فتویٰ
حکومت اور کار پردازان حکومت کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ پوری قوم کی نگاہوں میں ہوتے ہیں
طلال چوہدری نے ایک بات کہی، بلاول بھٹو زرداری نے اس کا ترنت جواب دیا اور بات تقریباً ختم ہو گئی۔ سمجھ دار لوگ ایسی باتیں اسی طرح نظر انداز کر دیا کرتے ہیں۔ اصولاً اب اس کے تذکرے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے لیکن اس معاملے کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی اہمیت موجودہ ماحول میں کئی وجہ سے اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
غالب کی یاد آتی ہے۔ غالب شاعر ہونے کے علاوہ نجم الدولہ تھے، دبیر الملک تھے لیکن لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی وہ کوئی دوراندیش صوفی بھی تھے جو اپنے عہد کو مختلف زاویوں سے جانچنے، پرکھنے کے علاوہ آنے والے زمانوں کی اونچ نیچ، ان کے اسرار و رموز اور بوالعجبیوں کو سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔ ان کا ایک شعر ہے
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
بھول جائیے کہ یہ شعر جب ان سے سرزد ہوا ہو گا تو ان کے گرد و پیش کا منظر کیساہو گا،اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالیے، ایسا لگتا ہے کہ یہ عدیم النظیر شاعر جو کچھ بھی کہتا ہے، ہمارے عہد کے تماشوں کو دیکھ کر کہتا ہے۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے پہلے کیمروں والا جو تماشا ہوا اور اس کی جو توجیہات سامنے آئیں، انھیں دیکھ اور سن کر ہنسی آتی ہے یا بے بسی کارونا کہ ہمارے ارباب بست و کشاد نے نظام مملکت کو وہ کچھ بنا دیا ہے جس کی تعریف کا تعین حضرت غالب نے ڈیڑھ دو سو برس پہلے ہی کر دیا تھا کہ کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا۔
حکومت اور کار پردازان حکومت کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ پوری قوم کی نگاہوں میں ہوتے ہیں اور ان کی بوالعجبیاں، غلطیاں اور لطیفے فوراً سامنے آ جاتے ہیں اور لوگ ان سے چوں کہ ایسے طرز عمل کی توقع نہیں رکھتے، اس لیے پریشان اور دکھی ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ اہل سیاست اور حکمران طبقات کی غالب اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ معاشرے میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے تو یہ کچھ ایسا بے جواز بھی نہیں کیوں کہ اس کی تائید میں درجنوں نہیں سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
مخالفین کے بارے میں تنگ نظری سے کام لینے اور ان کے لیے نامناسب انداز گفتگو کی روایت صرف سیاست دانوں اور حکمرانوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ علم و حکمت میں درک اور سنجیدگی کی شہرت رکھنے والے دانش وروں کو بھی اب اس سے استثنا نہیں ۔ ابھی کچھ دن ہوتے ہیں، ایک نیک نام سیاست دان سینیٹر مشاہد اللہ خان کا انتقال ہوا تو برادر محترم خورشید ندیم نے انھیں بڑے مناسب الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ خورشید ندیم نے مشاہد اللہ خان کی باکمال تقریری صلاحیت، ابتذال سے پاک الفاظ کے چناؤ، عمدہ شعری ذوق، ان کی استقامت اور ثابت قدمی کا تذکرہ کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ یہ شاید اس لیے تھا کہ ان کی تربیت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے مدرسہ فکر میں ہوئی۔
یہ بیان کسی اعتبار سے غلط نہیں، مشاہد اللہ خان جمیعت میں بھی رہے اور جماعت کی حامی مزدور تنظیموں سے بھی وابستہ رہے لیکن جماعت اسلامی کے انداز سیاست کو اپنے لیے موزوں نہ پایا تو مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ ایک فاضل دوست کو ان کا یہی عمل پسند نہیں آیا اور انھوں نے مرنے والے کو بد خلائق قرار دے دیا۔
