جج کو جج ہی جج کر سکتا ہے
اب تک ایسے کتنے فیصلے ہوئے ہوں گے جن کو کسی بھی سبب یا مجبوری میں اوپر تک چیلنج نہیں کیا جا سکا ہوگا۔
روزانہ کا اطلاعاتی ریلا اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس میں ایسی خبریں بھی بہہ کے آگے نکل جاتی ہیں جن کا ہماری روزمرہ زندگیوں پر بہت گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
مثلاً سیاست ، جرائم ، اسکینڈلز اور سستے تلذز کی خبری طغیانی کے بیچ اس ماہ کی چھ تاریخ کو سپریم کورٹ کے جسٹس منظور احمد ملک ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل ایک بنچ نے چوبیس جنوری دو ہزار اٹھارہ کے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف میاں عرفان بشیر نامی ایک شہری کی اپیل پر فیصلہ سنایا۔
قصہ یہ تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی اکبر قریشی نے مال روڈ پر لگے سائن بورڈز اور بل بورڈز کو ہٹانے سے متعلق ایک کیس کی چیمبر میں سماعت کے دوران ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے تمام پٹرول پمپس کے لیے حکم جاری کیا کہ ایسے کسی موٹرسائیکل سوار کو پٹرول نہ فراہم کیا جائے جس نے ہیلمٹ نہ پہنا ہو۔اگر کسی پٹرول پمپ نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو نہ صرف اسے مہربند ( سیل ) کر دیا جائے گا بلکہ پٹرول پمپ مالک پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
اس حکم کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژنل بنچ کے سامنے چیلنج کیا گیا،مگر بنچ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس علی اکبر کا حکم قانون کے عین مطابق ہے کیونکہ ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنے۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔عدالتِ عالیہ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے عدالتِ عظمی کے تین رکنی بنچ کے جسٹس منصور علی شاہ نے پانچ صفحات پر مشتمل جو فیصلہ لکھا۔اس کے بنیادی نکات درجِ ذیل ہیں۔
آئینی عہدے پر فائز کوئی بھی جج ایسا کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا جس کا جواز آئین سے اخذ نہ کیا گیا ہو۔اپنی صوابدید پر کوئی بھی حکم بادشاہ جاری کیا کرتے ہیں۔جب کوئی جج عدالتی دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے نہ صرف عدلیہ کے بارے میں عمومی تاثر مجروح ہوتا ہے بلکہ عدلیہ کے ادارے پر عوامی اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے۔ایسا قدم اٹھانے والا کوئی بھی جج نہ صرف اپنے حلف کی پاسداری نہیں کرپاتا بلکہ اپنے آئینی کردار سے بھی آنکھیں موند لیتا ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ آئینی جمہوریت کا انحصار قانون کی حکمرانی ، آئین کی بالادستی ، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم پر ہے۔چنانچہ ایسا کوئی بھی حکم جس کے پیچھے ٹھوس قانونی جواز یا آئینی طاقت نہ ہو تو ایسے حکم سے نہ صرف سرکاری اداروں میں سراسیمگی پھیلتی ہے بلکہ آئینی ستونوں پر قائم جمہوری ڈھانچے کی بنیاد بھی ہل سکتی ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ ایک جج جس نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہو وہ اس حقیقت سے اغماز نہیں برت سکتا کہ قانون اور آئین کا سب سے پہلا اطلاق خود اسی جج پر ہوتا ہے۔عدالتی مداخلت اس وقت طے شدہ دائرے سے باہر نکل جاتی ہے جب عدلیہ کی جانب سے دیگر قانون ساز یا قانون نافذ کرانے والے اداروں کے معمول کے فرائض میں بھی بلاجواز دخل اندازی کا گمان ہونے لگے۔
ہائی کورٹ اپنے عدالتی اختیارات ایسے مقدمات میں استعمال کر سکتی ہے جو براہِ راست اس کے روبرو ہوں۔یعنی کسی متاثرہ فریق کی درخواست پر ہی کوئی حکم یا فیصلہ صادر ہو سکتا ہے۔ہائی کورٹ کو آئین کا آرٹیکل ایک سو ننانوے کسی معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں دیتا۔
چنانچہ پیشِ نظر کیس میں ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں اور پٹرول پمپ مالکان کو دیا گیا حکم ازخود نوٹس کی خاطر عدالتی اختیارات استعمال کرنے کے زمرے میں آتا ہے حالانکہ یہ اختیار آئین کی روشنی میں ہائی کورٹ کے پاس ہے ہی نہیں۔
فیصلے کے مطابق عدالتی دائرہِ اختیار سے بغیر کسی پیشگی نظیر کے تجاوز ایک آئینی جمہوریت میں موجود عدلیہ کی آئینی ذمے داریوں سے لگا نہیں کھاتا۔ایسے اقدامات عدالت کو محض قانون اور آئین کی تشریح کے بنیادی فرض اور اختیار سے ہٹا کر عدلیہ کو پالیسی اور قانون سازی کے دائرے میں دھکیل دیتے ہیں۔
