اعتبارکا خون ہوا گھریلو ملازم مالک کی بیٹی لے اُڑا

بھائی نے گھر بلا کربہن کے ساتھ اُس کے آشنا کو بھی قتل کر دیا

جو مائیں اپنی بیٹیوں پر کڑی نظر نہیں رکھتیں انھیں بدنامی کے ساتھ ساتھ دکھ بھی سہنا پڑتے ہیں. فوٹو : ایکسپریس

چکوال پولیس اور ڈی پی او چکوال، کاشف مشتاق کانجو کی بہتر حکمت عملی کے باعث چکوال سمیت پنجاب کے دیگر اضلاع میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کو ناکام بنا دیا گیا۔

ڈی پی او چکوال کو خفیہ اداروں کی طرف سے اطلاع ملی تھی کہ دہشت گرد چکوال کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنا سکتے ہیں، جس پر انھوں نے چکوال کے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز اور ایس ڈی پی اوز کا انتہائی خفیہ اجلاس طلب کیا ، جس کی کسی غیر متعلقہ کو اطلاع نہ دی گئی، ان ہدایات کی روشنی میں تمام تھانوں کی پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔

مسلسل سات روز تک ناکہ بندی رہی، اس ناکہ بندی کے دوران پولیس نے جہاں بھاری تعداد میں ناجائز اسلحہ برآمد کر کے 100 سے زیادہ ملزمان کو گرفتار کیا، وہاں بھاری مقدار میں منشیات بھی برآمد کیں یہ کارکردگی اپنی جگہ بہترین حکمت عملی ثابت ہوئی، لیکن اس ناکہ بندی کا بنیادی مقصد دہشت گردوں کو گرفتار کر نا تھا ،پولیس اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، ایس ایچ او کلر کہار کو خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ کلر کہارکے علاقہ میں دہشت گرد موجود ہیں۔

جس پر ایس ایچ او نے ڈی پی او چکوال کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا، ڈی پی او نے ریڈ کرنے سے پہلے کلر کہار کی پولیس لین سے نفری بھجوا دی، اس ریڈ کو انتہائی خفیہ رکھا گیا اور وائرلس پر بھی کوئی پیغام نشرنہیں کیا،ایس ایچ او نے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے تمام پولیس افسران سے موبائل فون بھی لے لیے تھے، پولیس نے کلر کہار کے علاقہ ڈھوک مستیال داخلی حطار میں ریڈ کیااور اس سے پہلے کہ دہشت گرد کوئی مزاحمت کرتے پولیس کے جوانوں نے انھیں قابو کر لیا ،دو دہشت گرد۔

جن کے نام بہادر شاہ ولد محمد رمضان ساکن محلہ آزاد شاہ تحصیل دینہ ضلع جہلم اور دوسرے کا نام، محمد سلطان محمود ولد نبی خان ساکن محلہ مہر اسٹریٹ دینہ ضلع جہلم ہے، ان کی عمریں، 33 اور 43 سال کے قریب ہیں، ان کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے ایک خود کش جیکٹ تیار شدہ، ریموٹ کنٹرول ،بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد ، ڈیٹو نیٹر، اور بارودی تاریں بھی قبضہ میں لے کے انھیں خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

دہشت گرد پہلے بھی چکوال کو دہشت گردی کا نشانہ بنا چکے تھے اور ایک مرتبہ پھر ان کا ٹارگٹ سرپاک پر امام کوٹ تھا،لیکن پولیس نے تمام معلومات خفیہ رکھیں۔ ڈی پی او کا کہنا تھا کہ دہشت گرد وں سے اہم انکشافات کی توقع ہے ،ڈی پی او نے ایس ایچ او سمیت ریڈنگ پارٹی کو تعریفی اسناد اور نقد انعامات دینے کا اعلان کیا۔

جو مائیں اپنی بیٹیوں پر کڑی نظر نہیں رکھتیں انھیں بدنامی کے ساتھ ساتھ دکھ بھی سہنا پڑتے ہیں، اسی طرح کی ایک درد ناک واردات تھانہ ڈھڈیال کے علاقہ موضع ڈورے میں پیش آئی ،جہاں ایک جوڑے کو ابدی نیند سُلا دیا گیا۔