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا شمار ان بڑے مفکرین اور مصنفین میں ہوتا ہے جنھوں نے اس عہد کو عالم گیر سطح پر متاثر کیا ہے۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی ان ہی کی فکر پر قائم ہوئی اور جماعت آج بھی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی تمام تر تگ و تاز کی بنیاد ان ہی کی فکر کے مطابق ہے لیکن کیا ان کی فکر میں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اختلاف کریں، کسی وجہ سے(جو دو طرفہ بھی ہو سکتی ہے) کوئی آپ کے ساتھ نہ چل سکے، ایمان داری سے کوئی مختلف رائے اختیار کر لے یا کوئی مختلف سیاسی پلیٹ فارم اختیار کر لے، اسے بد خلق کی گالی سے نوازا جائے؟ گالی تو الگ رہی سید ابوالاعلیٰ نے تو کسی گالی دینے والے کو بھی پلٹ کر گالی نہیں دی۔
کسی مرنے والے کو کس انداز میں یاد کیا جاتا ہے، ہماری تہذیبی روایت اس معاملے میں بڑی واضح ہے۔ اس دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کو ہمارے ہاں اگر کوئی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کر پاتا تو برا انداز بھی اختیار نہیں کرتا۔ دین کی تعلیمات تو بالکل واضح ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مرحومین کو اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے اور ان کی مغفرت اور بخشش کے لیے دعا کی جائے۔ وہ دوست جو آج مولانا مودودی کی فکر کے علم بردار بن کر لوگوں کو بدخلق قرار دیتے ہیں، انھوں نے اپنی گفتار و عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ مولانا مودودی کی فکر کو سمجھتے ہیں، نہ دینی تعلیمات کو اور نہ مشرقی یا پاکستانی تہذیب کو۔ وہ صرف اور محض ایک عصبیت پر راسخ ہیں۔
کسی کو اختلاف رائے کے حق سے محروم کرنا، اس کی نیت پر شبہ بلکہ حملہ کرنا اور اسے فکری آزادی نہ دینا بجائے خود معیوب ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں شدت اور تلخی تو پیدا ہو سکتی ہے، کوئی مثبت قدر نہیں پنپ سکتی۔ جو لوگ اس قسم کے شرم ناک خطابات سے مخالفین کو سرفراز کرتے ہیں، وہ اپنی اجتماعیت کو مزید محدود کرنے اور معاشرے میں نکو بنانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس طرز عمل کو زعم تقویٰ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ اہل حکم اور اہل سیاست ہی نہیں، اس عہد میں اہل دانش کے جانشینوں پر بھی بچپنا غالب آ چکا ہے۔
غالب کی یاد آتی ہے۔ غالب شاعر ہونے کے علاوہ نجم الدولہ تھے، دبیر الملک تھے لیکن لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی وہ کوئی دوراندیش صوفی بھی تھے جو اپنے عہد کو مختلف زاویوں سے جانچنے، پرکھنے کے علاوہ آنے والے زمانوں کی اونچ نیچ، ان کے اسرار و رموز اور بوالعجبیوں کو سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔ ان کا ایک شعر ہے
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
بھول جائیے کہ یہ شعر جب ان سے سرزد ہوا ہو گا تو ان کے گرد و پیش کا منظر کیساہو گا،اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالیے، ایسا لگتا ہے کہ یہ عدیم النظیر شاعر جو کچھ بھی کہتا ہے، ہمارے عہد کے تماشوں کو دیکھ کر کہتا ہے۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے پہلے کیمروں والا جو تماشا ہوا اور اس کی جو توجیہات سامنے آئیں، انھیں دیکھ اور سن کر ہنسی آتی ہے یا بے بسی کارونا کہ ہمارے ارباب بست و کشاد نے نظام مملکت کو وہ کچھ بنا دیا ہے جس کی تعریف کا تعین حضرت غالب نے ڈیڑھ دو سو برس پہلے ہی کر دیا تھا کہ کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا۔
حکومت اور کار پردازان حکومت کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ پوری قوم کی نگاہوں میں ہوتے ہیں اور ان کی بوالعجبیاں، غلطیاں اور لطیفے فوراً سامنے آ جاتے ہیں اور لوگ ان سے چوں کہ ایسے طرز عمل کی توقع نہیں رکھتے، اس لیے پریشان اور دکھی ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ اہل سیاست اور حکمران طبقات کی غالب اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ معاشرے میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے تو یہ کچھ ایسا بے جواز بھی نہیں کیوں کہ اس کی تائید میں درجنوں نہیں سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
