حبشی نژاد سلطان شمس الدین مظفرشاہ ( 1491-93)کے دربار میں ملازمت حاصل کی اور ترقی کرتے کرتے وزیراعظم کے منصب تک جاپہنچا اور پھر شاہ کے خلاف کامیاب بغاوت کے نتیجے میں خود بادشاہ بن بیٹھا۔ [Encyclopaedia Britannica:https://www.britannica.com/
biography/Husayn-Shah-Ala-al-Din]
سلطان علاؤالدین حسین شاہ اور اُس کے فرزند سلطان ناصرالدین نصرت شاہ کا عہد سلطنت بنگال کا زرّیں عہد کہلاتا ہے۔ اُس کے دور میں بنگالی ہندوؤں نے شاہی مناصب تک رسائی میں کامیابی حاصل کی، حتیٰ کہ اُس کا وزیراعظم، محافظ ِ اعظم (باڈی گارڈز کا سربراہ)، دبیرِخاص (پرائیویٹ سیکریٹری)، طبیب ِ خاص، وزیر مال اور حاکم چٹاگانگ بنگالی ہندو ہی تھے۔ سلطان حسین شاہ نے اپنی سلطنت کو وسیع کرتے ہوئے شمال میں کچھ، بِہار (کماٹا) اور مغربی آسام (کام رُوپ) پر قبضہ کیا تو جنوب مغرب میں اُڑیسہ (اب اوڈیشا) اور مشرق میں تِری پورہ پر بھی اپنے جھنڈے گاڑدیے۔
[https://publishing.cdlib.org/ucpressebooks/view?docId=
ft067n99v9&chunk.id=s1.2.6&toc.id=ch02&brand=ucpress]
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (رحمۃاللہ علیہ) ]پیدائش ۷۰۷ھ بمقام سِمنان، خراسان، وفات ۸۲۸ھ بمقام بنگال مطابق بیان ڈاکٹر وفا راشدی۔ راشدی صاحب نے سن وفات ۷۹۸ھ درج کیا ہے[ کے کلام میں بنگلہ نما اردو کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
''چھپری (بکری) کے مُنھ کھنڈا سمائے (کھنڈ یعنی چاول کا چُورا)''۔ مخدوم سمنانی کی تصنیف 'رسالہ اخلاق وتصوف ' (۷۵۸ھ مطابق ۱۳۰۸ء ) کو ڈاکٹرابواللیث صدیقی اور پروفیسر حامدحسن قادری جیسے محققین نے اردو کی سب سے قدیم کتاب قرار دیا ہے۔ خاکسار کا مؤقف ہے کہ اردو کی تشکیل میں ویدک بولیوں، سنسکِرِت، قدیم ہندی، مراٹھی ودیگر دراوڑزبانوں، ہندکو، سرائیکی، گوجری، گجراتی اور پنجابی کے علاوہ بنگلہ یا بنگالی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بنگلہ کی تاریخ کا خلاصہ یوں ہے کہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اور ہندوستان کی دوسری بڑی زبان، بنگلہ کم وبیش ڈیڑھ ہزار سال پرانی ہے۔ سلطنت ِمگدھ میں بنگال کی شمولیت کے دور میں، مشرقی مگدھی پراکِرِت نے رواج پایا تو ترقی کرتے کرتے یہی بنگلہ بن گئی۔
انیسویں صدی میں جدید بنگلہ ادب کی تخلیق کا عمل شروع ہوا جو بہت تیزی سے مقبول بھی ہوگیا۔ یہاں ایک نہایت دل چسپ انکشاف ملاحظہ فرمائیے۔ ماہرلسانیات شبیرعلی کاظمی کی تحقیق کی رُو سے لفظ بنگالی، برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی آمد سے قبل موجود ہی نہ تھا، جو پنڈت ہرا پرشادشاستری جی کی تصنیف ''بودھ گان و دوہا '' (اصل نام ''چریا، اچریا، بنت چھایا''، ناشربنگیہ پریشد، کلکتہ :۱۹۱۷ء) میں شامل بُدھ مت کے سادھوؤں کے ''پدوں'' (حمدیہ نظموں) میں موجود ہے۔