ڈورے کا ایک خاندان، انتہائی خوش حال تھا اور خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا، دولت کی ریل پیل اور زندگی کی تمام آسائشیں انھیں میسر تھیں، کاروبار بھی خوب چل رہا تھا، نوکر چاکر کام کرتے گویا یہ گھرانہ انتہائی معزز گردانہ جاتا تھا، مظہر حسین نے ٹال لکڑی کے وسیع کاروبار کے ساتھ ساتھ، آرا مشین ،دو چکیاںاور ٹریکٹر ٹرالی، مال مویشی اور زمینداری کا سلسلہ بھی شروع رکھا تھا ،گھریلو کام کاج ، زمین داری اور ٹال لکڑی کے کاروبار کے لیے پختونوں کا ایک خاندان ملازم رکھا ہوا تھا اس خاندان کی گھریلو خواتین گھر کے کام کاج اور مال مویشی کے کاروبار پر مامور تھیں۔

جبکہ مردوں کا کام ٹال پر اور زمینداری کے ساتھ ساتھ آرا مشین اور چکیوں پر کام کرنا تھا یہ خاندان ایک عرصہ سے یہاں ملازمت کر رہا تھا، الماس خان ،پہلے سے شادی شدہ اور اس کے چار بچے بھی تھے، وہ کام کاج میں خاص دلچسپی لیتا، جس کے باعث مظہر حسین بھی اسے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتا تھا ۔

اس کا ہر طرح سے خیال رکھتا ، لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ یہ آستین کا سانپ ثابت ہو گا، الماس خان اور مظہر حسین کی نوجوان بیٹی ،شمیم اختر نے پہلے تو چھپ چھپ کر ایک دوسرے سے ملاقاتیں کیں پھر موبائل فون نے انھیںایک دوسرے کے اور قریب کیا شمیم گھنٹوں موبائل پر الماس سے باتیں کیا کرتی، جب ماں فون کی بابت پوچھتی تو اسے کہتی کہ اس کی سہیلی کا فون آیا ہے ماں باتوں پر یقین کر لیتی، اسے کیا معلوم تھا کہ وہ چند روز بعد کیا گل کھلائے گی ۔


دوسری جانب الماس خان اور شمیم اختر اس قدر آگے نکل چکے تھے کہ دونوں نے ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا، شمیم اختر جلد از جلد اس کے ساتھ جانا چاہتی تھی، آخر کار وہ وقت بھی آن پہنچا کہ وہ اپنے آشنا ،الماس خان کے ساتھ فرار ہو گئی، الماس اسے مردان کے علاقہ پبی لے گیا، مظہر حسین نے تھانہ ڈھڈیال میں اغواء کا مقدمہ درج کروا دیا ،اس دوران انھیں معلوم ہوا کہ انکی بیٹی مردان میں ہے۔

جس کی اطلاع پولیس کو دی گئی، ایس ایچ او، سید اعجاز حسین شاہ ،پولیس کے اہل کاروں کے ہم راہ مردان پہنچ گئے اور ملزمان کو تلاش کیا ، لیکن ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا ، وہ ناکام لوٹ آئے ،شمیم اختر کا بھائی، ہر حال میں ان تک پہنچنا چاہتا تھا اور وہ کئی بار مردان اور پبی گیا لیکن اُسے بھی کوئی سراغ نہ ملا ۔

عید سے دو روز قبل شمیم اختر نے اپنے والدین کو فون کر کے ان کی خیریت دریافت کی تو والد نے اسے بتایا ، اس کی دونوں ٹانگوں کا آپریشن ہوا ہے اور وہ چارپائی پر ہے والد کی بیماری کا سن کر بیٹی کے دل میں باپ کی محبت جاگ اٹھی اور اس نے واپس آنے کا فیصلہ کر لیا ، والد نے بھی اسے واپس آنے کو کہا اور وعدہ کیا کہ وہ انھیں علیحدہ کاروبار کروا دے گا اور وہ تمام گھر والوں کو بھی سمجھا دے گا،شمیم اختر نے اپنے آشنا کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا لیکن وہ یقین کرنے پر تیار نہ تھا اور بار بار اس خدشے کا اظہار کرتا رہا کہ وہ ہمیں قتل کر دیں گے اور ہمیں کبھی شادی نہیں کرنے دیں گے۔

کیونکہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں لیکن اپنی شمیم کو بھی کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، آخر کار انھوں نے عید سے ایک روز قبل آنے کا فیصلہ کر لیا ، الماس خان نے شمیم کے بھائی قدیر کو فون کیا اُس نے انھیں یقین دلایا کہ وہ گھر والوں کو راضی کر لے گا اور تمہاری شادی بھی کروا دے گا، قدیر کی باتیں سن کر الماس خان تیار ہو گیا اور عید کے روز وہ ڈورے آ گئے، دو روز تک ان کی خوب خاطر مدارت کی گئی لیکن بھائی جو اپنی بہن سے بے پناہ محبت کر تا تھا، اس کے دل میں انتقام کی آگ چل رہی تھی۔

جمعرات کے روز 7 بجے کے قریب اس کا صبر ختم ہو گیا اور اس نے پسٹل میں میگزین لوڈ کیا اور پہلے الماس خان کو تین گولیاں مار کر اس کا کام تمام کیا اور پھر اپنی بہن، شمیم اختر کو دو گولیا ں مار کر اسے ابدی نیند سلا دیا، بعد ازاں ان کی نعشیں مین روڈ آبادی سے ملحقہ طاہر چوک سے جڑی گلی کے کھیتوں میں ایک درخت پر لٹکا دیں، علاقے کے لوگوں نے دونوں لاشوں کو اُتار کر درخت کے نیچے رکھ دیا ۔

اطلاع ملتے ہی ایس ایچ او اور راجہ مظہر حسین پولیس کی نفری کے ہم راہ جائے واردات پر پہنچ گئے اور اہل محلہ سے دو چارپائیاں منگوا کر دونوں نعشوں کو دو گاڑیوں میں ڈال کر پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال چکوال پہنچا دیا اس کے فوری بعد ڈی پی او کاشف مشتاق کانجو اور ڈی ایس پی صدر سرکل چوہدری محمد سلیم اسپتال پہنچ گئے اور انھوں نے میڈیا کو بتایا، قتل ہونے والے افراد کی نعشیں درخت سے لٹکائی نہیں گئی تھیں بل کہ دونوں نعشیں ملزمان کے مکان کے عقبی کھیت میں پڑی ہوئی تھیں۔

جہاں سے پولیس نے انھیں قبضہ میں لے کر اسپتال پہنچایا، بعد ازاں ڈی پی او اور ڈی ایس پی جائے واردات پر پہنچے اور تمام صورت حال کا جائزہ لیا، چونکہ مظہر حسین کے دونوں ٹانگوں کا آپریشن ہونے کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتا اس دوران ملزم قدیر نے ڈی پی او کو بتایا کہ اس نے اپنی بہن اور الماس خان کو قتل کیا ہے، جس پر ڈی پی او نے ایس ایچ او اعجاز حسین کو حکم دیا کہ وہ قدیر کو فوری طور پر گرفتار کر لے ، ایس ایچ او نے ملزم کو گرفتار کر لیا ۔

پوسٹ مارٹم کے بعد مقتول الماس خان کی نعش اس کی پہلی بیوی رشیدہ بیگم کے حوالے کر دی گئی جبکہ مقتولہ شمیم اختر کی نعش ورثا کے حوالے کی گئی، تھانہ ڈھڈیال پولیس نے رشیدہ بیگم کی درخواست پر دوہرے قتل کا مقدمہ درج کر لیا، ورثا الماس خان کی لاش کو اس کے آبائی قصبہ نوشہرہ لے گئے، جبکہ شمیم اختر کو قصبہ ڈورے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

الماس خان اور شمیم اختر کا قتل افسوس ناک ہے لیکن جو کردار الماس خان نے ادا کیا وہ بھی ناقابل برداشت ہے، دوہرے قتل کی اصل کہانی اور اس قسم کی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن انسان ہے کہ عبرت پکڑنے کو تیار نہیں ۔

 
Load Next Story