یہ عالمی دن
قیام پاکستان کے بعد انگریزہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ چھوڑ گیا جو آج کے معروف لفظوں میں اشرافیہ کہلایا۔
تیسری دنیا میں رہنے والے مغربی سماج کی ثقافت اور اس کی روایات کو اپنانے میں دیر نہیں کرتے کیونکہ ہم شعوری طور پر مغربی معاشرے سے بہت زیادہ متاثر ہیں اور برصغیر والے تو انگریز کی صد سالہ غلامی سے اس قدر مرعوب رہے ہیں کہ ملکہ برطانیہ کے دورہ پاکستان کے موقعے پرہماری قومی اسمبلی کے ایک سابق اسپیکر نے ان کی قدم بوسی کرتے ہوئے انھیں کہا تھا کہ وہ ان کو اب بھی اپنا حکمران اور ملکہ سمجھتے ہیں۔
یہ وہ سوچ ہے جو برسہا برس سے ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور غلامی کے اس طوق سے ہم نے کبھی نکلنے کی کوشش بھی نہیں کی بلکہ ابھی تک ہم انگریز سے لاشعوری طور پرمرعوب ہیں اور ان کی ثقافتی روایات کو اپناکر اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی ہم اسلامی اورمشرقی روایات کے بجائے مغربی روایات کی پاسداری کو پسند کرتے ہیں حالانکہ جس مشرقی معاشرے سے ہم جڑے ہیں اس کی اپنی خوبصورت اور خوب سیرت روایات ہیں جو خاص طور پر اسلامی معاشرے کی عکاس ہیں ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق کا نام ہے ہمارے دین میں زندگی گزارنے کے اصول طے کر دیے گئے ہیں اور اس میں کسی ایسی بے ضابطگی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی درہم برہم ہوتی ہو۔
قیام پاکستان کے بعد انگریزہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ چھوڑ گیا جو آج کے معروف لفظوں میں اشرافیہ کہلایا۔ اس طبقے نے نوزائیدہ ریاست میں اپنے پنجے اس مضبوطی سے گاڑے کہ آج سات دہائیوں کے بعد بھی ہم ان کے چنگل سے آزاد نہیں ہو سکے ۔ یہی وہ بااثر طبقہ ہے جو پاکستانی معاشرے کو اپنی مرضی اور منشا کے تحت چلانا چاہتاہے اور پاکستان کے اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا کر کے اس کو مغربیت زدہ کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے سہاروں کی تلاش میں رہتا ہے اور یہ سہارے بھی مغرب کے ہی پیدا کردہ ہیں جن کو وہ عالمی دنوں کا نام دیتے ہیں ۔
کبھی ماؤں کا عالمی دن، کبھی باپ کا عالمی دن، کبھی بزرگوں کا عالمی دن ، کبھی عورتوں کا عالمی دن وغیرہ۔ غرض سال بھر میں کوئی ایسا دن نہیں ہے جسے اہل مغرب نے کوئی نام نہ دیا ہو۔ اصل میں مغربی معاشرے کی اقدار الگ ہیں اور پاکستان کے اسلامی معاشرے کی اقدار خالصتاً اسلام کے اصولوں پر مبنیٰ ہیں۔ اسلامی معاشرے میں والدین کے سالانہ دن کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہمارے ہاں تو والدین کے دم قدم سے زندگی کی رونقیں رہتی ہیں ہر دن والدین کا دن ہوتا ہے ۔
رہی بات عورت کی توجو عزت اور وقار اسلامی معاشرے میں عورت کا متعین کر دیا گیا ہے وہ بے مثا ل ہے ۔جاہلیت کے زمانے میں جزیرہ عرب میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج تھا لیکن جب آپﷺکی آمد ہوئی تو عورت کو بیٹی بیوی ماں کی حیثیت میں جوعزت اور رتبہ ملا اس نے عرب معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔اسلام نے ان تمام قبیح رسومات کا قلع قمع کردیا جو انسانی وقار کے منافی تھیںاوران کو باطل کر کے عورت کو عزت بخش دی۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مغربیت پروردہ اور مغربیت پسند لوگوں کے نرغے میں پھنس چکے ہیںجو پاکستان کے اسلام پسندمعاشرے کو مختلف حیلوں بہانوں سے ایک مادر پدر آزاد معاشرت میں بدلنا چاہتے ہیں، ان کا ایجنڈا ہی اس کلچر کو فروغ دینا ہے اور اس کے لیے وہ عالمی تہواروں کی مناسبت سے ان کا سہار ا حاصل کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے اجتماعات میں سر عام ایسی لغو باتیں کی جارہی ہیں جو کسی کالم میں لکھی نہیں جا سکتیں۔ پاکستان کے یہ مغرب زدہ لوگ پاکستانی خاتون کو ایک آزاد خیال عورت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ فخریہ یہ کہہ سکیں کہ انھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نقب لگا دی ہے اورمعلوم یوں ہوتا ہے کہ وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کی ثقافتی یلغار کا دائرہ کار اب درسگاہوں تک بھی پہنچ گیا ہے اور وہ ہماری نوجوان نسل کوبے راہ وری کی ثقافتی یلغار میں بہہ جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
