2 کروڑ 20 لاکھ پاکستانی لیٹرین کی مناسب سہولت سے محروم
کیا ’اوپن ڈیفیکیشن فری پنجاب‘ منصوبہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا؟
KARACHI:
کھلی جگہوں پر انسانی فضلہ سے عوامی صحت کو لاحق خطرات کا اندزہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض ایک گرام انسانی فضلے کے اندر دس کروڑ وائرس، ایک کروڑ سے زائد بیکٹریا ہوسکتے ہیں۔
اس میں ایک ہزار طفیلیہ (پیراسائیٹس) نقصان دہ کیڑوں کے انڈوں کی تھیلیاں ہوسکتی ہیں جو جان لیوا امراض کا باعث بن سکتی ہیں، اس میں پیٹ کے کیڑوں کے سو انڈے موجود ہو سکتے ہیں جو مکھیوں اور مچھروں کے جسم سے چمٹ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ کر انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اور انسان کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ بیماریوں کے اس پھیلاو کی سب سے بڑی وجہ تمام لوگوں کو لیٹرین کی سہولت کا حاصل نہ ہونا ہے جس کے باعث انہیں رفع حاجت کے لئے کھلی جگہوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔
اس کی ایک مثال افریقی ملک نائیجریا ہے جہاں بڑے پیمانے پر کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے باعث صحت کے پیچیدہ مسائل جنم لے چکے ہیں۔ عالمی بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں ہر سال صرف ہیضہ سے 122,000 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
واش رومزاور باتھ رومز یعنی لیٹرین اور غسل خانہ اسی ضرورت کی تکمیل کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام عوامی جگہوں پر باتھ رومز موجود ہوں۔ انسانی فضلے کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے کا اس سے بہترین کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ ایکو سسٹم یعنی ہمارے ماحول کی بقاء کے لئے بھی یہ ضروری تھا کیونکہ اگر یہی فضلہ کھلا رہے تو جہاں گندگی اور تعفن پیدا ہوتا ہے وہیں یہ پانی میں جا کر ہیپٹائٹس سی اور بی جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
جبکہ واش رومز کے نظام میں قدرتی طور پر یہ فضلہ زمین مٹی کا حصہ بن کر اس کی ذرخیزی میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور اسی کو سائینس کی زبان میں ری سائیکلنگ کہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سینیٹیشن(گندے پانی کے محفوظ نکاس کا انتظام) کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے بہت کام کیا گیا ہے اور خصوصاً پبلک واش رومز بنائے گئے ہیں جو کے پارکوں، ریلوے اسٹیشنز، بس اسٹیشنز، مارکیٹوں، پلازوں، کمرشل ایریاء اور دیگر جگہوں پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ مردوں اور خواتین دونوں کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔
کینیڈا ایک ترقی یافتہ مملک ہے ، یہاں پر عوام کی سہولت کے لئے پبلک واش رومز ہر شہری کی دسترس میں ہیں ۔ خصوصاً پارکوں اور کھلے سیاحتی مقامات میں تھوڑے فاصلے پر پبلک ٹوالٹ ملتے ہیں۔ موجودہ کورونا وباء کے بعد سے کینیڈا کی حکومت نے اس امر کو مزید سنجیدگی سے لیا ہے اور کھلے مقامات پر جہاں آب و ہوا صاف ہو وہاں لوگوں کی آمد و رفت کی حوصلہ افزائی کے لئے پبلک واش رومز کی تعداد بڑھانے پر زور دیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر سہولیات کی فراہمی کی درجہ بندی کرنے والی ایک ویب سائٹ نے جاپان کے شہر ٹوکیو کو دنیا کے سب سے صاف ستھرے پبلک واش رومز والا ملک قرار دیا ہے۔واش رومز میں موجود سہولیات کی بات کی جائے تو وہاں کے واش رومز بھی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔
یہاں تک کے استعمال کرنے والے کو ٹوائلٹ پیپر یا پانی کا استعمال بھی خود سے نہیں کرنا پڑتا۔ اگر واش روم میں فلش کرنے کی آواز آپ کو پریشان کرتی ہے تو اسے بھی میوٹ کر سکتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کے یہ بالکل فری ہیں یعنی ان کو استعمال کرنے کے لئے کوئی پیسے نہیں دینے پڑتے ۔ یہ عموماً پارکوں،ٹرین سٹیشنوں ، ہوٹلوں، ڈپارٹمنٹل سٹورز اور سیاحتی مراکز میں فراہم کئے گئے ہیں۔ پبلک واش رومز کی درجہ بندی میں دوسرا نمبر چین کے شہر شنگہائی کا آتا ہے۔
چین نے اپنے ملک میں بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ بہتر بنانے کا عزم کیااور اسی سلسلے کی ایک کڑی ٹوائلٹ کی سہولت کو مثالی بنانا تھی جس کے تحت سن 2015-17کے بیچ 68,000پبلک واش رومز تعمیر کئے گئے جو کے مغربی طرز پر بنائے گئے۔ ان کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کے لئے اٹینڈنٹ بھی موجود رہتے تاکہ کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔تیسرے نمبر پر سوئٹززرلینڈ کے سب سے بڑے شہر زیورخ کا نام آتا ہے جو کے بے داغ صاف ستھرے پبلک ٹوائلٹ رکھنے کا امتیاز رکھتا ہے۔
انھیں ایک مرتبہ استعمال کرنے کے لئے رقم تو ادا کرنا پڑتی ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کے یہ ہر عوامی مقام پر ملتے ہیں۔ سٹاک ہولم، سویڈ ن کے دارلحکومت کا نمبر اس فہرست میں چوتھا ہے۔ یہاں کے پبلک واش رومز میں گھومنے والی نشتیں ہیں وسیع جگہ اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھا گیا ہے۔ تمام سیاحتی مقامات پہ واش رومز کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔شہر کے کچھ حصوں میں ان واش رومز کو استعمال کرنے کے لئے انتہائی کم پیسے درکار ہوتے ہیں جبکہ چالیس کے قریب ایسے واش رومز ہیں جن میں داخلہ بلکل مفت ہے۔
یہ تو وہ مثالیں ہیں جو ہمیں ایک بہتر دنیا سے روشناس کراتی ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ بہت بھیانک ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں رفع حاجت کی سہولت سے محروم افراد کی تعداد ساڑھے پچاس کروڑ تھی۔ گندگی کا یہ بے پناہ پھیلاؤ ہر برس 5 سال سے کم عمر ایک لاکھ سے زائد بچوں کی موت کا سبب بنتا تھا۔ 2014 میں اقوام متحدہ مدد اور اعانت سے ''سواچ بھارت مشن'' (ایس بی ایم) کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے باعث سرکاری دعوؤں کے مطابق 50 کروڑ لوگوں کو رفع حاجت کی بنیادی سہولتیں فراہم کر دی گئی ہیں، جبکہ صرف اب 5 کروڑ لوگ اس سہولت سے محروم رہ گئے ہیں۔ یہ بھارتی سرکار کا دعویٰ ہے اصل حقائق ضروری نہیں کہ اس دعویٰ سے مطابقت رکھتے ہوں۔
آزاد ذرائع سے سامنے آنے والی مختلف رپورٹس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ بھارت کی 70فیصد سے زائد آبادی اب بھی پبلک واش رومز کی سہولت سے محروم ہے۔ صرف پبلک واش رومز ہی نہیں بلکہ حال ہی میںنیشنل سٹیٹسٹک آفس کی جانب سے ایک آفیشل دستاویز میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کے انڈیا کے دیہاتوں کی ایک تہائی آبادی کو گھروں میں واش رومز کی سہولت میسر نہیں۔ جبکہ اس کے قبل مودی حکومت نے شخی بھگارتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کے انڈیا کے دیہاتوں میں 100فیصد لوگوں کو اوپن ڈیفیکیشن پروگرام کے تحت ٹوالٹ کی سہولت دی جا چکی ہے ۔
