خدارا اب بند بھی کردیں
یہ رسم یا روایت اگر حقیقی طور پر کوئی اچھی بنیاد رکھتی تو بھی کچھ بات نظر آتی۔
خواتین کا عالمی دن، ماؤں کا عالمی دن، بچوں کا عالمی دن، والد کا عالمی دن، ذیابیطس کا عالمی دن، کینسر سے بچاؤ کی مہم کا عالمی دن غرض کیلنڈر اٹھا کر دیکھ لیں ہر مہینے کسی نہ کسی دن کوئی نہ کوئی دن ضرور منایا جاتا ہے۔
ان تمام عالمی دنوں کو جن سے ابھی ہم شناسا نہیں ہیں منانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ تو عالمی طور پر اسے باقاعدہ طور پر سہرا باندھنے والے ہی بتا سکتے ہیں لیکن اس کو اپنے اپنے مقاصد کے طور پر استعمال کرنا انسانیت کے ساتھ ظلم ہے، یعنی آئیے ہم سب کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اور اگر ایک دن یوں بھی رکھ لیا جائے تو۔
2018 میں سندھ کے ضلع دادو میں میہڑ کے مقام پر تہرے قتل کی سنگین واردات ہوئی تھی جہاں ایک بزرگ باپ اور اس کے ادھیڑ عمر اور جواں سال بیٹے کو شقی القلبی سے قتل کیا گیا تھا۔ چانڈیو قبیلے کے ایک ساتھ تین افراد کا قتل تشویش ناک تھا، ایسے میں ایک اٹھارہ برس کی لڑکی انصاف کے حصول کے لیے اٹھتی ہے، ام رباب آج اکیس برس کی ہوچکی ہے، جاگیردارانہ نظام کے خلاف وہ نوجوان لڑکی کیا کرسکتی ہے؟ کیا انصاف کی اس جنگ میں اسے کامیابی مل سکے گی؟
انھی سوالوں کے بیچ میں عورت مارچ کے حوالے سے اٹھتے شورکی جانب ذرا دیکھیے تو ام رباب کا قد کچھ اور بھی اونچا دکھائی دیتا ہے، جس نے عورت کو اس کی پہچان دینے کا عہد نہیں کیا بلکہ ساری دنیا کو بتا دیا کہ سندھ کی دھرتی پر چاہے فرسودہ روایتوں کا کتنا ہی پہرہ ہو ہمارا اسلام عورت کو جو مقام دے چکا ہے ، ام رباب اسی کی ایک نکھری شکل ہے۔
کچھ اور پیچھے کی جانب چلیے جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے انتہائی بڑی عالمی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کیں اور حالات سے دلبرداشتہ ہو کر مغرب میں سکون سے رہنے کو پسند نہیں کیا بلکہ ایک عزم کے ساتھ اپنی تعلیم اور شناخت کو لے کر آگے بڑھیں، عورت کا مقام کیا ہے؟ اسلام کو چودہ سو برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔
ایسے میں جب بہت سے دنوں کی جھنکار میں خواتین کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں ذہنوں کی یادداشت کو دھار دکھانے کی ضرورت ہے کہ مقام تو اس قدرکا بلند ہے خواتین کا جو طے کر دیا ہے ہمارے رب اللہ تعالیٰ نے اور دکھا دیا ہے ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ نے عملی طور پر جب وہ اپنی رضاعی ماں دائی حلیمہ کی تکریم کے لیے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں اور اپنا کپڑا ان کے بیٹھنے کے لیے بچھاتے ہیں۔
خدانخواستہ اسلامی شعار میں عورت کے مقام کے حوالے سے کوئی شبہ کوئی غلطی نہیں ہے، بلکہ غلطی تو آج کے کم ذہنیت رکھنے والوں میں ہے جو فرسودہ رسومات بناتے ہیں اور عزت کے نام پر خون خرابہ کرتے ہیں۔
بی بی سی اردو نیوزکی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے ''غگ'' کی فرسودہ روایت کے خلاف قانون سازی کی اور صوبائی اسمبلی نے ''غگ ایکٹ'' منظورکروایا جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں مگر بیشتر قبائلی علاقوں میں اسے روایت کے طور پر اپنا لیا گیا تھا، اس غگ کے تحت اگر برادری کا کوئی شخص کسی خاتون یا لڑکی سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو برادری کا کوئی دوسرا شخص اس خاتون کو رشتہ نہیں بھجوا سکتا اور یوں وہ خاتون ایک طرح سے اس مذکورہ شخص کے لیے بک ہو جاتی ہے ، ظلم کی بات یہ کہ اس غگ کے اعلان کے لیے خاتون اس کے والدین یا رشتے داروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
