ایوان بالا کے انتخاب کا معمہ
سینیٹ کے حالیہ ہنگامہ کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے اس کی آئینی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
ISLAMABAD:
سینیٹ الیکشن کا معرکا ختم ہوا، مگر اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گیا ہے اور صرف حکومت نہیں، بلکہ اپوزیشن کے بھی اندورنی تضادات نمایاں طور پر سامنے آ گئے ہیں۔ پہلے راونڈ میں حکومت کو یکے بعد دیگرے دودھچکے لگے۔ پہلا یہ کہ حکومت اوپن بیلٹ سے الیکشن کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔
دوسرا یہ کہ سندھ اسمبلی کے دو حکومتی ارکان نے علی الاعلان اپوزیشن کے امیدوارکو ووٹ دیا، بلکہ حکومت کی عین ناک کے نیچے اسلام آباد میں بھی 16حکومتی ارکان نے حکومتی امیدوار مسترد کردیا۔ اگلے راونڈ میں حکومت نے اپوزیشن کا اس طرح حساب چکایا کہ باوجود اس واضح فرق کے کہ سینیٹ میں اپوزیشن اتحادکے 53 ارکان کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کے پاس 47 ارکان تھے ، حکومت اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ''منتخب'' کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
سینیٹ کے حالیہ ہنگامہ کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے اس کی آئینی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً :1، سینیٹ میں چاروں صوبوں کو مساوی نمایندگی حاصل ہے؛ یعنی اس میں جتنی نمایندگی اور جیسی اہمیت پنجاب کی ہے، جو اپنی آبادی، اپنی اسمبلی کی عددی قوت اور اپنے وسائل کے حجم کے اعتبار سے سب سے بڑا اور طاقت ور صوبہ ہے، اتنی ہی نمایندگی اور ایسی ہی اہمیت بلوچستان کی ہے، جو آبادی، اسمبلی اور وسائل کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور کمزورصوبہ ہے۔
2، آئینی طور پرکوئی بھی قانونی بل اس وقت تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکتاجب تک کہ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ بھی اس کی منظوری نہ دیدے۔ یعنی، اگر کسی پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہو تو محض قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پرکوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔
3، سینیٹ کو اس لحاظ سے قومی اسمبلی پر برتری حاصل ہے کہ قومی اسمبلی قبل ازوقت ختم ہو جائے، تب بھی سینیٹ آئینی طور پر اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔ صدر ( جو کہ علامتی طور پر افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتاہے)کی غیر موجودگی میں عام طور پر چیئرمین سینیٹ ہی قائمقام صدر کے فرائض انجام دیتا ہے۔
کسی ناگہانی حادثہ کے نتیجے میں اگر صدر، وزیراعظم، حکومت اور قومی اسمبلی میں سے کوئی بھی دستیاب نہ ہو، جیسا کہ 17اگست 1988 میں ہوا، تو ایسی صورت میں بھی عبوری طور پر چیئرمین سینیٹ ہی سربراہ مملکت کی ذمے داریاں سنبھالتا ہے اور علامتی طور پر افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر قرار پاتا ہے۔
سینیٹ کے حالیہ الیکشن کی گونج حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تشکیل کے ساتھ ہی سنائی دینے لگی تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی کے سوا باقی پارٹیوں کی رائے یہ تھی کہ سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے، بلکہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن تو اس سے پہلے اسمبلیوں سے استعفے دینے اور ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کر نے کے حق میں بھی تھے۔
پیپلز پارٹی کی چونکہ سندھ میں اپنی حکومت ہے، اور وہ اس کے بل پر سینیٹ میں اپنی پوزیشن کو مزید بہتر بنانا چاہتی تھی، لہٰذاآصف زرداری نے نوازشریف اور فضل الرحمن کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ جن دنوں پی ڈی ایم کے اندر سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کے بارے میں بحث چل رہی تھی، حکومت کے جذبہ بے اختیار شوق کا یہ عالم تھا کہ قبل از وقت سینیٹ الیکشن کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ تاہم جیسے ہی پی ڈی ایم کا سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ سامنے آیا، یہ جوش وخروش ماند پڑ گیا۔