لیکن اس رپورٹ نے سارے جھوٹ کا پردہ فاش کر کے رکھ دیا اور مودی حکومت کی نااہلی کو سامنے لے آئی۔بہت سی رپورٹس چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہیں کے بھارت مین پبلک ٹوالٹ کی حالتِ زار کی اصل ذمہ دار حکومت ہے جو کے عوامی ضرورتوں کے لئے کم سے کم بجٹ وقف کرتی ہے، جس خمیازہ عوام کو بُھگتنا پڑتا ہے۔
پاکستان جہاں اور بہت سے مسائل کا شکار ہے وہیں عوامی مقامات اور بعض دیہی علاقوں میں گھروں کے اندر لیٹرین کی مناسب سہولت کی عدم فراہمی بھی ایک بہت گمبھیر عوامی مسلہ ہے۔ ملک میں ہر برس گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث 94 ہزار افراد لقمہ اَجل بن جاتے ہیں جبکہ اسی وجہ سے 53 ہزار بچے 5 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں2کروڑ 20 لاکھ افراد رفع حاجت کے لیے کھلی جگہوں کے استعمال پر مجبور ہیں جو ملک کی کل آبادی کا 10 فیصد حصہ ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کی دیہی آبادی کے 59.6 فی صد لوگ ہاتھوں کی صفائی ستھرائی کی بنیادی سہولتوں تک مکمل آسان رسائی نہیں رکھتے جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔ عموماً عوامی مقامات پر رفع حاجت کے لئے واش روم موجود ہی نہیں ہوتے اور اگر ایک آدھ ہوں بھی ہو تو لوگوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے دیر تک باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے مزید یہ کہ ان کی حالت بھی انتہائی خراب ہوتی ہے۔
اگر کسی خاتون کو واش روم جانے کی حاجت ہو تو مردانہ واش روم ہی استعمال کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بہت سے عوامی مقامات پر تو سرے سے واش روم ہیں ہی نہیں اور جہاں ہیں وہاں خواتین کے لئے مخصوص نہیں کیا گیا۔ مگر اس صورت حال میں بھی پاکستان میں پبلک واش رومز کی حالت ہمسایہ ملک کی نسبت کافی بہتر ہے۔گو کے سابقہ حکومتوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اسے اپنی ترجیحات کی فہرست میں اُخری درجہ دیا لیکن پاکستان اور خصوصاً پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ''اوپن ڈیفیکیشن فری پروجیکٹ'' کا اجراء کیا گیا۔ ناقص سینی ٹیشن کے وبال سے جان چھڑانے کے لئے اب وزیر اعلٰی پنجاب کی ہدایات پر ''اوپن ڈیفیکیشن فری پنجاب پروجیکٹ'' کا آغاز کیا گیا ہے۔
اس حقیقت سے شاید کم ہی لوگ آشنا ہوں گے کے صوبے کے دیہاتوں میں80فیصد لوگ ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں جس کی تائید ملٹی پل انڈیکیٹرکلسٹر سروے کی رپورٹ نے کی ۔ یونیسیف کے تعاون سے مارچ 2020 میںشروع ہونے والے اس پروجیکٹ کے تحت 10اضلاع جن کے دیہی علاقوں میں کھلی جگہوں پر رفع حاجت کی شرح 20فیصد سے زائد ہے جن میں جھنگ، چنیوٹ، رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، لودھراں،بھکر ، خوشاب، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور شامل ہیں، ان اضلاع کے 1775دیہات میں 2022ء تک ایک لاکھ95ہزار ٹائلٹ بنائے جائیں گے۔
اس منصوبے کے تحت ان علاقوں میں آگہی پروگراموں کے ذریعے 50 لاکھ افراد تک رسائی حاصل کی جائے گی جبکہ 13لاکھ افراد کو ٹائلٹ بنانے کیلئے ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ 802دیہاتوں کی نشاندہی کے بعد مقامی آبادی میں آگاہی پیدا کرنے کی مہم شروع کی جا چکی ہے اور واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائی جین کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ ٹائلٹ کی سہولت نہ رکھنے والے 30 ہزار سے زائد غریب خاندانوں کو ٹائلٹ بنانے کا سامان فراہم بھی کر دیا گیا ہے۔ وزیرہاؤسنگ و اربن ڈویلپمنٹ پنجاب میاں محمودالرشید نے دعواء بھی کیا ہء کے اس پروجیکٹ سے75 ہزار سے زائد خاندان مستفید ہوں گے۔
