29 روزبعد مغوی کو بازیاب کرا لیا گیا

اغواکاروں نے تاوان کی رقم لے جانے والے چار افراد بھی قتل کر دیے تھے

اغواکاروں نے تاوان کی رقم لے جانے والے چار افراد بھی قتل کر دیے تھے. فوٹو : ایکسپریس

PESHAWAR:
کبھی کبھی انسان دولت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک جانے پر تیار ہو جاتا ہے۔

اغوا برائے تاوان ایک ایسا ہی جرم ہے، جسے کم وقت میں زیادہ حصول کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں، کیوں کہ اس میں اگر ایک آدھ تُکا لگ بھی جائے تو ملزموں کا حال آخرِ کار اُس بکرے کی ماں جیسا ہوتا ہے جس نے چُھری کے نیچے آنا ہی ہوتا ہے، کچھ ایسا ہی رسالپور سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شرین کوٹھے میں ہونے والی واردات میں ہوا۔

عوامی نیشنل پارٹی نوشہرہ کے سابق صدر، حاجی دلارم خان کے نواسے، عابد حسین جو ماربل فیکٹری غلہ ڈھیر کے مالک ہیں، 2 جولائی 2012کو فیکٹری سے گھر کی جانب اپنی کار میں روانہ ہوئے تاہم کچھ مشکوک افراد موٹر سائیکل پر اُن کا پیچھا کرتے رہے اور یک دم سامنے آ کر اُن کو گاڑی روکنے پر مجبور کیا، اُس جگہ اغوا کاروں کے دو اور ساتھی بھی موجود تھے۔

انھوں نے عابد حسین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہاتھ پائوں باندھے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسی کار کی پچھلی سیٹ پر ڈالا اور گاڑی لے کر روانہ ہو گئے لیکن تھوڑا آگے جانے کے بعد گاڑی بند ہو گئی، جس پر اغواکاروں نے گاڑی کو وہیں چھوڑا اور عابد حسین کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر فرار ہو گئے۔

رشکئی کے علاقے محمد آباد کے ایک ویران گھر کے اندر تہہ خانے میں زنجیروں کے ساتھ جکڑ دیا، دوسری طرف جب عابد حسین کافی دیر تک گھر نہیں لوٹے تو گھر والوں نے ان کی تلاش شروع کر دی، مگرانھیں ان کا کوئی پتا نہیں چلا، جس پر انھوں نے پولیس سے رابطہ کیا اور ان کے بھائی ظہور حسین نے تھانہ رسالپور میں بھائی کی گم شدگی کی رپورٹ درج کرا دی۔

اسی دوران، اغواکاروں کی طرف سے پہلی بار گھر والوں سے رابطہ کیا گیا اور عابد حسین کی رہائی کے بدلے دو کڑوڑ روپے تاوان کا مطالبہ سامنے آیا، انھوں نے دھمکی دی کہ رقم جلد ادا نہ کی گئی تو مغوی کو جان سے مار دیا جائے گا ،جس پر گھر والے بہت پریشان ہوئے، مغوی کے نانا، حاجی دلارم خان اپنے نواسے کی بازیابی کے لیے سرگرم ہو گئے، اس دوران اغواکاروں کی جانب سے جلد از جلد رقم ادا کیے جانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا، مغوی کے سسر، مراد خان بھی سرگرم ہوئے اور اغواء کاروں سے تاوان کی رقم کی ادائیگی کے لیے بات چیت شروع کر دی گئی۔

اس دوران، اغواء کاروں کی طرف سے تاوان کی رقم تخت بھائی کے علاقے ٹکر ساڑو شاہ پہنچانے کا کہا گیا، مغوی عابد حسین کے سُسر مراد خان دیگر ساتھیوں، رضا خان، ضابطہ خان اور فضل ربی کے ہم راہ اغواء کاروں کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچ گئے، تاہم جب ان کا آمنا سامنا ہوا تو تاوان کی رقم کے حوالے سے ان کے درمیان تکرار ہوگئی جس پر ملزموں نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے تاوان کی رقم لے کر جانے والے چاروں افراد جاں بحق ہو گئے، یہ خبر علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

تمام نیوز چینلز پرنمایاں طور پر ٹیلی کاسٹ ہوئی جس پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نوشہرہ، محمد حسین نے پولیس افسران کی چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی، جس میں تھانہ رسالپور کے ایس ایچ او، محمد اسحاق خان، ایڈیشنل ایس ایچ او، حاجی محمد خان اور دیگر پولیس اہل کار شامل تھے، ان کو مغوی کی بحفاظت بازیابی اور تخت بھائی میں چار افراد کے قاتلوں کا پتا چلانے کا ٹاسک سونپا گیا، ٹیم نے فوری طور پر چھاپے مارنا شروع کر دیے اور کئی مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کی جس سے مغوی عابد حسین کے بارے میں کچھ اشارے ملے۔