یہ رسم یا روایت اگر حقیقی طور پر کوئی اچھی بنیاد رکھتی تو بھی کچھ بات نظر آتی لیکن یہاں ایسا دیکھا گیا کہ لوگ خواتین کو تنگ کرنے، بدلہ لینے یا رنجشوں کے چکر میں غگ کا اعلان کرکے معصوم لڑکیوں کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں، ویسے تو یہ جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی تھی لیکن پھر یہ پھیلتی چلی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے حق میں نعرے لگانے والوں کا تعلق شہری آبادی والے علاقوں سے ہے اور وہ بھی نہایت ماڈرن اور جدید انداز پر تربیت یافتہ این جی اوز جن کے بارے میں اگر یوں کہا جائے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے، تو بہتر رہے گا کیونکہ ہاتھی کے دانت خاصے مہنگے ہیں اور مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا بھی ہے۔
ادھر امریکا میں کیرولین کرائیڈڈ پیرز جو ایک صحافی ہیں اور ان وزبل وومن ، ایکسپوزنگ ڈیٹا بیس ان ورلڈ ڈیزائنڈ خواتین نامی کتاب تخلیق کرچکی ہیں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کو ناسا کی جانب سے اسپین سوٹ کے واقعے پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ، یہ وہی ہوا جو بار بار ہوتا آیا ہے اورکیونکہ ہم نے اس کو ایسے ہی بتایا ہے ، ہم خود ساختہ طور پر صرف مردوں کے انداز میں سوچنے کے عادی ہوچکے ہیں اور خواتین کو مردوں کی ایک قسم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مصنفہ صاحبہ دراصل ناراض تھیں کہ جب امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے خواتین پر مشتمل ایک ٹیم کی خلا میں چہل قدمی کا منصوبہ اس لیے عین وقت پر منسوخ کردیا کیونکہ خلائی سوٹ درست ناپ کا نہ تھا۔ اس بحث میں پڑنے کا کیا فائدہ کہ ناسا کا درزی ہی ناکارہ تھا اسے مردوں کے کپڑے سیتے سیتے عمر گزر گئی پر ایک جوڑا بھی کسی خاتون کا ڈھنگ سے نہ سی سکا اور شکر ہی ہوا کہ خلائی شٹل چھوٹنے سے پہلے کپڑے اچھی طرح سے چیک کرلیے گئے ورنہ خدا جانے کیا ہو جاتا ، خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کیرولین بی بی کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر ان مرد درزیوں کا کوسنا تو بنتا ہی ہے، لیکن ادھر پاکستان میں جو تماشے چند برسوں سے عورت کے حوالے سے کیے جا رہے ہیں۔
اس سے مرے ہوئے ہاتھی کی قیمت کو سوا لاکھ سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر حکومت کو سوچنا ہی ہوگا کہ آخر یہ کون عناصر ہیں جنھیں سوائے کھانا پکانے اور انتہائی لچر باتوں کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ، آخر کب تک خواتین کو ان فرسودہ ہتھکنڈوں سے جوڑ کر باعزت خواتین کی بے حرمتی کی جائے گی۔
دنیا بھر میں خواتین فوج ، پولیس اور دیگر شعبہ زندگی میں بھرپورکردار ادا کرتی نظر آ رہی ہیں وہیں پاکستان میں بھی خواتین سرگرم عمل ہیں، امریکی افواج میں جہاں خواتین کو جنسی جرائم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں ان مسائل کو برسوں سے سلجھانے کے لیے سوچا جا رہا ہے لیکن تاحال اس کے تحفظ کے لیے کوئی ترکیب کارگر نہ ہوئی۔
کیرولین نے خلائی سوٹ سے لے کر فوجی سازوسامان ،کاروں کے تجربے میں استعمال ہونے والی ڈمی جو مردکی ہوتی ہے یعنی گاڑی چلانے والی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ گہری چوٹ آنے کا امکان ہے جب کہ درمیانی چوٹ کا امکان 71 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
کار بنانے والے صنعت کاروں کو اس مسئلے پر بھی توجہ دینی چاہیے، اسمارٹ فونز، کھیلوں کا لباس، سائنسی آلات سے دفتر میں کام کرنے کی جگہ تک میں صنف نازک اور مرد حضرات میں واضح فرق ہے جو ان کے وزن، قوت، استعداد کے علاوہ دیگر مسائل کی جانب توجہ دلاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں غلط انداز میں خواتین ڈے کو گھٹیا اور لچر انداز کو پیش کرکے چند خاص لوگ جہاں اپنے مرے ہوئے ہاتھی اور اس کے دانتوں کی قیمت چمکا چمکا کر بڑھا رہے ہیں وہیں اپنی ذہنی حالت کا بھی مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ ایسے عناصر کی روک تھام پر سنجیدگی سے توجہ دیں جو دیسی اور بدیسی ہر طرح کے کھانے ٹھونس ٹھونس کے کھاتے ہیں اور اپنے مرے ہاتھیوں کی قیمت بڑھاتے ہیں۔