مخالفین کے بارے میں تنگ نظری سے کام لینے اور ان کے لیے نامناسب انداز گفتگو کی روایت صرف سیاست دانوں اور حکمرانوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ علم و حکمت میں درک اور سنجیدگی کی شہرت رکھنے والے دانش وروں کو بھی اب اس سے استثنا نہیں ۔ ابھی کچھ دن ہوتے ہیں، ایک نیک نام سیاست دان سینیٹر مشاہد اللہ خان کا انتقال ہوا تو برادر محترم خورشید ندیم نے انھیں بڑے مناسب الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ خورشید ندیم نے مشاہد اللہ خان کی باکمال تقریری صلاحیت، ابتذال سے پاک الفاظ کے چناؤ، عمدہ شعری ذوق، ان کی استقامت اور ثابت قدمی کا تذکرہ کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ یہ شاید اس لیے تھا کہ ان کی تربیت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے مدرسہ فکر میں ہوئی۔
یہ بیان کسی اعتبار سے غلط نہیں، مشاہد اللہ خان جمیعت میں بھی رہے اور جماعت کی حامی مزدور تنظیموں سے بھی وابستہ رہے لیکن جماعت اسلامی کے انداز سیاست کو اپنے لیے موزوں نہ پایا تو مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ ایک فاضل دوست کو ان کا یہی عمل پسند نہیں آیا اور انھوں نے مرنے والے کو بد خلائق قرار دے دیا۔
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا شمار ان بڑے مفکرین اور مصنفین میں ہوتا ہے جنھوں نے اس عہد کو عالم گیر سطح پر متاثر کیا ہے۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی ان ہی کی فکر پر قائم ہوئی اور جماعت آج بھی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی تمام تر تگ و تاز کی بنیاد ان ہی کی فکر کے مطابق ہے لیکن کیا ان کی فکر میں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اختلاف کریں، کسی وجہ سے(جو دو طرفہ بھی ہو سکتی ہے) کوئی آپ کے ساتھ نہ چل سکے، ایمان داری سے کوئی مختلف رائے اختیار کر لے یا کوئی مختلف سیاسی پلیٹ فارم اختیار کر لے، اسے بد خلق کی گالی سے نوازا جائے؟ گالی تو الگ رہی سید ابوالاعلیٰ نے تو کسی گالی دینے والے کو بھی پلٹ کر گالی نہیں دی۔
کسی مرنے والے کو کس انداز میں یاد کیا جاتا ہے، ہماری تہذیبی روایت اس معاملے میں بڑی واضح ہے۔ اس دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کو ہمارے ہاں اگر کوئی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کر پاتا تو برا انداز بھی اختیار نہیں کرتا۔ دین کی تعلیمات تو بالکل واضح ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مرحومین کو اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے اور ان کی مغفرت اور بخشش کے لیے دعا کی جائے۔ وہ دوست جو آج مولانا مودودی کی فکر کے علم بردار بن کر لوگوں کو بدخلق قرار دیتے ہیں، انھوں نے اپنی گفتار و عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ مولانا مودودی کی فکر کو سمجھتے ہیں، نہ دینی تعلیمات کو اور نہ مشرقی یا پاکستانی تہذیب کو۔ وہ صرف اور محض ایک عصبیت پر راسخ ہیں۔
کسی کو اختلاف رائے کے حق سے محروم کرنا، اس کی نیت پر شبہ بلکہ حملہ کرنا اور اسے فکری آزادی نہ دینا بجائے خود معیوب ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں شدت اور تلخی تو پیدا ہو سکتی ہے، کوئی مثبت قدر نہیں پنپ سکتی۔ جو لوگ اس قسم کے شرم ناک خطابات سے مخالفین کو سرفراز کرتے ہیں، وہ اپنی اجتماعیت کو مزید محدود کرنے اور معاشرے میں نکو بنانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس طرز عمل کو زعم تقویٰ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ اہل حکم اور اہل سیاست ہی نہیں، اس عہد میں اہل دانش کے جانشینوں پر بھی بچپنا غالب آ چکا ہے۔