اس طرزِ عمل سے نہ صرف حکومت کے دیگر اداروں کے اختیارات غصب ہوتے ہیں بلکہ اختیاراتی دائروں کی طے شدہ لکیر بھی پامال ہوتی ہے۔یوں آئینی بنیادوں پر استوار جمہوری ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
فیصلے کے مطابق اندھیرے میں عدالتی چھلانگ کے عمل کو عدالتی مہم جوئی اور عدالتی سامراجیت بھی کہا جاتا ہے۔چنانچہ ججوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی مکمل توجہ انھی معاملات پر مرکوز رکھیں جو کوئی فریق ان کے سامنے رکھے اور پھر اس کا فیصلہ آئین اور قانون کی روشنی میں کیا جائے۔
فیصلے کے مطابق زیرِ نظر کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے پیچھے کوئی ٹھوس قانونی نظیر یا انتظامی پالیسی بطور مثال و جواز نظر نہیں آتی۔چنانچہ یہ حکم عدالتی قانون سازی کی واضح مثال ہے۔ایسا حکم آئینی عدالتی اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔یہ حکم بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل سواروں کو پٹرول فراہم نہ کرنے کا حکم ان موٹر سائیکل سوار شہریوں اور پٹرول پمپ مالکان کو بحیثیت شہری حاصل بنیادی آئینی حقوق سے متصادم ہے۔
یہ آئین کے آرٹیکل نو اور اٹھارہ سے بھی متصادم ہے جس میں ہر شہری کو اپنی پسند کے کاروبار کے حق اور نقل و حرکت کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ہائی کورٹ نے لاہور کی مال روڈ کو ایک مثالی شاہراہ بنانے کی خواہش میں اپنی حدود سے تجاوز کیا اور آنر ایبل جج کو اپنی آئینی و قانونی ذمے داریاں یاد نہ رہیں۔
بظاہر تو سپریم کورٹ کا یہ حکم موٹر سائیکل سواروں اور پٹرول پمپ مالکان کے قانونی حقوق کے بارے میں ہے۔لیکن اس فیصلے کے ذریعے جس اصول کا اعادہ کیا گیا ہے وہ قانونی نظیر کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے پر منطبق ہوتا ہے۔
مگر پھر یاد آتا ہے کہ اب تک ایسے کتنے فیصلے ہوئے ہوں گے جن کو کسی بھی سبب یا مجبوری میں اوپر تک چیلنج نہیں کیا جا سکا ہوگا اور پھر یہ فیصلے جانے کتنے لوگوں کی موت و حیات پر اثرانداز ہوتے ہوں گے۔ شائد اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف کو اندھا ہونا چاہیے مگر جج کی دونوں آنکھیں کھلی ہونی چاہئیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
مثلاً سیاست ، جرائم ، اسکینڈلز اور سستے تلذز کی خبری طغیانی کے بیچ اس ماہ کی چھ تاریخ کو سپریم کورٹ کے جسٹس منظور احمد ملک ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل ایک بنچ نے چوبیس جنوری دو ہزار اٹھارہ کے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف میاں عرفان بشیر نامی ایک شہری کی اپیل پر فیصلہ سنایا۔
قصہ یہ تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی اکبر قریشی نے مال روڈ پر لگے سائن بورڈز اور بل بورڈز کو ہٹانے سے متعلق ایک کیس کی چیمبر میں سماعت کے دوران ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے تمام پٹرول پمپس کے لیے حکم جاری کیا کہ ایسے کسی موٹرسائیکل سوار کو پٹرول نہ فراہم کیا جائے جس نے ہیلمٹ نہ پہنا ہو۔اگر کسی پٹرول پمپ نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو نہ صرف اسے مہربند ( سیل ) کر دیا جائے گا بلکہ پٹرول پمپ مالک پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
اس حکم کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژنل بنچ کے سامنے چیلنج کیا گیا،مگر بنچ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس علی اکبر کا حکم قانون کے عین مطابق ہے کیونکہ ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنے۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔عدالتِ عالیہ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے عدالتِ عظمی کے تین رکنی بنچ کے جسٹس منصور علی شاہ نے پانچ صفحات پر مشتمل جو فیصلہ لکھا۔اس کے بنیادی نکات درجِ ذیل ہیں۔