ان تمام عالمی دنوں کو جن سے ابھی ہم شناسا نہیں ہیں منانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ تو عالمی طور پر اسے باقاعدہ طور پر سہرا باندھنے والے ہی بتا سکتے ہیں لیکن اس کو اپنے اپنے مقاصد کے طور پر استعمال کرنا انسانیت کے ساتھ ظلم ہے، یعنی آئیے ہم سب کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اور اگر ایک دن یوں بھی رکھ لیا جائے تو۔
2018 میں سندھ کے ضلع دادو میں میہڑ کے مقام پر تہرے قتل کی سنگین واردات ہوئی تھی جہاں ایک بزرگ باپ اور اس کے ادھیڑ عمر اور جواں سال بیٹے کو شقی القلبی سے قتل کیا گیا تھا۔ چانڈیو قبیلے کے ایک ساتھ تین افراد کا قتل تشویش ناک تھا، ایسے میں ایک اٹھارہ برس کی لڑکی انصاف کے حصول کے لیے اٹھتی ہے، ام رباب آج اکیس برس کی ہوچکی ہے، جاگیردارانہ نظام کے خلاف وہ نوجوان لڑکی کیا کرسکتی ہے؟ کیا انصاف کی اس جنگ میں اسے کامیابی مل سکے گی؟
انھی سوالوں کے بیچ میں عورت مارچ کے حوالے سے اٹھتے شورکی جانب ذرا دیکھیے تو ام رباب کا قد کچھ اور بھی اونچا دکھائی دیتا ہے، جس نے عورت کو اس کی پہچان دینے کا عہد نہیں کیا بلکہ ساری دنیا کو بتا دیا کہ سندھ کی دھرتی پر چاہے فرسودہ روایتوں کا کتنا ہی پہرہ ہو ہمارا اسلام عورت کو جو مقام دے چکا ہے ، ام رباب اسی کی ایک نکھری شکل ہے۔
کچھ اور پیچھے کی جانب چلیے جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے انتہائی بڑی عالمی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کیں اور حالات سے دلبرداشتہ ہو کر مغرب میں سکون سے رہنے کو پسند نہیں کیا بلکہ ایک عزم کے ساتھ اپنی تعلیم اور شناخت کو لے کر آگے بڑھیں، عورت کا مقام کیا ہے؟ اسلام کو چودہ سو برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔
ایسے میں جب بہت سے دنوں کی جھنکار میں خواتین کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں ذہنوں کی یادداشت کو دھار دکھانے کی ضرورت ہے کہ مقام تو اس قدرکا بلند ہے خواتین کا جو طے کر دیا ہے ہمارے رب اللہ تعالیٰ نے اور دکھا دیا ہے ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ نے عملی طور پر جب وہ اپنی رضاعی ماں دائی حلیمہ کی تکریم کے لیے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں اور اپنا کپڑا ان کے بیٹھنے کے لیے بچھاتے ہیں۔
خدانخواستہ اسلامی شعار میں عورت کے مقام کے حوالے سے کوئی شبہ کوئی غلطی نہیں ہے، بلکہ غلطی تو آج کے کم ذہنیت رکھنے والوں میں ہے جو فرسودہ رسومات بناتے ہیں اور عزت کے نام پر خون خرابہ کرتے ہیں۔
بی بی سی اردو نیوزکی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے ''غگ'' کی فرسودہ روایت کے خلاف قانون سازی کی اور صوبائی اسمبلی نے ''غگ ایکٹ'' منظورکروایا جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں مگر بیشتر قبائلی علاقوں میں اسے روایت کے طور پر اپنا لیا گیا تھا، اس غگ کے تحت اگر برادری کا کوئی شخص کسی خاتون یا لڑکی سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو برادری کا کوئی دوسرا شخص اس خاتون کو رشتہ نہیں بھجوا سکتا اور یوں وہ خاتون ایک طرح سے اس مذکورہ شخص کے لیے بک ہو جاتی ہے ، ظلم کی بات یہ کہ اس غگ کے اعلان کے لیے خاتون اس کے والدین یا رشتے داروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