یہ پد 650ء تا 1000ء کے درمیان تصنیف کیے گئے۔ (''پراچین اردو۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے قبل اردو کے آثار'' از شبیر علی کاظمی، مکتبہ اسلوب، کراچی: ۱۹۸۲ء)۔ اُنھوں نے پنڈت شاستری جی کی تصنیف ''بودھ گان و دوہا'' کے سینتالیس ''پدوں'' (حمدیہ نظموں) کا بالتحقیق جائزہ وترجمہ کیا (جو بنگلہ رسم الخط میں اردو کتاب سے ساٹھ برس قبل شایع ہوئی تھی)۔ ہرچند کہ یہ قدیم بنگلہ کی ایک شکل ہے، مگر اس حقیقت کا اظہار کم کیا گیا، جبکہ اس میں اردو کے قدیم آثار کا تجزیہ کرتے ہوئے کاظمی صاحب کہتے ہیں کہ ''ان پدوں کی دریافت سے اردو کا کھوج، ساتویں آٹھویں صدی عیسوی تک مل جاتا ہے جو دستاویزی بھی ہے اور مستند بھی''۔ اردو میں منتقل کرنے سے قبل، کاظمی صاحب نے اس کتاب کے بنگلہ، انگریزی اور تبتی تراجم کا مطالعہ کیا اور اس کارنامے کی انجام دہی میں ڈاکٹر شہیداللہ، ڈاکٹر انعام الحق، ڈاکٹر غلام مقصود ہلالؔ اور ڈاکٹربگچی کے کام سے بھرپور اکتساب کیا۔
اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آیا ان دو زبانوں کا باہمی تعلق، تقریباً پیدائشی بنیاد پر ثابت نہیں ہوتا؟ اسی اردو کتاب میں شبیر علی کاظمی صاحب نے قدیم اردو شاعر، شاہ میراں عشاق کا نمونہ کلام نقل کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اس میں ماگدھی/مگدھی بنگالی کے آثار ہیں: اس بھول جے کوئی تھاکے+تو دوزخ مان راکھے۔ اسی طرح حضرت برہان الدین جانم کا یہ شعر بھی اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے: کیوں نہ لیوے اس بھی کوئی+سہانا چطورجے کوئی ہوئے۔
ڈاکٹر وفا راشدی کی کتاب 'بنگال میں اردو' (1955)میں اردو اور بنگلہ کے مشترک الفاظ کی تعداد پچھہتر فی صد بتائی گئی جبکہ اُن کے مدتوں بعد، قیام بنگلہ دیش کے بھی ایک طویل عرصے بعد ہماری فاضل کرم فرما قلمی دوست، پروفیسر ڈاکٹر اُم سلمیٰ (مرحومہ) نے جدید بنگلہ میں ایسے ساٹھ فی صد الفاظ کی نشان دہی کی ہے۔
ان کی درج کی ہوئی فہرست کے مطابق اشیائے خورونوش بشمول دودھ، شوربوت (شربت)، کھیر، کاباب (کباب)، تورکاری(ترکاری)، دوئی (دہی)، شُوجی (سُوجی)، لباس و زیورات بشمول چادر (چادر)، شال (شال)، شابن (سابن یا صابن)، بچھاتا (بچھونا)، جوتا (جوتا)، کُرتا (کُرتا)، کنگن (کنگن)، پیشے بشمول اُکیل (وکیل)، بابرچی (باورچی)، چاکور (چاکر)، دورجی (درزی)، چوکیدار (چوکیدار)، کوشائی (قسائی: قصائی غلط ہے)، موچی (موچی)، رشتے ناتے بشمول بابا (باپ)، ماں (ماں)، دیبور (دیور)، شالی (سالی)، شوشر (سُسر)، شالا(سالا)، شامی (سوامی)، اعضائے جسمانی بشمول بوگول (بغل)، پیٹ (پیٹ)، پِیٹھ (پِیٹھ)، پا (پاؤں)، دانت (دانت)، کان (کان)گال (گال)، گلا (گلا)، پھل پھول بشمول آم (آم)، آدا (ادرک)، پان (پان)، بیگُن (بیگَن)، ٹماٹو(ٹماٹر)، تورمج (تربوز)، گولاپ (گلاب)، معدنیات بشمول ٹین (ٹین: قلعی)، پارہ (پارہ)، پیتول (پیتل)، کانچ (کانچ)، موتی (موتی)، ہیرا (ہیرا) اور چرند پرند بشمول بلبل (بلبل)، بیڑال (بلّی)، اؤٹ (اونٹ)، باچھر (بچھڑا) اور شاب (سانپ) جیسے الفاظ ان دو زبانوں میں مشترک ہیں۔
