سینٹ الیکشن میں جوڑ توڑ پاکستان کے جمہوری نظام پر سوالیہ نشان

جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے زوال کا شکار ہو گئی ہے۔

جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے زوال کا شکار ہو گئی ہے۔ فوٹو : فائل

ملک میں ہونیوالے حالیہ ضمنی انتخابات، سینٹ اور پھر چئیرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اس سے جمہوریت کے ساتھ ساتھ جمہوری ، سیاسی اور اخلاقی اقدار کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔

سینٹ انتخابات کی ساری کہانی سات ووٹوں کے گرد گھومتی دکھائی دی، انہی سات ووٹوں نے وفاق میں اکثریتی حکمران جماعت کے تگڑے امیدوار حفیظ شیخ کو ہرا کر پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں پہنچا دیا اور پھر سات ووٹوں کے مسترد ہونے سے یوسف گیلانی عددی برتری ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ نہ بن سکے لیکن ان انتخابات نے تمام جمہوری و غیر جمہوری طاقتوں کو بری طرح بے نقاب ضرور کر دیا ہے اور صادق سنجرانی کو جتا کر اپوزیشن کو بتا دیا گیا سب کچھ ہم ہیں۔ سینٹ کے ہنگامہ خیز الیکشن نے سیاسی، اخلاقی اور جمہوری حوالوں سے خوفناک توڑ پھوڑ کی ہے۔

جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے زوال کا شکار ہو گئی ہے۔ اس کھلم کھلا جوڑ توڑ اور من مانی نے پاکستان کے نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سینٹ کے الیکشن میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی کی جیت کو حکومت کی آئینی مدت سے تشبیہہ دی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی لیکن اپوزیشن کو جتنے گھاو لگے ہیں اس کے بعد اپوزیشن سکون سے نہیں بیٹھے گی۔ اگلے دو سال سیاسی لحاظ سے بڑے ہنگامہ خیز ہوں گے۔

اپوزیشن حکومت کو سکھ کا سانس نہیں لینے دے گی۔ جوں جوں عام انتخابات کا وقت قریب آتا جائے گا اپوزیشن کا دباو بڑھتا چلا جائے گا۔ حکومت کو ایک طرف اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کا سامنا ہو گا اور دوسری طرف عوام کو ریلیف دینے کا دباو ہو گا۔ موجودہ کارکردگی کے ساتھ حکومت اگلے الیکشن میں عوام کے پاس نہیں جا پائے گی انھیں عوام میں جانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا لیکن سیاسی طور پر حکومت کے لیے پی ڈی ایم کے اختلافات تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتے ہیں۔

سینٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی مرکزی کردار کے ساتھ نمایاں رہی اور مسلم لیگ ن "جمعہ جنج نال" سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو تو جتوا لیا لیکن ن لیگ کی خاتون امیدوار کو ہروا دیا جو ن لیگ کے لیے ایک سبق تھا اور شاید اسی سبق نے حکومت کے لیے چیرمین سینٹ کے الیکشن میں ن لیگ کے ارکان کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سینٹ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کی انھوں نے ثابت کیا کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ ثابت قدم رہے جبکہ ساری توڑ پھوڑ ن لیگ اور تحریک انصاف میں ہوئی ہے۔


پیپلز پارٹی کا یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں پہنچا کر مورال کافی ہائی ہے جبکہ ن لیگ کافی ڈی مورلائز ہوئی ہے۔ سینٹ کے الیکشن میں جس طرح مینو فیکچرنگ کی گئی اس نے پاکستانی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کا کوئی دین مذہب نہیں ان میں زیادہ تر لوگ بکاو مال ہیں اور یہاں سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے ذرا سوچیں اگر سیاستدان عمران خان کے مشورہ سے اتفاق کرتے اور اوپن بیلٹ پر اتفاق رائے سے قانون سازی کر لیتے تو یوں سر بازار رسوا نہ ہوتے حالانکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں میثاق جمہوریت میں اس ایجنڈے پر متفق تھے اگر اوپن بیلٹ سے انتخاب ہوتا تو پنجاب کی طرح چاروں صوبوں میں عددی اعتبار سے جس کی جتنی نشستیں بنتی تھیں انھیں مل جاتیں۔