یہ رسم یا روایت اگر حقیقی طور پر کوئی اچھی بنیاد رکھتی تو بھی کچھ بات نظر آتی لیکن یہاں ایسا دیکھا گیا کہ لوگ خواتین کو تنگ کرنے، بدلہ لینے یا رنجشوں کے چکر میں غگ کا اعلان کرکے معصوم لڑکیوں کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں، ویسے تو یہ جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی تھی لیکن پھر یہ پھیلتی چلی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے حق میں نعرے لگانے والوں کا تعلق شہری آبادی والے علاقوں سے ہے اور وہ بھی نہایت ماڈرن اور جدید انداز پر تربیت یافتہ این جی اوز جن کے بارے میں اگر یوں کہا جائے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے، تو بہتر رہے گا کیونکہ ہاتھی کے دانت خاصے مہنگے ہیں اور مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا بھی ہے۔
ادھر امریکا میں کیرولین کرائیڈڈ پیرز جو ایک صحافی ہیں اور ان وزبل وومن ، ایکسپوزنگ ڈیٹا بیس ان ورلڈ ڈیزائنڈ خواتین نامی کتاب تخلیق کرچکی ہیں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کو ناسا کی جانب سے اسپین سوٹ کے واقعے پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ، یہ وہی ہوا جو بار بار ہوتا آیا ہے اورکیونکہ ہم نے اس کو ایسے ہی بتایا ہے ، ہم خود ساختہ طور پر صرف مردوں کے انداز میں سوچنے کے عادی ہوچکے ہیں اور خواتین کو مردوں کی ایک قسم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مصنفہ صاحبہ دراصل ناراض تھیں کہ جب امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے خواتین پر مشتمل ایک ٹیم کی خلا میں چہل قدمی کا منصوبہ اس لیے عین وقت پر منسوخ کردیا کیونکہ خلائی سوٹ درست ناپ کا نہ تھا۔ اس بحث میں پڑنے کا کیا فائدہ کہ ناسا کا درزی ہی ناکارہ تھا اسے مردوں کے کپڑے سیتے سیتے عمر گزر گئی پر ایک جوڑا بھی کسی خاتون کا ڈھنگ سے نہ سی سکا اور شکر ہی ہوا کہ خلائی شٹل چھوٹنے سے پہلے کپڑے اچھی طرح سے چیک کرلیے گئے ورنہ خدا جانے کیا ہو جاتا ، خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کیرولین بی بی کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر ان مرد درزیوں کا کوسنا تو بنتا ہی ہے، لیکن ادھر پاکستان میں جو تماشے چند برسوں سے عورت کے حوالے سے کیے جا رہے ہیں۔
اس سے مرے ہوئے ہاتھی کی قیمت کو سوا لاکھ سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر حکومت کو سوچنا ہی ہوگا کہ آخر یہ کون عناصر ہیں جنھیں سوائے کھانا پکانے اور انتہائی لچر باتوں کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ، آخر کب تک خواتین کو ان فرسودہ ہتھکنڈوں سے جوڑ کر باعزت خواتین کی بے حرمتی کی جائے گی۔
دنیا بھر میں خواتین فوج ، پولیس اور دیگر شعبہ زندگی میں بھرپورکردار ادا کرتی نظر آ رہی ہیں وہیں پاکستان میں بھی خواتین سرگرم عمل ہیں، امریکی افواج میں جہاں خواتین کو جنسی جرائم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں ان مسائل کو برسوں سے سلجھانے کے لیے سوچا جا رہا ہے لیکن تاحال اس کے تحفظ کے لیے کوئی ترکیب کارگر نہ ہوئی۔
کیرولین نے خلائی سوٹ سے لے کر فوجی سازوسامان ،کاروں کے تجربے میں استعمال ہونے والی ڈمی جو مردکی ہوتی ہے یعنی گاڑی چلانے والی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ گہری چوٹ آنے کا امکان ہے جب کہ درمیانی چوٹ کا امکان 71 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
کار بنانے والے صنعت کاروں کو اس مسئلے پر بھی توجہ دینی چاہیے، اسمارٹ فونز، کھیلوں کا لباس، سائنسی آلات سے دفتر میں کام کرنے کی جگہ تک میں صنف نازک اور مرد حضرات میں واضح فرق ہے جو ان کے وزن، قوت، استعداد کے علاوہ دیگر مسائل کی جانب توجہ دلاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں غلط انداز میں خواتین ڈے کو گھٹیا اور لچر انداز کو پیش کرکے چند خاص لوگ جہاں اپنے مرے ہوئے ہاتھی اور اس کے دانتوں کی قیمت چمکا چمکا کر بڑھا رہے ہیں وہیں اپنی ذہنی حالت کا بھی مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ ایسے عناصر کی روک تھام پر سنجیدگی سے توجہ دیں جو دیسی اور بدیسی ہر طرح کے کھانے ٹھونس ٹھونس کے کھاتے ہیں اور اپنے مرے ہاتھیوں کی قیمت بڑھاتے ہیں۔