اسلام آباد کی سیٹ پر پی ڈی ایم نے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار نامزد کیا۔ موصوف نے پہلے تو امیدوار بننے سے معذرت کرلی، مگر چند روز بعد نہایت معنی خیز انداز میں یہ کہہ کے انتخابی مہم شروع کر دی کہ ''اسٹیبلشمنٹ'' اس الیکشن میں مکمل طور پر غیرجانبدار ہے۔ یہ گویا ان کی طرف سے حکومتی ارکان کے لیے پیغام تھا کہ انھیںووٹ دینے پر'' ایسٹیبلشمنٹ'' کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اگرچہ اس تاثر کو اس وقت تھوڑا سانقصان ضرور پہنچا، جب چوہدری برادران نے یوسف رضا گیلانی کی حمایت نہیں کی، لیکن عمومی راے یہی تھی کہ ایسٹیبلشمنٹ کو یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں پہنچنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بہرحال سینیٹ الیکشن کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوا، تو ماضی کی طرح اس بار بھی تحریک انصاف ہی میں سب سے زیادہ بے چینی پائی جا رہی تھی۔ سندھ میں بعض ارکان نے کھلم کھلا حکومتی امیدواروں پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا۔ پنجاب میں الیکشن ہوتا تو یہاں سندھ سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر حکومتی ارکان اپنی ناراضی کا مظاہرہ کرسکتے تھے۔ صوبہ میں حکومتی پارٹی کے اندر جو گروپ بندی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
کسی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے وزیراعظم نے چوہدری پرویزالٰہی سے براہ راست رابطہ قائم کرکے تعاون کی درخواست کی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ماضی کے تمام تر تلخ تجربات کے باوجود اس طرح ان کی مدد کی کہ پنجاب سے تحریک انصاف کی جتنی نشستیں بنتی تھیں، وہ ان کو بلامقابلہ ہی دلوا دیں۔ وزیراعلیٰ کو تنکا بھی دہرا نہیں کرنا پڑا۔
سندھ اور اسلام آبادکے محاذ پر جیسا کہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا،حکومت اپنے کچھ ارکان کو نہ سنبھال سکی، اور یوسف رضاگیلانی بڑی آسانی سے سینیٹ میں پہنچ گئے۔ حکومت کے لیے یہ ایسا دھچکا تھا، کہ اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اس کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔ مگر اس کے بعد کے مرحلہ میں جو کچھ ہوا، اس نے حکومت اور اپوزیشن کی سیکرٹ بیلٹ کے حوالے سے ''اصولی موقف'' کی حقیقت پوری قوم پر آشکار کردی۔
سینیٹ چیئرمین کے عہدے کے لیے حکومت مخالف اتحاد نے یوسف رضا گیلانی ہی کو میدان میں اتارا۔ حکومت نے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار بنایا۔ یاد رہے کہ صادق سنجرانی اس عہدے کے لیے پچھلی مرتبہ پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار تھے اور بلاول زرداری نے ان کے انتخاب پر قوم کو مبارکباد دی تھی۔ ڈپٹی چیئرمین کے لیے حکومت نے فاٹا کے ایک کھرپ پتی سینیٹر مرزا محمد آفریدی کو ٹکٹ دیا۔ یہ صاحب گزشتہ الیکشن میں پہلی مرتبہ سینیٹ میں پہنچے تھے، آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے، پھر باضابطہ طور پر ن لیگ میں شامل ہو گئے، اس کے بعد پراسرار طور پراس سے علیحدہ بھی ہو گئے۔ اب پھر انھوں نے ظہور کیا ہے۔ سینیٹ میں حکومتی اتحاد پر پی ڈی ایم کی عددی برتری کے بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔
اس بار سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں تکنیکی طور پر ایک ایسا سقم ہے، جو اگر عدالتوں میں زیر بحث آیا تو حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ یوسف رضاگیلانی کے 7 ووٹ جس تکنیکی بنیاد پر مسترد ہوئے، وہ کافی دلچسپ ہے؛ یعنی اگر ان ارکان نے واقعی حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنا ووٹ ضایع کیا، تو بھی پوری طرح ضایع نہیں کیا؛ کیونکہ ان کی مہر نہ صرف یہ کہ یوسف رضا گیلانی کے خانے کے اندر ہے، بلکہ اس کا کوئی معمولی سا حصہ اس کے بارڈر کو بھی touch نہیں کر رہا ۔
اس طرح، ان ارکان نے اگر کسی دباؤ کے تحت یہ کچھ کیا تو بھی ملفوف انداز میںاپنی رائے ظاہر کردی ہے؛ جیسے بعض مقامات پر سڑک پر مڑنے کے بارے میں کوئی ہدایت تو درج نہیں ہوتی، مگر تیر کا نشان گزرنے والوں کی راہ نمائی کا سامان کر رہا ہوتا ہے۔ یوسف رضاگیلانی کے خانے کے اندر ، ان کے نام پر مہر کا نشان حقیقتاً اس تیر کے نشان کی طرح ہے، جو زبان حال سے ووٹر کی راے کا اظہار کر رہا ہے۔ اس زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کا معمہ ، کوئی معمہ نہیں، بلکہopen secret ہے۔