کچھ ہی دیر بعد پولیس پارٹی نے چھاپہ مار کر اغوا کار گروہ کے رُکن مشرف نامی شخص کو رشکئی کے علاقے سے ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا، جس نے دوران تفتیش کچھ اہم انکشافات کیے ۔ پولیس اغواکار گروہ کے دیگر ارکان تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی، اسی اغواکار کی نشان دہی پر رسالپور کے علاقے رشکئی میں خورہ آباد میں ایک ایسے شحص کے گھر پر چھاپہ مارا گیا جو اپنے آپ کو بہت دین دار ظاہر کرتا تھا اور رمضان میں سحری کے لیے لوگوں کو جگاتا تھا۔

پولیس پارٹی نے جیسے ہی مذکورہ شخص ارشاد عرف جاوید کے گھر پر چھاپہ مارا تو تہہ خانے میں موجود اغواکاروں نے بھر پور مزاحمت کی مگر پولیس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اغواکاروں کو قابو کر لیا ، گھر کی تلاشی لینے پر تہہ خانے سے مغوی عابد حسین بھی انھیں مل گیا ،جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ گرفتار اغوا کار گروہ میں خالد ولد محمد ایوب ساکن ابراہیم زئی چارسدہ، سفید احمد عرف ظاہر علی ولد علی حیدر ساکن رشکئی اور یوسف ولد گل رحمان ساکن رشکئی نوشہرہ کو حراست میں لے کر ان کے قبضے سے تین پستول، دو کلاشنکوف اور سیکڑوں کارتوس برآمد کر لیے۔

اسی طرح گرفتار اغواکار گروہ کی نشان دہی پر مزیدچھ اغوا کاروں کو گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں ،جن کے نام ابھی صیغہ راز میں رکھے جا رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے تھانہ رسالپور کے ایس ایچ او، محمد اسحاق خان اور ایڈیشنل ایس ایچ او حاجی محمد سمیت اغوا کار گروہ کے خلاف آپریشن میں شامل تمام اہل کاروں کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہوئے ،ان کے لیے بیس ہزار روپے کیش اور تعریفی اسناد کا اعلان کیا ۔

اس دوران انھوں نے کہا ،اگر پولیس فرض شناسی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے تو کوئی کیس ان کے لیے پیچیدہ نہیں رہے گا، انھوں نے کہا ، اغوا کاروں کا سرغنہ، ظاہر خان ولد خالد خان کراچی ،پشاور حیات آبا د کارخانو مارکیٹ، پنجاب بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان، قتل، اقدامِ قتل اور دیگر کئی سنگین وارداتوں میں پولیس کو مطلوب ہے، ملزم ظاہر علی تین بینک ڈکیتیوں اور اقدامِ قتل کی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی رہنماء اور مغوی عابد حسین کے نانا، حاجی دلارم خان اور عابد حسین کے بھائی ظہور حسین نے آپریشن میں شامل تمام پولیس اہل کاروں کو ایک ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا، پولیس ذرایع نے بتایا ، عابد حسین کے اغوا میں ملوث شاکس گینگ کے سربراہ، ظاہر خان آفریدی کے مطابق عابد حسین کے اغوا کا منصوبہ جہانگیر اور یوسف سمیت دیگر پانچ ملزمان نے بنایا تھا ،وہ بینک ڈکیتیوں کے الزام میں گرفتار اور بعد میں رہا ہوئے تھے جب کہ سابق صدر پرویز پر حملے میں بھی اُسے مردان سے گرفتار کیا گیا تھا اور دو ماہ بعد عدالت نے اسے رہا کر دیا تھا۔

ایک سال سے مغوی عابد حسین کے اغوا برائے تاوان کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اور جہانگیر کی نشاندہی پر عابد حسین کو اغوا کرایا گیا، مگر پولیس کی زبردست کوششوں نے ہمارا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ علاوہ ازیں اغواکاروںکی قید سے بازیاب ہونے والے عابد حسین نے روزنامہ ''ایکسپریس'' کو بتایا ، قید کے دوران گزرنے والے 29 دن میرے لیے قیامت سے کم نہ تھے ،ہر روز کئی بار مرتا اور پھر زندہ ہو جاتا، اغواکار انتہائی ظالم ہوتے ہیں، ان کے لیے کسی کو قتل کر دینا معمولی کام ہوتاہے ۔

میں رسالپور پولیس اور خاص طور پر ڈی پی او نوشہرہ، محمد حسین خان، رسالپور کے ایس ایچ او، محمد اسحاق خان اور ایڈیشنل ایس ایچ او ،حاجی محمد خان کا انتہائی مشکور ہوں کہ انھوں نے فرض شناسی کا مظاہرہ کیا اور مجھے اس جہنم سے نجات دلائی، سچ بات یہ ہے کہ میں تو مایوس ہو چکا تھا۔

 
Load Next Story