منصوبوں کا اجراء کردینا کوئی بڑی پیش رفت نہیںہوتی بلکہ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ منصوبہ مستقل بنیادوں پر متعلقہ سہولیات عوام کو فراہم کرتا رہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وقتی سیاسی فوائد حاصل کرنے کی روش رہی ہے جس کے باعث منصوبے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بنائے جاتے ہیں اور پھر بڑی بڑی رقمیں ضائع کر کے یہ منصوبے ختم کرنا پڑے۔ بہترین حکمت عملی کے ساتھ بنائے جانے والے منصوبے عوام کو دیرپا فوائد مہیا کرتے ہیں۔ ریسکیو1122 ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جس نے پنجاب کے عوام کو غیر معمولی فوائد بہم پہنچائے۔ اس منصوبے کا آغاز اکتوبر 2004 میں ہوا جب چودھری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلٰی تھے اور یہ سہولت نہ صرف یہ کہ آج دن تک جاری ہے بلکہ اس نے دیگر علاقوں تک وسعت اختیار کی ہے۔
بہت سے لوگ بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے تھے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اُس وقت کی حکومت پنجاب نے اس ایمرجنسی سروس کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ منصوبہ دیانتداری کے ساتھ مکمل سوچ بچار کے بعد شروع کیا گیا اسی لئے کامیابی کے ساتھ جاری وساری ہے۔سال 2020ء تک اس سروس نے 86 لاکھ لوگوںکو ہنگامی حالت میں مدد فراہم کر کے زندگیوں کو محفوظ بنایا ۔ آگ بجھانے والی جدید سروس نے آتش زدگی کے 150,000 واقعات میں بروقت کارروائی کرکے 450 ارب روپے کے نقصان کو ہونے سے بچایا جبکہ موٹر بائیک ایمبولینس سروس نے 60 ہزار ایمرجنسی کے واقعات میں کارروائی کی۔ ان کے حادثے کے مقام پر پہنچنے کا اوسط وقت 4 منٹ رہا۔
دوسری جانب بد دیانتی اور ناقص حکمت عملی کی مثالیں بھی موجود ہیں جس کی ایک مثال ن لیگ کے دور میں شروع ہونے والی سستی روٹی ا سکیم تھی۔ اس منصوبے کے تحت عوام کو کم قیمت پر روٹی فراہم کی جانی تھی لیکن 2009 سے 2011 تک کمرشل بینکوں کو 7 ارب 85 کروڑ روپے کے قرضوں کی عدم ادائیگی پر اس اسکیم کو اربوں روپے برباد کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری کی نذر کرنا پڑا۔سستی روٹی کے لیے سبسڈی سیاسی رشوت بن گئی۔
اکتوبر 2006 سے صوبائی حکومت نے اس اسکیم کے لیے 9 ارب روپے سے زائد رقم فراہم کی جو اقربا پروری اور کرپشن کی نذر ہوگئی۔ حکومت کا اس اسکیم کے ذریعے اپنے لوگوں کو نوازنے پر اس قدر اصرار تھا کہ اس اسکیم کی مخالفت کرنے پر دو صوبائی سیکرٹریوں ، ایک کمشنر اور تین ضلعی رابطہ افسروں کو ان کہ عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہیپاٹائٹس سی اور بی کے مریضوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے۔ ان امراض کے پھیلاؤ میں بھی پینے کے پانی میں انسانی فضلے کی ملاوٹ ایک بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان 2030 تک ملک سے ہیپاٹائٹس کے مکمل خاتمے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کی کامیاب تکمیل اسی صورت ممکن ہے اگر ملک کے تمام لوگوں کو ٹائلٹ کی مناسب سہولت حاصل ہوجائے۔
ماضی میں ریسکو 1122 اور اوپن فلٹریشن پلانٹس جیسے پراجیکٹس کامیاب رہے کیونکہ حکومتوں کے بدلنے نے بھی ان کی کارکردگی کو متاثر نہ کیا۔ مگر اس کے مقابل ہی دانش سکولز جیسے پروجیکٹس بھی ہیں جن کا عوام کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کے اس اوپن ڈیفکیشن فری پنجاب پروجیکٹ کے ثمرات بُزدار حکومت کے دور اقتدار تک محدود رہیں گے یا زمانے کا تغیر و تبدل ان پر اثرانداز نہ ہوسکے گا۔