ان کا آسان ہدف وہ طبقہ ہے جو غربت سے قریب اور خوشحالی سے دور ہے ، آپ کو ان عالمی دنوں کے موقعے پر یہی طبقہ سب سے زیادہ فعال نظر آئے گا کیونکہ ہمارے درمیان میں موجود مغربیت پسندوں نے ان کو خوشحالی کے خواب دکھا کر فحاشی کی جانب مائل کرنا شروع کر رکھا ہے ۔
آج کے پاکستان میں امارت اور غربت کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہو چکا ہے وہ اگر سچ بات پوچھیں تو کفر اور اسلام کے درمیان کا فاصلہ ہے۔ حضور پاکﷺ نے فرمایاہے کہ ''قریب ہے کہ بھوک کفر تک پہنچا دے''۔ آج کی غربت مفلس پاکستانیوں کو کفر تک پہنچا رہی ہے، میرے پاس کوئی اعدادو شمار تو نہیںہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری اس غربت کا علاج خود ہمارے ملک کے اندر موجود ہے۔ یہ ایک مصنوعی غربت ہے جو ہمارے بڑے لوگوں اور بااثر خاندانوں اور ان کے کنبوں نے لوٹ کھسوٹ سے پیدا کی ہے۔ پاکستان میںخواتین کے حقوق کے نام پر جو ہلہ گلہ کیا جارہا ہے اور ہر سال ایک مخصوص دن عورت کے حقوق کی جنگ لڑنے کے نام پر جو تماشا کیا جاتا ہے، میرے خیال میں وہ درست طرز عمل نہیں ہے۔ اسلام تو عورت کو ماں بہن بیٹی کے روپ میں تحفظ دیتا ہے ۔
عورت کا جو رتبہ اسلام میں ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔ ان عالمی دنوں کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں تو بے سمتی سے بھرپور ان دنوں کو ایک سانحہ ہی کہوں گا اور یہ ہمارے ملک میں ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ یہ عالمی دن ہمیں منظور نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو ہر دن ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا ہوتا ہے اور وہی گھر کی سربراہ ہوتی ہے۔
یہ وہ سوچ ہے جو برسہا برس سے ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور غلامی کے اس طوق سے ہم نے کبھی نکلنے کی کوشش بھی نہیں کی بلکہ ابھی تک ہم انگریز سے لاشعوری طور پرمرعوب ہیں اور ان کی ثقافتی روایات کو اپناکر اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی ہم اسلامی اورمشرقی روایات کے بجائے مغربی روایات کی پاسداری کو پسند کرتے ہیں حالانکہ جس مشرقی معاشرے سے ہم جڑے ہیں اس کی اپنی خوبصورت اور خوب سیرت روایات ہیں جو خاص طور پر اسلامی معاشرے کی عکاس ہیں ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق کا نام ہے ہمارے دین میں زندگی گزارنے کے اصول طے کر دیے گئے ہیں اور اس میں کسی ایسی بے ضابطگی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی درہم برہم ہوتی ہو۔
قیام پاکستان کے بعد انگریزہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ چھوڑ گیا جو آج کے معروف لفظوں میں اشرافیہ کہلایا۔ اس طبقے نے نوزائیدہ ریاست میں اپنے پنجے اس مضبوطی سے گاڑے کہ آج سات دہائیوں کے بعد بھی ہم ان کے چنگل سے آزاد نہیں ہو سکے ۔ یہی وہ بااثر طبقہ ہے جو پاکستانی معاشرے کو اپنی مرضی اور منشا کے تحت چلانا چاہتاہے اور پاکستان کے اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا کر کے اس کو مغربیت زدہ کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے سہاروں کی تلاش میں رہتا ہے اور یہ سہارے بھی مغرب کے ہی پیدا کردہ ہیں جن کو وہ عالمی دنوں کا نام دیتے ہیں ۔
