انتہا ہوگئی
بی جے پی حکومت کی اس مسلم دشمنی پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔
عالمی تھنک ٹینک تنظیم ''فریڈم ہاؤس'' نے اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت کو آزاد ملک کی فہرست سے ہٹا کر جزوی آزاد ملک کا درجہ دے دیا ہے۔ یہ تنظیم سالہا سال سے دنیا کے تمام ممالک کے عوام کے انسانی حقوق اور سیاسی آزادی کا جائزہ لے کر ان کی درجہ بندی کرتی ہے۔ جب سے بھارت میں انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی ہے، یہ تنظیم مسلسل بھارت کی درجہ بندی کم کرتی جارہی ہے۔
اس رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ بھارت ایک انتہا پسند مذہبی ملک بننے کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ وہاں سیکولر ازم کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، اب بھارت سیکولر ملک نہیں رہا اور شاید آگے بھی میانہ روی کی جانب نہ لوٹ سکے اس لیے کہ مودی جس انداز سے اس وقت ہندو توا کو بھارت کے طول و ارض میں پھیلانے میں مصروف ہے۔ اس سے بھارت کی روز بروز شکل بگڑتی جا رہی ہے۔ مستقبل میں بھارت ایک کٹر ہندو ملک کے طور پر پہچانا جائے گا وہاں سختی سے اقلیتوں کو بھارت سے نکالنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔
اقلیتوں کے بارے میں فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ان کی جان و مال اور عزت کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اقلیتوں میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے انھیں تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں گائے جیسے جانورکو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ گائے کو صرف چھونے کی سزا میں مسلمانوں کو بے دریغ سڑکوں پر پیٹ پیٹ کر قتل کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو کورونا پھیلانے کا بھی ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال دلی کی ایک مسلم بستی پر آر ایس ایس کے غنڈوں نے حملہ کرکے وہاں نہ صرف سو سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا بلکہ سیکڑوں گھروں میں لوٹ مار کی اور انھیں نذر آتش کردیا، مسجدوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اس دہشت گردی میں پولیس بھی بلوائیوں کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی۔ اب اس سانحے کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ قاتل دھڑلے سے آزاد پھر رہے ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس قتل عام کا مسلمانوں کو ہی ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے اس علاقے کے کئی بااثر مسلمانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی اس سانحے پر بالکل خاموش رہے۔ ان کے وزرا متاثرہ مسلمانوں سے ہمدردی جتانے کے بجائے قاتلوں کی طرف داری کر رہے ہیں اور ان کے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کو جائز قرار دے رہے ہیں۔
فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو ہندو غنڈوں سے پہنچنے والے نقصانات کا بھی ذکرکیا گیا ہے ساتھ ہی مسلمانوں کے دینی مدرسوں پر حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کا بھی ذکرکیا گیا ہے۔ مودی حکومت نے بھارت میں نئی مسجدیں تعمیر کرنے کے لیے حکومت سے پہلے منظوری لینا لازمی قرار دیا ہے۔ نئے اسلامی مدرسوں کے کھولنے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔
اب ایک سال قبل سے مسلمانوں کے مدرسوں میں زیادہ مداخلت کی جا رہی ہے کئی مدرسوں کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے کر بند کردیا گیا ہے۔ مدرسوں میں رامائن اور گیتا پڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے یہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں ایسی بے جا مداخلت ہے جسے کسی طرح بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ بی جے پی حکومت کی اس مسلم دشمنی پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔
انھوں نے اس زیادتی کے خلاف سخت تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزارت تعلیم سے رجوع کیا ہے جس کے جواب میں وہاں سے اس سلسلے میں صفائی پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رامائن اور گیتا کی تعلیم حاصل کرنا مدارس کے طلبا کے لیے اختیاری ہوگا۔ مسلمان مذہبی اسکالرز اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات فراہم کرنا ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بھارتی اردو اخبار روزنامہ ''جدید خبر'' کے مدیر معصوم مراد آبادی نے کہا ہے کہ یوں تو بی جے پی کی حکومت باقاعدہ سازش کے تحت بھارت کے مسلمانوں کے تمام کلیدی شعبوں کو اپنے انتہا پسندانہ نظریات سے پلید کر رہی ہے انھوں نے مزید کہا کہ دراصل اس کا مقصد مسلمان طلبا کی برین واشنگ کرکے انھیں ہندوتوا میں ضم کرنا ہے۔ بھارت کے مدرسوں میں بھارتی آئین کی دفعہ 25 کے تحت آزادی سے اسلامی تعلیم دی جانی چاہیے۔