کھلی جگہوں پر انسانی فضلہ سے عوامی صحت کو لاحق خطرات کا اندزہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض ایک گرام انسانی فضلے کے اندر دس کروڑ وائرس، ایک کروڑ سے زائد بیکٹریا ہوسکتے ہیں۔
اس میں ایک ہزار طفیلیہ (پیراسائیٹس) نقصان دہ کیڑوں کے انڈوں کی تھیلیاں ہوسکتی ہیں جو جان لیوا امراض کا باعث بن سکتی ہیں، اس میں پیٹ کے کیڑوں کے سو انڈے موجود ہو سکتے ہیں جو مکھیوں اور مچھروں کے جسم سے چمٹ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ کر انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اور انسان کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ بیماریوں کے اس پھیلاو کی سب سے بڑی وجہ تمام لوگوں کو لیٹرین کی سہولت کا حاصل نہ ہونا ہے جس کے باعث انہیں رفع حاجت کے لئے کھلی جگہوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔
اس کی ایک مثال افریقی ملک نائیجریا ہے جہاں بڑے پیمانے پر کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے باعث صحت کے پیچیدہ مسائل جنم لے چکے ہیں۔ عالمی بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں ہر سال صرف ہیضہ سے 122,000 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
واش رومزاور باتھ رومز یعنی لیٹرین اور غسل خانہ اسی ضرورت کی تکمیل کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام عوامی جگہوں پر باتھ رومز موجود ہوں۔ انسانی فضلے کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے کا اس سے بہترین کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ ایکو سسٹم یعنی ہمارے ماحول کی بقاء کے لئے بھی یہ ضروری تھا کیونکہ اگر یہی فضلہ کھلا رہے تو جہاں گندگی اور تعفن پیدا ہوتا ہے وہیں یہ پانی میں جا کر ہیپٹائٹس سی اور بی جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
جبکہ واش رومز کے نظام میں قدرتی طور پر یہ فضلہ زمین مٹی کا حصہ بن کر اس کی ذرخیزی میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور اسی کو سائینس کی زبان میں ری سائیکلنگ کہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سینیٹیشن(گندے پانی کے محفوظ نکاس کا انتظام) کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے بہت کام کیا گیا ہے اور خصوصاً پبلک واش رومز بنائے گئے ہیں جو کے پارکوں، ریلوے اسٹیشنز، بس اسٹیشنز، مارکیٹوں، پلازوں، کمرشل ایریاء اور دیگر جگہوں پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ مردوں اور خواتین دونوں کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔
کینیڈا ایک ترقی یافتہ مملک ہے ، یہاں پر عوام کی سہولت کے لئے پبلک واش رومز ہر شہری کی دسترس میں ہیں ۔ خصوصاً پارکوں اور کھلے سیاحتی مقامات میں تھوڑے فاصلے پر پبلک ٹوالٹ ملتے ہیں۔ موجودہ کورونا وباء کے بعد سے کینیڈا کی حکومت نے اس امر کو مزید سنجیدگی سے لیا ہے اور کھلے مقامات پر جہاں آب و ہوا صاف ہو وہاں لوگوں کی آمد و رفت کی حوصلہ افزائی کے لئے پبلک واش رومز کی تعداد بڑھانے پر زور دیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر سہولیات کی فراہمی کی درجہ بندی کرنے والی ایک ویب سائٹ نے جاپان کے شہر ٹوکیو کو دنیا کے سب سے صاف ستھرے پبلک واش رومز والا ملک قرار دیا ہے۔واش رومز میں موجود سہولیات کی بات کی جائے تو وہاں کے واش رومز بھی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔
یہاں تک کے استعمال کرنے والے کو ٹوائلٹ پیپر یا پانی کا استعمال بھی خود سے نہیں کرنا پڑتا۔ اگر واش روم میں فلش کرنے کی آواز آپ کو پریشان کرتی ہے تو اسے بھی میوٹ کر سکتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کے یہ بالکل فری ہیں یعنی ان کو استعمال کرنے کے لئے کوئی پیسے نہیں دینے پڑتے ۔ یہ عموماً پارکوں،ٹرین سٹیشنوں ، ہوٹلوں، ڈپارٹمنٹل سٹورز اور سیاحتی مراکز میں فراہم کئے گئے ہیں۔ پبلک واش رومز کی درجہ بندی میں دوسرا نمبر چین کے شہر شنگہائی کا آتا ہے۔
چین نے اپنے ملک میں بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ بہتر بنانے کا عزم کیااور اسی سلسلے کی ایک کڑی ٹوائلٹ کی سہولت کو مثالی بنانا تھی جس کے تحت سن 2015-17کے بیچ 68,000پبلک واش رومز تعمیر کئے گئے جو کے مغربی طرز پر بنائے گئے۔ ان کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کے لئے اٹینڈنٹ بھی موجود رہتے تاکہ کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔تیسرے نمبر پر سوئٹززرلینڈ کے سب سے بڑے شہر زیورخ کا نام آتا ہے جو کے بے داغ صاف ستھرے پبلک ٹوائلٹ رکھنے کا امتیاز رکھتا ہے۔
انھیں ایک مرتبہ استعمال کرنے کے لئے رقم تو ادا کرنا پڑتی ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کے یہ ہر عوامی مقام پر ملتے ہیں۔ سٹاک ہولم، سویڈ ن کے دارلحکومت کا نمبر اس فہرست میں چوتھا ہے۔ یہاں کے پبلک واش رومز میں گھومنے والی نشتیں ہیں وسیع جگہ اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھا گیا ہے۔ تمام سیاحتی مقامات پہ واش رومز کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔شہر کے کچھ حصوں میں ان واش رومز کو استعمال کرنے کے لئے انتہائی کم پیسے درکار ہوتے ہیں جبکہ چالیس کے قریب ایسے واش رومز ہیں جن میں داخلہ بلکل مفت ہے۔
یہ تو وہ مثالیں ہیں جو ہمیں ایک بہتر دنیا سے روشناس کراتی ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ بہت بھیانک ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں رفع حاجت کی سہولت سے محروم افراد کی تعداد ساڑھے پچاس کروڑ تھی۔ گندگی کا یہ بے پناہ پھیلاؤ ہر برس 5 سال سے کم عمر ایک لاکھ سے زائد بچوں کی موت کا سبب بنتا تھا۔ 2014 میں اقوام متحدہ مدد اور اعانت سے ''سواچ بھارت مشن'' (ایس بی ایم) کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے باعث سرکاری دعوؤں کے مطابق 50 کروڑ لوگوں کو رفع حاجت کی بنیادی سہولتیں فراہم کر دی گئی ہیں، جبکہ صرف اب 5 کروڑ لوگ اس سہولت سے محروم رہ گئے ہیں۔ یہ بھارتی سرکار کا دعویٰ ہے اصل حقائق ضروری نہیں کہ اس دعویٰ سے مطابقت رکھتے ہوں۔
آزاد ذرائع سے سامنے آنے والی مختلف رپورٹس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ بھارت کی 70فیصد سے زائد آبادی اب بھی پبلک واش رومز کی سہولت سے محروم ہے۔ صرف پبلک واش رومز ہی نہیں بلکہ حال ہی میںنیشنل سٹیٹسٹک آفس کی جانب سے ایک آفیشل دستاویز میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کے انڈیا کے دیہاتوں کی ایک تہائی آبادی کو گھروں میں واش رومز کی سہولت میسر نہیں۔ جبکہ اس کے قبل مودی حکومت نے شخی بھگارتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کے انڈیا کے دیہاتوں میں 100فیصد لوگوں کو اوپن ڈیفیکیشن پروگرام کے تحت ٹوالٹ کی سہولت دی جا چکی ہے ۔
لیکن اس رپورٹ نے سارے جھوٹ کا پردہ فاش کر کے رکھ دیا اور مودی حکومت کی نااہلی کو سامنے لے آئی۔بہت سی رپورٹس چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہیں کے بھارت مین پبلک ٹوالٹ کی حالتِ زار کی اصل ذمہ دار حکومت ہے جو کے عوامی ضرورتوں کے لئے کم سے کم بجٹ وقف کرتی ہے، جس خمیازہ عوام کو بُھگتنا پڑتا ہے۔