کبھی ماؤں کا عالمی دن، کبھی باپ کا عالمی دن، کبھی بزرگوں کا عالمی دن ، کبھی عورتوں کا عالمی دن وغیرہ۔ غرض سال بھر میں کوئی ایسا دن نہیں ہے جسے اہل مغرب نے کوئی نام نہ دیا ہو۔ اصل میں مغربی معاشرے کی اقدار الگ ہیں اور پاکستان کے اسلامی معاشرے کی اقدار خالصتاً اسلام کے اصولوں پر مبنیٰ ہیں۔ اسلامی معاشرے میں والدین کے سالانہ دن کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہمارے ہاں تو والدین کے دم قدم سے زندگی کی رونقیں رہتی ہیں ہر دن والدین کا دن ہوتا ہے ۔
رہی بات عورت کی توجو عزت اور وقار اسلامی معاشرے میں عورت کا متعین کر دیا گیا ہے وہ بے مثا ل ہے ۔جاہلیت کے زمانے میں جزیرہ عرب میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج تھا لیکن جب آپﷺکی آمد ہوئی تو عورت کو بیٹی بیوی ماں کی حیثیت میں جوعزت اور رتبہ ملا اس نے عرب معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔اسلام نے ان تمام قبیح رسومات کا قلع قمع کردیا جو انسانی وقار کے منافی تھیںاوران کو باطل کر کے عورت کو عزت بخش دی۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مغربیت پروردہ اور مغربیت پسند لوگوں کے نرغے میں پھنس چکے ہیںجو پاکستان کے اسلام پسندمعاشرے کو مختلف حیلوں بہانوں سے ایک مادر پدر آزاد معاشرت میں بدلنا چاہتے ہیں، ان کا ایجنڈا ہی اس کلچر کو فروغ دینا ہے اور اس کے لیے وہ عالمی تہواروں کی مناسبت سے ان کا سہار ا حاصل کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے اجتماعات میں سر عام ایسی لغو باتیں کی جارہی ہیں جو کسی کالم میں لکھی نہیں جا سکتیں۔ پاکستان کے یہ مغرب زدہ لوگ پاکستانی خاتون کو ایک آزاد خیال عورت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ فخریہ یہ کہہ سکیں کہ انھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نقب لگا دی ہے اورمعلوم یوں ہوتا ہے کہ وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کی ثقافتی یلغار کا دائرہ کار اب درسگاہوں تک بھی پہنچ گیا ہے اور وہ ہماری نوجوان نسل کوبے راہ وری کی ثقافتی یلغار میں بہہ جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
ان کا آسان ہدف وہ طبقہ ہے جو غربت سے قریب اور خوشحالی سے دور ہے ، آپ کو ان عالمی دنوں کے موقعے پر یہی طبقہ سب سے زیادہ فعال نظر آئے گا کیونکہ ہمارے درمیان میں موجود مغربیت پسندوں نے ان کو خوشحالی کے خواب دکھا کر فحاشی کی جانب مائل کرنا شروع کر رکھا ہے ۔
آج کے پاکستان میں امارت اور غربت کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہو چکا ہے وہ اگر سچ بات پوچھیں تو کفر اور اسلام کے درمیان کا فاصلہ ہے۔ حضور پاکﷺ نے فرمایاہے کہ ''قریب ہے کہ بھوک کفر تک پہنچا دے''۔ آج کی غربت مفلس پاکستانیوں کو کفر تک پہنچا رہی ہے، میرے پاس کوئی اعدادو شمار تو نہیںہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری اس غربت کا علاج خود ہمارے ملک کے اندر موجود ہے۔ یہ ایک مصنوعی غربت ہے جو ہمارے بڑے لوگوں اور بااثر خاندانوں اور ان کے کنبوں نے لوٹ کھسوٹ سے پیدا کی ہے۔ پاکستان میںخواتین کے حقوق کے نام پر جو ہلہ گلہ کیا جارہا ہے اور ہر سال ایک مخصوص دن عورت کے حقوق کی جنگ لڑنے کے نام پر جو تماشا کیا جاتا ہے، میرے خیال میں وہ درست طرز عمل نہیں ہے۔ اسلام تو عورت کو ماں بہن بیٹی کے روپ میں تحفظ دیتا ہے ۔
عورت کا جو رتبہ اسلام میں ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔ ان عالمی دنوں کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں تو بے سمتی سے بھرپور ان دنوں کو ایک سانحہ ہی کہوں گا اور یہ ہمارے ملک میں ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ یہ عالمی دن ہمیں منظور نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو ہر دن ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا ہوتا ہے اور وہی گھر کی سربراہ ہوتی ہے۔