بھارت کے وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نے چند روز پہلے اپنے بیان میں نئے نصاب کو مدارس میں لاگو کرنے کا اعلان کیا تھا انھوں نے بتایا کہ نئے نصاب میں رامائن اور گیتا کو پڑھانے کے علاوہ ہندو طریقہ علاج یوگا کی مشقیں اور سوریہ نمسکار شامل ہیں جب کہ عملی مشق کے تحت گائے چرانے گوشالاؤں کی صفائی وغیرہ شامل ہے۔
مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود ہندو ثقافت کو نئی مسلم نسل تک پہنچانے کے لیے نئے نصاب کو سو سے زیادہ مدرسوں میں شروع کیا جا رہا ہے۔ ان مدرسوں میں تقریباً پچاس ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں اور مستقبل میں اسے مزید 500 مدرسوں تک توسیع دی جانی ہے۔ مسلمان سیاسی رہنما بھی اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مسلمانوں کے مدرسوں میں گیتا اور رامائن پڑھانا چاہتی ہے تو وہ انتہا پسند آر ایس ایس کے تحت چلنے والے پاٹھ شالاؤں میں قرآن کی تعلیم شروع کیوں نہیں کرتی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ بھارتی آئین کے تحت مسلم مدرسے نصاب کے سلسلے میں اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں کوئی سرکاری ادارہ یا تنظیم انھیں حکم دینے کی مجاز نہیں ہے۔
مودی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے وہ مسلسل اسلام پر وارکر رہا ہے۔ سب سے پہلے طلاق کے معاملے میں مداخلت کی اس کے بعد پورے بھارت میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کردی۔ بعض ہندو بھی گائے کے گوشت کے شوقین ہیں مگر انھیں بھی اس سے محروم کردیا گیا۔ رام مندر کے معاملے میں ہندوؤں کے جذبات بڑھا کر مسجد کو منہدم کردیا گیا تھا اب اعلیٰ عدلیہ کی مدد سے رام مندر کی تعمیر شروع کردی گئی ہے اب آر ایس ایس کے غنڈوں کی نظریں تاج محل، جامع مسجد دہلی، قطب مینار اور اس سے ملحق قوت الاسلام مسجد پر ہیں۔ ان کے مطابق یہ تمام مسلم عمارتیں ہندو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔
حال ہی میں ہندو انتہا پسندوں کی ایک جماعت نے عدالت میں درخواست دی ہے کہ انھیں مسجد قوۃ الاسلام کے احاطے میں پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ مسجد کئی مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں مندروں کے پتھر استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ یہ قدیم مندر اپنی اصل حالت میں نہیں تھے بلکہ ٹوٹ پھوٹ کر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے چنانچہ مندروں کے ملبے سے یہ مسجد تعمیر ہوئی اور اسی وجہ سے اس وقت کے ہندوؤں کو اس کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
اس رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ بھارت ایک انتہا پسند مذہبی ملک بننے کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ وہاں سیکولر ازم کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، اب بھارت سیکولر ملک نہیں رہا اور شاید آگے بھی میانہ روی کی جانب نہ لوٹ سکے اس لیے کہ مودی جس انداز سے اس وقت ہندو توا کو بھارت کے طول و ارض میں پھیلانے میں مصروف ہے۔ اس سے بھارت کی روز بروز شکل بگڑتی جا رہی ہے۔ مستقبل میں بھارت ایک کٹر ہندو ملک کے طور پر پہچانا جائے گا وہاں سختی سے اقلیتوں کو بھارت سے نکالنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔
اقلیتوں کے بارے میں فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ان کی جان و مال اور عزت کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اقلیتوں میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے انھیں تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں گائے جیسے جانورکو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ گائے کو صرف چھونے کی سزا میں مسلمانوں کو بے دریغ سڑکوں پر پیٹ پیٹ کر قتل کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو کورونا پھیلانے کا بھی ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال دلی کی ایک مسلم بستی پر آر ایس ایس کے غنڈوں نے حملہ کرکے وہاں نہ صرف سو سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا بلکہ سیکڑوں گھروں میں لوٹ مار کی اور انھیں نذر آتش کردیا، مسجدوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اس دہشت گردی میں پولیس بھی بلوائیوں کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی۔ اب اس سانحے کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ قاتل دھڑلے سے آزاد پھر رہے ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس قتل عام کا مسلمانوں کو ہی ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے اس علاقے کے کئی بااثر مسلمانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی اس سانحے پر بالکل خاموش رہے۔ ان کے وزرا متاثرہ مسلمانوں سے ہمدردی جتانے کے بجائے قاتلوں کی طرف داری کر رہے ہیں اور ان کے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کو جائز قرار دے رہے ہیں۔
فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو ہندو غنڈوں سے پہنچنے والے نقصانات کا بھی ذکرکیا گیا ہے ساتھ ہی مسلمانوں کے دینی مدرسوں پر حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کا بھی ذکرکیا گیا ہے۔ مودی حکومت نے بھارت میں نئی مسجدیں تعمیر کرنے کے لیے حکومت سے پہلے منظوری لینا لازمی قرار دیا ہے۔ نئے اسلامی مدرسوں کے کھولنے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔
اب ایک سال قبل سے مسلمانوں کے مدرسوں میں زیادہ مداخلت کی جا رہی ہے کئی مدرسوں کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے کر بند کردیا گیا ہے۔ مدرسوں میں رامائن اور گیتا پڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے یہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں ایسی بے جا مداخلت ہے جسے کسی طرح بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ بی جے پی حکومت کی اس مسلم دشمنی پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔
انھوں نے اس زیادتی کے خلاف سخت تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزارت تعلیم سے رجوع کیا ہے جس کے جواب میں وہاں سے اس سلسلے میں صفائی پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رامائن اور گیتا کی تعلیم حاصل کرنا مدارس کے طلبا کے لیے اختیاری ہوگا۔ مسلمان مذہبی اسکالرز اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات فراہم کرنا ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بھارتی اردو اخبار روزنامہ ''جدید خبر'' کے مدیر معصوم مراد آبادی نے کہا ہے کہ یوں تو بی جے پی کی حکومت باقاعدہ سازش کے تحت بھارت کے مسلمانوں کے تمام کلیدی شعبوں کو اپنے انتہا پسندانہ نظریات سے پلید کر رہی ہے انھوں نے مزید کہا کہ دراصل اس کا مقصد مسلمان طلبا کی برین واشنگ کرکے انھیں ہندوتوا میں ضم کرنا ہے۔ بھارت کے مدرسوں میں بھارتی آئین کی دفعہ 25 کے تحت آزادی سے اسلامی تعلیم دی جانی چاہیے۔
بھارت کے وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نے چند روز پہلے اپنے بیان میں نئے نصاب کو مدارس میں لاگو کرنے کا اعلان کیا تھا انھوں نے بتایا کہ نئے نصاب میں رامائن اور گیتا کو پڑھانے کے علاوہ ہندو طریقہ علاج یوگا کی مشقیں اور سوریہ نمسکار شامل ہیں جب کہ عملی مشق کے تحت گائے چرانے گوشالاؤں کی صفائی وغیرہ شامل ہے۔
مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود ہندو ثقافت کو نئی مسلم نسل تک پہنچانے کے لیے نئے نصاب کو سو سے زیادہ مدرسوں میں شروع کیا جا رہا ہے۔ ان مدرسوں میں تقریباً پچاس ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں اور مستقبل میں اسے مزید 500 مدرسوں تک توسیع دی جانی ہے۔ مسلمان سیاسی رہنما بھی اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مسلمانوں کے مدرسوں میں گیتا اور رامائن پڑھانا چاہتی ہے تو وہ انتہا پسند آر ایس ایس کے تحت چلنے والے پاٹھ شالاؤں میں قرآن کی تعلیم شروع کیوں نہیں کرتی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ بھارتی آئین کے تحت مسلم مدرسے نصاب کے سلسلے میں اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں کوئی سرکاری ادارہ یا تنظیم انھیں حکم دینے کی مجاز نہیں ہے۔
مودی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے وہ مسلسل اسلام پر وارکر رہا ہے۔ سب سے پہلے طلاق کے معاملے میں مداخلت کی اس کے بعد پورے بھارت میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کردی۔ بعض ہندو بھی گائے کے گوشت کے شوقین ہیں مگر انھیں بھی اس سے محروم کردیا گیا۔ رام مندر کے معاملے میں ہندوؤں کے جذبات بڑھا کر مسجد کو منہدم کردیا گیا تھا اب اعلیٰ عدلیہ کی مدد سے رام مندر کی تعمیر شروع کردی گئی ہے اب آر ایس ایس کے غنڈوں کی نظریں تاج محل، جامع مسجد دہلی، قطب مینار اور اس سے ملحق قوت الاسلام مسجد پر ہیں۔ ان کے مطابق یہ تمام مسلم عمارتیں ہندو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔
حال ہی میں ہندو انتہا پسندوں کی ایک جماعت نے عدالت میں درخواست دی ہے کہ انھیں مسجد قوۃ الاسلام کے احاطے میں پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ مسجد کئی مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں مندروں کے پتھر استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ یہ قدیم مندر اپنی اصل حالت میں نہیں تھے بلکہ ٹوٹ پھوٹ کر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے چنانچہ مندروں کے ملبے سے یہ مسجد تعمیر ہوئی اور اسی وجہ سے اس وقت کے ہندوؤں کو اس کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