پاکستان جہاں اور بہت سے مسائل کا شکار ہے وہیں عوامی مقامات اور بعض دیہی علاقوں میں گھروں کے اندر لیٹرین کی مناسب سہولت کی عدم فراہمی بھی ایک بہت گمبھیر عوامی مسلہ ہے۔ ملک میں ہر برس گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث 94 ہزار افراد لقمہ اَجل بن جاتے ہیں جبکہ اسی وجہ سے 53 ہزار بچے 5 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں2کروڑ 20 لاکھ افراد رفع حاجت کے لیے کھلی جگہوں کے استعمال پر مجبور ہیں جو ملک کی کل آبادی کا 10 فیصد حصہ ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کی دیہی آبادی کے 59.6 فی صد لوگ ہاتھوں کی صفائی ستھرائی کی بنیادی سہولتوں تک مکمل آسان رسائی نہیں رکھتے جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔ عموماً عوامی مقامات پر رفع حاجت کے لئے واش روم موجود ہی نہیں ہوتے اور اگر ایک آدھ ہوں بھی ہو تو لوگوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے دیر تک باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے مزید یہ کہ ان کی حالت بھی انتہائی خراب ہوتی ہے۔
اگر کسی خاتون کو واش روم جانے کی حاجت ہو تو مردانہ واش روم ہی استعمال کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بہت سے عوامی مقامات پر تو سرے سے واش روم ہیں ہی نہیں اور جہاں ہیں وہاں خواتین کے لئے مخصوص نہیں کیا گیا۔ مگر اس صورت حال میں بھی پاکستان میں پبلک واش رومز کی حالت ہمسایہ ملک کی نسبت کافی بہتر ہے۔گو کے سابقہ حکومتوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اسے اپنی ترجیحات کی فہرست میں اُخری درجہ دیا لیکن پاکستان اور خصوصاً پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ''اوپن ڈیفیکیشن فری پروجیکٹ'' کا اجراء کیا گیا۔ ناقص سینی ٹیشن کے وبال سے جان چھڑانے کے لئے اب وزیر اعلٰی پنجاب کی ہدایات پر ''اوپن ڈیفیکیشن فری پنجاب پروجیکٹ'' کا آغاز کیا گیا ہے۔
اس حقیقت سے شاید کم ہی لوگ آشنا ہوں گے کے صوبے کے دیہاتوں میں80فیصد لوگ ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں جس کی تائید ملٹی پل انڈیکیٹرکلسٹر سروے کی رپورٹ نے کی ۔ یونیسیف کے تعاون سے مارچ 2020 میںشروع ہونے والے اس پروجیکٹ کے تحت 10اضلاع جن کے دیہی علاقوں میں کھلی جگہوں پر رفع حاجت کی شرح 20فیصد سے زائد ہے جن میں جھنگ، چنیوٹ، رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، لودھراں،بھکر ، خوشاب، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور شامل ہیں، ان اضلاع کے 1775دیہات میں 2022ء تک ایک لاکھ95ہزار ٹائلٹ بنائے جائیں گے۔
اس منصوبے کے تحت ان علاقوں میں آگہی پروگراموں کے ذریعے 50 لاکھ افراد تک رسائی حاصل کی جائے گی جبکہ 13لاکھ افراد کو ٹائلٹ بنانے کیلئے ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ 802دیہاتوں کی نشاندہی کے بعد مقامی آبادی میں آگاہی پیدا کرنے کی مہم شروع کی جا چکی ہے اور واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائی جین کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ ٹائلٹ کی سہولت نہ رکھنے والے 30 ہزار سے زائد غریب خاندانوں کو ٹائلٹ بنانے کا سامان فراہم بھی کر دیا گیا ہے۔ وزیرہاؤسنگ و اربن ڈویلپمنٹ پنجاب میاں محمودالرشید نے دعواء بھی کیا ہء کے اس پروجیکٹ سے75 ہزار سے زائد خاندان مستفید ہوں گے۔