(بنگلہ زبان پر اردو کا اثراز پروفیسر ڈاکٹر اُم سلمیٰ، پروفیسر شعبہ اردو و فارسی، جامعہ ڈھاکا، بنگلہ دیش: یاد بود ہفتادوپنجمین سال تأ سیس بخشش فارسی واردو، در دانش گاہ داکا، بنگلہ دیش:۱۹۹۶ء)۔ {خاکسار کی دو کتابوں سارک کہانی۔ سارک ممالک کے بچوں کی کہانیاں، مطبوعہ ۲۰۰۸ء اور 'اپنی اپنی کتھائیں'۔ سارک ممالک کی لو ک کہانیاں کے لیے مواد کی فراہمی میں بنگلہ دیش سے احمد سعدی مرحوم، اُم سلمیٰ مرحومہ اور ڈاکٹر حلیمہ خاتون مرحومہ نے بہت تعاون کیا۔ تبادلہ کتب کے اس عمل میں خاکسار نے ان مشاہیر کی تحریریں یہاں پاکستان میں شایع کرائیں۔
ڈاکٹرام سلمیٰ کے ایک اور دوسرے فاضل کے دوسرے فارسی مقالے کا اردو ترجمہ، حلیمہ خاتون کی شاعری پر اردو اور انگریزی مضامین اور ان کے انگریزی وبنگلہ کلام کے تراجم کا کام بھی کیا اور کرایا۔ احمدسعدی، ایوب جوہر اور شمیم زمانوی نے خاکسار کے ہائیکو انٹرنیشنل کے لیے ہائیکو نگاری کی، جبکہ یہی شغف ڈاکٹر حلیمہ نے انگریزی میں فرماکر میری حوصلہ افزائی کی}۔ احمد سعدی اور ام سلمیٰ نیز س ۔م ساجد کی تحریروں میں ایسے بنگلہ فقرے یا جملے ملتے ہیں جنھیں سرسری دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ اردو ہی کی کوئی شکل ہے۔
خاکسار کو مزید جستجو ہوئی تو بنگلہ الفاظ کی یہ فہرست آن لائن دستیاب ہوئی، جس سے خاکسار کے مؤقف کو مزید تقویت ملی: آب ہاوا (آب وہوا)، بَرو (بڑا)، پانیو (پانی ومشروبات)، پھَول (پھل)، پوشاک (پوشاک، لباس)، پیشہ (پیشہ)، چھوٹو (چھوٹا)، دھرمو (دھرم، مذہب)، شونگیت (سنگیت)، شاموئے (سمے، وقت)، شاک سوبجی (سبزی ترکاری)، شرِیر (شریریعنی جسم)، کھادّو (کھانے کی اشیاء، خصوصاً پھل سبزی)، کامرا (کمرا)، گاڑی (گاڑی)، مانوش (مانَس یعنی لوگ جیسے بھلے مانَس)
[https://www.50languages.com/vocab/ur/bn/]
اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے کلکتہ (مغربی بنگال) میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اسی ادارے نے جہاں دیگر مقامی زبانوں کی سرپرستی کی، سائنس کی تعلیم مقامی زبانوں میں عام کی، وہیں للو لال جی کی پریم ساگر شایع کرکے مصنوعی ہندی کو جنم دیا اور پھر لسانی تنازُع شروع ہوگیا۔ کلکتہ علم وفن کی اشاعت کا ایسا مرکز بن گیا کہ وہاں 1859ء میں کوئی بیس مطبع [Printing press] تھے۔ اردو کے ہر شعبے کی کتب کی اشاعت کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ فورٹ ولیم کالج کے عہداولین میں میرامّن، حیدربخش حیدری، شیرعلی افسوسؔ، میر بہادرعلی حسینی، میرزا کاظم علی جوانؔ، اکرام علی، لطف، مولوی حفیظ الدین، ولاؔ، شیداؔ، اشکؔ، تپشؔ، میر علی اور ڈاکٹر گِل کِرسٹ نے اپنے کارناموں سے ایک جہان کو متأثر کیا۔ شاعری کے زرّیں دور میں (۱۸۲۵ء تا ۱۸۷۵ء) نسّاخؔ جیسا فاضل استاذالاساتذہ (استاذ کی جمع اساتذہ، استاد کی جمع اساتید) سخنور بجائے خود ایک عہد کا نام ہے۔