آئینی عہدے پر فائز کوئی بھی جج ایسا کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا جس کا جواز آئین سے اخذ نہ کیا گیا ہو۔اپنی صوابدید پر کوئی بھی حکم بادشاہ جاری کیا کرتے ہیں۔جب کوئی جج عدالتی دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے نہ صرف عدلیہ کے بارے میں عمومی تاثر مجروح ہوتا ہے بلکہ عدلیہ کے ادارے پر عوامی اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے۔ایسا قدم اٹھانے والا کوئی بھی جج نہ صرف اپنے حلف کی پاسداری نہیں کرپاتا بلکہ اپنے آئینی کردار سے بھی آنکھیں موند لیتا ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ آئینی جمہوریت کا انحصار قانون کی حکمرانی ، آئین کی بالادستی ، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم پر ہے۔چنانچہ ایسا کوئی بھی حکم جس کے پیچھے ٹھوس قانونی جواز یا آئینی طاقت نہ ہو تو ایسے حکم سے نہ صرف سرکاری اداروں میں سراسیمگی پھیلتی ہے بلکہ آئینی ستونوں پر قائم جمہوری ڈھانچے کی بنیاد بھی ہل سکتی ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ ایک جج جس نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہو وہ اس حقیقت سے اغماز نہیں برت سکتا کہ قانون اور آئین کا سب سے پہلا اطلاق خود اسی جج پر ہوتا ہے۔عدالتی مداخلت اس وقت طے شدہ دائرے سے باہر نکل جاتی ہے جب عدلیہ کی جانب سے دیگر قانون ساز یا قانون نافذ کرانے والے اداروں کے معمول کے فرائض میں بھی بلاجواز دخل اندازی کا گمان ہونے لگے۔
ہائی کورٹ اپنے عدالتی اختیارات ایسے مقدمات میں استعمال کر سکتی ہے جو براہِ راست اس کے روبرو ہوں۔یعنی کسی متاثرہ فریق کی درخواست پر ہی کوئی حکم یا فیصلہ صادر ہو سکتا ہے۔ہائی کورٹ کو آئین کا آرٹیکل ایک سو ننانوے کسی معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں دیتا۔
چنانچہ پیشِ نظر کیس میں ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں اور پٹرول پمپ مالکان کو دیا گیا حکم ازخود نوٹس کی خاطر عدالتی اختیارات استعمال کرنے کے زمرے میں آتا ہے حالانکہ یہ اختیار آئین کی روشنی میں ہائی کورٹ کے پاس ہے ہی نہیں۔
فیصلے کے مطابق عدالتی دائرہِ اختیار سے بغیر کسی پیشگی نظیر کے تجاوز ایک آئینی جمہوریت میں موجود عدلیہ کی آئینی ذمے داریوں سے لگا نہیں کھاتا۔ایسے اقدامات عدالت کو محض قانون اور آئین کی تشریح کے بنیادی فرض اور اختیار سے ہٹا کر عدلیہ کو پالیسی اور قانون سازی کے دائرے میں دھکیل دیتے ہیں۔
اس طرزِ عمل سے نہ صرف حکومت کے دیگر اداروں کے اختیارات غصب ہوتے ہیں بلکہ اختیاراتی دائروں کی طے شدہ لکیر بھی پامال ہوتی ہے۔یوں آئینی بنیادوں پر استوار جمہوری ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
فیصلے کے مطابق اندھیرے میں عدالتی چھلانگ کے عمل کو عدالتی مہم جوئی اور عدالتی سامراجیت بھی کہا جاتا ہے۔چنانچہ ججوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی مکمل توجہ انھی معاملات پر مرکوز رکھیں جو کوئی فریق ان کے سامنے رکھے اور پھر اس کا فیصلہ آئین اور قانون کی روشنی میں کیا جائے۔
فیصلے کے مطابق زیرِ نظر کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے پیچھے کوئی ٹھوس قانونی نظیر یا انتظامی پالیسی بطور مثال و جواز نظر نہیں آتی۔چنانچہ یہ حکم عدالتی قانون سازی کی واضح مثال ہے۔ایسا حکم آئینی عدالتی اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔یہ حکم بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل سواروں کو پٹرول فراہم نہ کرنے کا حکم ان موٹر سائیکل سوار شہریوں اور پٹرول پمپ مالکان کو بحیثیت شہری حاصل بنیادی آئینی حقوق سے متصادم ہے۔
یہ آئین کے آرٹیکل نو اور اٹھارہ سے بھی متصادم ہے جس میں ہر شہری کو اپنی پسند کے کاروبار کے حق اور نقل و حرکت کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ہائی کورٹ نے لاہور کی مال روڈ کو ایک مثالی شاہراہ بنانے کی خواہش میں اپنی حدود سے تجاوز کیا اور آنر ایبل جج کو اپنی آئینی و قانونی ذمے داریاں یاد نہ رہیں۔
بظاہر تو سپریم کورٹ کا یہ حکم موٹر سائیکل سواروں اور پٹرول پمپ مالکان کے قانونی حقوق کے بارے میں ہے۔لیکن اس فیصلے کے ذریعے جس اصول کا اعادہ کیا گیا ہے وہ قانونی نظیر کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے پر منطبق ہوتا ہے۔
مگر پھر یاد آتا ہے کہ اب تک ایسے کتنے فیصلے ہوئے ہوں گے جن کو کسی بھی سبب یا مجبوری میں اوپر تک چیلنج نہیں کیا جا سکا ہوگا اور پھر یہ فیصلے جانے کتنے لوگوں کی موت و حیات پر اثرانداز ہوتے ہوں گے۔ شائد اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف کو اندھا ہونا چاہیے مگر جج کی دونوں آنکھیں کھلی ہونی چاہئیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)