منصوبوں کا اجراء کردینا کوئی بڑی پیش رفت نہیںہوتی بلکہ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ منصوبہ مستقل بنیادوں پر متعلقہ سہولیات عوام کو فراہم کرتا رہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وقتی سیاسی فوائد حاصل کرنے کی روش رہی ہے جس کے باعث منصوبے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بنائے جاتے ہیں اور پھر بڑی بڑی رقمیں ضائع کر کے یہ منصوبے ختم کرنا پڑے۔ بہترین حکمت عملی کے ساتھ بنائے جانے والے منصوبے عوام کو دیرپا فوائد مہیا کرتے ہیں۔ ریسکیو1122 ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جس نے پنجاب کے عوام کو غیر معمولی فوائد بہم پہنچائے۔ اس منصوبے کا آغاز اکتوبر 2004 میں ہوا جب چودھری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلٰی تھے اور یہ سہولت نہ صرف یہ کہ آج دن تک جاری ہے بلکہ اس نے دیگر علاقوں تک وسعت اختیار کی ہے۔
بہت سے لوگ بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے تھے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اُس وقت کی حکومت پنجاب نے اس ایمرجنسی سروس کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ منصوبہ دیانتداری کے ساتھ مکمل سوچ بچار کے بعد شروع کیا گیا اسی لئے کامیابی کے ساتھ جاری وساری ہے۔سال 2020ء تک اس سروس نے 86 لاکھ لوگوںکو ہنگامی حالت میں مدد فراہم کر کے زندگیوں کو محفوظ بنایا ۔ آگ بجھانے والی جدید سروس نے آتش زدگی کے 150,000 واقعات میں بروقت کارروائی کرکے 450 ارب روپے کے نقصان کو ہونے سے بچایا جبکہ موٹر بائیک ایمبولینس سروس نے 60 ہزار ایمرجنسی کے واقعات میں کارروائی کی۔ ان کے حادثے کے مقام پر پہنچنے کا اوسط وقت 4 منٹ رہا۔
دوسری جانب بد دیانتی اور ناقص حکمت عملی کی مثالیں بھی موجود ہیں جس کی ایک مثال ن لیگ کے دور میں شروع ہونے والی سستی روٹی ا سکیم تھی۔ اس منصوبے کے تحت عوام کو کم قیمت پر روٹی فراہم کی جانی تھی لیکن 2009 سے 2011 تک کمرشل بینکوں کو 7 ارب 85 کروڑ روپے کے قرضوں کی عدم ادائیگی پر اس اسکیم کو اربوں روپے برباد کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری کی نذر کرنا پڑا۔سستی روٹی کے لیے سبسڈی سیاسی رشوت بن گئی۔
اکتوبر 2006 سے صوبائی حکومت نے اس اسکیم کے لیے 9 ارب روپے سے زائد رقم فراہم کی جو اقربا پروری اور کرپشن کی نذر ہوگئی۔ حکومت کا اس اسکیم کے ذریعے اپنے لوگوں کو نوازنے پر اس قدر اصرار تھا کہ اس اسکیم کی مخالفت کرنے پر دو صوبائی سیکرٹریوں ، ایک کمشنر اور تین ضلعی رابطہ افسروں کو ان کہ عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہیپاٹائٹس سی اور بی کے مریضوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے۔ ان امراض کے پھیلاؤ میں بھی پینے کے پانی میں انسانی فضلے کی ملاوٹ ایک بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان 2030 تک ملک سے ہیپاٹائٹس کے مکمل خاتمے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کی کامیاب تکمیل اسی صورت ممکن ہے اگر ملک کے تمام لوگوں کو ٹائلٹ کی مناسب سہولت حاصل ہوجائے۔
ماضی میں ریسکو 1122 اور اوپن فلٹریشن پلانٹس جیسے پراجیکٹس کامیاب رہے کیونکہ حکومتوں کے بدلنے نے بھی ان کی کارکردگی کو متاثر نہ کیا۔ مگر اس کے مقابل ہی دانش سکولز جیسے پروجیکٹس بھی ہیں جن کا عوام کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کے اس اوپن ڈیفکیشن فری پنجاب پروجیکٹ کے ثمرات بُزدار حکومت کے دور اقتدار تک محدود رہیں گے یا زمانے کا تغیر و تبدل ان پر اثرانداز نہ ہوسکے گا۔