خالق کی ناراضگی

حُسن کا خالق خود کتنا حسین ہوگا اور جو اس لمحے حُسن کے خالق کے دیدار کی نعمت سے سرفراز ہو گیا اس کے کیا کہنے۔

gfhlb169@gmail.com

ہماری یہ دنیا ہم ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں۔جنھیں کبھی یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح ہے بھی یا نہیں۔

بس جدھر دنیا چل رہی ہو یا جدھر خواہشِ نفس دھکیل کر لے جائے یا جدھر قدم اُٹھ جائیں اسی طرف نکل جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں وہ افراد بھی مل جاتے ہیں جن کی اولین صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ بھلائی اور برائی میں تمیز کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔برائی سے بچنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں،خیر کے طالب رہتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو بہترین اعمال سے مزین کرنے کی تگ و دو میں جڑے رہتے ہیں۔

یہی وہ لوگ ہیں جن کو قرآن میں بہترین مخلوق کہا گیا ہے اور انھیں ہی بہترین جزا کی نوید سنائی گئی ہے۔الکتاب اﷲ کے بے پناہ لطف و کرم کی بدولت رہتی دنیا تک ایسی ہدایت فراہم کرتی ہے جس میں فلاح ہی فلاح ہے اور کبھی کسی خسارے کا اندیشہ نہیں لیکن اس کتابِ ہدایت سے صرف وہ انسان مستفید ہو سکتے ہیں جو اﷲ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔آکسفورڈ ڈکشنری آف اسلام کے مطابق تقویٰ کا لفظ قرآنِ مجید میں کوئی 100بار آیا ہے اور اگر اس سے نکلے الفاظ کو دیکھیں تو یہ 250بار آئے ہیں۔قرآنِ مجید کی تمام تفاسیر اور ترجمے عمومی طور پر لفظ تقویٰ کا ترجمہ اﷲ کا ڈر یا خوف کرتے ہیں۔سورۃ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں ایسے لوگوں کا ذکر مل جاتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔

فرمان ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔جس میں ہر بات اتنی ٹھوس،اتنی پائیدار ہے کہ شک کا کوئی پہلو نکل ہی نہیں سکتا۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کتاب متقین کے لیے سراسر ہدایت ہے۔ اسی طرح سورۃ حجرات کی آیت نمبر 13میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اﷲ کے ہاں صرف وہی لوگ مکرم ہیں جو متقی ہیں۔کہا گیا ہے کہ حج کے لیے بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔آخرت میں کامیابی کا دار و مدار تقویٰ پر ہے۔یہ انسان کو اﷲ کا محبوب بناتا ہے۔ازدواجی زندگی کی کامیابی کی ضمانت بنتاہے۔انسان کے اندر امانت،وفا اور صبر پیدا کرتا ہے۔

ڈر اور خوف کے علاوہ تقویٰ کا مطلب God Consciousness اورForbearanceبھی کیا گیا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب انسان کا کائنات میں اپنا مقام پہچان کر محتاط رہنا ہے،اﷲ کی سلطنت،اس کی کائنات اتنی وسیع ہے کہ ابھی تک ہم اپنے آسمانِ دنیا کو بھی نہیں جان سکے اور بنانے والا خود سات آسمانوں کی بات کرتا ہے۔اتنی وسیع و عریض اور عظیم سلطنت میں اولادِ آدم کیا ہے اور اس کی ذمے داریاں کیا ہیں،ایسے سوالات سے آگہی حاصل کر کے زندگی کی نعمت سے بارآور ہونا تقویٰ ہے۔

ایک اور اہلِ علم نے کہا کہ تقویٰ قلب کی وہ اعلیٰ ترین حالت ہے جو ایک انسان کو ہر وقت اس بات کا احساس دلاتی رہتی ہے کہ اسے یونہی عبث دنیا میں نہیں لایا گیا۔اس کی کارکردگی،اس کا ہر عمل ہر وقت،ہر لمحے اﷲ کی نظر میں ہے۔

اس علیم و خبیر کی نظر میں جس نے اپنے علم سے ساری کائنات کا احاطہ کر رکھا ہے۔تفسیر ابنِ کثیر میں کہا گیا ہے کہ آپ جس چیز کو نا پسند کرتے ہیں اس سے اجتناب تقویٰ ہے۔بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عمر فاروق اکٹھے تھے تو سیدنا عمر نے سیدنا ابی سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک تقویٰ کیا ہے۔

انھوں نے فرمایا کہ امیر المومنین یہ بالکل اس طرح ہے کہ کوئی شخص خاردار جھاڑیوں سے اٹے ایک تنگ راستے پر جا رہا ہو اور وہ اپنے کپڑوں کو سمیٹے ہوئے ہو کہ کہیں اس کی پوشاک کانٹوں میں نہ الجھ جائے بالکل اسی طرح ایک مومن اگر اپنی زندگی میں اپنا دامن آلودگیوں سے بچا کر گذار لے تو یہی تقویٰ ہے۔کہتے ہیں کہ سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے اس کو کچھ اسی طرح بیان کیا کہ آپ خلوت و جلوت میں اس طرح رہیں کہ آپ کے قلب پر کہیں داغ نہ نظر آئے تو یہ ایک متقی کی زندگی ہے۔