سینیٹ الیکشن کا معرکا ختم ہوا، مگر اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گیا ہے اور صرف حکومت نہیں، بلکہ اپوزیشن کے بھی اندورنی تضادات نمایاں طور پر سامنے آ گئے ہیں۔ پہلے راونڈ میں حکومت کو یکے بعد دیگرے دودھچکے لگے۔ پہلا یہ کہ حکومت اوپن بیلٹ سے الیکشن کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔
دوسرا یہ کہ سندھ اسمبلی کے دو حکومتی ارکان نے علی الاعلان اپوزیشن کے امیدوارکو ووٹ دیا، بلکہ حکومت کی عین ناک کے نیچے اسلام آباد میں بھی 16حکومتی ارکان نے حکومتی امیدوار مسترد کردیا۔ اگلے راونڈ میں حکومت نے اپوزیشن کا اس طرح حساب چکایا کہ باوجود اس واضح فرق کے کہ سینیٹ میں اپوزیشن اتحادکے 53 ارکان کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کے پاس 47 ارکان تھے ، حکومت اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ''منتخب'' کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
سینیٹ کے حالیہ ہنگامہ کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے اس کی آئینی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً :1، سینیٹ میں چاروں صوبوں کو مساوی نمایندگی حاصل ہے؛ یعنی اس میں جتنی نمایندگی اور جیسی اہمیت پنجاب کی ہے، جو اپنی آبادی، اپنی اسمبلی کی عددی قوت اور اپنے وسائل کے حجم کے اعتبار سے سب سے بڑا اور طاقت ور صوبہ ہے، اتنی ہی نمایندگی اور ایسی ہی اہمیت بلوچستان کی ہے، جو آبادی، اسمبلی اور وسائل کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور کمزورصوبہ ہے۔
2، آئینی طور پرکوئی بھی قانونی بل اس وقت تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکتاجب تک کہ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ بھی اس کی منظوری نہ دیدے۔ یعنی، اگر کسی پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہو تو محض قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پرکوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔
3، سینیٹ کو اس لحاظ سے قومی اسمبلی پر برتری حاصل ہے کہ قومی اسمبلی قبل ازوقت ختم ہو جائے، تب بھی سینیٹ آئینی طور پر اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔ صدر ( جو کہ علامتی طور پر افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتاہے)کی غیر موجودگی میں عام طور پر چیئرمین سینیٹ ہی قائمقام صدر کے فرائض انجام دیتا ہے۔
کسی ناگہانی حادثہ کے نتیجے میں اگر صدر، وزیراعظم، حکومت اور قومی اسمبلی میں سے کوئی بھی دستیاب نہ ہو، جیسا کہ 17اگست 1988 میں ہوا، تو ایسی صورت میں بھی عبوری طور پر چیئرمین سینیٹ ہی سربراہ مملکت کی ذمے داریاں سنبھالتا ہے اور علامتی طور پر افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر قرار پاتا ہے۔
سینیٹ کے حالیہ الیکشن کی گونج حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تشکیل کے ساتھ ہی سنائی دینے لگی تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی کے سوا باقی پارٹیوں کی رائے یہ تھی کہ سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے، بلکہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن تو اس سے پہلے اسمبلیوں سے استعفے دینے اور ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کر نے کے حق میں بھی تھے۔
پیپلز پارٹی کی چونکہ سندھ میں اپنی حکومت ہے، اور وہ اس کے بل پر سینیٹ میں اپنی پوزیشن کو مزید بہتر بنانا چاہتی تھی، لہٰذاآصف زرداری نے نوازشریف اور فضل الرحمن کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ جن دنوں پی ڈی ایم کے اندر سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کے بارے میں بحث چل رہی تھی، حکومت کے جذبہ بے اختیار شوق کا یہ عالم تھا کہ قبل از وقت سینیٹ الیکشن کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ تاہم جیسے ہی پی ڈی ایم کا سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ سامنے آیا، یہ جوش وخروش ماند پڑ گیا۔