مابعد ادوار میں ہم ۱۹۱۰ء تا ۱۹۵۴ء کے اسمائے گرامی میں رضا علی وحشت ؔ جیسے توانا شجر کا ذکر ہرگز فراموش نہیں کرسکتے، جبکہ دیگر میں آزادؔ، ناطقؔ ، آرزوؔ ، عندلیب شادانی، احسن احمداشکؔ اور پرویز شاہدی بھی بڑ ے نام ہیں۔ ہندوشعراء اور خواتین کا شعری حصہ الگ باب ہے۔ یہ تمام تفصیلات 'بنگال میں اردو'، 'مشرقی بنگال میں اردو' اور پھر جدید دور میں 'بنگلہ دیش میں اردو' جیسی کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ رنجن بھٹا چاریہ صاحب کی تصانیف اسی موضوع اور دیگر موضوعات پر سیرحاصل معلومات فراہم کرتی ہیں اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
ہرچند کہ مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) کے بنگلہ دیش بننے کے بعد، اردو تصنیف وتالیف واشاعت کا سلسلہ محدود ہوا، مگر رُکا نہیں، البتہ مغربی بنگال کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ وہاں اردو زبان وادب کی بھرپور خدمت جاری ہے اور اسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل ہے۔ راقم نے ایک مضمون بعنوان مضمون بعنوان ''خطہ بنگال، اردو اور احمدالیاس'' اپنے بزرگ معاصر،اردو کے شاعر وادیب اور انگریزی واردو کے صحافی محترم احمدالیاس کی کتاب 'بنگلہ دیش میں اردو' کے تبصرے کے طور پر لکھا تھا۔ اس کا ایک اقتباس:''اس موضوع پر سابق مشرقی بنگال و مشرقی پاکستان کی سرزمین سے اب تک تازہ ترین کتاب ہے (جو ۲۰۱۴ء میں شایع ہوئی، مجھ تک ۲۰۱۷ء میں پہنچی اور میں نے اس پر ۲۰۱۹ء میں خامہ فرسائی کی)، مغربی بنگال یعنی ہندوستانی ریاست (صوبہ) بنگال میں بہرحال کام جاری ہے، مگر پاکستان میں، ( بوجوہ)، وہ بھی کم کم دستیاب ہے، البتہ انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف فائلز تلاش کی جاسکتی ہیں۔
یہاں یہ کہنا لازم ہے کہ عظیم خطہ بنگال میں اردو کے فروغ کی مبسوط داستان رقم کرنے کے لیے بہار، آسام، اُڑیسہ، اراکان اور برمامیں اردو کی ترویج کا جائزہ بالتحقیق لینا ضروری ہے کہ تاریخ کے سفر میں یہ تمام صوبے /ریاستیں باہم مربوط و منسلک رہ چکی ہیں۔ اس کے لیے 'بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء : ۱۸۵۷ء تک از ڈاکٹر اختر اورینوی، بہار اور اردو شاعری از پروفیسر معین الدین دَردائی، تاریخ شعرائے بہار از سید عزیز الدین بلخی اور ''ارض بہار اور مسلمان '' از عبدالرقیب حقانی (مطبوعہ ۲۰۰۴ء)، اُڑیسہ میں اردو از ڈاکٹرحفیظ اللہ نیول پوری، اُڑیسہ میں اردو ازمحمود بالیسری سمیت متعدد کتب کا یکجا مطالعہ مفید ہوگا''۔ یہاں تنگی وقت اور تنگی قرطاس کے پیش نظر بہت سارا مواد پیش کرنے سے گریز کررہا ہوں۔ ایک ضروری گزارش اپنے محترم قارئین سے: میرے مضامین خصوصاً زباں فہمی کے سلسلے کے کالم، انٹرنیٹ پر دھڑا دھڑ نقل ہورہے ہیں۔
دو ویب سائٹس نے میرے کالم نمب باون اور ترپن (موضوع: اردو اور برصغیر کی زبانوں میں پھلوں اور سبزیوں کے مشترک نام) کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے میرا نام بطور مصنف ومحقق حذف کردیا ہے، تاکہ پڑھنے والوں کو یہ گمان ہو کہ محنت ِ شاقّہ سے لکھے گئے یہ مضامین شاید اُن کی خامہ فرسائی ہے۔ براہ کرم انٹرنیٹ پر تلاش کرکے یا میری فیس بک سے اُن کے ربط[Link] دیکھیں، سائٹس ملاحظہ کریں اور اُنھیں بتائیں کہ یہ جنون کا سودا سہیل احمدصدیقی نے کیا ہے، بغیر محنت کے اپنے سر سہرا نہ سجائیں۔