تقویٰ کا ایک سیدھا سادھا مظاہرہ کچھ یوں ہے کہ آپ کے پاس ہر طرح کا موقع ہے، آپ نا جائز فائدہ اٹھائیں، آپ کو بظاہر کوئی روکنے والا بھی نہیں،الزام لگانے والا بھی کوئی نہیں لیکن آپ نا جائز فائدہ اٹھانے سے صرف اس لیے رک جائیں کہ مجھے اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے قانون کا پاس کرنا ہے۔ تقویٰ کا ایک پر تو یہ ہے کہ ایک آدمی نے صریحاً زیادتی کی ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کمزور ہے اور آپ بڑھ کے اس کو تھام لیتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کے لیجنڈری صدر نیلسن منڈیلا ایک دفعہ اپنے اسٹاف کے ہمراہ ایک کیفے میں گئے اور کافی کا آرڈر کیا۔ دوسرے ٹیبل پر پہلے سے ایک آدمی بیٹھا کافی پی رہا تھا۔وہ آدمی جناب منڈیلا کو دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگا۔ جناب نیلسن منڈیلا اس کے پاس گئے گلے لگایا اور تب کہیں جا کر اس کی کپکپاہٹ دور ہوئی۔جناب منڈیلا جب کیفے سے رخصت ہوئے تو ان کے اسٹاف کے ایک فرد نے ان سے دریافت کیا کہ یہ شخص کون تھا اور آپ نے اس پر کیوں اتنا التفات کیا۔

منڈیلا نے بتایا کہ جب وہ جیل میں تھے تو یہ شخص جیلر تھا اور ان پر روزانہ تشدد کرتا تھا ، آج اچانک جب میں سامنے آگیا تو اس نے سمجھا کہ اب میں چونکہ صدر ہوں اور میں نے اس کو دیکھ لیا ہے اس لیے اس کی خیر نہیں، اسی لیے میں نے جا کر اسے گلے لگایا تا کہ اس کا خوف دور ہو۔ تو جب آپ بدلہ لینے کی پوری طاقت رکھتے ہوں اور آپ نہ صرف معاف کر دیں بلکہ آگے بڑھ کر اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے کو تھام لیں تو شاید یہ تقویٰ کی اعلیٰ ترین قسم ہو گی۔

پہلے بیان ہوا ہے کہ تقویٰ کے معروف معنی اﷲ کا ڈر یا خوف ہے۔چونکہ یہ ترجمہ کرنے والے بزرگ علم و فضل کے بہت ہی اعلیٰ مقام پر فائز ہیں، اس لیے کوئی اور ترجمہ شاید ممکن نہیں لیکن قرآن کے مجموعی پیغام کو سامنے رکھیں تو آدمی سوچتا ہے کہ وہ رب العالمین جو قرآن کے بالکل ابتدائیہ میں اپنا تعارف رحمٰن اور رحیم کی صفت سے کراتا ہے ،کیا وہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ مجھ سے ڈرو۔رحمٰن اور رحیم دونوں الفاظ ایک دوسرے کو Supplement کرتے ہیں۔

رحمٰن کثرت کے لیے ہے لیکن اس مں ہمیشگی نہیں۔رحیم ہمیشگی کے لیے ہے لیکن جب دونوںالفاظ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ تمھارا رب وہ اﷲ ہے جس کی رحمت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے اور وہ بکثرت ہے۔اس پسِ منظر میں تقویٰ کے معروف معانی دل کو نہیں لگتے۔

جو خدا رحمٰن و رحیم ہو،جو اپنا تعارف ہی اپنی بے پایاں رحمت کے حوالے سے کرواتا ہو۔جس کے بارے میں کہا گیا ہو کہ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔جو زمین و آسمانوں کا نور ہواس خدا سے خوف نہیں بلکہ سراسر محبت پھوٹنی چاہیے۔

قارئینِ محترم حشر میں ایک انتہائی با برکت،انتہائی انمول اور ساری کائناتی زندگی میں ایک ایسی گھڑی آنے والی ہے ایسی خوبصورت،حسین اور ُپرنور گھڑی جس کا اس زمینی زندگی میں تصور ہی محال ہے جس کو بیان کرنے کے لیے ہماری اس زندگی میں الفاظ ہی نہیں۔یہ وہ گھڑی ہے جس میں ہمارا خالق و مالک اپنے کامیاب بندوں کو اپنے دیدار سے بامشرف کرے گا۔جن کو سعادت کے اس لمحے کا پورا ادراک ہے وہ اس کے انتظار میں ہیں۔

امام غزالی نے ایک ایسے ہی منتظر کا لکھا ہے کہ وہ ہر دعا میں یہ التجا کرتے تھے کہ میرے اﷲ جب آپ اپنے بندوں کو دیدار کروانے کی سعادت کا فیصلہ فرمائیں تو مجھے جلا کر سرُما بناکر ان سب کی آنکھوں میں پھیر دے جن کو یہ سعادت نصیب ہونی ہے تاکہ میں ان سب نظروں سے تجھے دیکھ سکوں۔ حُسن کا خالق خود کتنا حسین ہوگا اور جو اس لمحے حُسن کے خالق کے دیدار کی نعمت سے سرفراز ہو گیا اس کے کیا کہنے اور جو محروم رہا اس کی بدبختی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تقویٰ کے معروف معنی یعنی اﷲ کا ڈر یا خوف کے بجائے حسن کے خالق کی ناراضگی سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اس کی ناراضگی اس کے دیدار سے محرومی ہوگی۔قرآنی عربی کے ایک یورپی ماہرEric Ohlanderنے اسی لیے تقویٰ کا یہ مطلب لیا ہے کہ تقویٰ وہ کردار ہے جس کا حامل اپنے آپ کو اﷲ کی ناراضگی سے بچاتا ہو۔
Load Next Story