سارے لوگ بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے اور آج چیرمین سینٹ اپوزیشن کا ہوتا ۔ حکومت نے اپنا چیرمین سینٹ تو منتخب کروا لیا ہے لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا ہے پہلے قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کی بے وفائی نے حکومت کو گہرا زخم دیا اور عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اس کا مدوا کرنا پڑا اب سینٹ میں مخالفین کی حمایت حاصل کر کے تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا، نہ اپوزیشن نے صحیح کیا نہ حکومت نے ، اس سے دنیا بھر میں ہماری سیاست جمہوریت اور اخلاقیات کا مذاق اڑایا گیا، آئندہ کیا کرنا ہے اس بارے میں ہی سوچ لیا جائے ورنہ عوام کا سیاست سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے یہ نہ ہو عوام سیاست کو گالی سمجھ کر کسی اور طرف دیکھنا شروع کر دیں، سیاست دانوں کو اپنا گند خود ہی صاف کر لینا چاہیے

ہم سب انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں اوروقت دور نہیں کہ کوئی بھی کسی سے محفوظ نہیں ہوگا۔

ادھر ضمنی انتخابات میں بری طرح شکست کے بعد پی ٹی آئی نے چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات جیتنے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنے کے اعلان کو تو سچ کردکھایا مگر مسم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کیمروں کی کہانی بے نقاب کرکے جہاں حکومتی ساکھ کو بری طرح مجروع کیا وہیں انتخابات کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے، رہی سہی کسر ووٹوں کے مسترد ہونے نے پوری کردی اور پھر اپوزیشن کی جانب سے پریذائڈنگ افسر پر لگائے جانے والے جانبداری کے الزامات اور چئیرمین سینٹ کے انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کے اعلان نے کہانی مزید پیچیدہ کردی ہے جس کیلئے فاروق ایچ نائیک نے سینیٹ انتخابات کے نتائج کی سرٹیفائڈ کاپیاں حاصل کرنے کیلئے بھی رجوع کر رکھا ہے۔

اس ساری صورتحال میں حکومت شدید دباؤ کا شکار معلوم ہوتی ہے ۔ اب شنید یہ بھی ہے کہ کئی سال سے لٹکے عیر ملکی فارن فنڈنگ کا معاملہ بھی حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا پے اور بعض حلقوں کا خیال کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا نمٹانے جا رہا پے پھر فیصل واوڈا کا غلط بیان حلفی کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور خلاف فیصلہ آنے اور نا اہلی کا خوف پی ٹی آئی کی بوکھلاہٹ سے ظاہر ہو رہا ہے اور یہی وجہ پے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو ہی متنازعہ بنانا شروع کردیا پے اور اپنے ہی لگائے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے کپتان عمران خان اپبے بیان میں اسی چیف الیکشن کمیشن کے غیر جانبدار ہونے اور پروفیشنل ہونے کا سرٹیفکیٹ دے چکے ہیں اور فارن فنڈنگ کیس میں تاخیر کا ذمہ دار پرانے چیف الیکشن کمشنر کوقرار دہتے ہوئے کیس کی سماعت ٹی وی پر براہ راست دکھانے کا بھی کہہ چکے ہیں لیکن اب اس اپنے ہی لگائے ہوئے الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے باوجود اس کے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک آئینی ادارہ اور چیف الیکشن کمشنر ایک آئینی عہدہ ہے جسے صرف اور صرف آئینی طریقے سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے اور اسکا طریقہ کار آئین میں درج ہے لیکن پھر بھی آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کی بجائے متنازعہ بنا کر استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرح یہ معاملہ حکومت کے اپنے اگلے بھی پڑ سکتا ہے مگر لگ یہی رہا ہے کہ حکومت اپنی بقاء کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ ادھر پی ڈی ایم کی اہم بیٹھک ہو رہی ہے جس میں لانگ مارچ،استعفوں سمیت تمام امور طے ہونا ہیں ۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے رہنماوں کے بیانیہ سے لگ یہی رہا ہے کہ اس بیل کا منڈے چڑھنا مشکل ہے کیونکہ اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر اپوزیشن جماعتیں ایک صفحے پر دکھائی نہیں دیتیں ، البتہ مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام میں اس معاملے پر ہم آہنگی معلوم ہوتی ہے۔ مگر پاکستان پیپلز پارٹی کا بیانیہ اس سے مختلف نظر آتا پے وہ استعفوں کے حق میں نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ استعفے آخری آپشن ہیں ، لانگ مارچ سے کام چل جائے استعفوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جیت کس مقدر ٹھہرتی ہے حکومت یا پھر اپوزینش ؟
Load Next Story