اسلام آباد کی سیٹ پر پی ڈی ایم نے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار نامزد کیا۔ موصوف نے پہلے تو امیدوار بننے سے معذرت کرلی، مگر چند روز بعد نہایت معنی خیز انداز میں یہ کہہ کے انتخابی مہم شروع کر دی کہ ''اسٹیبلشمنٹ'' اس الیکشن میں مکمل طور پر غیرجانبدار ہے۔ یہ گویا ان کی طرف سے حکومتی ارکان کے لیے پیغام تھا کہ انھیںووٹ دینے پر'' ایسٹیبلشمنٹ'' کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اگرچہ اس تاثر کو اس وقت تھوڑا سانقصان ضرور پہنچا، جب چوہدری برادران نے یوسف رضا گیلانی کی حمایت نہیں کی، لیکن عمومی راے یہی تھی کہ ایسٹیبلشمنٹ کو یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں پہنچنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بہرحال سینیٹ الیکشن کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوا، تو ماضی کی طرح اس بار بھی تحریک انصاف ہی میں سب سے زیادہ بے چینی پائی جا رہی تھی۔ سندھ میں بعض ارکان نے کھلم کھلا حکومتی امیدواروں پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا۔ پنجاب میں الیکشن ہوتا تو یہاں سندھ سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر حکومتی ارکان اپنی ناراضی کا مظاہرہ کرسکتے تھے۔ صوبہ میں حکومتی پارٹی کے اندر جو گروپ بندی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
کسی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے وزیراعظم نے چوہدری پرویزالٰہی سے براہ راست رابطہ قائم کرکے تعاون کی درخواست کی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ماضی کے تمام تر تلخ تجربات کے باوجود اس طرح ان کی مدد کی کہ پنجاب سے تحریک انصاف کی جتنی نشستیں بنتی تھیں، وہ ان کو بلامقابلہ ہی دلوا دیں۔ وزیراعلیٰ کو تنکا بھی دہرا نہیں کرنا پڑا۔
سندھ اور اسلام آبادکے محاذ پر جیسا کہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا،حکومت اپنے کچھ ارکان کو نہ سنبھال سکی، اور یوسف رضاگیلانی بڑی آسانی سے سینیٹ میں پہنچ گئے۔ حکومت کے لیے یہ ایسا دھچکا تھا، کہ اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اس کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔ مگر اس کے بعد کے مرحلہ میں جو کچھ ہوا، اس نے حکومت اور اپوزیشن کی سیکرٹ بیلٹ کے حوالے سے ''اصولی موقف'' کی حقیقت پوری قوم پر آشکار کردی۔
سینیٹ چیئرمین کے عہدے کے لیے حکومت مخالف اتحاد نے یوسف رضا گیلانی ہی کو میدان میں اتارا۔ حکومت نے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار بنایا۔ یاد رہے کہ صادق سنجرانی اس عہدے کے لیے پچھلی مرتبہ پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار تھے اور بلاول زرداری نے ان کے انتخاب پر قوم کو مبارکباد دی تھی۔ ڈپٹی چیئرمین کے لیے حکومت نے فاٹا کے ایک کھرپ پتی سینیٹر مرزا محمد آفریدی کو ٹکٹ دیا۔ یہ صاحب گزشتہ الیکشن میں پہلی مرتبہ سینیٹ میں پہنچے تھے، آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے، پھر باضابطہ طور پر ن لیگ میں شامل ہو گئے، اس کے بعد پراسرار طور پراس سے علیحدہ بھی ہو گئے۔ اب پھر انھوں نے ظہور کیا ہے۔ سینیٹ میں حکومتی اتحاد پر پی ڈی ایم کی عددی برتری کے بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔
اس بار سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں تکنیکی طور پر ایک ایسا سقم ہے، جو اگر عدالتوں میں زیر بحث آیا تو حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ یوسف رضاگیلانی کے 7 ووٹ جس تکنیکی بنیاد پر مسترد ہوئے، وہ کافی دلچسپ ہے؛ یعنی اگر ان ارکان نے واقعی حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنا ووٹ ضایع کیا، تو بھی پوری طرح ضایع نہیں کیا؛ کیونکہ ان کی مہر نہ صرف یہ کہ یوسف رضا گیلانی کے خانے کے اندر ہے، بلکہ اس کا کوئی معمولی سا حصہ اس کے بارڈر کو بھی touch نہیں کر رہا ۔
اس طرح، ان ارکان نے اگر کسی دباؤ کے تحت یہ کچھ کیا تو بھی ملفوف انداز میںاپنی رائے ظاہر کردی ہے؛ جیسے بعض مقامات پر سڑک پر مڑنے کے بارے میں کوئی ہدایت تو درج نہیں ہوتی، مگر تیر کا نشان گزرنے والوں کی راہ نمائی کا سامان کر رہا ہوتا ہے۔ یوسف رضاگیلانی کے خانے کے اندر ، ان کے نام پر مہر کا نشان حقیقتاً اس تیر کے نشان کی طرح ہے، جو زبان حال سے ووٹر کی راے کا اظہار کر رہا ہے۔ اس زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کا معمہ ، کوئی معمہ نہیں، بلکہopen secret ہے۔