پرویز مشرف کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرنیوالے ٹھوس دلائل پیش کریں یا دستبردار ہوجائیں الطاف حسین
غداری کیس میں سزا کا مطالبہ کرنیوالے دلائل کاجواب پیش نہیں کرسکتے تو اپنےمطالبات سےدستبردار ہوجائیں، الطاف حسین
ORAKZAI:
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلاکر سزا کا مطالبہ کرنے والے ان کےدلائل کے جواب میں ٹھوس دلائل پیش کریں یا پھر اپنے مطالبات سے دستبردار ہوجائیں۔
لندن میں آئینی وقانونی ماہرین اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو فوج کے جرنیل اور افسران زمین پرمنتخب حکومت کی برطرفی کے اقدامات کررہے تھے اس وقت جنرل پرویزمشرف فضاؤں میں سفرکررہے تھے۔ 12 اکتوبر کو آئین کی عارضی معطلی کا اعلان ہوا اور ایک عبوری آئین جاری کیا گیا تو سپریم کورٹ کے جسٹس ارشادحسن خان، جسٹس افتخارمحمدچوہدری اوردوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا۔ الطاف حسین نے سوال کیا کہ پی سی او کے تحت حلف لینے والے سپریم کورٹ کے ججوں نے آئین کی کس شق کے تحت 12 اکتوبر کے اقدام کو درست اورجائز قراردیا؟ کس آئین کے تحت جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت کو 3 سال تک کام کرنے کی اجازت دی؟ اور کس آئین وقانون کے تحت فوجی حکومت کوآئین میں ترامیم کااختیاردیا؟
الطاف حسین نے مزید سوال کیا کہ بعض سیاستدان اورآئینی وقانونی ماہرین 12 اکتوبر کے اقدام کو غیرآئینی قراردینے کے بجائے صرف 3 نومبر2007ء کے ایمرجنسی کے نفاذ کوآئین کی خلاف ورذی کیوں قراردے رہے ہیں؟ کس آئین وقانون کے تحت صرف اورصرف جنرل پرویزمشرف کوایمرجنسی کے نفاذ کا تنہا ذمہ دارٹھہراکر انہیں جیل میں قیدکیاگیاہے؟ اور جنرل پرویزمشرف کے باقی شریک کارجرنیلوں اوران کے اقدامات کوجائز قرار دینے والوں کوآئین کی کس شق کے تحت قیدوبند کی صعوبتوں اور عدالتوں میں کیس بھگتنے سے آزاد قراردیاگیا ہے؟
الطاف حسین نے کہا ہے کہ پرویزمشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلاکر پھانسی یا سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کرنے والے ان کےدلائل کے جواب میں ٹھوس دلائل پیش کریں یاپھر اپنے مطالبات سے دستبردار ہوجائیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلاکر سزا کا مطالبہ کرنے والے ان کےدلائل کے جواب میں ٹھوس دلائل پیش کریں یا پھر اپنے مطالبات سے دستبردار ہوجائیں۔
لندن میں آئینی وقانونی ماہرین اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو فوج کے جرنیل اور افسران زمین پرمنتخب حکومت کی برطرفی کے اقدامات کررہے تھے اس وقت جنرل پرویزمشرف فضاؤں میں سفرکررہے تھے۔ 12 اکتوبر کو آئین کی عارضی معطلی کا اعلان ہوا اور ایک عبوری آئین جاری کیا گیا تو سپریم کورٹ کے جسٹس ارشادحسن خان، جسٹس افتخارمحمدچوہدری اوردوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا۔ الطاف حسین نے سوال کیا کہ پی سی او کے تحت حلف لینے والے سپریم کورٹ کے ججوں نے آئین کی کس شق کے تحت 12 اکتوبر کے اقدام کو درست اورجائز قراردیا؟ کس آئین کے تحت جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت کو 3 سال تک کام کرنے کی اجازت دی؟ اور کس آئین وقانون کے تحت فوجی حکومت کوآئین میں ترامیم کااختیاردیا؟
الطاف حسین نے مزید سوال کیا کہ بعض سیاستدان اورآئینی وقانونی ماہرین 12 اکتوبر کے اقدام کو غیرآئینی قراردینے کے بجائے صرف 3 نومبر2007ء کے ایمرجنسی کے نفاذ کوآئین کی خلاف ورذی کیوں قراردے رہے ہیں؟ کس آئین وقانون کے تحت صرف اورصرف جنرل پرویزمشرف کوایمرجنسی کے نفاذ کا تنہا ذمہ دارٹھہراکر انہیں جیل میں قیدکیاگیاہے؟ اور جنرل پرویزمشرف کے باقی شریک کارجرنیلوں اوران کے اقدامات کوجائز قرار دینے والوں کوآئین کی کس شق کے تحت قیدوبند کی صعوبتوں اور عدالتوں میں کیس بھگتنے سے آزاد قراردیاگیا ہے؟
الطاف حسین نے کہا ہے کہ پرویزمشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلاکر پھانسی یا سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کرنے والے ان کےدلائل کے جواب میں ٹھوس دلائل پیش کریں یاپھر اپنے مطالبات سے دستبردار ہوجائیں۔