امریکا کے ہاتھ سے جوہری معاہدے میں شمولیت کا وقت نکلتا جارہا ہے ایران
جوبائیڈن انتظامیہ اور ڈونلڈ ٹرمپ دور میں کوئی فرق نہیں ہے، جواد ظریف
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے کچھ مختلف نہیں کیا۔
یورپی پالیسی مرکز میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ رواں سال جون میں ایران کے صدارتی انتخابات سے قبل امریکا کے پاس جوہری معاہدے سے متعلق ڈیل کرنے کا وقت ہے لیکن اور اس حوالے سے امریکا کو جلدی کرنا پڑے گی ورنہ دوبارہ معاہدے میں شامل ہونے کے لیے اگلے سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔
جواد ظریف نے کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک ٹرمپ دور کے فیصلوں سے کچھ ہٹ کر نہیں کیا، معاہدے میں واپسی سے متعلق ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ امریکا بات چیت سے قبل جوہری معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ٹرمپ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کرے۔
خیال رہے کہ 2015 میں امریکا نے ایران کو جوہری ہتھیار سے روکنے کےلیے چند یورپین ممالک کے ساتھ ملکر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا تاہم 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرف فیصلہ کرتے ہوئے معاہدہ ختم کردیا تھا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں ۔
دوسری جانب جوبائیڈن نے امریکا کا صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ دوبارہ شروع کرنے کا اشارہ دے دیا تھا اور بعد ازاں وہ واضح کرچکے ہیں کہ ایران جوہری معاہدے کی شرائط پر عمل کرتے تو امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوجائے گا تاہم ایران نے پہلے تمام پابندیاں ختم کرنے کی شرط عائد کررکھی ہے۔
یورپی پالیسی مرکز میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ رواں سال جون میں ایران کے صدارتی انتخابات سے قبل امریکا کے پاس جوہری معاہدے سے متعلق ڈیل کرنے کا وقت ہے لیکن اور اس حوالے سے امریکا کو جلدی کرنا پڑے گی ورنہ دوبارہ معاہدے میں شامل ہونے کے لیے اگلے سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔
جواد ظریف نے کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک ٹرمپ دور کے فیصلوں سے کچھ ہٹ کر نہیں کیا، معاہدے میں واپسی سے متعلق ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ امریکا بات چیت سے قبل جوہری معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ٹرمپ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کرے۔
خیال رہے کہ 2015 میں امریکا نے ایران کو جوہری ہتھیار سے روکنے کےلیے چند یورپین ممالک کے ساتھ ملکر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا تاہم 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرف فیصلہ کرتے ہوئے معاہدہ ختم کردیا تھا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں ۔
دوسری جانب جوبائیڈن نے امریکا کا صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ دوبارہ شروع کرنے کا اشارہ دے دیا تھا اور بعد ازاں وہ واضح کرچکے ہیں کہ ایران جوہری معاہدے کی شرائط پر عمل کرتے تو امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوجائے گا تاہم ایران نے پہلے تمام پابندیاں ختم کرنے کی شرط عائد کررکھی ہے۔